شاہ وجیہ الدین احمد خان رامپوریؒ کا تعلق رام پور سے تھا۔ آپ کا علماء رامپور میں ایک اہم مقام ہے نیز مدرسہ فرقانیہ رامپور کی بنیاد بھی آپ نے رکھی۔ آپ کا انتقال ۱۹۸۷ میں ہوا۔ “مسلک ارباب حق” شاہ وجیہ الدین کی عقائد کے اوپر تحریر کردہ کتاب ہے۔ جس میں سنی عقائد کو بیان کیا گیا ہے۔چار سو صفحات سے زائد اس کتاب کو پاکستان میں دارالاسلام لاہور نے شائع کیا ہے۔
اس کتاب کی تبویب اور اس پر حواشی کا اہتمام مولانا وجاہت اللہ خان وجیہی نے کیا ہے۔جس میں کتاب میں بہت سے امور کو مزید وضاحت اور تفصیل سے بیان کیا ہے۔
کتاب شروع ہوتی ہے مولانا ریاض الدین احمد خان قادری مجددی صاحب کے تعارف سے جس میں انہوں نے صاحب کتاب شاہ وجیہ الدین احمد خان رامپوری رح کا تعارف اور ان کی علمی زندگی پر لکھا ہے۔ شاہ وجیہ الدین کی خطابت اور تحریروں کی تعریف کرتے ہوئے انہوں نے لکھا کہ شاہ وجیہ الدین رامپوری کی تحاریر علماء دیوبند و بریلوی حضرات دونوں سے فائق ہیں۔ بلکہ شاہ وجیہ الدین رامپوری کو انہوں نے اس طرح جامع الکمالات شخصیت قرار دیا ہے جیسے کہ شیخ مجدد الف ثانی رحمہ اللہ تھے۔ جن علوم پر امام ربانیؒ کو دسترس تھی ان کی نیابت ایسی ہی دسترس شاہ وجیہ رامپوری کو بھی تھی۔
میرے خیال سے مولانا ریاض مجددی صاحب کو اپنے شیخ کی مدح کا پورا حق حاصل ہے، اور مدح سرائی میں مبالغہ آرائی کا آنا عام سی بات ہے۔ یہ معاملہ مولانا ریاض مجددی صاحب کے تعارف میں پایا جاتا ہے۔ حضرت مجدد الف ثانیؒ نے ایک بڑے طبقے اور خطے کو متاثر کیا ہے ان جیسی جامع الکمالات اور مجمع الصفات شخصیت کے اوپر شاہ وجیہ الدین رامپوریؒ کو قیاس کرنا بھلے نیابت میں ہی کیوں نہ ہوں، اس کو مولانا ریاض مجددی صاحب کی شدت محبت اور مبالغہ آمیز عقیدت کے علاوہ کسی اور لفظ سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا۔
مولانا ریاض مجددی صاحب نے رام پور کے مخصوص مزاج اور اعتدال و میانہ روی کا ذکر کیا ہے۔ دیوبند بریلی کشمکش میں علماء رامپور کا رجحان الگ حیثیت رکھتا ہے، جس پر پاکستان میں عوامی حد تک کافی کم معلومات پائی جاتی ہیں۔ یہ کتاب اس کمی کو کافی حد تک پورا کرتی ہے۔
ہند کی معروف علمی شخصیت پروفیسر نثار احمد فاروقی صاحب نے اس کتاب کا پیش لفظ لکھا ہے جو کافی جاندار ہے۔ پروفیسر فاروقی صاحب نے شاہ وجیہ الدین احمد خان رامپوری رح کی بلند علمی شخصیت کا اعتراف کیا ہے۔ شاہ وجیہ الدین رامپوری رح کے بارے میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ آپ نے دورہ حدیث دارلعلوم دیوبند میں کیا آپ مولانا انور شاہ کشمیری کے شاگرد ہیں۔ پروفیسر نثار احمد فاروقی صاحب نے کتاب کے مندرجات پر بھی اجمالی گفتگو کی ہے جس کو پڑھنے سے کتاب کا عمومی تعارف سامنے آ جاتا ہے۔ بریلوی دیوبندی میں عبارات کا مسئلہ ہو یا پھر فتوی تکفیر کا، اس کے علاوہ رسوم کا اختلاف ہو یا پھر استغاثہ و توسل پر اختلاف ہو، تقلید کا مسئلہ ہو، ان سب مسائل پر مصنف کے نکتہ نظر کو پروفیسر صاحب نے اپنے الفاظ میں عمدگی سے بیان کیا ہے۔
اس کے بعد کتاب کے مرتب مولانا وجاہت اللہ خان وجیہی نے اپنی معروضات پیش کی ہیں اور بتایا ہے کہ اس کتاب میں قدیم علماء رامپور، علماء فرنگی محل،علماء لکھنؤ، علماء خیر آباد و علی گڑھ سمیت جمہور اہلسنت کا مسلک بیان ہوا۔ اُردو زبان میں ان قدیم جمہور علماء اہلسنت کو مفصل طور پر بیان کرنے والی یہ اولین کتاب ہے۔
مولانا وجہیی نے لکھا کہ دیوبند بریلی اختلاف میں اصول سے زیادہ تکبر و نخوت اور ذاتی خود نمائی کا زیادہ اثر ہے۔ اس جھگڑے کو ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ دونوں فریقین کے علماء کی تحقیقات کو اجتہادی قرار دیا جائے تو تنازعہ حل ہو سکتا ہے۔ جب اس کو تقلیدی حیثیت دینے کی کوشش کی جائے تو تنازعہ طول اختیار کرتا ہے۔
مولانا وجہیی کا کہنا ہے کہ علماء رامپور علماء دیوبند و بریلی سے سینئیر تھے۔ شیخ رشید احمد گنگوہی نے مولانا شاہ احمد سعید مجددی رامپوریؒ سے اکتساب فیض حاصل کیا جبکہ مولانا احمد رضا خان بریلویؒ نے مدرسہ رام پور میں علامہ عبدالعلی خانؒ ریاضی دان سے علم حاصل کیا۔ اس کے علاوہ مولانا بریلویؒ مفتی ارشاد حسین رامپوریؒ کے بھی بڑے معترف تھے اور ان سے علمی استفادہ کیا کرتے تھے۔
رام پور میں علمی ماحول اور تعلیم و تدریس ک سلسلہ دیوبند و بریلی کے مدارس سے بہت پہلے کا موجود تھا۔ اس لیے علماء رامپور کو ان علاقوں کی طرف علمی حاجت کی کبھی ضرورت ہی پیش نہیں آئی کیونکہ علماء رامپور دونوں گروہوں کے علماء سے ناصرف علمی بلکہ زہد و تقویٰ میں بھی فائق تھے۔
مولانا وجہیی نے اس کے بعد غیر مقلدین پر بھی نقد کیا ہے بالخصوص ان غیر مقلدین پر جو حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ علیہ سے بغض و عناد رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ شیخ محمد بن عبد الوہاب نجدی اور وہابی تحریک پر بھی مولانا وجہیی نے نقد کیا ہے۔ اور بتایا ہے کہ شاہ اسماعیل دہلوی اس ہی سے متاثر ہوئے اور پھر شدت کی یہی روش کچھ علماء دیوبند میں بھی داخل ہوئی۔
مولانا وجہیی نے دعویٰ کیا ہے کہ علماء رامپور علماء دیوبند و بریلی سے ہر میدان میں بہت افضل و اعلیٰ ہیں۔ میرا خیال ہے یہ دعویٰ بھی تحقیق طلب ہے ٹھیک ہے مفتی ارشاد حسین رامپوریؒ اور پھر اگے مولانا فضل حق رامپوریؒ تک بات تسلیم کی جا سکتی ہے مگر اس کے بعد علماء رامپور کا دونوں طبقات بالخصوص علماء دیوبند سے کام کا موازنہ کیا جائے تو علماء رامپور کا کام بالکل نظر نہیں آتا بلکہ دوسرے طبقے سے بھی موازنے میں یہ نظر نہیں آتے، اُردو میں حدیث کی شروحات ہوں یا پھر قرآن مجید کی تفسیر غیر دیوبندی حنفی مسلک کی ترجمان تفاسیر و شروحات میں بھی بعد والے علماء رامپور کا حصہ نظر نہیں آتا۔ ہاں یہ بات ماننے والی ہے کہ مدرسہ رام پور بہت پہلے کا آباد تھا جس سے کثیر علماء و مشائخ سامنے آئے اور انہوں نے اپنا علمی و روحانی فیض آگے بھی جاری کیا جس سے علماء بریلی بھی مستفید ہوئے اور علماء دیوبند بھی۔ مگر باقی مولانا وجہیی کا دعویٰ دلیل کا محتاج ہے۔
حرفے چند کے نام سے ایک مختصر تحریر جناب سراج الدین امجد صاحب کی بھی ہے۔جو کہ پاکستانی ایڈیشن کا حصہ ہے ۔جس میں رام پور کی علمی تاریخ ، یہاں سے سامنے آنے والے محدثین و فقہاء میں سے کچھ اہم شخصیات کے اسماء گرامی کا ذکر کیا ہے۔ پھر یہ بھی بتایا ہے کہ علماء رام پور پر علماء دیوبند و بریلی دونوں کو اعتماد تھا اس لیے یہ نزاع کے بہترین منصف بن سکتے ہیں۔
رام پور کے فاضلین اور متوسلین کی فہرست میں مفتی دیدار علی شاہ الوریؒ ،علامہ سعید احمد کاظمیؒ اور علامہ غلام محمد گھوٹویؒ جیسے بڑے نام شامل ہیں۔ جبکہ پاکستان میں مصنف کتاب شاہ وجیہ الدین رامپوری کے براہ راست شاگردوں میں مفتی مسعود علی قادری اور مولانا حامد علی خان کا نام بھی آتا ہے۔ محترم سراج الدین امجد صاحب نے شاہ وجیہ الدین رامپوریؒ کی سلامت روی اور محققانہ بصیرت کی بھی تعریف کی ہے۔ اس کتاب کی پاکستان میں اشاعت پر انہوں نے دارالاسلام کو بھی خصوصی داد دی ہے۔محترم سراج الدین امجد صاحب کا یہ مقدمہ پاکستان میں کافی اہم سمجھا گیا اور ان کی اس مسئلہ بارے میں جو رائے ہے اس کی تائید اس کتاب سے ہوتی ہے۔
کتاب کا پہلا باب لوازم انسانیت کے نام سے ہے۔ اس باب میں انسانی زندگی اور اس سے وابستہ امور جن میں معاش کے لیے حلال ذرائع اختیار کرنا,قرض سے بچنا، متانت وتہذیب کے ساتھ شکر ادا کرنا سمیت کئی باتوں کا ذکر ہے۔
ان میں سے ایک اہل خانہ سے معاملہ ہے جس میں شاہ وجیہ الدین رامپوریؒ کہتے ہیں اہل خانہ کی خدمت اور بچوں کی تعلیم و تربیت کو تمام اخراجات پر مقدم رکھنا چاہیے اور اس میں بخل اور اسراف دونوں سے بچنا چاہیے۔
اپنی اولاد کی صحبت اور اس کے دوستوں کے انتخاب پر بھی نظر رکھنی چاہیے کیونکہ بری صحبت سے بچنے کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تلقین فرمائی ہے۔اس کے ساتھ عورتوں سے حسن سلوک پر بھی شاہ صاحب نے گفتگو کی ہے۔ عزیز و اقارب سے حسن سلوک بھی لوازمات میں سے ہے، دوست و احباب کے بارے میں شاہ صاحب رح نصحیت کرتے ہیں کہ کوشش کریں کہ زیادہ دوست نہ بنائیں کیونکہ اس سے حق دوستی ادا کرنے میں مشکل پیش آتی ہے۔ خوش اخلاق دوست اللہ تعالیٰ کا انعام ہوتے ہیں ان کی صحبت سے دیانت و امانت سلامت رہتی ہے۔ اس جگہ شاہ صاحب نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی مابین دوستی کا ذکر کیا ہے اور ساتھ ہی حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے افضل الامت ہونے کو بھی بیان کیا ہے۔ عقیدہ افضلیت پر آگے بھی کئی جگہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی افضلیت کو واضح انداز میں مذہب اہلسنت قرار دیا ہے۔
شاہ صاحب نے ملکی قانون کے احترام کا بھی اس باب میں ذکر کیا ہے۔ جھوٹے مقدمات سے ہر حال میں اجتناب کرنے کا کہا ہے اور لکھا ہے کہ اپنا جانی و مالی نقصان برداشت کر لیں مگر جھوٹی شہادت سے پرہیز کریں۔
معاملات و حسن معاشرت کے حوالے سے شاہ وجیہ الدین احمد خان رامپوریؒ کا یہ باب بنیادی مگر ٹھوس باتوں پر مشتمل ہے اور اس حوالے سے اسلامی تعلیمات کو بھی بخوبی بیان کیا گیا ہے۔اس کے بعد عقائد کے مسائل پر گفتگو کی گئی ہے۔
سب سے اول ذات باری تعالٰی آتی ہے۔ اس سے متعلقہ عقائد میں وجود باری تعالیٰ کو مرکزی اہمیت کے پیش سب سے پہلے بیان کیا گیا ہے۔ اس پر شاہ صاحب لکھتے ہیں
“اللہ تعالیٰ یقینا موجود ہے. اس کے وجود میں کوئی تردد اور تامل نہیں، نیز اس کے وجود کی نہ ابتدا ہے اور نہ انتہا۔ وہ اپنے وجود میں کسی کا محتاج نہ تھا، نہ ہے اور نہ آئندہ ہوگا۔ وہ ہمیشہ سے ہے اسی کو ازلی کہتے ہیں وہ ہمیشہ رہے گا اس کو ابدی کہتے ہیں”
وجود باری تعالیٰ کے بعد عقیدہ توحید کا بیان ہے۔ کیونکہ توحید اسلام کا مرکزی و بنیادی عقیدہ ہے۔اس کو مصنف نے کچھ اس انداز سے ذکر کیا ہے
“اہل اسلام کے نزدیک موجد کائنات، خالق موجودات صرف ایک ہی ذات ہے اور وہ ذات پاک قدیم ہے اس کے لیے نہ کبھی عدم ہوا نہ ہے اور نہ کبھی آئندہ ہوگا”
عقیدہ توحید کو آگے مزید مصنف نے تفصیل سے ذکر کیا ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی صفات و اسماء پر بات کرتے ہوئے لکھا ہے کہ بعض اسماء کا غیر اللہ کے لیے استعمال کسی صورت جائز نہیں جیسے کہ رحمن، الٰه،معبود، مسجود، رب العالمین، عالم الغیب و الشھادۃ، خالق کونین، مالک دو جہاں، رزاق مطلق۔ مصنف نے لکھا کہ ان اسماء میں سے کسی کو بھی غیر اللہ کے لیے اختیار نہیں کیا جائے گا ورنہ یہ کھلا ہوا شرک یا شرک کا خطرہ ہوگا۔
شرک کی تعریف پر مصنف نے علامہ تفتازانیؒ کی تحقیق نقل کی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو واجب الوجود یا معبود سمجھنا شرک ہے۔ یہ تو شرک جلی ہے اس کے ساتھ ساتھ شرک خفی پر بھی مصنف نے لکھا ہے یعنی کہ ریا کاری کے طور پر عبادت کرنا۔ یہ شرک کی زیادہ خطرناک صورت ہے کیونکہ شیطان کا وار یہاں زیادہ خطرناک انداز میں و چلتا ہے اور انسان گمراہی کے گڑھے میں گر جاتا ہے کہ اس کو احساس ہی نہیں ہوتا۔ پھر شرک جلی اپنی صورت کے لحاظ سے ہی اتنا مکروہ اور بھیانک ہوتا ہے کہ دیکھنے والے کے سامنے ہی اس کی کراہت واضح ہوتی ہے جبکہ شرک خفی کی حقیقت بھی رب تعالیٰ جانتا ہے اس لیے یہاں اصلاح کا اس طرح موقع ہی نہیں ملتا جیسا کہ شرک جلی میں ملنے کا امکان ہوتا ہے۔
بدعت کی تعریف کرتے ہوئے مصنف نے لکھا ہے کہ
” احکام شرعیہ کے ثبوت کے لیے چار دلیلوں کی ضرورت ہے وہ یہ ہیں
۱.کتاب اللہ یعنی قرآن
۲.سنت یعنی احادیث رسول
۳.اجماع امت
۴.قیاس مجتہد
جو چیز ان چار دلیلوں میں سے کسی سے کلیتاً یا جزیتہً، صراحتاً یا اشارۃً ثابت ہو وہ معتبر ہے خواہ اسے شرعی کہیں یا سنت۔ اور جو شے ان چار دلیلوں میں سے کسی دلیل سے ثابت نہ ہو وہ بدعت ہے۔”
اس کے بعد مصنف نے اہل بدعت کے چند مشہور فرقوں کے عنوان سے خوارج ، روافض، معتزلہ ، کرامیہ، قدریہ، جبریہ ، مرجئہ سمیت وہابیہ، غیر مقلدین، اہل قرآن کو بدعتی فرقہ قرار دیا ہے۔ قادیانیوں کا بھی شمار اس باب میں ہے مگر اس کی وضاحت کر دی ہے کہ یہ لوگ اسلام سے ہی خارج ہیں۔
اس باب میں مصنف نے تفضیلہ کو بھی روافض کا ایک نرم فرقہ بتایا ہے جو حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بشمول حضرات خلفاء ثلاثہ رضی اللہ عنہم سے افضل مانتے ہیں۔
شیخ محمد بن عبد الوہاب نجدی اور ان کی فکر پر بھی مصنف نے بھرپور نقد کیا ہے اور ردوہابیت کرنے والے علماء اہلسنت والجماعت جنہوں نے اعتدال کا دامن نہیں چھوڑا ان کی خوب تعریف کی ہے۔ مصنف کہتے ہیں کہ اس فرقہ کے رد میں کچھ سنی اہل علم نے بہت تشدد اور غلو بھی برتا جس سے مسلک اہل سنت کو نفع کی بجائے نقصان ہوا۔ شیخ نجدی کی کتاب “کتاب التوحید” ہندوستان میں بھی پہنچی جس سے اس فکر کو یہاں بھی کچھ لوگوں کو متاثر کیا۔ وہابیہ کا لفظ ان ہی لوگوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ شیخ ابنِ عبدالوہاب نجدی کے بارے مصنف نے لکھا ہے کہ وہ توحید کی حمایت میں غلو کا شکار ہوئے جس سے وہ تعظیم شعائر اللہ اور شرک میں فرق نہیں کر سکے۔ کتاب کے محشی مولانا وجاہت اللہ خان وجیہی نے حاشیہ میں شیخ نجدی پر مزید تنقید کی ہے اور علامہ انور شاہ کشمیری کے حوالے سے لکھا کہ وہ شیخ نجدی کو کند ذہن، کم علم اور جلد باز سمجھتے تھے۔ مولانا وجہیی نے یہ بھی لکھا ہے کہ علامہ انور شاہ کشمیری متشدد ہرگز نہ تھے اور شاہ وجیہ الدین رامپوری ان کو زمانے کا مجدد کہتے تھے۔ علامہ کشمیری احادیث سے فقہ حنفی کے حق میں دلائل دینے میں مہارت رکھتے تھے نیز کئی جگہ آپ نے شیخ ابنِ تیمیہ اور شیخ ابن قیم کے نظریات پر بھی نقد کیا ہے۔
غیر مقلدین پر بھی مصنف نے لکھا ہے اور کہا کہ ان میں سے وہ لوگ جو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے حسد و بغض رکھتے ہیں وہ یقیناً اہل بدعت میں شمار ہوتے۔ یہاں مصنف نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے فضائل و مناقب اور ان کے بارے میں اکابرین اسلام کی آراء نقل کی ہیں کہ کیسے علماء اسلام نے امام اعظم کی علمیت و فقہات کو تسلیم کیا۔ حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ کے حوالے سے ایک مغالطہ پیش کیا جاتا ہے کہ آپؒ نے غنیتہ الطالبین میں احناف کو مرجئی لکھا ہے تو اس کا جواب دیتے ہوئے مصنف نے لکھا کہ اس کتاب کا شیخ عبد القادر جیلانیؒ کی طرف انتساب ہی مشکوک ہے۔اس میں دوسرا امکان یہ ہے کہ ہو سکتا ہے شیخ جیلانی رح نے یہ اپنے زمانے کے کچھ لوگوں کے بارے میں کہا ہو جو کہ فروع میں حنفی تھے جیسا کہ معتزلہ بھی فروع میں حنفی تھے۔
جماعت اسلامی اور مولانا مودودی پر بھی مصنف نے تنقید کی ہے۔ بالخصوص جیسے کہ خلافت و ملوکیت میں انہوں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی شان میں تحقیر آمیز جملے لکھے ہیں اور دوسری کتاب تجدید احیائے دین میں تصوف اور دیگر ائمہ و فقہاء پر تنقید کے نشتر چلائے ہیں اس پر مصنف اور محشی دونوں نے مولانا مودودی کے نظریات کو غلط کہا ہے۔ محشی مولانا وجاہت اللہ خان وجیہی نے مولانا مودودی کے رد میں طویل حاشیہ میں ان دونوں کتابوں سے ان کی خلاف ادب اور خلاف حقیقت عبارات کو نقل کر کے ان کی کمزوری اور ان میں موجود تحقیر آمیز پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے۔
علماء دیوبند کے حوالے سے مصنف نے لکھا ہے کہ ذوقِ توحید پرستی اور شوق اتباع سنت میں ان لوگوں نے بھی غلو سے کام لیا جس کی وجہ سے ان کے قلم سے گستاخانہ جملے صادر ہوئے چونکہ ان لوگوں نے ان عبارات کی تاویلات پیش کیں کہ ہمارا مطلب توہین نہیں تھا اس لیے علماء فرنگی محل ،رامپور و دہلی نے ان شخصیات کی تکفیر نہیں کی مگر ان عبارات کو گستاخانہ قرار دیا۔ اس حوالے سے علماء بریلی کے طرز عمل پر بھی مصنف نے عدم اطمینان کا اظہار کیا جنہوں نے عبارات کے لکھنے والوں کی ناصرف تکفیر کی بلکہ ان کے کفر میں شک کرنے والوں تک کو کافر قرار دیا۔ مصنف کہتے ہیں کہ علماء بریلی نے جذبہ عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تحت اس کے حکم میں شدت برتی۔
اس بارے میں اپنا مسلک بیان کرتے ہوئے مصنف لکھتے ہیں
“میرا مسلک وہی ہے جو ارباب حق علمائے رام پور وغیرہ کا ہے کہ اکابر علمائے دیوبند کے الفاظ ضرور کفریہ ہیں، لیکن قائل جب اپنی نیت گستاخی کی نہیں بتاتا اور اپنے الفاظ کی تاویل کرتا ہے تو اس نے کفر کا اپنے ذمہ التزام نہیں کیا لزوم کفر اور ہے اور التزام کفر اور شئی ہے”
دیوبند بریلی جھگڑے میں مصنف نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ اگر علماء دیوبند اپنی عبارات سے رجوع کر لیتے تو ہندوستان کا بہت بڑا اختلاف مٹ سکتا تھا مگر بجائے رجوع کے انہوں نے تاویل کا راستہ اختیار کیا۔ جبکہ دوسری طرف علماء بریلی نے ان تاویلات کو قبول نہیں کیا۔
دیوبند و بریلی کے علماء کا یہ اختلاف ایک دلخراش باب ہے، اور میرا اپنا خیال بھی یہی ہے کہ علماء دیوبند اگر ان عبارات سے رجوع کر لیتے تو اختلاف کی بڑی وجہ ختم ہو سکتی تھی۔ ویسے بھی یہ معاملہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عزت و احترام کا تھا۔
کتاب کے محشی نے بھی اس جھگڑے کا ذمہ دار علماء دیوبند کو قرار دیا ہے مگر ساتھ ہی مولانا احمد رضا خان بریلوی رح کے فتویٰ تکفیر پر بھی تحفظات کا اظہار کیا کیونکہ اس سے مسلمانوں کا ملی اتحاد پارہ پارہ ہو گیا۔ پھر علماء دیوبند کی تاویلات کو علماء رامپور نے قبول کیا اس کی وجہ مصنف نے یہ بیان کی کہ ماضی میں بھی صوفیاء کی کتب میں کئی عبارات ایسی موجود ہیں جن کا مطلب خلاف شریعت ہے مگر علماء ان کی تاویل کرتے ہیں۔ اس موضوع پر حاشیہ میں مولانا وجہیی نے مفتی ارشاد حسین رامپوری رح کے حوالے سے لکھا ہے کہ انہوں نے علماء دیوبند کی عبارات کا پرزور رد کیا مگر علماء دیوبند کی تکفیر نہیں کی۔ آپ اور آپ کے شاگرد ان کی تکفیر کے قائل نہیں تھے۔ مفتی ارشاد حسین رامپوریؒ کی طرف کسی بھی دیوبندی کی تکفیر کی نسبت درست نہیں ہے
وقوع قیامت کے علم کے بارے میں مصنف نے تصریح کی ہے کہ اس کا حقیقی علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی علامات بیان فرمائی ہیں مگر وقت کا تعین نہیں فرمایا۔
روز محشر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت حق ہے۔ اس کا مطلقاً انکار کرنے والے کو مصنف نے کافر لکھا ہے۔ قرآن مجید میں جو شفاعت کی نفی ہے وہ کفار و مشرکین کے لیے ہے نہ کہ مسلمانوں کے لیے۔ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے توسط سے شفاعت کا حق شیخین کریمین رضی اللہ عنہم کو بھی حاصل ہے۔
اولیاء اللہ کی روحانیت سے استمداد پر بھی مصنف نے گفتگو کی ہے اور اس کو جائز و درست قرار دیا ہے مگر یہ عقیدہ رکھنا لازم ہے کہ قضائے حاجت اور حل مشکلات خاصہ خدا وندعالم ہے۔
انبیاء کرام علیہم السلام کے متعلقہ عقائد میں سے حضرت سیدنا ایوب علیہ الصلٰوۃ والسلام کے بارے میں مصنف نے بہت اہم بات لکھی ہے کہ وہ مرض میں مبتلا ہوئے تھے مگر ان کے جسم اطہر میں کیڑوں کا پڑ جانا سراسر غلط ہے یہ کسی معتبر کتاب میں نہیں اور نہ ہی یہ بات نبی محترم کو زیبا ہے۔
انبیاء کرام علیہم السلام کی حیات پر بات کرتے ہوئے مصنف نے لکھا ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی ممات کو غیر نبی کی وفات کی مثل نہیں قرار دیا جا سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے ہر نبی کو مخصوص حیات مرحمت فرمائی ہے جس سے وہ فوائد بھی حاصل کرتے ہیں اور تصرف بھی رکھتے ہیں اور ان میں سب کامل و اکمل حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہے۔
قبروں میں مدفون اولیاء اللہ کی حیات کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ان کے فیوض و برکات اور تصرفات کا اقرار اور ان کی روحانی عنایات سے متمتع ہونے کی امید رکھنا بھی درست ہے۔ مزارات پر حاضری دینے کی یہ ہی وجہ ہے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے متعلق عقائد کا بھی باب ہے جس میں شروع میں صحابی کی تعریف کچھ یوں کی ہے
“جس شخص نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبتِ مبارکہ کا شرف حاصل کیا اور وہ دولت ایمان سے مالا مال ہوا، اور خدائے تعالی نے اسی پر اس کا خاتمہ فرمایا وہ صحابی کہلاتا ہے”
آگے مصنف نے لکھا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں فرق مراتب ضرور ہیں مگر مقبولیت عنداللہ اور شان مغفوریت تمام صحابہ کو حاصل ہے۔ مصنف نے واضح طور پر لکھا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا ذکر صرف اور صرف خیر سے کرنا چاہیے اور ان کے باہمی نزاعات پر خاموشی اختیار کرنی چاہیے کیونکہ ان کا اختلاف ذاتی و عنادی نہیں بلکہ اجتہادی تھا۔ یہاں بھی حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی افضلیت کو دوبارہ بیان کیا اور حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے افضل قرار دینے کو شیعہ کا مسلک بتایا ہے۔ بعد از خلفاء ثلاثہ حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ افضل الامت ہیں۔
جیسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت ضروری ہے ایسے ہی اہل بیت اطہار کا احترام بھی لازم ہے۔ ازواج مطہرات اہل بیت کا حصہ ہیں جبکہ حدیث کساء کے تحت حضرت سیدہ نساء العالمین رضی اللہ عنہا ،حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہم بھی اہل بیت کا حصہ ہیں۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں فرق مراتب کے لحاظ سے بنیادی تقسیم فتح مکہ کی ہے جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم فتح مکہ سے پہلے اسلام لائے وہ فتح مکہ کے بعد اسلام لانے والوں سے افضل ہیں ۔یہ سب کے سب قابلِ احترام ہیں بعد از فتح والوں میں مصنف نے خصوصی طور پر حضرت سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ اور حضرت سیدنا ابو سفیان رضی اللہ عنہ کا ذکر کیا ہے ۔
ہمزاد اور سحر کے متعلق بھی مصنف نے گفتگو کی ہے اور لکھا ہے کہ عملیات کے ذریعے ہمزاد جن کو قابو کرنا اگر جائز مقصد کے لیے ہو تو کوئی مضائقہ نہیں اور اگر مقصد دنیاوی نمود و نمائش ہو تو یہ مناسب نہیں بلکہ اس سے کم ظرف آدمی اپنے آپ کو صاحب کرامت خیال کرنے لگ جاتا ہے جس سے وہ خود بھی گمراہ ہوتا اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتا ہے۔
مصنف نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سحر (جادو) کے کیے جانے کو مانا ہے، جس سے وقتی طور پر نسیان کا مادہ پیدا ہوا۔ میرے خیال سے یہ بات اس طرح متفقہ نہیں ہے بلکہ وہ اہل علم جنہوں نے آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام پر سحر ہونے کا انکار کیا ہے کہ دلائل زیادہ وزنی ہیں۔
حرکت زمین کے متعلق مصنف نے لکھا کہ اس حوالے سے اسلام خاموش ہے کہ زمین حرکت میں ہے یا سکون میں۔ مطلب یہ چیز انسان کی اپنی تحقیق پر ہے کہ وہ اس کا فیصلہ اپنے علم کی روشنی میں کرے۔
نزول عیسیٰ علیہ الصلٰوۃ والسلام اور ظہور امام مہدی کے اثبات پر بھی مصنف نے لکھا ہے اور امام مہدی کے بارے میں مولانا مودودی کی رائے کو مسترد کیا ہے۔
علم غیب کے حوالے سے گفتگو کی گئی ہے اور انبیاء علیہم السلام کو جو علم منجانب اللہ عطاء ہو اس کو ہی غیب کہتے ہیں۔ تاہم اللہ تعالیٰ کے علم اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علم میں فرق بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا علم غیر متناہی، ذاتی اور قدیم ہے جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا علم متناہی ، عطائی اور حادث تھا۔ مصنف نے واضح طور پر تحریر فرمایا ہے کہ عالم الغیب و الشھادۃ کا اطلاق اللہ تعالیٰ کی ذات کے سوا کسی اور کے لئے جائز نہیں۔
آخری باب میں میلاد ، ایصال ثواب، عرس ، یا رسول اللہ کے نعرے، قبور کو پختہ کرنا ، سماع موتی ، توسل بالاموات ، نداء غیر اللہ ، تعزیہ و علم، زیارت قبور کے لیے سفر اور تقبیل ابہامین جیسے مسائل پر مصنف نے اپنا نکتہ نظر بیان کیا ہے۔
مصنف نے بتایا ہے کہ ان مسائل میں علماء ربانیین نے ایک مصلحت کے پیش نظر جواز کا قول لکھا ہے جبکہ دوسرے علماء حق نے دوسری مصلحت کے پیش نظر ممانعت کی بات کی ہے۔یہ اختلاف تحقیقی و علمی نوعیت کا ہے کسی فریق کو دوسرے فریق پر ان امور پر اختلاف کی وجہ سے مذمت نہیں کرنی چاہیے.
میلاد کے حوالے سے مصنف نے لکھا ہے کہ اس کی محافل میں موضوع اور من گھڑت باتیں بیان کرنا منع ہے اس پر کوئی عالم نکیر کرے تو اس کو وہابی کہنا ناانصافی ہے۔ ذکر ولادت اور محافل میلاد کا انعقاد ایک مستحسن عمل ہے۔ اور لوگوں کا یہ خیال کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایسی مجالس میں شرکت فرماتے ہیں اس کا کوئی شرعی ثبوت نہیں ہے، البتہ خلوصِ نیت سے منعقد کی جانے والی مجلس جو کہ منکرات سے پاک کو اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روحانی توجہ فرمانا بھی ممکن ہے۔ایسا ہی معاملہ حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بارے میں منعقد مجلس کے بارے میں ہے کہ اس میں بھی صیح واقعات بیان کیے جائے جن سے موعظ و نصیحت حاصل کی جائے۔ مصنف نے ایک اور بڑی اہم بات لکھی ہے کہ میلاد، عرس یا ایصال ثواب کے دیگر امور تب ہی نفع بخش ہیں جب پہلے ہم فرائض و واجبات اور سنن امور سرانجام دیں۔جو لوگ اس حوالے سے محتاط نہیں ان کے لیے ان مستحب امور میں بھی فائدہ نہیں ہے۔
ایصال ثواب کے لئے لازم ہے کہ آپ کی کمائی حلال کی ہو۔ ایصال ثواب کیلئے فاتحہ کو جو لوگ بدعت سئیہ کہتے ہیں تو مصنف کہتے ہیں کہ یہ بہت سے جلیل القدر محدثین،فقہاء اور علماء امت پر حملہ ہے جو کہ کسی خوش عقیدہ مسلمان کے لئے روا نہیں۔ ایصال ثواب میں تاریخ کا تعین بھی ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر نزاع رہتا ہے اس کے بارے میں مصنف نے بتایا ہے کہ یہ تعین عرف اور سہولت کے مطابق ہوتا ہے اس کو کوئی شرعی سمجھے تو یہ یقیناً بدعت ہے۔ یعنی کوئی شخص حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رح کے لیے ایصال ثواب کا اہتمام گیارہ کی بجائے بارہ کو کرے یا پھر اس سے پہلے یا بعد میں بھی کرے جس سے اس کو سہولت میسر ہو تو یہ بالکل درست ہے۔ اس کو اصطلاحاً “گیارہویں” کہا جاتا ہے۔ ایسا ہی معاملہ تیجہ، دسواں چالیسواں وغیرہ کا ہے۔
عرس کی اصل پر بات کرتے ہوئے مصنف نے بتایا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سال میں ایک بار شہدائے احد کی قبور پر جانا منقول ہے۔ یہی عرس کی اصل ہے۔ اس زمانے میں جو عرس کے نام پر میلے ٹھیلے ہوتے ہیں یا گانے باجے یہ ناجائز ہیں، کسی عالم و صوفی نے اس کو جائز نہیں لکھا۔
نداء یا رسول اللہ کے بارے میں مصنف نے لکھا کہ آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام کو ہر مقام اور ہر وقت حاضر و ناظر سمجھنا شرک ہے۔ کوئی اس حیثیت سے یہ نداء کرتا ہے تو شرک ہے۔ مگر دوسری طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روحانی توجہ حاصل کرنے کےلئے یا فرشتوں کے ذریعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک نداء کا پہونچانا صیح ہے۔ اور اللہ تعالی اس بات پر قادر ہے کہ دور سے ہماری نداء کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچا دے۔ مصنف نے لکھا ہے کہ محبت سے نداء کرنے میں کئی دفعہ سنانا اور جواب لینا مقصود ہی نہیں ہوتا بلکہ محبوب کی صورت کو پیش نظر رکھ کر لذت قلبی حاصل کرنا مقصود ہوتا ہے۔
مزارات پر چراغاں اگر اس نیت سے کیا جائے کہ اس سے میت کو فائدہ پہنچے تو یہ بدعت سئیہ اور باعث لعنت و ملامت ہے، مگر زائرین کی سہولت کے لیے چراغاں درست ہے۔
قبروں پر چادر چڑھانا بھی سنت سے ثابت نہیں اس لیے کچھ علماء نے اس سے بچنے کا کہا ہے مگر تغیر زمانہ کے تحت جن علماء نے اس کی اجازت بھی دی ہے تو وضاحت کی ہے کہ اس سے صاحب قبر کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا، کوئی یہ خیال کرے تو یہ بھی بدعت اور ناجائز ہے۔ قبر کے بوسے کو فقہاء نے منع کیا ہے جبکہ سجدہ تعظیمی حرام ہے اور قبر کو سجدہ بنظر عبادت شرک ہے۔
قبروں کو پختہ کرنے کے حوالے سے مصنف نے لکھا ہے کہ بہتر ہے کہ عام مسلمانوں کی قبور کچی رکھی جائیں جبکہ علماء و مشائخ کی قبور کو پختہ کرنے کی اجازت فقہ حنفی میں موجود ہے لیکن یہ پختگی باہر سے ہونی چاہیے قبر کے اندرونی حصے کو پختہ کرنا جائز نہیں۔
سماع موتی کے حوالے سے لکھا کہ یہ مسئلہ اختلافی ہے مگر جمہور محققین کا قول اثبات کا ہے۔ اس کے خلاف جو قرآن مجید کی آیت سے استدلال کیا جاتا ہے وہ آیت کفار کے لیے نازل ہوئی، جس میں کفار کو مردہ کہا گیا ہے۔
زیارت قبور کے لیے سفر اور بالخصوص روضہ اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سفر کو جو شیخ ابنِ تیمیہ نے ممنوع کہا ہے اس پر مصنف کا کہنا ہے کہ شیخ ابنِ تیمیہ کا یہ مسلک باطل ہے۔ اس پر محشی مولانا وجاہت اللہ خان وجیہی نے چوبیس صفحات پر مشتمل ایک طویل حاشیہ لکھا ہے اور مختلف احادیث اور علماء امت کی آراء کی رو سے روضہ مبارک کی طرف سفر کو جائز و مستحسن قرار دیا ہے۔ اس کے لیے مولانا وجہیی نے امام سبکی رح کی کتاب “شفاء السقام فی زیارۃ خیر الانام” سے سب سے زیادہ استفادہ کیا ہے۔
شیخ ابنِ تیمیہ نے جو مساجد ثلاثہ والی حدیث سے استدلال کیا ہے تو اس سے مراد ان تین مساجد کے علاوہ کسی اور مسجد کی طرف سفر کا ممنوع ہونا ہے۔اگر یہاں مطلقاً سفر کی ممانعت ہوتی تو تعلیم اور تجارت کے غرض سے سفر ممنوع قرار پائے گا۔اگر کہا جائے کہ اسفار سے دوسری آیات و احادیث سے اجازت ملتی ہے تو زیارت قبور کے حوالے سے بھی اجازت ملتی ہے۔ اس لیے مساجد ثلاثہ والی حدیث کا مزارات کی زیارت یا عدم زیارت سے کوئی تعلق نہیں۔
ایسے ہی توسل پر بھی مصنف نے گفتگو کی ہے اور اس کے جائز و مشروع ہونے کے حق میں بات کی ہے۔توسل کی مصنف نے دو صورتیں ذکر کی ہیں۔ پہلا توسل عملی یہ ہے کہ کسی بزرگ کی حیات میں اس سے دعا کروائی جائے۔ اس میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں۔ دوسری صورت توسل قولی کی ہے جیسے کہ یہ دعا کرنا کہ
” اے اللہ! بتوسل حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا بوسیلہ خاصان خدا ہمارا یہ کام کر دے”
مصنف لکھتے ہیں کہ جمہور علماء کرام کے نزدیک یہ توسل بھی جائز ہے۔
تقبیل ابہامین کے بارے میں مصنف نے لکھا کہ اس کے اوپر کوئی قوی حدیث تو نہیں ملتی مگر بعض بزرگوں سے یہ چیز منقول ہے، جس پر مصنف نے اپنی رائے یہ دی ہے کہ یہ عمل جائز و مستحسن ہے۔
بریلی و دیوبند اختلاف سے ہٹ کر یہ تیسرا نکتہ نظر ہے۔ جس میں ایک طرف تو ان تمام امور جن کہ علماء بریلی قائل ہیں کو درست قرار دیا گیا تو دوسری جانب علماء دیوبند کے حوالے سے انتہائی مؤقف سے بھی گریز کیا گیا ہے۔ گو کہ علماء دیوبند کی ان عبارات کو متنازع مانا گیا ہے مگر اس پر علماء دیوبند کی ہی تاویلات کو قبول کر کے علماء بریلی کے برخلاف ان کی تکفیر کو بھی درست نہیں مانا گیا۔ اس لحاظ سے یہ کتاب ایک تیسرے مؤقف کو بیان کرتی ہے اور یہ مدعی ہیں کہ یہ ہی ہندوستان کے جمہور کا مسلک ہے۔ اس بارے میں مجلہ الشریعہ مارچ ۲۰۱۷ میں محترم سراج الدین امجد صاحب نے مصنف کا ذکر کیا ہے اور اس سے پہلے مصنف کے بارے میں ہم عوام تو کیا پاکستان کے اہل علم میں بھی کوئی خاص تعارف نہیں تھا۔ شاید یہ ہی وجہ بنی کہ اس کتاب کی پاکستان میں اشاعت میں محترم سراج الدین امجد صاحب نے خصوصی دلچسپی دکھائی ہے۔ مصنف کے نتائج فکر سے یقیناً دونوں جانب عدم اطمینانی پائی جا سکتی ہے لیکن اگر کوئی بات خلاف حقیقت ہو تو اس پر گرفت کرنا اہل علم کی ذمہ داری ہے۔مجموعی طور پر عقائد کی جانکاری کیلئے یہ کتاب قابل مطالعہ ہے۔
راجہ قاسم محمود
بہترین مطالعاتی تبصرہ ہے اور مندرجات کا تعارف کتاب سے دل چسپی بڑھا دیتا ہے۔
کتاب حاصل کرنے کے لیے رابطہ
دار الاسلام
جامع مسجد و محلہ مولانا روحی، اندرون بھاٹی دروازہ، لاہور
03219425765