جہانگیر حنیف
علم میں تسہیلِ لایعنی (over simplification) مہلک ہوتی ہے، لیکن اس میں اگر مذہبی جوش و جذبہ اور علمی دنیا کے طول و عرض میں فتح کے جھنڈے گاڑنے کی دھن شامل ہو جائے، تو جو صورت حال پیدا ہوسکتی ہے، اس کا اندازہ ہیوم کے ایک قول سے لگایا جا سکتا ہے۔ ہیوم نے جب فلاسفہ کی بساط لپیٹ کر ان کے منہ پر دے مارنے کا منصوبہ بڑی کامیابی سے مکمل کر لیا، تو بولا: ”مذہب کے دائرے میں اغلاط مہلک ترین اور فلسفہ کے دائرے میں مضحکہ خیز ہیں۔“ ان کا مذہب بھی ان کی مابعد الطبیعیات سے متشکل تھا، جو خود فلسفہ کا چربہ ہے۔ البتہ یہ واضح ہے کہ ارادۂ علم (knowing interest) جس نہج پر فلسفہ کو لے آیا تھا اور اس میں جو تفخر شامل ہو گیا تھا، ہیوم نے اس کے بخیے ادھیڑ ڈالے۔ باقی کا کام ہمارے عظیم وجودی مفکر ہائیڈگر کے حصہ میں اللہ تعالیٰ نے لکھ دیا تھا۔ نٹشے نے مہمیز فراہم کی اور ہائیڈگر نے اپنے ہی استاد کے خلاف بغاوت کا علّم بلند کر دیا۔ اور یوں فلسفہ کے ارادۂ علم (knowing interest) کو ہمیشہ کے لیے زمین بوس کردیا۔
علم پر کسی کی اجارہ داری نہیں اور ہمارے ہاں جو نابغۂ روزگار شخصیات جنم لے چکی ہیں، ہم سب کو ان سے کچھ نہ کچھ امیدیں وابستہ ہیں۔ اللہ ان کے زورِ قلم میں اضافہ اور تاخت کو وسعت دے۔ ان کے سامنے ارسطو، کانٹ اور ہیوم سب گلی کے بچے ہیں، جن کی فکر میں کجی اور بیان میں جھول پایا جاتا ہے اور جو بے چارے ہمارے ممدوحین کی اصلاح کے محتاج ہیں۔ شکر اس بات کا ہے کہ ان کی تعلیم و تعلم کے ساتھ ساتھ ہمیں بھی سکیھنے کو ملتا رہتا ہے۔ تعلیل ہی کے مبحث کو لے لیں۔ الہیات سے لے کر طبیعیات تک اس مسئلہ کی جڑیں پھیلی ہے۔ لیکن کیا ارسطو اور کیا کانٹ، ایسے تمام فلاسفہ یہ جاننے سے قاصر رہے کہ ان کا موقف محض میٹافزیکل دعوی ہے۔ متکلمین نے اس نکتہ کو دریافت کیا اور پھر یہ متاعِ گم گشتہ ہو گیا۔ دوسری بار ہیوم پر اس کا انکشاف ہوا۔ اس نے اس نکتہ کو پکڑ کر تعلیل کی دھجیاں بکھیر دی۔ ہیوم نے تعلیل کو ذہن کی قوتِ ارتباط کا شاخسانہ قرار دیا۔ علت کو خارجی مسلمہ کی حیثیت میں ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ ہیوم نے کہا کہ ایسا ہر فعل دور کو لازم کرتا ہے۔ اس نے علت کی تصدیقی حیثیت کو چیلنج کردیا۔ لیکن وہ بھی یہ جاننے سے قاصر رہا کہ اس کا یہ دعوی جسے وہ مابعد الطبیعیات کا قلعہ قمع کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہ رہا تھا، وہ خود میٹافزیکل کلیم تھا۔ کانٹ کا ہیوم سے اختلاف بھی ایک طرح کا مذاق تھا۔ کیونکہ کانٹ نے جو اختلاف کیا اور ییوم کے بالمقابل جو موقف اختیار کیا، وہ بھی ایک میٹافزیکل دعوی تھا۔ دونوں میٹافزیکس کے خلاف اپنے اپنے مناہج کے تحت مورچے سنبھالے بیٹھے تھے، لیکن جس موقف پر وہ کھڑے تھے، انھیں علم ہی نہیں تھا کہ وہ میٹافزیکل ہے۔
محترم زاہد صاحب نے کانٹ کا رد بہت پہلے فرما دیا تھا۔ کانٹ کو سبق پڑھانا باقی تھا۔ وہ پروجیکٹ بھی الحمدللہ پایۂ تکمیل کو پہنچا۔ یہ بہرحال ایک قابلِ رشک کارنامہ یے۔ جس پر جتنی داد دی جائے، کم ہے۔ ماسوائے اس معمہ کہ کانٹ اور ہیوم کے اختلاف کے کیا معنی ہیں۔ وہ دونوں علت پر ایک دوسرے کے برعکس کھڑے ہیں، لیکن ہمارے متکلم عظیم ان کے پاؤں تلے سے زمین ہی کھینچ لیتے ہیں۔ ان کے لیے کھڑا رہنا ممکن نہیں، جب تک وہ اقرار نہ کریں کہ ان کی بات کا مفہوم محض یہ ہے کہ علت کے بارے میں ان کی رائے میٹافزیکل دعوی ہے۔ ہیوم کو سمجھنا شاید کانٹ کو سمجھنے سے زیادہ مشکل ہو۔ ہیوم کی فصاحت و بلاغت اپنے قاری کو فوری نتیجہ کی طرف دھکیلتی ہے۔ کانٹ اظہار میں مشکل اور ادراک میں آسان ہے۔ بشرطیکہ آپ کانٹ کو سمجھنے کا داعیہ رکھتے ہو۔ اگر آپ کانٹ کو فلسفہ پڑھانے کا موقف رکھتے ہیں، تو پیچیدگیاں بڑھ جائیں گی۔
اب آپ دیکھیں کہ حضرت صاحب ہیوم کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں ”ھیوم کہتا ہے کہ یہ ربط قائم کرنا ایک ذہنی عادت ہے، کانٹ کہتا ہے کہ یہ ماقبل تجربہ ایک ذہنی مقولہ ہے تو یہ سب لوگ علیت و سبییت سے متعلق میٹافزیکل دعوے ہی کررہے تھے.“ جو لوگ کانٹ کی فکر سے ذرا بھی مس رکھتے ہیں، وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ کانٹ نے ہیوم کے اشکالات کو رفع کرنے میں سیکنڑوں صفحات کالے کیے ہیں۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ ہیوم کے اشکال کے جواب میں کانٹ بھی اسی اشکال کو پیش فرما دیں۔ زاہد صاحب کے بقول تعلیل ہیوم کے نزدیک ”ذہنی عادت“ اور کانٹ کے نظر میں ”ذہنی مقولہ“ ہے۔ یعنی علت دونوں کے نزدیک ذہنی ہے۔ ایک اسے عادت قرار دیتا ہے اور دوسرا اسے مقولہ۔ عادت سے جو ہیوم مراد لیتا یے، وہ بہت زیادہ مقولہ سے مختلف نہیں ہو سکتی، کیونکہ ان دونوں کا محل خود زاہد صاحب کے الفاظ میں ذہن ہے۔ لہذا علت ایک ذہنی امر ہے۔ زاہد صاحب اسے میٹافزیکل دعوی کا نام دیتے ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے، وہ بھی معلوم نہیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کانٹ کو سمجھے ہیں اور نہ آپ ہیوم کو۔ ہیوم تعلیل کو ذہنی عادت قرار نہیں دیتا۔ یعنی علت خود کوئی ذہن کی عادت نہیں۔ بلکہ شعور دو چیزوں کے مابین ربط کو دیکھنے کا ملکہ رکھتا ہے اور وہ اس ملکہ کے تحت دو چیزوں کو ان کے یکے بعد دیگرے بار بار رونما ہونے کے نتیجہ میں ایک دوسرے سے جوڑ دیتا ہے۔ ان کے درمیان ایک لزومی نسبت قائم کردیتا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ اس میں تجربہ اور مشاہدہ کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ مشاہدے میں ایک چیز کے بعد جب دوسری چیز بار بار واقع ہوتی ہے، تو ذہن اپنی قوت سے ان کے درمیان ربط کو دیکھنے لگتا ہے۔ علت اگر تاثیر کی حیثیت میں شاہد کو پہلے سے معلوم ہو اور اس کا نتیجہ وہ پہلے سے جانتا ہو، تو ہم اس کے لزومی تعلق کو معلول کے ساتھ ماقبل تجربہ جان بھی سکتے ہیں اور اقرار بھی کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر خود علت کا تصور ماقبل تجربہ مفقود ہو اور تجربہ سے ذہن اس تعلق کو قائم کرنے کی قدرت پیدا کرے، تو اسے علت کے معنوں میں علت قرار نہیں دیا جا سکتا۔ تجربہ کی بنیاد پر ذہن کی طرف سے قائم کردہ دو چیزوں کے درمیان لزومی نسبت کیسے میٹافزیکل ہو سکتی ہے، معلوم نہیں۔
شعور کو اللہ تعالیٰ نے یہ صلاحیت دی ہے کہ وہ محسوسات میں ایک نظم پیدا کر لیتا ہے اور وہ اپنے معلومات کو chaos میں نہیں رہنے دیتا۔ ان کے درمیان ربط پیدا کرتا ہے اور انھیں ایک ایسی اصل پر استوار کرتا ہے، جو واحد ہے اور جو مستقل ہے۔ یہ شعور کی خلقی صلاحیت ہے کہ وہ محسوسات کو ایک وحدانی نظم دے۔ یہی وجہ ہے تجربات و مشاہدات کی کثرت شعور کو کباڑ خانہ نہیں بنا پاتی اور شعور اپنے اردگرد میں ایک قابل تصدیق اور لائق اثبات تنظیم پیدا کرلیتا ہے۔ ہیوم شعور کی اس صلاحیت کے بارے میں خوب آگاہی رکھتا تھا۔ یہ چیز ہمیں ہیوم کے ہاں وہاں دکھائی دیتی ہے جہاں وہ چیزوں کے آزادانہ اور مستقل وجود کی بحث کرتا ہے۔ علم اگر محض محسوسات تک محدود رہے اور شعور کی تنظیم اس میں شاملِ حال نہ ہو، تو ہمارے محسوسات ہمارے لیے ناقابلِ ادراک بن جائے۔ ہم دروازے پر دستک دیتے ہیں، تو آواز پیدا ہوتی ہے۔ جب ہم دروازے سے دور ہوتے ہیں، تو دروازے کی دستک ہمیں کسی دستک دینے والے کے بارے میں آگاہی فراہم کرتی ہے۔ اگر ہم پہلی منزل پر ہو اور دروازہ ہماری نظروں سے اوجھل ہو، تو دستک سنائی دیتی ہے۔ دروازہ دکھائی نہیں دیتا۔ لیکن ہم دروازے کو مانتے ہوئے، اس کی دستک اور دستک کو مانتے ہوئے، کسی مہمان کی آمد کے متوقع ہوتے ہیں۔ یہ ذہن کی قوتِ تنظیم ہے۔ وہ ان چیزوں کو دیکھنے کی صلاحیت پیدا لیتا ہے، جنہیں وہ دیکھ نہیں پا رہا ہوتا ہے۔ حالانکہ یہ تضاد کو لازم یے۔ یعنی اُس چیز کو دیکھنا، جس چیز کو ہم دیکھ نہیں رہے۔ لیکن شعور کا یہ تضاد اس کی معلومات کے خلفشار کو دور کرتا ہے اور انھیں شعور کے لیے لائقِ اعتناء بناتا ہے۔ شعور کسی ایسے تجربہ کو اپنے علم میں جگہ نہیں دے سکتا، جو شعور کی دی ہوئی explanation کو قبول نہیں کر سکتا۔ چیزوں کے مستقل اور شعور سے آزاد وجود کے بارے میں شعور کا حکم بھی میٹافزیکل دعوی نہیں ہے۔
بارکلے کے empiricism بارے میں کہا جائے کہ اس نے “percipi” کی جو شرط عائد کی اور پھر اس سے divine perception مراد لی، تو یہ ایک میٹافزیکل دعوی تھا۔ لیکن تجربہ کے تعدد سے ذہن کا اس تجربہ کو ایک نظم کے تحت دیکھنے کا رجحان کیسے مابعد الطبیعیاتی دعوی ہے۔ واللہ اعلم
کانٹ نے ہیوم کے چیلنج کو قبول کیا اور علت اور معلول کے رشتہ کو ذہن اور تجربہ کی گہرائیوں میں اتر کر ان کا تجزیہ کرکے دکھایا کہ ہیوم کا دعوی علت کی کوئی objective validity نہیں، یکسر غلط ہے۔ کانٹ کا مقصد یہ تھا کہ تعلیل کی objective reality کو مؤید کیا جائے، تاکہ علم اپنے تصدیقی عناصر سے دستبردار نہ ہو جائے۔ تصور کی صحت کا معیار ہی اس کا تصدیق سے تائید حاصل کرنا ہے۔ کانٹ انسانی علم کے عناصرِ ترکیبی کو زیر بحث لے کر آیا، انسانی ذہن کن صلاحیتوں کا حامل ہے، انھیں بیان کیا۔ وہ کرنا کیا چاہتا اور کر کیا سکتا ہے، اسے متعین کیا۔علم کی تشکیل کن مراحل سے گزر کر ممکن ہوتی ہے، اسے واضح کیا۔ مابعدالطبیعیات کو کیونکر علم قرار نہیں دیا جا سکتا، اس سوال سے تعرض کیا۔ کانٹ اس موقف پر کھڑا ہوگیا کہ sensibilty کی شرط علم کے لیے ناگزیر ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں۔ لیکن جو چیز انسانی علم کو ممتاز کرتی ہے وہ transcendental unity of apperception ہے۔
کانٹ ہیوم کو counter challenge کرتا ہے کہ وہ ایک ایسے مقدمہ (premise) سے اپنے دعوی کو پیش کرے گا، جسے ہیوم جھٹلا نہیں پائے گا۔ اس مقدمہ کا حاصل علت کی objective validity ہوگی۔ وہ مقدمہ یعنی premise ہے کہ I think شعور میں مرتسم ہونے والی تمام مظاہر (representations) کا لاینفک خاصہ ہے۔ شعور کے محتویات I think کی وحدانیت سے عاری نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ اس کا الٹ اس کے نہ ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ شعور کی اس صلاحیت کو کانٹ synthesis کا عنوان دیتا ہے، شعور کے تمام محتویات پر غالب ہوتی ہے۔ لہذا شعور (mind) کانٹ کی نزدیک synthesizer کا کردار رکھتا ہے۔ وہ تمام تشبہیات اور ظواہر کو ان میں تصرف کیے بغیر synthesize کرتا ہے۔ انھیں ایک وحدت میں پرو دیتا ہے۔ شعور ظواہر کو محفوظ کرتا ہے اور انھیں ان کی نوعیت کے لحاظ سے اپنی خلقی صلاحیت کی بنا پر ایک وحدت (unity of consciousness) سے جوڑ دیتا ہے۔ یہ مسلماتِ شعور ہیں، جنہیں کانٹ تین تین کی چار اقسام میں بانٹتا ہے۔ شعور کے مسلمات ظواہر کو بدلے بغیر انھیں اپنی تحویل میں لیتے ہیں۔ وہ کسی مابعدالطبیعی امر کا ظہور نہیں۔ بلکہ ظواہر کی شعور کے مسلمات سے تعلق داری ہے۔ ظواہر میں سے کوئی چیز بھی مابعدالطبیعی نہیں۔ شعور کی تالیفی فعالیت (synthesis) میں سے بھی کوئی امر ما بعد الطبیعی نہیں۔
کمنت کیجے