مسلمانوں نے جغرافیے میں بھی قابل قدر خدمات سرانجام دیں۔ مسلمان جغرافیہ دانوں کی دریافتوں (innovations) کا آغاز ان کی جانب سے زمین کے گول ہونے کا ثبوت لانے سے ہوا۔ یو نانیوں کا عقیدہ تھا کہ زمین دائرہ نما چیز (circular object) ہے اور تمام اطراف سے پانی سے گھری ہوئی ہے۔ سلطنت روما نے اس تصور کو رد کر دیا۔ بعد میں مسیحی کلیسا اور ان کے آباؤ اجداد نے لاکتانتیوس کی زیر قیادت زمین کے دائرہ نما چیز ہونے کے نظرئیے کو شدت کے ساتھ اختیار کر لیا۔ مسیحی کلیسا نے یہ نظریہ پیش کیا کہ زمین چپٹی ہے جبکہ اس کا دوسرا رخ غیر آباد ہے، ورنہ لوگ خلا میں جا گرتے۔ مسلمانوں نے زمین کی گولائی کا نظریہ زندہ کرنے کی کوشش کی۔ ابن خرددادبہ اور الادریسی نے یہ نظریہ پیش کیا کہ زمین گیند کی طرح گو ل ہے۔ پانی بھینچ کر اس کے ساتھ جڑا ہوا ہے اور قدرتی طور پر اس کے اوپر اور تسلسل کے ساتھ رہتا ہے۔ زمین اور پانی دونوں کائنات میں اس حالت میں رہتے ہیں جیسے انڈے کے اندر سفید ی اور زردی رہتے ہیں۔ وہ مرکز میں موجود رہتے ہیں اور انہیں تمام اطراف سے ہوا (فضا) نے گھیرا ہوا ہے۔
(Nozhat Al Mushtak fi Ikhtrak Al-Afak by al Idrisi, p. 7)
الادریسی نے دنیا کے نقشے بنائے۔ یہ عہدمتوسط میں نقشہ نگاری کے سب سے بڑے نقشے تھے جو مکمل ترین، صحیح ترین اور مفصل نقشے تھے۔ اتنے جامع و مفصل نقشے دنیا میں پہلی بار وجود میں آئے تھے۔ بیشتر مسلم سائنسدانوں کی طرح الادریسی نے زمین کے گول ہونے کا ادّعا کیا اور کہا کہ یہ حقیقت نا قابل تردید ہے۔
(The Story Of Civilization by Will Durant, Vol. 13. p. 358.)
مسلمانوں نے زمین کی گولائی کا دعویٰ کاپر نیکس سے بہت پہلے کر دیا تھا۔ الادریسی نے سسلی کے نارمن بادشاہ راجر دوئم کے لیے ایک جدول نزہۃ المشتاق فی اختراق الآفاق تیار کی۔ اس نے یہ جدول دربار میں قیام کرکے اٹھارہ سال میں مکمل کی۔ جہاں وہ دن رات نقشہ سازی اور توضیحات نگاری میں مصروف رہتا۔ اس کے نقشوں نے کولمبس اور واسکوڈے گاما کے بحری اسفار میں ان کی بڑی مدد کی۔
مامون الرشید نے زمین کے ابعاد (dimensions) کی پیمائش کا فیصلہ کیا اور یہ کام فلکیات دانوں اور جغرافیہ دانوں کی دو جماعتوں کے سپرد کیا۔ ان جماعتوں کو دو مختلف اطراف، ایک کو مشرق اور دوسری کو مغرب کی جانب بھیجا۔ پھر انہیں طول البلد کا ایک درجہ (ان خطوط کی کل تعداد 360 ہوتی ہے) ناپنے کے لیے کہا۔ ان دو جماعتوں کی اوسط پیمائش تقریباً 56.66 میل نکلی جبکہ موجودہ سائنس کی اوسط پیمائش 56.93 میل ہے۔ ان دو جماعتوں نے قطر (موٹائی) کی بھی پیمائش کی جو تقریباً 41,248 کلومیٹر ہے جب کہ اس وقت کے حساب سے یہ 40,070 کلو میٹر ہے۔ یعنی مامون الرشید کی جماعتوں کی پیمائش میں غلطی 3فیصد سے زیادہ نہیں۔
(Treasures of Astronomy by Yuhans Fillers, p. 25)
ابو علی حسن مراکشی نے دنیا کے نقشوں پر طول بلد اور عرض بلد کے خطوط لگائے تاکہ دنیا بھر کے مسلمانوں کو اوقاتِ نماز مقرر کرنے میں مدد ملے اور اس سے انہیں جغرافیائی نقشے میں خطوط لگانے میں آسانی حاصل ہو گئی۔ اسلامی نقشے اور بحری سائنسز (marine sciences) کے بارے میں مسلمانوں کی مطبوعات نے مغربی دنیا کی جہاز رانی کو نمایاں طور پر متاثر کیا ہے۔
علی بن عمر الکاتبی، قطب الدین شیرازی اور الفراغ علی تاریخ انسانی کے اولین سائنسدان تھے، جنہوں نے سورج کے گردزمین کی ممکنہ مداروی حرکت کا حوالہ دیا اور کہا کہ رات اور دن میں زمین ایک چکر پورا کرتی ہے۔ جارج سارٹن جسے بیشتر لوگ بابائے تاریخ سائنس سمجھتے ہیں۔ اس نے اپنی کتاب Introduction to the History of Science میں لکھا ہے کہ تیرہویں صدی عیسوی کے دوران ان تین سائنسدانوں کی تحقیق نوٹس میں آئے بغیر نہیں رہ سکی تھی۔ یہ ان عوامل میں سے ایک ہے جنہوں نے کاپر نیکس کی 1543ء میں اعلان کردہ تحقیق کو متاثر کیا۔
(Introduction to the History of Science by George Sarton, vol. 1, p. 46)
البیرونی نے موجودہ پاکستان کے علاقے (Rohtas Fort) میں زمین کے قطر (radius) کی پیمائش کی جو عہد حاضر کے تسلیم شدہ قطر سے صرف 15 کلومیٹر کم ہے۔
مسلمانوں نے اپنے علم جغرافیہ کی بدولت سمندری راستوں اور سیاحت پر کنٹرول حاصل کر لیا تھا۔ مشہور پرتگیزی ملاح واسکوڈے گاما نے ہندوستان اور یورپ کے درمیان وہ بحری راستہ دریافت کر لیا جو راس امید کی طرف سے ہو کر جاتا تھا۔ یہ عظیم بحری دریافت مسلم عرب ملاح احمد بن ماجد کی مدد سے ممکن ہوئی تھی جس نے 1498ء میں واسکوڈے گاما کو افریقہ سے ہندوستان تک پہنچنے میں رہنمائی کی۔ اسے اس ملاح کی خدمات موزمبیق کے مسلم سلطان نے فراہم کی تھیں۔ (Encyclopedia Britannica Vol 7, p. 761)
مسلمانوں کا نئی دنیا، امریکہ کی دریافت میںبھی اہم کردار تھا۔ کولمبس نے امریکہ 1506ء میں دریافت کیا تھا۔ امریکی سکالر فلپ ہٹی لکھتا ہے کہ مسلمانوں نے زمین کے گول ہونے کے نظریے کو جس کے بغیر امریکہ کی دریافت ممکن نہ تھی۔ اس نظرئیے کا علمبردار ایک مسلمان سائنسدان ابو عبیدہ مسلم البالینی تھا جس نے اس موضوع پر ایک کتاب لکھی تھی۔ اس کے نظریات دسویںصدی عیسوی کے پہلے نصف میں خوب پھیلے اور مشہور ہوئے۔ اس طرح زمین کے گول ہونے کا نظریہ عربی سے لاطینی میں ترجمہ ہو کر 1410ء میں یورپ میں شائع ہوا۔ اس کو پڑھ کر کولمبس نے اس نظریہ سے واقفیت حاصل کی۔ (The Arabs by Phillip Khuri Hitti, p. 570)
کولمبس نے امریکہ 1492ءمیں دریافت کیا تھا