Home » متن کی قرات
زبان وادب فلسفہ

متن کی قرات

ڈاکٹر خضر یسین

“قرآت متن” یا text reading ایک مستقل فن ہے جو یہ بتاتا ہے کہ متن کیا ہے، اسے کیسے پڑھنا چاہیے؟ اور کس طرح پڑھنے سے کیا نتائج برآمد کیے جا سکتے ہیں؟
پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ متن فی نفسہ مستقل بالذات شے independent        phenomenon نہیں ہے، یہ ایک منحصر مظہر         dependent phenomenon ہے۔ اس کی ہستی ماتن اور قاری کے مابین حائل برزخ کو پاٹنے والے وسیلے medium کی ہے۔ متن نگار کے ذہن میں معنی کا ابداع ہوتا ہے اور قاری کے ذہن میں بعینہ وہی معنی متن کے ذریعے نمودار ہوتا ہے۔ جب تک ماتن اور قاری طرفین two         poles، قابل از قرآت حقیقت نہ ہوں “متن” کسی شے کا نام نہیں ہے اور نہ وہ قابل قرآت بنتا ہے اور نہ ہی قابل فہم واقعیت کی صورت حاصل کر سکتا ہے۔ بالفاظ دیگر ماتن اور قاری اگر متن سے پہلے موجود فی الخارج حقیقت نہ ہوں تو متن موجود فی حقیقت نہیں ہوتا۔
زبان اور اس کے ابلاغ و اظہار کے سانچے یقیناً پہلے سے موجود ہوتے ہیں مگر ان کی حیثیت اس بندوق کی ہے جو کندھے پر رکھ کر چلائی جاتی ہے یا اس جال کی ہے جس میں مچھلیاں پکڑی جاتی ہیں۔ اصل مسئلہ اظہار و ابلاغ کے سانچوں کو استعمال کرنے کا ہوتا ہے۔ فصاحت و بلاغت اور شعری بحور و اوزان کا درست استعمال خدا داد استعداد ہے جو محنت سے زیادہ فطرت کا عطیہ ہے۔ محنت سے ان فنکارانہ صلاحیتوں میں نکھار پیدا کیا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے کہ کسی تصنیف کے وجود میں آ جانے کے بعد یہ جائزہ لیا جا سکتا ہے کہ وہ کس قدر فصاحت و بلاغت کی حامل ہے۔
“متن” حقیقت کی جس سطح کا مظہر ہے، وہ مستقل ہے اور نہ ہی مستقل حقیقت اور اس کے مظاہر کے ماتحت واضح ہونے والے مقولات کے ذریعے تجزیہ و تحلیل کا موضوع بننے کا اہل ہے۔ متن جب بھی موضوع علم بنتا ہے، اس میں یہ امر یقینی طور پر مضمر ہوتا ہے کہ یہ ایک میڈیم ہے یعنی مقصود بالغیر ہے اور مقصود بالذات یا end         in itself نہیں ہے۔
قرآت متن text          reading کے مختلف زاویے ہوتے ہیں۔ ان میں صرف ایک زاویہ وہ ہے جس میں وہ متن نگار اور قاری کے مابین وسیلہ ابلاغ ہوتا ہے یعنی ماتن کے ذہن میں مضمر معنی قاری کے ذہن میں پیدا کرنے کا سزاوار ہوتا ہے۔ باقی تمام زاویے ایسے ہیں جن میں “متن نگار” نہ متن نگار رہتا ہے اور نہ قاری قاری ہوتا ہے۔ دونوں کے ہاتھ اور دماغ میں ایک جیسے اوزار ہوتے ہیں اور ماتن و قاری کا زاویہ نگاہ بالکل ایک ہوتا ہے اور دونوں بالکل وہی نتائج اخذ کرنے میں شریک ہوتا جو ایک لیبارٹری ٹیسٹ میں ایک ٹیکنیشن کسی سیمپل سے اخذ کرتا ہے۔ گویا مطالعہ متن کی ابتدائی تقسیم میں ایک قسم وہ ہے جس میں متن کا جواز وجود برقرار رہتا ہے اور دوسری قسم وہ جس میں متن کے وجود میں آنے کا جواز غیر متعلق شے ہو جاتا ہے۔ اگر آپ کے مطالعہ میں متن کا جواز ہستی قائم ہے تو آپ متن کا مطالعہ فقط اس غرض سے کرتے ہیں کہ آپ متن نگار کا مقصود جان سکیں۔ لیکن اگر آپ کے پیش نظر متن کا ایسا مطالعہ ہے جس میں آپ کے ساتھ متن نگار بھی ایک نئی ذہنی مشقت میں شامل ہو تو قرآت متن کی یہ حیثیت اس میت کے اجزاء کو الگ الگ کرنے جیسی ہے جسے مردہ خانے کی لیبارٹری گوشت و پوشت اور دگر کیمیائی اجزاء کو اس لیے الگ کر دیا جاتا ہے تاکہ اسے کسی مصرف میں لایا جا سکے۔ اس کی بہترین مثال اصول فقہ میں نص کی تقسیم ہے۔ یہ وہ قرآت متن ہے جس میں متن نگار، اپنے ہی متن کا خود ویسا ہی قاری ہے جیسے دوسرے لوگ ہیں۔ قرآت متن کی ماہیت اور اس سے اخذ و افادہ آپ زاویہ نگاہ طے کرتا ہے۔ قرآت متن کی ماہیت سے یہ واضح ہوتا ہے کہ قاری کے پیش نظر کیا ہے؟ کس زاویے سے متن پڑھنا چاہتا ہے؟ قاری جس بھی زاویہ نگاہ سے متن کی طرف متوجہ ہو، اس کی نظر سے جو بات کبھی اوجھل نہیں ہو سکتی، وہ ماتن اور قاری کی prior existence اور prior coherence ہے۔
جس قاری کے پیش نظر ماتن کا مقصود ابلاغ نہ ہو اس کی قرآت یا reading کی ماہیت کا تعین اس کے عمل قرآت reading           behaviour سے ہوتا ہے۔ قرآت کی نوع کا بنیادی اصول اس کی ماہیت کا تعین کرتا ہے۔ اگر کوئی قاری متن کو اس غرض سے پڑھتا ہے کہ اس میں زبان و بیان کے اصول و مبادی کو کس حسن و خوبی سے برتا گیا ہے؟ یا زبان و بیان کے مسلمہ اصولوں سے کس قدر انحراف کیا گیا ہے تو اس کا مقصد قرآت ماتن کا مقصد ابلاغ نہیں ہے بلکہ ایک فن کے زاویہ نگاہ سے متن کی انتقادی تحسین Critical           appreciation ہے۔ متن کی انتقادی تحسین میں جو مقولات استعمال کیے جاتے ہیں، ان کے مفہوم و مدلول کی جانب متن نگار قبل از تصنیف، دوران تصنیف کبھی متوجہ نہیں ہوتا۔ بعد از تصنیف جب کبھی وہ اپنی تصنیف کا مطالعہ کرتا ہے تو اسے ایک بالکل نئی ذہنی مشقت سے گزرنا پڑتا ہے۔
زبان و بیان کے محاسن و معائب مطالعہ متن سے ظاہر ہوتے ہیں اور کیے جاتے ہیں۔ لیکن یہ عمل مطالعہ ایسی چیز ہے جس میں ماتن اور قاری دونوں ایک ہوتے ہیں۔ وہ اصل مصنف ہوتا ہے اور نہ یہ اصل قاری ہوتا ہے۔ دونوں مقصد مطالعہ دونوں کو ان کے اصل مقام سے دور لے جاتا ہے۔

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں