Home » مذہب اور سائنس کی کشمکش : شرکا کے تاثرات
سائنس کلام مدرسہ ڈسکورسز

مذہب اور سائنس کی کشمکش : شرکا کے تاثرات

 

سید عبدالرشید

(مدرسہ  ڈسکورسز کے  موجودہ بیچ(2020-2021) کے تیسرے سمسٹر کے لیے  جو موضوعات  منتخب کیے گئے تھے ان میں سے ایک موضوع سائنسی اور مذہبی بیانیوں کی روشنی میں  مطالعہ ٔ کائنات  اور   اس حوالے سے سائنس اور مذہب کے درمیان پیدا ہونے والی کش مکش کا تصور تھا۔اس سال (دسمبر 2020) کے  ونٹر انٹنسو کی ایک نشست میں اس موضوع پر شرکا  نے  جوتاثرات پیش کیے اس کا خلاصہ درج ذیل  تحریر میں پیش کیا گیا ہے۔ ادارہ)

مذہب وسائنس کے درمیان قدیم زمانہ سے ایک کشمکش چلی آرہی ہے۔ مذہبی بیانیہ سائنس کو محدود کرتا ہوا محسوس ہوتا ہے، اور سائنسی بیانیہ مذہب کی تردید کرتا  نظر آتاہے۔ اس کو سمجھنے کے لئے ہمیں چند سوالات پر غور کرنا مناسب ہوگا، تاکہ ہم مذہب کے تعلق سے پیدا ہونے والے  مسائل کی تحدید کرسکیں۔ ہمارے سامنے چند ایسے مسائل ہیں، جن میں سائنسی اکتشافات ونظریات مذہبی مسائل کو چیلنج کرتے نظر آتے ہیں، جدید سائنس نے مذہبی اعتقادات اور قطعیات کے بارے میں شکوک وشہبات پیدا کردئے ہیں۔ اس موضوع کو سمجھنے اور اس پر مباحثہ کے لئے مدرسہ ڈسکورس کے سرمائی دورہ میں چند سوالات پر غور وفکر کی دعوت دی گئی  جودرج ذیل ہیں:

  1. ایسے کون سے سوالات ہیں جن میں سائنسی اكتشافات اور نظریات، براہ راست مذہبی اعتقاد کو چیلنج کرتے ہیں؟
  2. ایسے کون سے سوالات ہیں جن میں سائنس، بالواسطہ مذہبی اعتقاد کو کمزور کرنے کا موجب ہے اور کیسے؟
  3. جدید سائنس مجموعی طور پر انسانی ذہن پر جو اثرات مرتب کرتی ہے، وہ مذہبی اعتقاد کے لیے کس پہلو سے سازگار ہیں اور کس پہلو سے ناسازگار؟
  4. سائنس کے کون سے پہلو ہیں جو جدید دور میں مذہب کو کمزور کرنے والے دیگر عوامل کے معاون اور مددگار بنتے ہیں؟
  5. کیا مذہب کے حوالے سے قدیم دور سے جو بعض سوالات چلے آ رہے ہیں، جدید سائنس ان کو کسی نئے زاویے سے تقویت دیتی ہے؟ اور کیسے؟

اس مباحثہ میں شرکاء نے جو نکات اور توضیحات پیش کیں، ان کا خلاصہ ذیل کی سطروں پیش کیا جاتا ہے:

پہلے سوال  کے تحت  وہ  مسائل آتے ہیں جن کا تعلق زیادہ تر اعتقادات سے ہے۔وحی، علم وہبی،  آخرت اور معاد کے تعلق سے جو اعتقادات مذہب کی اساسیات میں شمار ہوتے ہیں، سائنسی منہج کے مطابق ان کو ثابت کرنا مشکل سمجھاجاتا ہے۔ اہل سائنس ان مسائل کو اہل مذہب کے خام خیالات  واوہام اور خوش اعتقادیوں کے خانہ میں ڈالتے ہیں، جب کہ اہل مذہب ان کو نصوص کے مطابق تسلیم کرنا ضروری خیال کرتے ہیں۔  مولانا امانت علی  قاسمی نے  اس تعلق سے ’’مفاتیح خمسہ ‘‘کی مثال پیش کی، جن کے بارے میں علمائے مذہب کا ماننا ہے کہ بارش کے وقت کی پیشین گوئی کوئی نہیں کرسکتا، اسی طرح جنین کے بارے میں کوئی انسان دعوی کے ساتھ تفصیلات نہیں بتاسکتا۔ جب کہ جدید سائنس نے ان دونوں اور ان کے علاوہ دوسرے مسائل کو اپنے روز مرہ کے  اکتشافات میں شامل کرلیا ہے۔ اسی قبیل کا ایک مسئلہ تخلیق کائنات کے مراحل کا ہے۔ جس کے تعلق سے مذہبی قطعیات  اور سائنسی توضیحات میں ابھی تک تطبیق نہیں دی جاسکی ہے۔ آسمان کا وجود، سات آسمانوں کی حقیقت،سات زمینوں کا تصور، یہ سب ایسے مسائل ہیں، جن میں سائنسی کاسمولوجی قرآنی کاسمولوجی کو چیلنج کرتی نظر آتی ہے۔ مولانا جاوید اقبال  کے مطابق  ’’تخلیق کائنات کا قرآنی تصور نظریہ ارتقاء کے خلاف ہے‘‘۔

دوسرے سوال کے تحت جومسائل  آتے ہیں  ان کے مطابق سائنس بالواسطہ طورپر مذہبی اعتقاد کو کمزور کرنے کا موجب ہے، مثال کے طور پر معجزات اور خارق العادت واقعات  کو اگرچہ جدید سائنس اپنے دائرہ تحقیق میں نہیں لاتی، لیکن کائنات میں علت ومعلول کا ایک مستقل نظام پیش کرتی ہے، اور جب وہ اس نظام کے  اصولوں کو قطعی مانتی ہے، تو اس کا سیدھا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ معجزات کا رد کررہی ہے۔ بقول مولانا جاوید اقبال قاسمی :یہ کہا جاسکتا ہے کہ مذہب کے مابعد الطبیعاتی نظام کو جدید سائنس بالواسطہ طورپر مکمل طریقہ سے ڈھانے کی کوشش کرتی ہے۔

تیسرے  سوال کے تحت اس بات پر غور کیا گیا کہ سائنسی ترقی کی موجودہ صورتحال مذہب کے لئے کس حد تک موافق ہے اور کس حد تک مخالف۔ مولانا نوشاد نوری  اور بعض دوسرے احبا  ب  کی رائے میں ’’سائنس کی وجہ سے مذہب کے بہت سارے پہلووں کو سمجھنا آسان بھی ہوگیا ہے۔قرآن مجید میں آیت تخلیق کی توضیح سائنسی تحقیق ہی کی وجہ سے ہوسکی ہے۔یہ مذہب اور سائنس کے تعلقات کا مثبت اور سازگار پہلو ہے‘‘۔مولانا جاوید اقبال کے مطابق ’’سائنس کی وجہ سے روشن خیالی آئی ہے۔ لوگ خرافات سے دور ہورہے ہیں۔ خود مذہبی روایت میں جو بعید از قیاس حکایات اور کہانیاں رائج تھیں، ان کا زور کم ہوا ہے، لوگوں میں حقیقت پسندی پیدا ہوئی ہے‘‘۔ یہ بات ہم سب کو محسوس ہوتی ہے کہ سائنسی اکتشافات نے  مذہبی اساطیر کے مقابلے میں مذہبی عقلیات کو قبولیت عطا کی ہے۔

لیکن یہ پہلو بھی اہم ہے کہ سائنسی منہج کے نام پر اظہار خیال کی آزادی  کے نام سے  مذہبی معتقدات کو نشانہ  بنانے کی روش چل پڑی ہے۔ اس دوسرے پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے  بعض شرکا کی رائے تھی کہ سائنسی ترقی کا ’’منفی پہلو یہ ہے کہ روشن خیالی حد سے زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے دین سے دوری پیدا ہوتی ہے‘‘۔مولانا نوشاد نوری نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اکتشافات اور انکشافات کی چکاچوند میں  ’’لوگ سائنس کو تنقید سے بالا تر سمجھنے لگے ہیں، سائنس کے بارے میں یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ وہ آخری حقیقت ہے، ہمیں ہر حال میں اس کا دفاع کرنا چاہئے ‘‘۔ حالاں کہ یہ طریقہ بجائے خود سائنسی منہج کے خلاف ہے۔

چوتھے سوال پر غور کرتے ہوئے سائنس کے ایسے کئی پہلو ؤں کی نشاندہی کی گئی، جو جو جدید دور میں مذہب کو کمزور کرنے والے دیگر عوامل کے معاون اور مددگار بنتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ سائنس نے مذہب کو کمزور رکرنے میں آزاد خیالی کی معاونت کی ہے۔اس نے انفرادیت کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ جب کہ مذہب اجتماعیت پر ابھارتا ہے۔ سماجی مفادات کو فرد کے مفادات پر ترجیح دیتا ہے۔ وہ روزانہ کی بنیاد پر سماجی اجتماعات منعقد کراتا ہے۔ بندوں کے حقوق وواجبات کی ادائیگی کو فرض قرار دیتا ہے، جب کہ جدید ذہن اقرباء کے حقوق کی ادائیگی کو بھی صرف اخلاقی قدروں کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ جن کی تکمیل ایک اضافی خوبی ہے، اور بس۔

پانچویں سوال میں یہ بات سامنے آئی کہ مذہب کے حوالے سے قدیم دور سے جو بعض سوالات چلے آ رہے ہیں، جدید سائنس ان کو بھی تقویت دیتی ہے،  مثلا   قدیم فلسفہ میں ہم کو لذتیت کا فلسفہ مذہب کی بنیاد کو ڈھانے والا ملتا ہے، جس کو ٹکنالوجی کی ترقی کی وجہ سے کافی بڑھاوا ملا ہے۔

یہ وہ مسائل ہیں، جن کے جوابات اہل مذہب سے مانگے جارہے ہیں۔ان کو ان کے بارے میں جدید ذہن کو مطمئن کرنے والی ت تعبیرات واویلات پیش کرنی ہیں۔ کیوں کہ سائنس کا دائرہ کار بڑھتا جارہا ہے، اور وہ نت نئے زاویوں سے مذہب کے لئے چیلنج  بنتی جارہی ہے۔ جناب سیف الہادی صاحب نے اس خیال کا اظہار کیا  کہ ’’سائنس کے ارتقا کی وجہ سے جن مذہبی مسائل میں سوالات پیدا ہوتے ہیں، ان کی تعداد میں اب اضافہ ہوگیا ہے۔ مثال کے طور پر اب ایسی ٹکنالوجی سامنے آچکی ہے، جس کے ذریعہ جین ایڈیٹ کردیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا مستقبل میں ڈیزائن کیے گئے بچوں کی پیدائش ممکن ہوجائے گی، جن کی ساخت،آنکھوں کا رنگ اور آئی کیو لیول ہم متعین کرسکیں گے، اور پہلے سے ان کی اطلاع بھی دے سکیں گے۔گویا قدرت میں انسانی مداخلت شامل ہوجائے گی‘‘۔ یہ اور اس قسم کے مسائل کا شمار ان مسائل میں ہوتا ہے، جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ ان کی وجہ سے خدا کی قدرتِ تخلیق اور صفت علم میں مشارکت پائی جاتی ہے۔

مولانا امانت علی نے اس پورےمباحثہ کے بارے میں ایک اجمالی رائے دیتے ہوئے کہا کہ ’’سائنس اور مذہب کے اختلاف میں لوگ دو گروہوں میں بٹ جاتے ہیں، ایک گروہ کہتا ہے کہ سائنس ہی سب کچھ ہے، باقی کوئی چیز حقیقت بیان نہیں کرتی۔ دوسرا گروہ وہ ہے، جومذہب کی تعبیرات کو مسلمات کی حیثیت سے لیتا ہے، اورکہتا ہے کہ اس میں کسی بھی طرح  کی تبدیلی نہیں ہوسکتی۔  ان دونوں کے درمیان کچھ لوگ ہوتے ہیں جو مذہب اور سائنس کو قریب تر کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اور ان نصوص کی تشریح کرتے ہیں، جہا ں تعارض معلوم ہوتا ہے۔ ان مفکرین نے بڑی قابل قدر کوششیں کی ہیں، اور تعارض کو دور کیا ہے۔اسی راستہ کو اختیار کرکے ہم مذہب سے مربوط رہتے ہوئے سائنس کے میدان میں آگے بڑھ سکتے ہیں‘‘۔

مولانا سید عبد الرشید

مولانا سید عبد الرشید نے مجمع الفتح الاسلامی دمشق سے علوم حدیث میں تخصص کیا ہے اور عالیہ یونیورسٹی کلکتہ میں اسلامیات کے استاذ کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔
rasheedsyed@aliah.ac.in

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں