جناب عمار صاحب اپنی کتاب “قرآن و سنت کا باہمی تعلق” میں اصول فقہ کے مباحث پر خامہ فرسائی کرتے ہوئے امام شافعی پر اعتراض کرتے ہیں کہ آپ متعدد مقامات پر قرآن کے کسی عام حکم میں احتمال کا قرینہ دکھائے بغیر ہی تخصیص کرلیتے ہیں۔ ساتھ ہی عمار صاحب یہ بھی مانتے ہیں کہ امام صاحب کے نزدیک عام کی دلالت ظنی ہے۔ لیکن وہ یہ غور نہیں کرتے کہ عام کی دلالت ظنی کہنے کا مطلب عام لفظ کی حقیقت کے بارے میں یہ حکم لگانا ہے کہ عام لفظ بظاہر جس گروہ کے استغراق کا تقاضا کرتا ہے، متکلم کی جانب سے اس کے استعمال پر مخاطب پر فی الفور اس کے سب افراد شامل ہونے کا یقینی طور پر اعتقاد رکھنا واجب نہیں بلکہ وہ گمان غالب رکھے گا اور ساتھ یہ بھی قبول کرے گا کہ ممکن ہے وقت الحاجۃ تک تاخیر کے ساتھ اس کا کوئی مخصص آجائے، اگر ایسا مخصص نہ آئے تو وہ اس پر عمل کرے گا۔ اس مفروضے کے بعد امام شافعی کو ہر ہر مقام پر تخصیص قبول کرنے کے لئے احتمال دکھانے کی ضرورت ہی نہیں بلکہ صرف مخصص کا علم ہوجانا کافی ہے کیونکہ اس کا احتمال امام صاحب کے نظرئیے میں عام کو ابتدائے کلام سے ہی لاحق تھا۔ اس کے برعکس ہر ہر مقام پر تاخیر البیان کی صورت تخصیص کا قرینہ دکھانے کا تقاضا احناف سے کیا جاسکتا ہے اس لئے کہ ان کے نزدیک عام کی دلالت قطعی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ مخاطب پر کلام کی سماعت کے ساتھ ہی سب افراد کا یقینی طور پر شامل ہونے کا عقیدہ رکھنا واجب ہے (الا یہ کہ متکلم نے متصلاً تخصیص کردی ہو، جس کے بعد پھر کیفیت امام شافعی کے قول کے مطابق ہوگی)۔ چنانچہ عمار صاحب امام شافعی سے اس قول کے تقاضے پر عمل نہ کرنے کا شکوہ کرتے ہیں جو امام شافعی نے لیا ہی نہیں۔ یہی ماجرا جناب غامدی صاحب کا ہے جو ایک طرف یہ کہتے ہیں کہ عام کی دلالت پر امام شافعی کا قول درست ہے لیکن ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ جب چند طریقوں سے تخصیص کا قرینہ نہ دکھایا جائے تو عام کے تاخیر البیان کا احتمال ختم ہوجاتا ہے، یعنی وہ قطعی ہوجاتا ہے۔ لیکن جب آپ نے عام کی دلالت کو اصلاً ظنی مان لیا تو مخاطب کے اعتقاد سے یہ احتمال کیسے ختم ہوجاتا ہے؟ یہ بات تو حنفی قول پر درست ہوسکتی ہے کہ اگر متصلا تخصیص ثابت نہ ہو تو ڈیفالٹ پوزیشن (یعنی قطعیت، یعنی عام کے تاخیر البیان کا عدم جواز) برقرار رہے گی۔ یوں غامدی صاحب کا موقف یہ بن جاتا ہے:
– عام کا تاخیر البیان اصولا جائز ہے اس لئے کہ عام اصلا ظنی ہے
-عام کا تاخیر البیان جائز نہیں الا یہ کہ متصلاً قرینہ دکھایا جائے اس لئے کہ عام اصلا قطعی ہے
حنفی شافعی اصول فقہ کی اس بے معنی تلفیق کے باوجود انہیں یہ خوش فہمی ہے کہ یہ امام شافعی کا کام پورا کرنے کے مشن پر ہیں۔
امام شافعی کے دفاع میں ڈاکٹر زاہد صدیق مغل کا استدلال کئی اصولی مغالطوں پر قائم ہے۔ سب سے پہلے وہ یہ فرض کرتے ہیں کہ چونکہ امام شافعی کے نزدیک عام کی دلالت ظنی ہے، اس لیے تخصیص کے لیے قرینہ دکھانے کی ضرورت نہیں۔ یہ مفروضہ غلط ہے۔ ظنی دلالت کا مطلب یہ نہیں کہ تخصیص بلا دلیل قبول کر لی جائے، بلکہ یہ کہ مخصص کے ثبوت تک عام پر عمل کیا جائے۔ مخصص پیش کرنے والے پر ہی دلیل کا بوجھ ہوتا ہے۔ اگر محض احتمال کافی مان لیا جائے تو نص کا کوئی حکم قطعی باقی نہیں رہتا۔
امام شافعی کی ظنی دلالت کا مطلب صرف یہ ہے کہ لفظ اپنے تمام افراد پر غالب گمان کے ساتھ دلالت کرتا ہے، نہ کہ یقینی طور پر۔ لیکن جب تک قرینہ یا مخصص ظاہر نہ ہو، اس پر عمل واجب رہتا ہے۔ لہٰذا یہ کہنا کہ امام شافعی کو قرینہ دکھانے کی ضرورت نہیں، امام کے اصول کی غلط تعبیر ہے۔
مصنف نے ظنی اور قطعی دلالت کے مراتب میں بھی خلط پیدا کیا ہے۔ دلالت اپنی نوعیت میں ظنی ہو سکتی ہے لیکن مخصوص موقع پر قرائن کی قوت سے قطعی درجہ اختیار کر سکتی ہے۔ غامدی صاحب نے اسی اصول کو واضح کیا ہے کہ اگر تخصیص کا کوئی قرینہ نہ ہو تو تاخیر البیان کا احتمال ختم ہو جاتا ہے اور عموم قطعی عمل میں آ جاتا ہے۔ یہ تضاد نہیں بلکہ اصولی تطبیق ہے۔
عمار صاحب کا اعتراض بھی یہی ہے کہ امام شافعی بعض مقامات پر اپنے اصول کی عملی تطبیق میں تسلسل نہیں رکھتے۔ یہ اعتراض امام کے نظریے پر نہیں بلکہ ان کے طرزِ عمل پر ہے۔
ڈاکٹر مغل نے تاخیر البیان کے معاملے میں بھی الجھن پیدا کی ہے۔ تاخیر البیان کا جواز صرف اس وقت ہے جب متکلم کے کلام سے اس کی گنجائش نکلتی ہو۔ اگر ہر عام حکم میں تخصیص کا احتمال ہمیشہ قائم رکھا جائے تو نص کے احکام غیر مستقر ہو جاتے ہیں اور شریعت کی قطعیت ختم ہو جاتی ہے۔
آخر میں یہ کہنا کہ غامدی صاحب نے شافعی و حنفی اصولوں کی “تلفیق” کی ہے، علمی طور پر بے بنیاد ہے۔ غامدی صاحب نے شافعی اصول کو تسلیم کرتے ہوئے صرف یہ قید لگائی ہے کہ جب تخصیص کے قرائن نہ ہوں تو عام پر عمل واجب ہے۔ یہ تلفیق نہیں بلکہ اصول کی منطقی تکمیل ہے۔
نتیجہ یہ ہے کہ ڈاکٹر مغل کا استدلال امام شافعی کے اصول کی درست تعبیر پیش نہیں کرتا۔ انھوں نے ظنی دلالت کو تخصیص کی بلاشرط اجازت سمجھ کر نصوص کی قطعیت کو غیر یقینی بنا دیا ہے۔ دراصل ان کا موقف امام شافعی کا دفاع نہیں بلکہ ان کے اصول کی کم فہمی کا اظہار ہے۔