Home » شاعری، الہام اور کشف
اسلامی فکری روایت

شاعری، الہام اور کشف

مولانا وارث مظہری
فارسی کا مشہور مصرعہ ہے کہ : شاعری جزویست از پیغمبری۔’’شاعری پیغمبری کاہی ایک حصہ ہے۔‘‘ اہم شعرا کا دعوی بھی یہی رہا ہے کہ شاعری ایک روحانی فیضان کی شکل میں ان کے قلب پر وارد ہوتی ہے ۔اس کی کیفیت کچھ ویسی ہی ہوتی ہے جیسی الہام کی ہوتی ہے۔اس دعوی کی حقیقت کیاہے؟ اس پر غور کرتے ہوئے جوچند باتیں ذہن میں آئیں ،انہیں یہاں اہل نظر کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔
نبوت کے حوالے سے فلسفے میں یہ بحث شروع سے موجود رہی ہے اور فلسفیوں کا ذہن اس معمے کو حل کرنےمیں مصروف رہا ہے کہ وحی کی حقیقت کیا ہے؟ یہ ایک داخلی معاملہ ہے یا خارجی؟فارابی کا کہنا ہے کہ یہ ایک داخلی معاملہ ہے۔دراصل یہ نبی کی قوت متخیلہ ہے جودوسرے تمام انسانوں کے مقابلے میں کامل ومکمل اور پاکیزہ وشفاف ہوتی ہے۔وہ عقل فعال کے واسطے سے خدا کی وحی کے فیضان کوقبول کرتی ہے ۔گویا کوئی ایسی خارجی ایجنسی ایسی نہیں ہوتی جس کے ذریعے نبی تک وحی پہنچتی ہو۔(ا س کی تفصیل فارابی کی مختلف کتابوں میں دیکھی جاسکتی ہے) ۔دور جدید میں سرسید احمد خان اور بعض دوسرے لوگ فلاسفہ کے اسی نظریے کی پیروی کے تحت جبریل کو فرشتے کے بجائے نبی کی اپنی ذات کے اندر داخلی سطح پر پائی جانے والی ’’قوت جبریلیہ‘‘ سے تعبیر کرتے رہے ہیں۔
اس سے ملتی جلتی بحث وہ ہے جوکشف والہام کے حوالے سے تصوف میں پائی جاتی ہے۔صوفیہ کے قلوب پربھی غیبی علوم منکشف ہوتے ہیں جنہیں کشف اور مکاشفے وغیرہ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔شاہ ولی اللہ کی کتاب’’ فیوض الحرمین ‘‘ ایسے ہی مکاشفات کا مجموعہ ہے جن کا تجربہ انہیں حرمین شریفین میں ہوا۔صوفیہ کے تجربا ت سےہم بحث کرنا نہیں چاہتے کہ اس پر کافی کچھ لکھا جاچکا ہے ۔اس کا مطالعہ مستند کتابوں کے حوالے سے کرنا چاہیے ۔ ہم صرف شعرا کے تجربات سے بحث کرنا چاہتے ہیں۔ ہما را خیال ہےکہ شاعری کوا لہام سے کوئی نسبت نہیں ہوتی۔جزوی انداز کی بھی نہیں۔ قیاس کہتا ہے کہ ایک لمبے عرصے تک شعرگوئی سے ذہنی مناسبت اور شب وروز اس کی فکر میں مشغولیت سے ذہن کا ایک مضبوط سانچہ یا قالب بن جاتا ہے ۔اور ہوتا یہ ہے کہ کبھی ادنی سی تحریک سے بھی جو بسا اوقات لاشعور کی حدوں کو چھورہی ہوتی ہے،اشعار اس سانچے میں ڈھل کر دریچہ ٔ ذہن میں جھانکنے لگتے ہیں۔ایسے میں شاعر کولگتا ہے کہ جیسے اس پرالہام کی شکل میں اشعارکا نزول ہورہا ہو۔
صوفیہ کے تجربات میں بھی اس کی مثالیں موجود ہیں کہ کس طرح انہیں بعض واقعات پر کشف کا دھوکہ ہوجاتا ہے جن سے کشف کا سرے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔اکابر صوفیہ کے تعلق سے تو ایسا کہنے کی جرأت نہیں کی جاسکتی تاہم اصاغر صوفیہ میں سے بہت سوں کے یہاں کشف کا معاملہ اسی طرح محض نفسیاتی ہوتا ہے۔نفس کشی اور شب وروز کی ریاضت کے نتیجےمیں بکثرت ایسا ہوتا ہے کہ شعور کی سرحدیں لاشعور سے جاملتی ہیں اوردونوں کے درمیان فاصلہ جیسے ختم ہوجاتا ہے ۔ایسے میں انہیں ایسے تجربات ہوتے ہیں جنہیں وہ الہام اورکشف تصور کرلیتے ہیں۔حالاں کہ وہ ایک نفسیاتی معاملے سے زیادہ اور کچھ نہیں ہوتا۔بہرحال ایک نبی کووحی کے تعلق سے حاصل ہونے والے تجربات ان سب سے بہت مختلف ہوتے ہیں۔

ڈاکٹر وارث مظہری

وارث مظہری ہمدرد یونی ورسٹی دہلی کے شعبہ اسلامک اسٹڈیز میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر خدمات انجام دیتے ہیں اور دار العلوم دیوبند کے فضلا کی تنظیم کی طرف سے شائع ہونے والے مجلے ’’ترجمان دارالعلوم‘‘ کے مدیر ہیں۔
w.mazhari@gmail.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں