Home » حالیہ بلاسفیمی کیس اور اہل مذہب کے رد عمل پر چند طالب علمانہ گزارشات
سماجیات / فنون وثقافت سیاست واقتصاد فقہ وقانون

حالیہ بلاسفیمی کیس اور اہل مذہب کے رد عمل پر چند طالب علمانہ گزارشات

پاکستان ایک مذہبی ریاست ہے اور یہاں عوام کی مذہب سے وابستگی بھی انتہائی جذباتی حد تک ہے۔ کیوں کہ اس ملک کی بنیاد ہی مذہب کے نعرے پر رکھی گئی تھی۔ چنانچہ وطن عزیز کے معرض وجود میں آنے سے اب تک یہ موضوع زیر بحث چلا آرہا ہے کہ “یہاں مذہب کا کردار کیا ہو گا؟” بانیان ریاست نے قیام وطن کی تحریک میں مذہب کا نعرہ خوب استعمال کیا اور عوامی سطح پر مذہبی نعروں سے سے عوامی خون کو خوب مشتعل کیا۔ تقسیم کی مخالفت کرنے والے مسلم زعماء کو اغیار کا ایجنٹ اور زرخرید کے خطاب دے کر عوام کو ان کے خلاف استعمال کیا۔ گو کہ تقسیم وطن کے فورا بعد انہوں نے زمینی حقائق کا ادراک کرتے ہوئے، مذہبی نعروں سے جان چھڑانے کی کوشش کی، اور ملک کو سیکولر ریاست کے طور پر آگے بڑھانے کی جد و جہد شروع کی۔
لیکن بعد میں معاملہ ان کے ہاتھ سے نکل چکا تھا اور وہی مذہبی نعرے ان کے خلاف استعمال ہونے لگے۔ وہی نعرے جو کسی زمانے میں باچا خان، مولانا آزاد، مولانا مدنی وغیرہ جیسے مسلم زعماء کے خلاف استعمال کر کے انہیں ملک و ملت اور مسلم قوم کے مفاد میں رکاوٹ تصور کرایا جاتا رہا، مرور زمانہ کے ساتھ ان نعروں کے موجدین اور ان کے متبعین کو اسی انداز سے بلیک میل کیا جانے لگا، اور اب تک کیا جا رہا ہے۔ بلکہ اب تو یہ پوزیشن بن چکی ہے کہ قومی سطح کی سیاسی جماعتیں جو مختلف ادوار میں حکمران رہ چکی ہیں، وہ بھی اپنی مخالف سیاسی جماعتوں کے خلاف انہی مذہبی جذباتی نعروں کا استعمال کرتی رہتی ہیں۔ چنانچہ حالات حاضرہ کا جائزہ لیتے ہوئے بلا تفریق یہ کہنا بجا ہے کہ پاکستانی تاریخ میں گزشتہ چند برسوں سے قومی سطح پر سیاست میں نمایاں کردار ادا کرنے والی جماعتوں مسلم لیگ، پیپلز پارٹی، پاکستان تحریک انصاف اور جمیعت علماء اسلام نے نہ صرف اپنے سیاسی حریفوں کو زیر کرنے کے لیے ان کے خلاف ان مذہبی نعروں کا استعمال کیا بلکہ خود بھی ان کا شکار ہوئے ہیں۔
انصاف کے نقطہ نگاہ سے اس مسئلے پر غور کرنے سے یہ کہنا بھی درست ہے کہ ان جماعتوں میں اپنی سیاسی شان و شوکت بڑھانے اور فریق مخالف کو نیچہ دکھانے کی غرض سے ان نعروں کا سب سے کم استعمال پیپلز پارٹی نے کیا ہے جبکہ سب سے زیادہ مسلم لیگ نے ان کا سہارا لیا ہے۔ جمیعت علماء اسلام جو کسی زمانے میں ایک معتدل سیاسی جماعت سمجھی جاتی تھی، جس کا جھکاو پیپلز پارٹی جیسی جماعتوں کی طرف تھا اب وہ بھی مسلم لیگ کے نقش قدم پر چل پڑی ہے۔ جمیعت علماء اسلام نے ان نعروں کے غلط استعمال کا جرم سب سے پہلے قومی اتحاد کی تحریک میں کیا تھا، جس کے نتیجے کے طور پر ملک کو (مرد مومن مرد حق) ضیاء الحق کا مارشل لاء نصیب ہوا۔عوامی رہنما جناب ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی ہوئی۔ اس کے بعد جمیعت علماء تقسیم ہو گئی، جمیعت علماء کے سیاسی ذہن رکھنے والے اہل علم و کارکنان مولانا فضل الرحمن کے ساتھ اکٹھے ہو گئے، اور اس گناہ کو دھونے کی کسی قدر کوشش کی۔ اور اب ماضی قریب کے سیاسی حقائق یہ بتاتے ہیں کہ جب سے مولانا فضل الرحمن کی قاضی حسین احمد صاحب کے دور میں جماعت اسلامی اور بعد ازاں مسلم لیگ سے دوستی اور تعاون کا سلسلہ بڑھا اور مضبوط ہوا ہے تب سے مولانا کے افکار پر ان نعروں کاخوب اثر ہوا ہے۔ اسی طرح اس سے پہلے اور درمیان کا عرصہ جمیعت کے خلاف یہ نعرے استعمال ہوتے رہے، مگر جمیعت علماء بڑی حد تک اس جرم سے محفوظ رہی تھی۔
ممکنہ طور پر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ شاید اب جماعت میں نظریاتی سیاست کے بجائے وقتی سیاست کا غلبہ ہے۔ مولانا کا حالیہ بلاسفیمی کیس کے حوالے سے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج کے فیصلے پر رد عمل بھی اس بات کی گواہی دیتا ہے۔ مولانا کے بیان سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ فیصلے کو پڑھے بغیر ، کیس کی تفصیلات کو جانے بغیر انہوں نے یہ بیان دیا ہے، یا ان سے دلوایا گیا ہے۔ یا پھر مولانا معاملے کی تفصیلات و پیچیدگیوں سے تو واقف ہیں، مگر پاپولر سیاست کی مجبوری اور پنڈی کو پریشرائز کرنے کے لیے یہ بیان دیا، گو کہ ہمیں یہ بدگمانی ہی لگتی ہے، کہ مولانا کی بات بہر حال ہم سیاست سے نابلد لوگوں کے لیے رہنما ہوا کرتی ہے۔ بہر سو اگر یہ بدگمانی درست ہے تو پھر بھی مولانا جیسی شخصیت کو ایسا سطحی بیان درجہ دوم و سوم کی قیادت سے دلوانا چاہیے تھا۔
اس وقت ان قوانین پر بحث و تمحیص قانونی اور انسانی حقوق کے نقطہ نظر سے زیادہ گروہی نقطہ نظر سے ہو رہی ہے۔ گذشتہ طویل عرصہ سے یہاں اہل مذہب اور لبرل طبقہ متحارب فریقین کے طور پر نمایاں نظر آرہے ہیں لیکن ان میں سے ہر ایک نے ان قوانین کو اپنے گروہی مفادات کے لیے ہی استعمال کیا ہے۔ اہل مذہب نے ان قوانین کے تحفظ کےنعرے کے ذریعے عوام میں اپنی طاقت مضبوط کرنے کی کوشش کی ہے جبکہ دوسری طرف این جی اوز، لبرل و سیکولر طبقات نے ان قوانین کے خلاف پروپیگنڈے کے ذریعے عالمی سطح پر اپنی ساکھ مستحکم کر نے اور کسی درجے میں اپنی معاشی قوت مضبوط کرنے کی مساعی کی ہے۔ موجودہ کیس میں بھی جس طرح این جی اوز کے کارندوں اور لبرل ازم کے پیروکاروں نے جس طرح کا رد عمل دیا، اور جس طرح اپنے مستقبل کے اہداف کی طرف اشارات کیے، وہ دراصل مغرب سے فنڈ ریزنگ اور سی وی کو بہتر کرنے کی ہی ایک کوشش ہے۔
اس مفاداتی کشمکش میں ان قوانین کی پیچیدگی، حساسیت پر کوئی سنجیدہ بحث نہیں ہو پاتی، جو چند ایک اہل علم کسی درجے میں یہ علمی کوشش کرتے بھی ہیں تو ان کی آواز اس شور و غوغا میں دب جاتی ہے۔ جب کہ حقیقی مظلوم اور بے گناہ لوگ خوار ہو جاتے ہیں۔
اس وقت ان امور پر ایک سنجیدہ علمی مکالمے کی ضرورت ہے، تاکہ یہ قوانین اپنی روح کے ساتھ موجود رہیں، اور کوئی بے گناہ محض کسی ذاتی رنجش ، یا کسی کے مفادات کی خاطر ظلم کی چکی میں نہ پسے۔ کتنے ہی ایسے عاشق رسول ، دین دار لوگ ہیں، جو اس وقت ان قوانین کی پیچیدگیوں کی وجہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ جمیعت علماء اسلام کے لیے تو لاہور کے قاری عبد الشکور (حفظ کا مدرس ، حفظ کا مدرسہ چلانے والا، فاضل دیوبند کا بھتیجا، ایک بڑے عالم کا بیٹا ) کا کیس بطور نمونہ موجود ہے۔
جمیعت علماء کے ایک محب کے طور پر عرض کروں گا کہ جمیعت علماء اسلام کو چاہیے کہ ڈاکٹر قبلہ ایاز صاحب۔ مولانا زاہد الراشدی صاحب جیسے اصحاب فکر ونظر کی سربراہی میں ایک علمی و فکری فورم بنائے، جو ان امور کو دیکھ کر اپنی رائے دے۔ اس میں صاحبزادہ مفتی اسعد محمود اور ان نوجوان رفقاء بھی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ تاکہ ہم جیسے طالب علموں کی درست رہنمائی ہو سکے۔

مولانا وقار احمد

مولانا وقار احمد نے مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ سے درس نظامی اور علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی، اسلام آباد سے علوم اسلامیہ میں ڈاکٹریٹ کی ہے۔ ہری پور میں ایک سرکاری کالج میں اسلامیات کی تدریس کے فرائض انجام دیتے ہیں۔
waqar.iiu1984@gmail.com

فیصد کمنٹس

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں

  • پیش آمدہ اھم مسئلے پہ بہت اھم تبصرہ کیا گیا۔ ھم اس تبصرہ کے اکثریتی پہلو کی حمایت کرتے ہیں۔ مفکرِ اسلام مولانا ذاہدالراشدی صاحب نے بھی اپنے حالیہ کالم میں اس مسئلے پہ فائدہ بخش تبصرہ کیا ہے۔ کوئ شک نہیں کہ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کا براہِ راست تعلق مسلمانوں کی عقیدت اور اس سے بڑھ کے ایک مسلم کے جذبات سے ہے ۔ ملکی مذہبی قیادت کو بڑی حکمت و بصیرت کے ساتھ جہاں اس قانون کا تحفظ کرنا ھے وہی اس بات کو بھی ضرور مدِنظر رکھنا چاہیے کہ یہ ایک مستحکم قانون بن جاۓ نہ کہ کوئ ایسا ہتھیار جس سےفتنہ پرور . کوئ فائدہ اٹھا سکیں ۔

    • آپ اپنے ہاں اس سلسلے میں پیش آنے والے واقعہ” جس میں سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے چند نازیبا الفاظ لکھے گئے اور پھر ان مختلف اطراف سے تنبیہ کے بعد وہ پوسٹ ڈیلیٹ کی گئی”، اس کے اسباب و وجوہات کو لکھیں، تاکہ بطور نمونہ سامنے آ سکے کہ ایک مولوی وپیر کا بیٹا کن وجوہات و مفادات کی بنیاد پر ایسی حرکت کرتا ہے اور پھر مزید مفادات کے پیش نظر ان سے رجوع بھی کرتا ہے۔ بھلے فرضی نام لکھ دیں۔

  • اللہ تعالیٰ صاحبِ مضمون کو جزائے خیر عطا فرمائے، جنہوں نے نہایت جرات مندی سے ایک تلخ مگر سچائی پر مبنی حقیقت کو بیان کیا۔ مذہب کا استعمال اگر سیاسی مفادات کے لیے ہوتا رہے گا تو نہ دین محفوظ رہے گا نہ ملک۔ جمیعت علماء اسلام جیسے اداروں کو اب جاگ جانا چاہیے، ورنہ تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔ ہمیں فکری دیانت، علمی رہنمائی اور سچائی کا دامن تھامنے کی اشد ضرورت ہے۔

    • برادر محترم ،جناب مولانا وقار احمد صاحب نے دھیمی لہجے اور چنگھاڑتے دلائل کے ساتھ خوب صورت انداز میں دعوت فکر دی یے۔ بہ طور خاص ہمارے تاریخی حقائق ، تضادات ،اور غلطیوں کو سلیقے سے سامنے لایا ہے۔
      بڑے اچھے طریقے سے ابن الوقتی کے سہارے کی جانے والی سیاست پر نقد کیا ہے ۔
      نقد کا درست اسلوب یہ ہی ہے کہ احترام کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اغلاط کی نشان دہی کرنا اور پھر ان اغلاط کے مرتکبین کو متوجہ کرنا۔
      اس کے ساتھ ساتھ جذبات کی بنیاد پر اتباع کرنے کی بہ جائے نظریات اور احتساب کی اساس پر قیادت کے فکر و عمل کا جائزہ لینے کی روش اپنانے کی پر خلوص دعوت بھی ہے ۔
      اللہ تعالیٰ مولانا وقار احمد صاحب کو جزائے خیر عطا فرمائے ۔ آمین
      اللہم زد فزد ۔

  • ایک طالب علم کی حیثیت سے میں صاحبِ مضمون کے خیالات سے متاثر ہوا۔ یہ تحریر نہ صرف سیاسی جماعتوں کے طرزِ عمل پر سوال اٹھاتی ہے بلکہ جمیعت علماء اسلام جیسے اداروں کو بھی خود احتسابی کی دعوت دیتی ہے۔ ڈاکٹر قبلہ ایاز اور مولانا زاہد الراشدی جیسے اصحابِ علم کی رہنمائی میں ایک فکری فورم کی تجویز نہایت مفید اور وقت کی اہم ضرورت ہے۔