Home » ڈاکٹر حمید اللہ مرحوم کے بعض تسامحات (۱)
تاریخ / جغرافیہ شخصیات وافکار

ڈاکٹر حمید اللہ مرحوم کے بعض تسامحات (۱)

 

ڈاکٹر حمید اللہ کا حضرت علی رضی اللہ عنہ پر تقریبا پینتالیس صفحات کا ایک مقالہ ہے، ویسے تو اس میں متعدد تسامحات سر زد ہوئے ہیں مگر بعض کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ سیرت اور تاریخ کے مسلمات میں سے یہ بات ہے کہ حضرت علی وفاطمہ رضی اللہ عنہما کا حجرہ بھی ازواجِ مطہرات کے حجرات کے درمیان میں اور حجرۂ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ تھا، اس وقت وہ اس چار دیواری میں شامل ہے جو مسجدِ نبوی کا حصہ نہیں ہے۔ مگر ڈاکٹر حمید اللہ کا کہنا ہے کہ علی وفاطمہ یہاں کچھ عرصہ ہی رہے اور غزوۂ بنو فینقاع کے بعد ان کا گھر بنو قینقاع میں شفٹ ہوگیا تھا ، چنانچہ رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم وہیں اپنی بیٹی اور نواسوں کو ملنے کے لیے جایا کرتے تھے۔ اس سلسے میں انہوں صحیح بخاری کی ایک روایت سے استدلال کیا ہے جو امام بخاری نے دو جگہ ذکر کی ہے ان میں سے پہلی جگہ کتاب البیوع باب ما ذکر فی الأسواق ہے، دوسری جگہ کتاب اللباس باب السخاب للصبیان میں ہے۔ ڈاکٹر حمید اللہ نے ان میں سے صرف پہلی روایت پر انحصار کیا ہے اور دوسری کی طرف ان کی توجہ نہیں گئی، پہلی روایت کے لفظ یہ ہیں
عن أبي هريرة الدوسي رضي الله عنه، قال: خرج النبي صلى الله عليه وسلم في طائفة النهار، لا يكلمني ولا أكلمه، حتى أتى سوق بني قينقاع، فجلس بفناء بيت فاطمة، فقال «أثم لكع، أثم لكع» فحبسته شيئا، فظننت أنها تلبسه سخابا، أو تغسله، فجاء يشتد حتى عانقه، وقبله وقال: «اللهم أحببه وأحب من يحبه»
جس کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ بنی قینقاع کے بازار میں تشریف لے گئے اور حضرت فاطمہ کے گھر کے باہر بیٹھ کر فرمایا کیا یہاں بچونگڑا ہے بچونگڑا (یعنی حضرت حسن)، حضرت فاطمہ کو انھیں باہر بھیجنے میں کچھ وقت لگا ، مجھے اندازہ ہوا کہ وہ انھیں نہلا رہی ہیں یا نئے کپڑے پہنا رہی ہیں۔ کچھ دیر حضرت حسن دوڑتے ہوئے آئے ، رسول اللہ ﷺ نے انھیں گلے لگایا اور چوما اور فرمایا اے اللہ میں ان سے محبت کرتا ہوں لہذا آپ بھی ان سے محبت کیجیے۔
اگر اکیلی اس روایت کو سامنے رکھا جائے تو بادی النظر میں یہی لگتا ہے کہ حضرت فاطمہ کا گھر بنو قینقاع میں تھا اور رسول اللہ ﷺ وہاں انھیں ملنے کے لیے گئے تھے۔ مگر ڈاکٹر حمید اللہ جیسے درایت پسند شخص نے اس طرف توجہ دینے کی زحمت نہیں فرمائی کہ یہ روایت حدیثی وتاریخی مسلمات کے خلاف ہے اس لیے کم از کم اس مقام پر بخاری کی کوئی شرح ہی اٹھا کر دیکھ لی جائے یا اس طریق کو دوسرے طرق سے ملا کر دیکھ لیا جائے۔ بخاری کے شارح داؤدی نے اس روایت کے تحت یہی لکھا ہے کہ حضرت فاطمہ کا گھر تو بنو قینقاع میں تھا ہی نہیں، لہذا یا تو یہاں اس روایت میں کوئی لفظ گرا ہوا ہے یا پھر راوی سے دو الگ الگ حدیثیں خلط ملط ہوگئی ہیں، یعنی بنو قینقاع جانے کا واقعہ بالکل الگ حدیث میں تھا اور فاطمہ وحسن کا واقعہ بالکل الگ، کسی راوی نے دونوں کو گڈ مڈ کردیا ، گویا داؤدی اسی حالت میں اس روایت کو قبول کرنے کے لیے کسی طرح تیار نہیں ہیں۔ داؤدی کوئی معروف سیرت نگار نہیں ہیں مگر جس تاریخی حس اور بداہت کو یہاں انھوں نے یہاں استعمال کیا ہے حیرت ہوتی ہے کہ ڈاکٹر حمید اللہ جیسے نام ور سیرت نگار کی یہ حس یہاں کیوں نھیں جاگی۔ حافظ ابن حجر عسقلانی اور علامہ عینی نے اس گتھی کو یوں سلجھایا ہے کہ داؤدی کے ذکر کردہ دو احتمالات (لفظ حذف ہونا یا دو حدیثوں کا خلط ملط ہونا) میں سے پہلا احتمال ہی یقینی اور متعین ہے، بخاری کے اس مقام پر درمیان میں لفظ چھوٹ گیا ہے۔ اس لیے کہ یہی واقعہ صحیح مسلم میں بھی ہے اس میں درمیان میں یہ جملہ بھی موجود ہے ثم انصرف حتی أتی فناء فاطمۃ الخ کہ پھر آپ (بنو قینقاع) سے واپس تشریف لائے یہاں تک کہ فاطمہ کے حجرے کے باہر پہنچے، اس کے بعد فاطمہ وحسن والے واقعہ کا ذکر ہے۔ حافظ کی پوری عبارت یہ ہے:
قوله حتى أتى سوق بني قينقاع فجلس بفناء بيت فاطمة فقال هكذا في نسخ البخاري قال الداودي سقط بعض الحديث عن الناقل أو أدخل حديثا في حديث لأن بيت فاطمة ليس في سوق بني قينقاع انتهى وما ذكره أو لا احتمالا هو الواقع ولم يدخل للراوي حديث في حديث وقد أخرجه مسلم عن بن أبي عمر عن سفيان فأثبت ما سقط منه ولفظه حتى جاء سوق بني قينقاع ثم انصرف حتى أتى فناء فاطمة وكذلك أخرجه الإسماعيلي من طرق عن سفيان
علامہ عینی نے عمدۃ القاری میں بھی یہی بات لکھی ہے۔ راقم الحروف کی طرف سے اضافہ یہ ہے کہ خود امام بخاری نے یہ مسئلہ یوں حل کردیا ہے کہ کتاب اللباس میں انھوں نے جو روایت ذکر کی ہے وہ بھی صحیح مسلم ہی کی طرح ہے، اس میں حضرت ابو ہریرۃ کہہ رہے ہیں فانصرف فانصرفتُ یعنی رسول اللہ ﷺ بھی بنو قینقاع سے واپس آئے اور میں بھی واپس آیا۔ اس کے علاوہ اس حدیث کے جتنے طرق میں بھی اس واقعے میں بنو قینقاع جانے کا ذکر ہے ان میں واپسی کا ذکر بھی لازما موجود ہے۔ بلکہ بعض روایتوں میں یہ بھی تصریح ہے کہ حضرت حسن کو بلوانے کا واقعہ مسجد (نبوی) میں پیش آیا ، کیونکہ حضرت فاطمہ کا حجرہ مسجد نبوی سے متصل تھا۔
شنید یہ ہے کہ ڈاکٹر حمید اللہ نے یہ مضمون ایک وقیع علمی مجموعے کے لیے لکھا تھا مگر انھوں نے اسے اس میں شامل نہیں کیا، اگر کردیتے تو یہ غلطی بہت بڑی علمی حقیقت بن جاتی کہ فلاں مجموعے میں یہ بات لکھی ہوئی ہے۔
یہاں حیرت کی ایک بات یہ بھی ہے ڈاکٹر صاحب نے حوالہ یوں دیا ہے ’’محمد بن اسماعیل البخاری، الصحیح، – ۳۴ – ۴۹ ۵ وغیرہ‘‘ اگرچہ میں اس حوالے کو سمجھ نہیں سکا تاہم اتنی بات واضح ہے کہ ڈاکٹر صاحب ایک سے زائد جگہ کا حوالہ دے رہے، حقیقت یہ ہے کہ جب اس حدیث کو خود بخاری میں یا کسی اور جگہ ایک سے زائد جگہ دیکھا جائے تو نتیجہ ڈاکٹر کے نتیجے سے بالکل الٹ نکلتا ہے، اب یا تو ڈاکٹر صاحب نے بخاری کے کسی محقق کے تخریجی حواشی پر اعتماد کرتے ہوئے دوسری جگہ خود دیکھے بغیر حوالہ دے دیا ہے یا انھوں نے اپنی یاد داشت کی بنیاد پر حوالہ دیا ہے یا کچھ اور ہوا ہے اللہ ہی بہتر جانتے ہیں۔
اس سے بھی بڑی حیران کن بلکہ پریشان کن فروگزاشت یہ ہے کہ اس کے بعد ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں ’’حضرت علی کی سوقِ بنی قینقاع منتقلی کے بعد ان کا تخلیہ کردہ کمرہ رسولِ اکرم ﷺ کے لیے زور یعنی ملاقات گاہ بن گیا۔ جیساکہ سمہودی میں ہے‘‘۔ سمہودی کی وفاء الوفا بأخبار دار المصطفی تاریخِ مدینہ منورہ پر بہت شان دار کتاب ہے، اس کا خلاصہ بھی انھوں نے خلاصۃ الوفا کے نام سے لکھا ہے۔ میرا خیال ہے کہ وفاء الوفا کا اردو ترجمہ لازماً ہوا ہوگا۔ حیران کن اور پریشان کن بات یہ ہے کہ سمہودی کی اس کتاب اور اس کے خلاصے میں اس بات کا نام ونشان تک نہیں ہے جو ڈاکٹر صاحب نے لکھ دی ہے۔ سمہودی نے اپنی کتاب کے چوتھے باب کی دسویں فصل حجرۂ فاطمہ کے بارے میں قائم کی ہے اور باقی کتاب کی طرح یہ فصل بھی کافی دلچسپ ہے۔ اس میں انھوں حجرۂ فاطمہ کی وہی جگہ بتائی ہے جو عام طور پر مشہور ومعروف ہے۔ بیت فاطمہ سے متعلق پیش آنے والے واقعات بھی ذکر کیے ہیں وہ بھی سمہودی کے مطابق یہیں پیش آئے، رسول اللہ ﷺ جب بھی سفر سے واپس تشریف لاتے تو سب سے پہلے اپنی بیٹی فاطمہ ہی کے گھر جاتے یہ سنت بھی اسی جگہ سے متعلق ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے سمہودی کے حوالے سے لکھا ہے کہ حضرت علی کی بنو فینقاع منتقلی کے بعد اس گھر کو زور یعنی ملاقات گاہ بنا لیا گیا تھا، جبکہ سمہودی کی کلام سے یہ بات دور دور تک نکلتی ہوئی نظر نہیں آتی ، اس میں نہ تو حضرت علی کے دوسری جگہ منتقل ہونے کا ذکر ہے نہ ہی بنو قینقاع میں حضرت علی کے کسی گھر ذکر ہے اور نہ ہی حجرات میں سے کسی حجرے کو ملاقات گاہ بنانے کا کوئی ذکر ہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ سمہودی حجرۂ فاطمہ کا محلِ وقوع سمجھارہے ہیں۔ اس سلسلے میں انھوں نے ایک جملہ یہ بھی لکھا ہے کہ یہ گھر ’’الزور‘‘ کے پاس تھا، میں اگر کہوں کہ میرا گھر مسجد کے ساتھ ہے تو اس کا یہ مطلب کیسے بنے گا کہ میرے گھر کو مسجد بنالیا گیا ہے۔ سمہودی نے اس فصل کا آغاز ان لفظوں سے کیا ہے:
أسند يحيى عن عيسى بن عبد الله عن أبيه أن بيت فاطمة رضي الله عنها في الزور الذي في القبر، بينه وبين بيت النبي صلّى الله عليه وسلّم خوخة. وأسند عن عمر بن علي بن عمر بن علي بن الحسين قال: كان بيت فاطمة في موضع الزور مخرج النبي صلّى الله عليه وسلّم، وكانت فيه كوة إلى بيت عائشة رضي الله عنها، فكان رسول الله صلّى الله عليه وسلّم إذا قام إلى المخرج اطلع من الكوة إلى فاطمة فعلم خبرهم
یہ عبارت پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ حضرت فاطمہ کا گھر مسجد سے متصل ہے بنو قینقاع یا کسی اور جگہ نہیں۔ زور سے مراد سمہودی کی وہ نہیں جو ڈاکٹر صاحب نے سمجھی ہے یعنی ملاقات گاہ ، بلکہ خود آگے چل کر سمہودی نے صراحت کے ساتھ الزور کی تشریح کرتے ہوئے کہا ہے أعني الموضع المزور شبه المثلث في بناء عمر بن عبد العزيز في جهة الشام۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ عمر بن عبد العزیز کے دور کی تعمیر میں یہاں کوئی تکون سی بن گئی تھی جو سمہودی کے زمانے تک باقی تھی اسے زور کہا جارہا ہے یعنی مڑی ہوئی جگہ۔ یہ زور عمر بن عبد العزیز کے دور میں بنا ہے نہ کہ عہدِ رسالت میں اور یہ زور بیت فاطمہ کے قریب ہے نہ کہ خود بیتِ فاطمہ کو زور بنایا گیا ہے۔
اصل صورتِ حال یہ تھی کہ جہاں رسول اللہ ﷺ اور شیخین آرام فرما ہیں یہاں حضرت عائشۃ رضی اللہ عنہا کا حجرہ تھا، اس حجرے سے پیچھے شمال کی طرف یعنی قبلے کی الٹ جہت ایک چھوٹی گلی تھی جہاں سے آپ مسجد میں تشریف لاتے تھے ، اس سے پیچھے شمال کی طرف حضرت فاطمہ کا حجرہ تھا اس سے پیچھے مزید شمال کی طرف محرابِ تہجد تھا۔ باقی حجرات کی جگہ تو اس وقت مسجد کا حصہ ہے مگر حجرہ عائشہ اور حجرۂ فاطمہ اس وقت جالیوں کے اندر ہے، اور جالیوں والے حصے کی پچھلی جانب کچھ عرصہ پہلے تک محرابِ تہجد موجود تھی مگر اب اسے مصاحف کے ریک رکھ کر چھپا دیا گیا ہے۔ حضرت فاطمہ کا گھر حجرۂ عائشہ اور محرابِ تہجد میں درمیان بتایا گیا ہے۔
اگر آپ نیچے لگی تصویر میں دیکھیں تو اس کو یوں سمجھیں کہ آپ ریاض الجنہ میں کھڑے ہیں ، اس تصویر میں جہاں تین نمبر لکھ کر تیر کا نشان لگایا گیا ہے اور جہاں مصاحف کی الماری رکھی ہوئی نظر آرہی ہے یہاں وہ چھوٹی سی گلی تھی جہاں سے رسول اللہ ﷺ مسجد کی طرف تشریف لاتے تھے، اللہ ترکوں پر رحم کرے کہ انھوں نے یہاں جالی بھی دروازے کے انداز میں بنائی ہے۔ اگر آپ مصاحف کی اس الماری کی طرف منہ کرکے کھڑے ہوں تو دائیں طرف جو جالیوں کے اندر کا حصہ نظر آرہا ہے یہاں حجرہ عائشہ تھا اور بائیں طرف جو جالیوں کے اندر کا حصہ ہے جو تصویر میں نظر نہیں آرہا یہاں حجرۂ فاطمہ تھا۔ مصحف والی الماری کے پیچھے گلی تھی ، اس گلی میں ایک کھڑکی حجرۂ فاطمہ کی طرف کھلتی تھی جہاں سے اللہ کے نبی آتے جاتے اپنی بیٹی کو دیکھ کر آنکھیں ٹھنڈی کیا کرتے تھے۔
اگر زورکے ڈاکٹر حمید اللہ والے معنی بھی مراد لیں تب بھی اسی تصویر میں آپ ملاحظہ کریں جہاں لکیر لگا کر نمبر ایک لگایا گیا ہے یہ اسطوانۃ الوفود ہے، مسجد نبوی کے اندر اس ستون کے پاس آپ وفود سے ملاقاتیں کیا کرتے تھے اس کے علاوہ کرتا دھرتا صحابہ بھی یہاں آکر بیٹھا کرتے تھے، ملاقات کی جگہ مسجد اندر تھی ، اور آپ تصویر میں دیکھ سکتے ہیں اسطوانۃ الوفود حجرہ فاطمہ کے بالکل ساتھ ہے، یہ مطلب بنے گا سمہودی کی اس بات کا کہ حجرہ فاطمہ زور کے پاس ہے، یعنی مسجد کے اس حصے کے قریب جہاں وفود سے ملاقات کی جات تھی۔ بہر حال سمہودی کے ہاں اس بات کا دور دور تک نام ونشان نہیں ہے کہ حضرت علی وفاطمہ یہاں سے منتقل ہوگئے تھے اور ان کے گھر کو ملاقات گاہ بنا لیا گیا تھا۔ نا معلوم ڈاکٹر صاحب کو کیوں اصرار ہے کہ اس گھرانے کو جوارِ رسول سے کہیں دور منتقل کیا جائے۔

مولانا مفتی محمد زاہد

مولانا مفتی محمد زاہد، ممتاز عالم دین ہیں اور جامعہ اسلامیہ امدادیہ فیصل آباد میں شیخ الحدیث کے منصب پر تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
zahidmdadia@outlook.com

ا کمنٹ

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں

  • لكن قال ابن شبة قبل ذلك ما لفظه: واتخذ علي بن أبي طالب بالمدينة دارين إحداهما دخلت في مسجد رسول الله صلّى الله عليه وسلّم، وهي منزل فاطمة بنت رسول الله صلّى الله عليه وسلّم التي كان يسكن، وموضعها من المسجد بين دار عثمان بن عفان التي في شرقي المسجد وبين الباب المواجه دار أسماء بنت حسن بن عبد الله بن عبيد الله بن عباس في شرقي المسجد، والآخرى دار علي التي بالبقيع، وهي بأيدي ولد علي على حوز الصدقة، اه.
    وفاء الوفاء للسمهودي ج ٢ ص ٥٩.
    باقی مقالے میں مذکور اعتراضات کا جواب فرصت میں دوں گا ان شاءاللہ۔
    باقی یاد رہے کہ ڈاکٹر صاحب رحمۃ اللہ علیہ ایک انسان ہی تھے، اور انسان ہی سے بھول چوک سرزد ہوتی ہیں۔ اور انسان کی حس بعض اوقات ساتھ نہیں دیتی۔