مریم ذکا بریار
ابن رشد کے عورت سے متعلق نظریات میں اعتدال پسندی نمایاں دکھائی دیتی ہے۔ان کے نظریات اور تعلیمات پر افلاطون کی معروف کتاب ریپبلک کے اثرات واضح ہیں۔ افلاطون کے نظریات سے متاثر ہونے سے قبل ابن رشد محض اسلامی تعلیمات پر ہی بحث کرتے تھے لیکن بعد کے ادوار میں ابن رشد نے افلاطون کے نظریات اور تعلیمات کو ڈھال بناتے ہوئے مختلف دلائل پیش کیے ہیں۔ کیترینہ بالوس لکھتی ہیں کہ:
اگر آپ نے ابن رشد کے عورت سے متعلق نظریات جاننے ہیں تو وہ آپ کو افلاطون کی ریپبلک پر کیے جانے والے ان کے تبصرے میں ملیں گے۔ ابن رشد کے اس تبصرے میں خواتین کے متعلق منفی نظریات بڑی وضاحت سے ملتے ہیں لیکن ان نظریات کو وہ اپنے اس تبصرے میں افلاطون کے مختلف اقوال کے تحت بیان کرتے ہیں۔ جابجا اس کتاب میں خواتین سے متعلق ملنے والے نظریات میں افلاطون کے حوالہ جات موجود ہیں۔
ریپبلک پر تبصرے کے صفحہ نمبر 123 پر آخر میں ابن رشد نے اپنے چند دلائل بھی پیش کیے ہیں اور کہا ہے کہ اگر دنیا میں کوئی انسان یہ چاہتا ہے کہ اس کی نسل میں موجودہ خوبیاں برقرار رہیں اور وہ تمام خصائص اگلی نسل تک منتقل ہوں تو اس کے لئے لازم ہے کہ وہ کسی باصلاحیت اور باکردار عورت سے ہی شادی کرے، تب ہی اس کو وہ نسلی برتری حاصل ہو سکتی ہے جو اس کے اپنے آبا و اجداد کو حاصل تھی۔ یعنی ان کے مطابق خصائص کو اگلی نسل تک منتقل کرنے کے لیے صرف ایک باصلاحیت مرد کی ہی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ ایک با صلاحیت عورت بھی درکار ہے۔ اس کے بعد وہ مرد اور عورت کے خصائص کے متشابہ ہونے کے متعلق اپنی دو آرا پیش کرتے ہیں کہ اگر تو عورت اور مرد میں موجود تمام خوبیاں برابر ہیں تو ہر لحاظ اور پہلو سے مرد اور عورت کو مساوی حقوق ملنے چاہییں،لیکن اگر ان میں برابری نہیں ہے تو پھر عورت کا صرف ایک ہی فرض ہونا چاہیے اور وہ ہے بچوں کی پیدائش۔
پھر اپنی اس بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ مرد اور عورت خوبیوں کے لحاظ سے تو ایک جیسے ہیں مگر درجات کے لحاظ سے ان میں فرق ہے، لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ مرد ہر لحاظ سے عورت سے برتر ہے کیونکہ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ دنیا میں بہت سارے معاملات ایسے ہیں جن میں عورتیں مردوں سے زیادہ بہتر کردار ادا کرتی ہیں۔ یہاں وہ موسیقی کی ایک مثال دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دنیا میں کئی معاملات موسیقی کی طرح پائے جاتے ہیں جن میں عورت کی کارکردگی مرد سے کئی گنا بہتر ہے۔ لہذا ریاست میں مرد اور عورت ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کام کر سکتے ہیں۔
محمد عابد الجابری ابن رشد کے اس تبصرے کے عربی ترجمے کے تعارف میں کہتے ہیں کہ ابن رشد نے اپنے اس تبصرے میں افلاطون کے نظریات کے ساتھ ساتھ اپنے دلائل بھی پیش کئے ہیں جنہیں الجابری چار نکات میں یوں بیان کرتے ہیں کہ سب سے پہلے ابن رشد نے مرد اور عورت کے مابین فطری وحدت کا تذکرہ کیا ہے۔دوسرا فلسفے، قیادت اور جنگجوئی میں ابن رشد نے عورت اور مرد کی برابری کا ذکر کیا ہے۔تیسرا چنیدہ مقامات پر عورت کی سربراہی کی مخالفت کی ہے۔ اور چوتھے نکتے میں اندلس اور عرب میں خواتین کے حالات کا ذکر کیا ہے۔الجابری کہتا ہے کہ المختصر اگر ہم یہ کہیں کہ ابن رشد نے اپنے مندرجہ بالا بیان کردہ نظریات میں نہ صرف افلاطون کا دفاع کیا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اسلامی شرعی قوانین کو بھی مدنظر رکھا ہے تو یہ بالکل بجا ہوگا۔
جنگوں میں عورتوں کی شرکت سے متعلق ابن رشد کا موقف تھا کہ اگر ہم باقی اقوام میں دیکھیں تو ایک لمبے عرصے سے عورتیں جنگوں میں ہمیں باقاعدہ طور پر حصہ لیتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں اور فلسفے کی بات کی جائے تو ابن رشد کہتے ہیں کہ معاشرے میں بہت سی خواتین ایسی بھی دیکھنے کو ملتی ہیں جو ذہانت کے اعتبار سے مردوں سے کئی گنا زیادہ باصلاحیت ہیں۔ ان کے مطابق اگر مذہب عورت کو اجازت دے تو فلسفیانہ طور پر عورت میں ذہانت اور حکمرانی کے گُن پائے جاتے ہیں۔ عورتوں کی مظلومیت پر حقیقتًا فکر مند ہوتے ہوئے ابن رشد نے لکھا کہ عورتوں کی معاشرے کے بڑے عہدوں سے دوری کی بنیادی وجہ ان کی نااہلی نہیں ہے بلکہ معاشرے میں انہیں ہمیشہ سے ہی حلقہ بگوشی میں رکھا گیا تھا جس کی بنا پر ان میں بڑے عہدوں کے حصول کی خواہش ہی پیدا نہیں ہوسکی۔
ابن رشد کا ماننا ہے کہ ایک خوشحال معاشرہ عورت اور مرد کے باہمی تعاون سے ہی قائم ہوتا ہے، کیونکہ قوم کی نصف سے زائد آبادی کو اگر کام سے روکے رکھا جائے گا تو معاشرے کی معیشت پر بہت برے اثرات مرتب ہوں گے۔ لہذا انہوں نے معاشرے میں عورت کو اس کا اصل مقام اور حیثیت دینے پر بارہا زور دیا۔ابن رشد کا اہم ترین نظریہ جس کی بنا پر ہم انہیں جدیدیت پسند یا ترقی پسند مفکر کہتے ہیں، یہی ہے کہ انہوں نے واضح دلائل دیتے ہوئے بیان کیا کہ عورت کو معاشرے میں تن تنہا کر کے، معاشرے کے اہم عہدوں سے دور رکھ کے کبھی بھی معاشرتی فلاح و بہبود کا حصول ممکن نہیں بنایا جا سکتا۔ابن رشد کے مطابق ایک آئیڈیل معاشرے کی تشکیل کے لیے ہمیں اسلام کے بالکل ابتدائی دور کو دیکھنا چاہیے نہ کہ آج کے دور کو جس میں امام غزالی جیسے مفکرین کے عورت کو گھر کی چار دیواری تک محصور کر دینے کے نظریات راسخ ہو چکے ہیں۔
کمنت کیجے