لاہور کے ایک دینی ادارے کے استاد کو گذشتہ دنوں توہین صحابہ و قرآن پاک کے گھناؤنے جرائم میں ملوث ہونے کی بنیاد پر وفاقی تحقیقاتی ادارے ( ایف آئی اے) نے گرفتاری کیا ، جس وجہ سے سوشل میڈیا پر ایک بحث کا آغاز ہو ا ہے۔ مذہبی حلقوں میں عمومی طور پر اس کیس کو ایک سازش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ ایک معروف دینی ادارے سے وابستہ سینئر استاد کیونکر اس قسم کے جرائم کا مرتکب ہو سکتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جمعیت علماء اسلام، وفاق المدارس اور دیوبندی مکتب فکر کی دیگر مذہبی و سیاسی تنظیمات و شخصیات اس شخص کے خلاف ہونے والی کارروائی کی حمایت کرنے سے گریزاں ہیں۔دوسری طرف جرم کی تفصیلات اور ان سے جڑی ہوئی فرانزک شہادتیں اس قدر واضح بیان کی جا رہی ہیں کہ جرم کے وقوع سے انکار ممکن نہیں دکھائی دیتا۔
اس کیس کے بارے میں قانونی کارروائی اور شہادتوں کے معتبر ہونے کا حتمی فیصلہ تو عدالت ہی کرنا ہے مگر سردست یہ سمجھنا ضروری ہے کہ کیا ایک مذہبی شناخت کے حامل معتبر شخص سے مذہب و شعائر اسلامی کی توہین وتضحیک کا جرم سرزد ہو سکتا ہے؟ اس بارے میں گفتگو کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ سوشل میڈیا پر تسلسل سے یہ بات ہو رہی ہے کہ قرآن و حدیث پڑھانے والا استاد آخر کیسے اس قسم کی حرکتوں کا مرتکب ہوسکتا ہے، جن کی تفصیلات اگر عوام کے سامنے آ جائیں تو ملک گیر سطح پر غم و غصے اور احتجاج کی کیفیت پیدا ہو جائے۔ اس مخصوص کیس کے حقائق سے قطع نظر ہم یہ بات اپنے قارئین کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں کہ کسی بھی شخص بشمول دینی تعلیم کے استاد سے اس قسم کی حرکتوں کا سرزد ہونا ممکن ہے اور اس پر اچنبھے کا اظہار دراصل انسانی نفسیات کی پیچیدگیوں سے لاعلمی پر دلالت کرتا ہے۔
اگر کوئی شخص اپنی شناخت چھپا کر کسی دوسری شناخت سے مسلسل اس قسم کی ہرزہ سرائی کر رہا ہے جس سے نبی مکرم علیہ السلامﷺ، ازواج مطھرات، صحابہ کرام اور قرآن مجید سمیت دیگر مقدس کتابوں کی صریحاً توہین ہوتی ہے تو ایسے شخص کے عمل کی نفسیاتی طور پر تفہیم ممکن ہے۔ وہ لوگ جو بوجوہ خوف، تشدد اور شدید قسم کی گھٹن میں پروان چڑھتے ہیں ان کی شخصیت مسخ ہو کر نفسیاتی سطح پر ایک گھمبیر معمہ بن جاتی ہے۔ ایسی شخصیات کے اندر تضاد اور دوہرے پن کا پیدا ہونا بالکل معمولی بات ہے اور عموماً ایسی شخصیات اپنے نفسیاتی عوارض کا اظہار بہت گھناؤنے مگر خفیہ انداز میں کرتی ہیں۔ لاہور جیسے واقعات میں جو لوگ ملوث پائے گئے ہیں ان کا معاملہ بھی ایسا ہی معلوم ہوتا ہے۔
یہ لوگ اپنے ڈر، خوف اور تشدد کے باعث اپنے اندر انتقام کی ایک ایسی چنگاری سلگا لیتے ہیں جو بہت خاموشی سے ہمہ وقت اپنے انتقام کے راستے تلاش کرتی رہتی ہے۔ چونکہ یہ انتقام ان لوگوں سے تو لیا نہیں جاسکتا جو ماضی میں ان لوگوں کو تشدد اور خوف کا نشانہ بناتے رہے ہیں، سو اس انتقام کا رخ ہر اس شخصیت اور طاقت کی طرف ہو جاتا ہے جسے لوگوں میں پذیرائی، قبولیت اور تقدس حاصل ہو۔ سو یہ بالکل ممکن ہے کہ ایک دینی ادارے کا استاد جو بظاہر دین کی تعلیم کا فریضہ سرانجام دیتا ہے وہ اپنی نفسیاتی الجھن اور ذہنی راحت و تلذذ کے لیے دینی مقدسات کو تضحیک اور گستاخی کا نشانہ بنائے کیونکہ اس کے دائرہ کار میں یہی چیزیں سب سے مقدس و طاقت ور ہیں۔ اس کے انتقام کی بھوک اور تلذذ کی پیاس اسی صورت میں بجھے گی جب وہ اپنے دائرہ عمل میں موجود پاور کی نشانیوں کو روند ڈالے گا اور انہیں اپنے تئیں بے عزت کر کے تضحیک کا نشانہ بنائے گا۔
دوسروں کے لیے یہ عمل جتنا گھناؤنا اور بدترین ہوگا، اتنا ہی یہ عمل کرنے والا معاشرے کا بظاہر معتبر کردار خاموشی سے راحت و سکون محسوس کر کے خود کو مضبوط سمجھنے لگے گا۔ایسا شخص جب ایک جھوٹی شناخت سے کسی مقدس شخصیت کی توہین کرتا ہے تو اس سے عوامی ردعمل غم و غصے کی شکل میں برآمد ہوتا ہے۔ یہ ردعمل اس ذہنی مریض کے لیے باعث سکون بنتا ہے کیونکہ یہ اپنی مسخ شدہ نفسیاتی شخصیت کی وجہ سے کھل کر کسی بات کا اظہار نہیں کرسکتا۔
اس قسم کی مسخ شدہ نفسیاتی شخصیتوں کے بارے میں بہت سا لٹریچر موجود ہے اور کئی فلمیں اس بارے میں بن چکی ہیں۔ مغربی ممالک میں ایسے جرائم کے بارے میں بہت تحقیق ہوئی ہے جن کے مرتکب ہونے کی بظاہر کوئی معقول توجیہات سامنے نہیں آ سکیں۔ اغوا، تشدد اور جنسی جرائم کی ایسی انتہائی صورتیں جنہیں کسی انسان کی طرف منسوب کرنا بھی ممکن نہیں دکھائی دیتا،ان کے مرتکب مجرموں کی نفسیات کے مطالعہ نے یہ بتایا ہے کہ جرم کے ارتکاب کے عوامل بسا اوقات بہت ہی پیچیدہ اور گہرے ہوتے ہیں۔ لاہور کے واقعہ میں بھی اسی قسم کی نفسیات کا شکار شخص ملوث ہوسکتا ہے۔ یاد رہے کہ اس تحریر کا مقصد قطعی طور پر یہ نہیں ہے کہ ایسے واقعات میں ملوث عناصر کی حرکات کے بارے میں کوئی توجیہہ پیش کی جائے۔ اس تحریر کا بنیادی مقصد اس تاثر کی نفی ہے کہ مخصوص قسم کے جرائم کا ارتکاب بعض لوگ سرے سے کر ہی نہیں سکتے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ مذہبی تعلیمی اداروں میں اس بارے میں کھل کر گفتگو کی جائے اور انکار و اعراض کے بجائے بحث و تمحیص سے ان عوامل کو تلاش کیا جائے جن سے بدنامی کا احتمال رہتا ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ مذہبی حلقے دینی اداروں کو بدنامی سے بچانے کے نام پر ہر قسم کے جرم اور شنیع عمل کو چھپانے کی روش ترک کر کے دینی مدارس میں صحت مندانہ ماحول کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کریں۔ لاہور میں پیش آنے والے حالیہ واقعہ سے پہلے ایک اور مدرسہ سے وابستہ مفتی کی ہم جنس پرستی کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر گردش میں رہیں۔ اس کیس میں بھی ابتدائی طور پر گریز اور انکار کا مظاہرہ کیا گیا تھا جو بعدازاں خاموشی کی صورت اختیار کر گیا۔ دینی اداروں کے ذمہ داران نے اس روش کو نہ چھوڑا تو وہ دن دور نہیں جب مغربی ممالک میں کلیسا کے زیرانتظام تعلیمی اداروں کے اندر جنسی استحصال کا نشانہ بننے والوں کی گواہیوں کی طرح ہمارے ہاں بھی آوازیں اٹھنا شروع ہو جائیں گی۔
کمنت کیجے