Home » امتِ مسلمہ کا سماجی تصور
تاریخ / جغرافیہ سماجیات / فنون وثقافت

امتِ مسلمہ کا سماجی تصور

مسلم ریاستوں کے باہمی تعلقات ہمارے ہاں اکثر زیرِ بحث رہتے ہیں۔ مسلم معاشروں کے تعلقات پرمگر ہم بہت کم بات کرتے ہیں۔ایسا کیوں ہے؟
جب ہم اسلام کو ایک سیاسی فکر اور اسلامی ریاست کے قیام کو ایک دینی فریضہ سمجھتے ہیں تو یہ اس کا بدیہی نتیجہ ہے۔اس سے سماج اور سماجی و سیاسی اداروں کے بارے میں ہمارا زاویہ نظر تبدیل ہو جا تا ہے۔اس سوچ کےزیرِ اثر امتِ مسلمہ ہمارے لیے ایک سیاسی تصور قرار پاتی ہے۔جب ہم مسلمانوں کے مابین وحدت کی بات کرتے ہیں تو اس سے ہماری مراد مسلم ریاستوں کی وحدت ہو تی ہے۔ہم اپنے مسائل کے لیے مسلم حکمرانوں کو کوستے ہیں ۔یہی نہیں ،مسائل کو بھی سیاسی دائرے ہی میں محدود دیکھتے ہیں۔ ہم نے کبھی سوچا ہی نہیں کہ ہمارے بہت سے مسائل غیر سیاسی ہیں۔ ان کے حل کے لیے ہمیں ایک مختلف نظامِ فکر کی ضرورت ہے۔
مسلم معاشرے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں اور اپنی ایک منفرد حیثیت رکھتے ہیں۔دنیا بھر کے مسلمان نظامِ فکر کی وحدت کے باوجود ،سماجی و معاشرتی حوالے سے مختلف تشخص رکھتے ہیں۔اگر ہم ان کے طرزِ عمل کو دیکھیں تو ہمیں وحدت تنوع میں بدلتی دکھائی دیتی ہے۔اگر مسلم معاشروں میں سماجی سطح پر باہمی استفادے پر توجہ دی جائےتو ہم ایک دوسرے سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ اس سے غور وفکر کے نئے زاویے سامنے آتے ہیں۔ اس کے کچھ فوائد ایسے ہیں جن کا اندازہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب ہم اس تجربےسے گزریں۔ ایک دوسرے کے تجربات سے سیکھنے کے مواقع پیدا ہوتے ہیں اور مسلم معاشروں کے لیے یہ امکان پیدا ہو تا ہے کہ وہ سماجی تغیر اور ارتقا سے گزریں۔
شادی کی عمر ہی کو دیکھیے۔یہ ایک سماجی مسئلہ ہے۔تمام مسلم معاشروں کو اس کا سامنا ہے۔عالمگیریت کے عہد میں مسلم معاشرے دوسری تہذیبوں کے اثرات سے محفوظ نہیں ہیں۔ان اثرات سے مسلمانوں کے تہذیبی امتیاز کو متاثرکیا ہے۔وہ سماجی اضطراب کا شکار ہیں اور سکون کی تلاش میں ہیں۔ہم نے کبھی اس بات پر غور نہیں کیا کہ اس باب میں ہم ایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ بہت سے مسلمان معاشروں میں،اس حوالے سے سماجی سطح پر بڑی حد تک اتفاقِ رائے پیدا ہو چکاہے اور وہ اس پر عمل در آمد کر رہے ہیں۔ہم ان سے استفادہ کر کے اپنے سماجی مسائل کو حل کر سکتے ہیں۔گو یا سماجی وحدت کی طرف بڑا قدم اٹھا سکتے ہیں۔دنیا میں چودہ مسلمان مما لک میں مسلمان کے لیے عمر کی کم ازکم حد متعین کر دی گئی ہے۔اگر ہم سماجی وحدت کو آگے بڑھا ئیں تو کبھی اس معاملے کو اضطراب کا شکار نہ ہوں۔اگر ایک مسلمان ملک سماجی دائرے میں ایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ اٹھائیں تو اس سے سماجی قرب پیدا ہو گا اور اس کے ساتھ امت کی وحدت کا تصور بھی مزید مضبوط ہو گا۔
میں اکثر انڈونیشیا کی مثال دیتا ہوں۔اس نوعیت کی مثالیں اور بھی ہیں۔ عراق بھی ایک ایسا ملک ہے جہاں کے بعض تجربات سے ہم فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ ایک تجربہ شیعہ سنی ارتباط ہے۔عراق میں شیعہ اکثریت میں ہیں مگر سنی بھی چالیس فی صد سے زیادہ ہیں۔ تاہم ان کی آبادیاں منقسم ہیں۔وہ مخلوط نہیں ہیں۔ نجف اور کربلا میں شیعہ آباد ہیں۔تکریت اور موصل میں سنیوں کی اکثریت ہے۔ بغداد میں سنی اکثریت میں ہیں مگر اہلِ تشیع کی ایک بڑی تعداد بھی آباد ہیں۔مسلکی وحدت کے باوجود،عراق کے شیعہ علما کا فہمِ دین اور لب و لہجہ ایرانی علما سے یک سر مختلف ہے۔ عراق کے علما اقتدار کی سیاست کا حصہ نہیں ہیں۔ان کی دلچسپی کا مرکز ریاست نہیں،معاشرہ ہے۔ریاست کا آئینی نام ’جمہوریہ عراق‘ ہے۔یہاں علما نے ’اسلامی جمہوریہ عراق‘ کے لیے کبھی کوئی تحریک نہیں چلائی مگر سماج پر ان کے غیر معمولی اثرات ہیں۔انہوں نے تعلیمی اور سماجی فلاح کےجو ادارے بنائے ہیں ،وہ بھی بہت منفرد ہیں۔‘خمس‘ سے ان کے اتنے وسائل مل جاتےہیں کہ وہ اپنے منصوبوں کے لیے، ریاست کے محتاج نہیں رہتے۔ عراق میں شیعہ سنی اختلاف اس وقت سماجی مسئلہ بنا جب انتہا پسند القاعدہ یا داعش جیسی انتہا پسند تنظیموں نے اس خطے کو اپنی لپیٹ میں لیا۔اس سے پہلے بھی اگر یہ ا ختلاف ابھرا تو اس کا سبب سیاسی تھا۔عراق میں مسلکی اختلاف قدرے تفصیل کا متضاضی ہےجس پر میں الگ سے لکھوں گا۔ اس وقت مجھے صرف یہ بتانا ہے کہ وہاں علما نے سیاست کے بجائے،جس طرح علم،تحقیق اور خدمت کو اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنایا ،ہم اس سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔
یہ سب کچھ اسی وقت ممکن ہے جب امتِ مسلمہ کا سماجی تصور ہمارے پیشِ نظر ہو۔ہم نے وحدتِ امت کو حکومتوں کی سطح پر اتحاد اور سیاسی معاملات کے ساتھ خاص کرلیا ہے۔ سفارت کاری کا عوامی تصور سامنے آیا اور اس حوالے پیش رفت بھی ہوئی۔ جیسے پاکستان بھارت کے مابین سول سو سائٹی اور میڈیا کے اداروں میں وفود کا تبادلہ ہوا ۔اس کا مقصد باہمی تعلقات میں بہتری لا نا تھا۔اگر مسلم معاشروں میں بھی اسی سطح پر ربط پیدا ہو تو مسلمانوں کی وحدت میں اضافہ ہو گا اوراس سے بھی اہم تر یہ ہے کہ ایک دسرے کے تجربات سے سیکھا جا سکے گا۔ اس کے لیے سوچ کے زاویے میں بنیادی تبدیلی کی ضرورت ہے۔
جہاں جہاں سماج کا تصور زندہ ہے،ہمیں باہمی استفادے کی صورتیں دکھائی دیتی ہیں۔ جیسے یورپی ممالک۔یہ مشترکہ سماجی اقدار رکھتے ہیں۔ان اقدار کی بنیاد پر ان کے درمیاں ایک تہذیبی وحدت ہے جو ان کی شناخت کے لیے تقویت کا باعث ہے۔مسلمان مما لک بھی ایک نظامِ حیات کو ماننے والے ہیں لیکن ان کے مابین اس نوعیت کی وحدت موجود نہیں۔ اس کی وجہ مسلم نظامِ فکر میں سماج کی اہمیت کو نظر انداز کر نا ہے۔ جہاں مسلم قیادت زیادہ بالغ نظر ہے وہاں سماج کو ریاست پر مقدم سمجھا جا تا ہے۔ان ممالک میں علمی وفکری قیادت ، ریاست اور حکومت کی تبدیلی کے بجائے سماجی تبدیلی کو اپنا ہدف بنائے ہوئے ہے۔ان ممالک کی ریاستیں بھی مضبوط ہیں۔
پاکستان کا مسئلہ شاید سنگین تر ہے۔میرا مشاہدہ یہ ہے کہ دیگر مسلمان ممالک میں سماج کی قوت کا ا حساس بڑھ رہا ہے۔پاکستان اورایران میں بطور ِ خاص سماج کو نظر انداز کیا گیا ہے۔افغانستان کا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ان ممالک میں معاشی اور سیاسی عدم استحکام بھی دوسرے مسلم ممالک کے مقابلے میں زیادہ ہے۔اگر ہم دوسرے مسلم ممالک کے تجربات سے فائدہ اٹھا نے پر آمادہ ہو جائیں تو ہم بھی اپنی سماجی قوت بڑھا سکتے ہیں۔ میرے لیے یہ بات باعثِ حیرت ہے کہ ہمارے ہاں اگر علما یا کسی دوسرے گروہ کو ان تجربات کے مشاہدے کا موقع ملا ہے تو ان میں اس طرح کی کوئی سوچ پیدا نہیں ہوئی۔مجھے علما کے ساتھ کئی ممالک میں جانے کا اتفاق ہوا ۔ میں ان ممالک میں سماجی اداروں کی قوت سے متاثر ہوا اور ہمیشہ یہ خیال پیدا ہوا کہ پاکستان میں بھی اس نوعیت کی سماجی قوت موجود ہے جس کو خیر کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ میرے ہم سفروں میں مگر یہ خیال کبھی جگہ نہیں بنا سکا۔وہ واپس آکر بھی اسی ڈگر پر چلتے رہے ۔مجھے اپنی ریاست تبدیلی ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ اگر سماج کا بھی یہی حال رہا تو بہتری کا کوئی خواب شاید ہی نتیجہ خیز ثابت ہو سکے۔

خورشید احمد ندیم

خورشید احمد ندیم، ممتاز دانش ور اور صحافی ہیں۔ آرگنائزیشن فار ریسرچ اینڈ ایجوکیشن (ORE) کے ڈائریکٹر ہیں اور اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کے رکن رہے ہیں۔
khurshid_nadeem@yahoo.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں