Home » خلیفہ راشد سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف بغاوت کے چھ اسباب (2)
تاریخ / جغرافیہ سیاست واقتصاد شخصیات وافکار

خلیفہ راشد سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف بغاوت کے چھ اسباب (2)

معاصر تحریکیوں کی ایک باغی جماعت، جو سیدنا عثمان پر فکری بغاوت کرتے ہوئے تنقید کی راہیں کھولتی ہے، کی غلط فہمی یہ ہے کہ وہ یہ کہتے ہیں کہ حضرت عثمان کے خلاف بغاوت اُن کی پالیسیوں کا نتیجہ تھی حالانکہ ایسا ہر گز نہیں تھا۔ انہوں نے بغاوت کے اسباب میں سیدنا عثمان کے کردار کو فوکس کیا جبکہ معاشرے کے کردار کو نظر انداز کر دیا۔ سیدنا عثمان کے خلاف باغیوں کی بغاوت کے اسباب کیا تھے، یہ ایک اہم مسئلہ ہے۔ عام طور سیدنا عثمان کے معترضین نے اُن کے خلاف بغاوت کے اسباب سے استدلال کرتے ہوئے اُن کے دورِ خلافت کو ملوکیت کی طرف سفر کا آغاز بتلانے کی ناکام کوشش کی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ معترضین نے بغاوت کے حقیقی اسباب کو نظر انداز کر کے اُن اسباب کو بیان کیا ہے، جو مخالفین کے پروپیگنڈا کا نتیجہ تھے۔ ذیل میں ہم بغاوت کے اُن اسباب کا جائزہ لیتے ہیں کہ جن میں سے کچھ عمومی تھے اور کچھ خصوصی تھے۔ یہ سارے اسباب وہ ہیں جن کا تعلق افراد، معاشرے، شہریوں اور رعایا سے ہے۔
مسئلہ ضروری نہیں حکمران میں ہو، مسئلہ عوام میں بھی ہو سکتا ہے۔ اِس تناظر میں معاصر باغی تحریکیوں نے اس مسئلے پر بالکل غور نہ کیا۔ اِس کی وجہ شاید یہ ہے کہ چونکہ یہ نفاذ اسلام کا نعرہ لگانے والی تحریکوں کا حصہ ہیں یا ان کے منشور سے متاثر ہیں اور انہوں نے دہائیوں حکمرانوں اور حکومتوں پر تنقید کی ہے لہذا اُن کے مزاج میں یہ چیز رچ بس گئی تھی کہ وہ بغاوت کے مسئلے کو حکمران ہی کے تناظر سے دیکھ سکیں اور عوام کے تناظر سے دیکھنے سے محروم رہ جائیں۔ اِس رد عمل کو فطری اور عملی بھی کہا جا سکتا ہے کہ انسان جس تناظر میں زندگی گزارتا ہے تو اُسے ہر مسئلہ اُسی تناظر میں دیکھنے کی عادت پڑ جاتی ہے۔ درج ذیل اسباب ہم تاریخ طبری کے مطالعے سے نقل کر رہے ہیں۔ ان کے باقاعدہ حوالہ جات اور عربی عبارتوں کے لیے ہماری کتاب “خلافت وملوکیت” کا مطالعہ کریں۔
سیدنا عثمان کے خلاف بغاوت کا پہلا سبب مال ودولت کی فراوانی تھا کہ آپ علیہ السلام نے بھی صحابہ کرام سے کہا تھا کہ مجھے تمہارے بارے فقر وفاقہ کا ڈر نہیں بلکہ مال کے فتنے کا اندیشہ ہے کہ دنیا تم پر کھول دی جائے اور تم مال کے فتنے میں پڑ جاؤ۔ یہ صحیحین کی روایت کا مفہوم ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ فتوحات اسلامیہ کے نتیجے میں بہت سا مال غنیمت حاصل ہو رہا تھا کہ جس سے ہر طرف مال ودولت کی فروانی ہو گئی تھی اور اگلی نسلوں میں اِن آسائشوں کے سبب سے فتنوں کے رستے ہموار ہو چکے تھے۔
دوسرا سبب جنگ میں حاصل ہونے والی لونڈیوں کی اولادوں کا بالغ ہونا تھا۔ حضرت ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما کے ادوار میں روم وایران کی فتوحات کے نتیجے میں جو رومی اور ایرانی لونڈیاں مسلمانوں کے حصے میں آئیں تھیں تو اُن سے اولادیں پیدا ہوئیں اور یہ اولادیں شہادت عثمان تک بالغ ہو چکی تھیں۔ یہ بھی اِس فتنے کا سبب بنیں۔ لونڈیوں کی اولادوں میں کبوتر بازی، غلیل بازی اور نشہ آور نبیذ کا استعمال عام ہونے لگا تو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے اُن کے خلاف سختی کی کہ اُن کی غلیلیں تڑوا دیں یا ایک شخص کو لاٹھی پکڑا کر مقرر کیا کہ لوگوں کو نبیذ پینے سے روکے۔ بعد میں صحابہ کرام کے مشورے سے نشہ آور نبیذ پر کوڑوں کی سزا بھی مقرر کی گئی۔ سیدنا عثمان کے یہ اصلاحی فیصلے اور دینی حدود کا قیام اِن اولادوں کو پسند نہ آیا اور وہ باغی ہونے لگے۔
تیسرا سبب بدوؤں یعنی دیہاتیوں اور عجمیوں کا قرآن پڑھ کر اُس سے استدلال کرنا تھا۔ اِس ایپروچ سے ظاہریت پیدا ہوئی تھی کہ جس نے خوارج کی تحریک کو جنم دیا تھا۔ یہ اگر اپنے ذاتی عمل کے لیےقرآن مجید سمجھتے پڑھتے تو حرج نہ تھا لیکن وہ مفسر اور شارح بن بیٹھے تھے کہ جس کے لیے بنیادی صلاحیت اور تربیت کا ہونا ضروری تھا اور وہ اُنہیں حاصل نہ تھی۔ اِن اَن پڑھ دیہاتیوں اور عجمیوں کا کام کھانا پینا اور سونا تھا۔ آمدنی کا ذریعہ مال غنیمت تھا۔ جب سیدنا عثمان کے آخر دورِ خلافت میں فتوحات کا سلسلہ رک گیا اور مال غنیمت آنا بند ہو گیا یعنی اُن کا وظیفہ جاری نہ ہو سکا تو اُنہوں نے الزام لگانا شروع کر دیے کہ ہمارا حصہ سیدنا عثمان اپنے رشتہ داروں پر لگانا شروع ہو گئے ہیں۔ سیدنا عثمان نے جب اپنے گورنروں سے اِس بارے مشورہ کیا کہ فسادیوں کے بارے کیا حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے تو عبد اللہ بن سعد بن ابی سرح نے کہا کہ یہ لوگ لالچی ہیں، آپ اُن میں مال تقسیم کر دیں، یہ آپ کے ساتھ ہو جائیں گے۔
چوتھا سبب مرتد قبائل سے تعلق رکھنے والا عنصر تھا ۔ حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کی اُن کے بارے پالیسیاں سخت تھیں لیکن حضرت عثمان نے انہیں مین دھارے میں شامل کرنے کے لیے نرم پالیسی اختیار کی۔ مرتد قبائل وہ تھے کہ جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد زکوۃ دینے سے انکار کر دیا تھا یا اپنی نبوت پیدا کر لی تھی۔ خلیفہ اول سیدنا ابو بکر نے اُن سے قتال کیا تھا۔ سیدنا عثمان کے قاتلوں میں جو نام ملتے ہیں مثلاً سودان بن حمران سکونی، قتیرہ بن فلاں سکونی اور حکیم بن جبلہ عبدی تو یہ سب مرتد قبیلوں سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ مصر، بصرہ اور کوفہ کے شر پسند عناصر تھے کہ جنہیں اُن کی شر پسندی پر وقت بوقت تنبیہ کی گئی تھی لیکن اُنہوں نے رد عمل کی صورت میں حضر ت عثمان ہی کے خلاف الزامات کی ایک تحریک برپا کر لی تھی۔
پانچواں سبب یہ تھا کہ نو مسلموں اور مسلمانوں کی دوسری تیسری نسل میں کچھ چور اُچکے بھی پیدا ہو چکے تھے جیسا کہ حکیم بن جبلہ وغیرہ کہ جن کے شر سے عوام کو بچانے کے لیے اُنہیں جلا وطن کر دیا جاتا تھا۔ اب یہ دوسری جگہ جا کر سازشیں کرتے تھے۔ کوفہ کے گورنر سعید بن العاص نے سیدنا عثمان کے حکم پر دس بارہ لوگوں کو کوفہ سے شام کی طرف جلا وطن بھی کیا تھا۔ حضرت امیر معاویہ نے اُن کو اپنے پاس رکھ کر اُن کی تربیت کی کوشش کی لیکن وہ رد عمل میں مزید مخالف ہو گئے۔ پھر اُنہیں شام سے جزیرہ حمص کی طرف جلا وطن کیا گیا اور وہاں کے گورنر عبد الرحمن بن خالد بن ولید نے اُن پر سختی کی تو یہ کچھ کنٹرول ہوئے۔ اِن فساد پسند عناصر میں مالک بن حارث اشتر نخعی بھی تھا۔ بعد میں اِن کے توبہ استغفار پر اِن کو واپس کوفہ بھیج دیا گیا تھا۔ لیکن کچھ عرصہ بعد اُنہوں نے پھر فساد شروع کر دیا۔ عام طور یہ باغی، دوسرے لوگوں کو یہ کہہ کر اپنے ساتھ ملاتے تھے کہ عثمان نے تمہارے عطیات کم کر دیے ہیں۔ اِس سے دیہاتی لوگ اِن باغیوں کی باتوں میں آ جاتے تھے۔ اِن باغیوں نے سیدنا عثمان کے خلاف الزامات کی ایک چارج شیٹ بھی تیار کر رکھی تھی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سیدنا عثمان اپنے پیش رَو حضرات شیخین یعنی ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما کی طرح سخت فیصلہ لینے والے حکمران نہ تھے لہذا باغیوں نے اُن کی اِس نرمی کا ناجائز فائدہ اٹھایا۔
چھٹا سبب یہودی عنصر تھا جیسا کہ عبد اللہ بن سبا یہودی کا نام ملتا ہے کہ جس نے اسلام ظاہر کیا اور مسلمانوں کو توڑنے کی سازش کی۔ اِسی سبب نے پہلے پانچ اسباب کو بھی ہَوا دی۔ عبد اللہ بن سبا کی تحریک کے زیر اثر یہودیوں کی ایک جماعت نے کوفہ اور بصرہ میں سکونت اختیار کر کے اسلام کے خلاف سازشیں شروع کر دی تھیں۔ شیعہ کتب میں عبد اللہ بن سبا کے فتنے کے بارے کافی کچھ روایات موجود ہیں۔ رجال کشی میں ہے کہ امام جعفر الصادق رحمہ اللہ نے اپنے مریدوں کو عبد اللہ بن سبا کے فتنے کے بارے بتلائے ہوئے کہا کہ اُس نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو رب بنا لیا تھا۔ سیدنا علی نے اُسے رجوع کا حکم دیا لیکن اُس نے رجوع نہ کیا تو امیر المومنین نے اُسے زندہ آگ میں جلا دیا۔ یعنی اُسے اس دنیا میں ہی جہنم کے عذاب کا مزہ چکھا دیا۔ رجال کشی ہی کی ایک اور روایت میں ہے کہ امام جعفر الصادق رحمہ اللہ نے کہا کہ اللہ عزوجل ابن سبا پر لعنت بھیجے کہ اُس نے امیر المومنین کو رب بنا لیا تھا۔ رجال کشی کے مصنف ابو عمرو کشی، کلینی متوفی 328ھ کے معاصر تھےلہذا شیعہ مکتب فکر کے کبار علماء میں سے ہیں بلکہ ایک قول کے مطابق شیعہ اسماء ورجال کے فن کے بانی شمار ہوتے ہیں۔

ڈاکٹر حافظ محمد زبیر

ڈاکٹر حافظ محمد زبیر دینی علوم کے معروف اسکالر ہیں اور رفاہ یونیورسٹی لاہور میں تدریسی خدمات انجام دیتے ہیں۔

mzubair.is@riphah.edu.pk

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں