مولانا جاوید اقبال
بحمد اللہ مدرسہ ڈسکورسز کا پہلا سمسٹر بحسن و خوبی اختتام پذیر ہوا۔ چند ماہ بیشتر جب ایک باصلاحیت ، تحقیقی مزاج اور مثبت فکر کے حامل کرم فرما نے کورس کا تعارف کراتے ہوئے شرکت کی دعوت دی تو ناچیز نے انٹرویو میں شریک ہونے کا ارادہ کرلیا۔ جو اجمالی تعارف انھوں نے کرایا وہ اس مفید علمی حلقہ سے منسلک ہونے پر ابھارنے کے لیے کافی تھا۔ پھر انھی دنوں فیس بک اور واٹس ایپ پر کورس کے تعلق سے کئی تحریریں گردش کرنے لگیں جن میں حمایت سے زیادہ مخالفت کے سر نمایاں تھے۔ صدائے احتجاج بلند کرنے والوں میں زیادہ تر لوگ ایسے تھے جن کی “دور اندیشی” اور “احتیاط پسندی” کو بآسانی ‘قانونِ نو سے ڈرنا، طرزِ کہن پر اڑنا” کے زمرے میں ڈالا جا سکتا تھا۔ تاہم ان میں کئی معتبر اشخاص بھی تھے جن کے خلوص پر شک نہیں کیا جاسکتا، لیکن ان کے دلائل غیر منطقی بزرگانہ شفقت و خیر خواہی سے زیادہ وقعت نہیں رکھتے تھے۔ حد درجہ خلوص بھی بسا اوقات بے جا اندیشوں کو جنم دیتا ہے۔ لہذا ایسے تمام مخلصین معذور تھے۔ کسی بھی ڈسکورس میں جبر و اکراہ کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوتی اور کورس کے بعض ذمہ داران کی کسی رائے سے علمی اختلاف کی بنا پر اپنے فضلاء کو کورس میں شرکت سے بچنے کی تلقین کرنا یا ان کے گمراہ ہوجانے کا رونا رونا “اپنے ہونہار” علمی فرزندوں کے تئیں صریح بدگمانی اور مدرسوں کے نظامِ تعلیم و تربیت کی افادیت پر ہی سوالیہ نشان لگانے کے مترادف ہے۔ ویسے بھی جن فضلاء کو جدید مسائل اور مختلف افکار و نظریات کے مطالعہ کا شوق ہوتا ہے، ان کے لیے دنیا بہت وسیع ہوچکی ہے۔
مختصر یہ کہ کورس یا اس کے ذمہ داران کی نیک نیتی کے تعلق سے ناچیز کو کبھی کبھی کوئی بدگمانی نہیں رہی۔ جو چیز میرے لیے زیادہ باعثِ مسرت و انبساط ہے، وہ ہے کورس کی افادیت جس کا صحیح اندازہ باقاعدہ اس کا حصہ بننے اور دروس میں شریک ہونے کے بعد ہی ممکن ہے۔ ساحل کے تماشائی اس کا اندازہ نہیں لگا سکتے۔ قیاس ہر مسئلہ کا حل نہیں ہے۔ کسی بھی موضوع پر مختلف قدیم و جدید تحریروں کا تقابلی مطالعہ اور پھر خالص دوستانہ ماحول میں ہر پہلو ہر سیر حاصل بحث، مشارکین کی آراء، اعتراضات، جوابات اور جواب الجوابات پر مشتمل ایک ایسا پر لطف علمی ماحول جس سے بلاشبہ فکر کے کئی زاویے وا اور کئی دریچے روشن ہوتے ہیں۔ تحریروں کے انتخاب میں جس بالغ نظری کا مظاہرہ کیا گیا ہے، وہ بذاتِ خود حیرت انگیز ہے۔
یہاں کورس میں شامل مضامین کا جائزہ لینا میرا مقصد نہیں ہے اور نہ ہی ونٹر انٹیسو کے محاضرات پر تبصرہ۔ ایک طالب علم کی حیثیت سے اب تک کی سرگرمیوں پر اپنے دلی تاثرات پیش کرنا ہے۔ کورس کے آغاز سے قطر کے سفر تک چونکہ صرف آنلائن کلاسز ہی ہوئیں، اس لیے باجود دوستانہ ماحول کے ایک گونہ اجنبیت تھی۔ لیکن اس سفر کے دوران جہاں ذمہ داران اور دیگر مہمان علمی شخصیتوں سے براہِ راست استفادہ کا زریں موقع نصیب ہوا، وہیں اس حقیقت کا بھی مشاہدہ سب نے کیا کہ زاہدِ تنگ نظر جنھیں کافر سمجھتا ہے، وہ ولی ہے۔ فضلاء مدارس کے لیے یہ خلوص، یہ کڑھن، اور ایسی فکر مندی صاحبانِ جبہ و دستار میں بھی خال خال ہی نظر آتی ہے۔ مطالعہ میں تنوع آپ کو مختلف فکری جہات سے آشنا کراتا ہے۔ شوقیہ مطالعہ کی بھی اپنی افادیت ہے لیکن کسی خاص موضوع پر مختلف الفکر مصنفین کی تحریروں کا بنظرغائر مطالعہ اور اہل علم اور متجسس اذہان کی صحبت میں ان پر مناقشہ اس کی افادیت کو دو چند کردیتا ہے اور یہی اس کورس کا سب سے نمایاں اور مفید پہلو ہے۔ موضوعات بذاتِ خود اس قدر حساس اور اہم ہوتے ہیں کہ ان پر غور و خوض اور عصری اسلوب میں ان کی پیش کش وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔ جدید علم الکلام یا فقہ کی تشکیلِ نو کا مطلب روایتی علم الکلام یا روایتی فقہ سے دستبرداری ہرگز نہیں ہے بلکہ تمام شرعی و اصولی نزاکتوں کا خیال رکھتے ہوئے اسے عصری اسلوب میں پیش کرنا ہے۔
فقہ جدید پر کافی کام ہوچکا ہے اور ہورہا ہے، لیکن علم الکلام کی تشکیلِ نو ہنوز توجہ طلب ہے۔ دونوں ہی کام عصری مزاج و اسلوب اور علم جدید کی بعض شاخوں سے بقدرِ ضرورت آگہی و استفادہ کے بغیر ناممکن ہیں۔ وارثینِ انبیاء سے ہی توقع کی جاتی ہے کہ وہ اس سلسلے میں اپنی ذمہ داری کا احساس کریں گے۔ کسی بھی ایسی کوشش میں فکری و علمی اختلاف فطری ہے اور دلیل کا جواب صرف دلیل ہی ہوسکتی ہے، فرار یا محض مخالفت نہیں۔
الحمد للہ، اب تک کا سفر بہت ہی بصیرت افزوز، معلومات افزا اور لطف انگیز رہا ہے۔ امید ہے آگے کے مراحل مزید دلچسپ اور علمی و فکری لحاظ سے مفید تر ہوں گے۔
بہترین اور بےباک