مولانا محمد نوید
اس مختصر تحریر میں، میں یہ واضح کرنے کی کوشش کروں گا کہ مدرسہ ڈسکورسز کیاکررہا ہے ؟اورکیاکسی مدرسے سے درس نظامی اور تخصص کرنےیاکسی یونیورسٹی سے شعبہ علوم اسلامیہ میں اعلی سطحی ڈگری لے لینے کے بعد بھی کوئی ایسی گنجائش باقی رہتی ہے کہ اس سے بھی اعلیٰ سطحی مباحث کے لیے مزید کسی کورس کو پڑھا جائے ؟
پاک وہند میں علومِ دینیہ تفصیل سے پڑھنےکے لیے درس نظامی کا نظام ِتعلیم موجود ہے ،اور درسِ نظامی کے بنیادی دینی علوم کا جامع نصاب ہونے میں دو رائیں بھی نہیں ہیں۔ اس کے باوجود اگر درس نظامی کی اپنی حیثیت کو مدنظر رکھاجائے تو مذکورہ بالاسوال ذہن میں پیدا نہیں ہوتا کہ مدرسے کا نصاب مکمل پڑھ لینے کے بعد کسی اور نصاب کی ضرورت ہے یا نہیں ۔ کیونکہ مہتمم دارالعلوم دیوبند قاری محمد طیب صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا ایک جملہ مشہور ہے جو انھوں پاکستان کے مختلف مدارس کے دستار بندی کے اجتماعات میں ارشاد فرمایا کہ ہمارے مدارس عربیہ میں سند فراغت عالم دین ہونے کی نہیں ہوتی ، بلکہ عالم دین بننے کی صلاحیت کی ہوتی ہے ، یعنی اس بندے نے مدرسے میں رہتے ہوئے بنیادی دینی علوم پڑھ لیے ہیں ،اب اگر یہ شخص اِن علوم میں مزید مہارت پیدا کرکے عالمِ دین بننا چاہے تو بن سکتا ہے ۔ قاری محمد طیب صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے اس بیان میں یہ بات واضح لفظوں میں موجود ہے کہ ہمارے مدارس حرفِ آخر نہیں ہیں،بلکہ عشق کے امتحان اور بھی ہیں ۔ یہ بیان آج کے ان فارغینِ مدرسہ کے سامنے لازمی ہونا چاہیے جوفراغت کے بعد اپنے آپ کو عالم الکل سمجھنا شروع کردیتے ہیں ۔
ہمارے مدارسِ عربیہ میں رائج علوم و فنون اور ان کے موجودہ نظام تعلیم میں درسِ نظامی کے علاوہ بعض فنون میں تخصصات کا کسی حد تک رواج موجود ہے ۔ان تمام درجات اور شعبہ جات کے نصاب اپنی جگہ کتنے ہی مفید کیوں نہ ہوں، بلکہ واقعۃ مفید بھی ہیں ، مگر دوسری طرف اس حقیقت سےبھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس نصاب کو اچھی طرح پڑھنے کے بعد بھی طلباء کوجدید دور کے عملی ،فکری، سیاسی ،معاشی ،معاشرتی ، ملکی اور عالمی قانونی مسائل سے تفصیلی واقفیت تو دور کی بات ، مختصر تعارف بھی حاصل نہیں ہوتا،جس کی وجہ سے جب ان کے سامنے جدیدطرز فکر کاکوئی سوال آتاہے تو چہ جائے کہ وہ اس کا جواب دیں، وہ اس سوال کو اچھی طرح سمجھ بھی نہیں پاتےاور ان کا افق ذہنی مخصوص ددائرہ فکر ہی میں محدود رہتاہے ،اس کی وجہ واضح ہے کہ اس سے پہلے ان کااس قسم کے سوالات سے نہ واسطہ پڑا ہوتا ہے اور نہ ہی ان کی علمی تربیت کی گئی ہوتی ہے ،اور ہمارے مدارس میں مروجہ نظام کے مطابق کوئی ایسی گنجائش بھی نظر نہیں آتی کہ جہاں ان مباحث کو جگہ دی جاسکے ۔جہاں تک ان مسائل کی اہمیت کا تعلق ہے تو وہ کسی بھی صاحب فراست پر مخفی نہیں ہے ۔
اس ساری صورت حال میں ابراہیم موسی صاحب نے جو خود بھی بنیادی طور پر مدرسے ہی کے فیض یاب ہیں ، درس نظامی سے فارغ التحصیل علمائے کرام کے لیے ایک ایسا جامع پروگرام ترتیب دیا ہے کہ جس میں اس پروگرام کے شرکاء کو پہلے یہ سوالات بتائے گئے کہ ہمارے اردگرد کی دنیا کے لوگوں کے کیا سوالات ہیں ،اس وقت دنیا کس طرح سوچ رہی ہے ،ان کے سوچنے کی علمی ، فکری اور تجرباتی بنیادیں کیا ہیں ؟ تاکہ ہم ان سوالات کو ان کی حقیقی سطح پر رکھ کر ان کا سامناکرسکیں ۔اس کام کے لیے ایم ڈی منتظمین نے جو طریقہ اختیار کیا وہ بھی کوئی اجنبی نہیں تھا ، بلکہ اسی قسم کے سوالات کو اپنی ہی تراث میں تلاش کرکے ان کا تفصیل سے مطالعہ کروایاگیا، ان سوالات کےتفصیلی مطالعے سے نہ صرف نفس مسئلہ واضح ہوا بلکہ ماضی میں اس مسئلے کے بارے میں اختیار کیے جانے والے مختلف مواقف اور مکاتب فکر کا بھی تفصیلی تعارف سامنے آگیا۔ بات یہاں پر ختم نہیں ہوتی ، بلکہ ان مسائل کا موجودہ حالات میں کیا انطباق ہے اور کیا موقف ہے، یہ اصل مسئلہ ہے ، ایم ڈی کی خوبی یہ ہے کہ اس مرحلے میں آکر یہ اپنے شرکاء کو بالکل آزاد چھوڑدیتاہے اور کسی ایسے سوال کا جواب دینے سے گریز کرتا ہے کہ جس کا تعلق موجودہ حالات میں کسی مسئلے کے بارے میں موقف اختیار کرنے کے ساتھ ہو، بلکہ ایم ڈی انتظامیہ اپنے شرکاء کو اس موقف پربغیر کسی ذہنی دباؤکے تبصرے اور نقد کی اجازت دیتی ہے، بلکہ سوالات اٹھانے کو پسند بھی کرتی ہے اور اس کی حوصلہ افزائی بھی کرتی ہے ۔ایم ڈی کی اس دوطرفہ کاوش نے شرکاء کو دہرا فائدہ دیا ، ایک تو ان کو اپنے علمی تراث سے واقفیت حاصل ہوئی اور دوسرا موجودہ مسائل کے بارے میں کوئی موقف اختیار کرنے میں مددملی ۔اس تفصیل کے بعد ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایم ڈی نے درحقیقت اُسی کام کو آگے بڑھایاہے جس کی بنیاد مدرسے نے خود رکھی اور مزید ترقی کے لیے آزاد چھوڑ دیا تھا، آگے چل کر یہ طالب علم کیا راہ اختیار کرے گا یہ مدرسے کا نہ موضوع ہے اور نہ ہی مدرسے نے کبھی اس پرسوچا ہے ۔
میرا خیال ہے کہ بعینہ یہی کورس یا اس قسم کے کورسز کا پاکستان کی بڑی بڑی جامعات میں شروع ہونے چاہییں تاکہ ہمارے طلباء جو چیزیں باہر کی یونیورسٹیوں کی سرپرستی میں پڑھتے ہیں وہی چیزیں ان کو اپنے گھر ہی میں رکھ کر پڑھائی جاسکیں ، تاکہ وہ خدشات پیدا ہی نہ ہوں جو نامعلوم افراد کی جانب سےسامنے آرہے ہیں اور ایک ایسی کھیپ تیار ہوسکے کہ جو موجودہ دنیا کو اسی کے ذہن کے مطابق سمجھنے اور ان کو لیڈ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔اب یہاں ایک بات ذہن میں آتی ہے کہ کیا پاکستان میں کسی کو بھی ان حالات کا اندازہ نہیں ہوا کہ جو اس وقت دنیا کے ہیں ؟ کیا ان سوالات کی اہمیت ایم ڈی سے پہلے کسی نے نہیں جانی ؟اگر کسی اور کو ان حالات کا ادراک ہے تو ان سوالات کو یہاں زیر بحث کیوں نہیں لایاگیا ؟ یا ان کو موضوع تحقیق کیوں نہیں بنایاگیا؟ یہ سب باتیں نہایت ہی معقول لگتی ہیں اور ان کے جواب میں ایک سے زائد لمبی لمبی تقریریں بھی کی جاسکتی ہیں ،مگر میں یہاں ڈاکٹر محمد امین صاحب کی تحریر کا ایک تفصیلی اقتباس نقل کرنا مناسب سمجھتا ہوں ۔ڈاکٹر محمد امین مرحوم اپنا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں :
’’دسمبر ۱۹۸۹ میں پاکستان میں امریکی سفارت خانے نے امریکی محکمہ اطلاعات کی مدد سے پاکستانی پروفیسروں اور دانشوروں کےایک آٹھ رکنی وفد کو دورہ امریکہ کی دعوت دی تاکہ وہ امریکہ میں اسلام کا عملی مشاہدہ کرسکیں ۔ راقم الحروف بھی اس وفد کا رکن تھاہم لوگ پہلے دن واشنگٹن میں اکھٹے ہوئے تو ہم نے سنت کے مطابق پروفیسر ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری صاحب (اس وقت ڈائرکٹر جنرل ادارہ تحقیقات اسلامی ، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی ، اسلام آباد )کو امیر وفدمقرر کرلیا۔ اس سفر کا آخری پڑاؤ، ڈیٹرائٹ میں امریکی مسلم ماہرین عمرانیات (American Muslim social scientists ) کی دو روزہ کانفرنس تھی ۔ یاد رہے یہ ایسوسی ایشن ایک اعلی پائے کا بین الاقوامی جریدہ American journal of Islamic social sciences بھی شائع کرتی ہے ، جس میں اسلامی علوم سے متعلق اہم مضامین بھی شائع ہوتے ہیں ۔اس کانفرنس میں ڈاکٹر انصاری صاحب کا کلیدی خطاب تھا، چنانچہ ہم نے بھی اس کانفرنس میں شرکت کی ۔ منتظمین نے ایک سیشن پاکستانی یونیورسٹیوں میں علوم اسلامیہ میں تحقیق ،بھی رکھا( کیونکہ ہمارے وفد میں زیادہ تر لوگ یونیورسٹیوں کے شعبہ ہائے علوم اسلامیہ سے وابسطہ تھے ) جس میں ہمارے وفد کے ارکان کےعلاوہ دوسرے لوگوں نے بھی موضوع پر بحث کی ۔ سیشن اس نتیجے پے پہنچا کہ پاکستانی یونیورسٹیوں کے شعبہ ہائے علوم اسلامیہ میں اچھا، معیاری تحقیقی کام نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ ماحول پر روایتی علماء کا دباؤ ہے ، جس میں تقلید اور status quo برقرار رکھنے کا رجحان غالب ہے۔’’ (البرہان:جولائی ۲۰۱۵)
یہ تو ڈاکٹر صاحب یا اس کانفرنس میں شریک لوگوں میں سے ہی کوئی جواب دے سکتا ہے کہ شعبہ علوم اسلامیہ میں وہ کون سا کام ہے جو یہ لوگ پاکستان میں نہیں کرپاتے۔ ایک وجہ تو ڈاکٹر محمد امین صاحب نے خود ہی بیان کردی ۔ لیکن میرے خیال میں اس کی بڑی وجہ ہمارے دینی علوم میں رسوخ رکھنے والے افراد کی عدم توجہ ہے ۔ اگر کسی طرح روایتی علوم پر دسترس رکھنے والے علماء کی اس طرف توجہ مبذول کروا دی گئی تو ممکن ہے کہ غیر معمولی نتائج برآمد ہوں ۔اس کورس کے لیے ایک حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ ابھی تک راقم الحروف کے سامنےتادم تحریر کوئی ایسا اعتراض سامنے نہیں آیا جوبراہ راست مدرسے سے منسلک افراد کی جانب سے ہو ، بلکہ جب مدرسے والوں کو اس کورس کا علم ہوتاہے تو ان کی طرف سے غیر معمولی دلچسپی ظاہر کی جاتی ہے ، کیونکہ ان کو اپنی اس علمی کمزوری کا بخوبی اندازہ ہے ۔
میرے خیال میں جو لوگ اس کورس کے بارے میں مختلف تحفظات کا اظہار کرہے ہیں ، ان کو اس سے کسی قسم کا خوف کھانے کے بجائے، بہتر ہوگاکہ اگر وہ اپنی صلاحتیں اور وقت ان تحفظات کے اظہار پر لگانے کی بجائے ، روایتی علوم سے وابستہ لوگوں کو ان مسائل کی طرف متوجہ کرنے پر صرف کریں ۔
کمنت کیجے