(اسلامی نظریاتی کونسل کے مجلہ ’’اجتہاد’’ کے مدیر کی طرف سے خصوصی شمارے کے سلسلے میں بھیجے گئے سوال نامہ کے جوابات)
سوال ۱
کیا قرآن وسنت کی تعلیمات میں مرد وعورت کے علاوہ کسی تیسری جنس کا ذکر ہے؟
جواب
قرآن وسنت کے نصوص میں مرد اور عور ت کے علاوہ تیسری صنف کا یا اس کے شرعی احکام کا تصریحاً ذکر نہیں ہے، البتہ بعض ضعیف روایات میں نقل ہوا ہے کہ ایسا بچہ جس کے مردانہ اور زنانہ دونوں أعضاء ہوں، اس کی صنف کی تعیین اس کے پیشاب کے مخرج سے کی جائے۔ فقہاء کا عمومی رجحان یہ ہے کہ ایسے افراد کی صنف کی تعیین کرنا ضروری ہے جو ان کی مختلف جسمانی علامات کی مدد سے کی جائے گی۔ اس ضمن میں یہ استدلال کیا گیا ہے کہ قرآن مجید نے دو ہی صنفوں کی تخلیق کا ذکر کیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر انسان کا فطری طور پر مرد یا عورت ہونا ضروری ہے، البتہ ہمارے لیے اس کی شناخت بعض عوارض کی وجہ سے مشکل ہو جاتی ہے۔ اس نقطہ نظر کے مطابق درحقیقت تیسری صنف کا کوئی وجود نہیں، کیونکہ ایسے افراد خلقی طور پر یا مرد ہوتے ہیں یا عورت۔ تاہم یہ استدلال اس لیے ناکافی دکھائی دیتا ہے کہ قرآن مجید کا أسلوب زندگی کے حقائق اور شرعی احکام کو علی التغلیب بیان کرنے کا ہے، یعنی نادر اور قلیل الوقوع أمور کا ذکر نہیں کیا جاتا۔ اس لیے یہ سوال قابل غور ہے کہ جن افراد کی صنف کی تعیین کسی وجہ سے مشکل یا محض تخمینی ہو، کیا انھیں کسی نہ کسی صنف میں شمار کرنا ضروری ہے یا انھیں ایک مستقل صنف بھی شمار کیا جا سکتا ہے جن کے شرعی احکام نہ کلی طور پر مردانہ احکام ہوں اور نہ زنانہ، بلکہ اجتہاداً طے کیے جائیں ؟
سوال ۲
خنثیٰ ہونے کا حکم ظاہری علامات پر ہی لگایا جا سکتا ہے یا طبی ماہرین کے مطابق باطنی علامات کا بھی اعتبار کیا جا سکتا ہے؟
جواب
ظاہری علامات کے علاوہ باطنی علامات کا اعتبار کرنے میں شرعی وفقہی طور پر کوئی مانع نہیں، بلکہ جدید طبی معلومات کے لحاظ سے باطنی علامات کو بھی ملحوظ رکھنا ضروری معلوم ہوتا ہے، کیونکہ جسمانی طور پر صنف کے تعین میں دونوں طرح کی علامات کا کردار ہوتا ہے۔ اگر ظاہری اور باطنی علامات میں فرق یا تضاد ہو تو فقہی طور پر اس کو ایسے ہی دیکھا جا سکتا ہے جیسے ظاہری علامات میں تضاد کو دیکھا جاتا ہے۔
سوال ۳ و ۴
آج کل کی معروف اصطلاح Self-Perceived Identity یعنی خود اختیاری صنف کا شرعی حکم کیا ہے؟
خود اختیاری صنف کا اعتبار کیا جائے یا طبی معائنے کے نتیجے میں جنس کا تعین کیا جائے؟
جواب
خود اختیاری صنف کا حکم مختلف حالات کے لحاظ سے مختلف ہونا چاہیے۔ اگر کوئی شخص جسمانی لحاظ سے واضح طور پر کسی خاص صنف سے تعلق رکھتا ہے ، لیکن اپنی خواہش کی وجہ سے صنف کو طبی ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے تبدیل کرنا چاہتا ہے تو یہ شرعاً تغییر خلق اللہ کے تحت آتا ہے، اس کو جائز نہیں کہا جا سکتا۔ البتہ اگر کسی شخص میں دونوں صنفوں کی ملی جلی علامات ہیں اور اس کی صنف کو طبی علاج کی مدد سے متعین کرنے کے لیے کوئی فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے تو ایسے شخص کو اپنے احساسات کے لحاظ سے کسی ایک صنف کے انتخاب کا اختیار ہونا چاہیے۔ اسی طرح اگر طبی علاج کے بغیر فقہی احکام کے اجرا کے لیے ایسے شخص کو کسی ایک صنف میں شمار کرنا پیش نظر ہو اور دیگر ظاہری علامات فیصلہ کن نہ ہوں تو بعض فقہی آرا کے مطابق ایسے شخص کے بھی ذاتی محسوسات کا اعتبار کیا جانا چاہیے۔
سوال ۵
کیا موجودہ دور کے خواجہ سرا خنثیٰ مشکل کی تعریف پر پورا اترتے ہیں؟
جواب
مصنوعی طور پر خواجہ سرا بننے والے افراد کو خنثیٰ شمار نہیں کیا جا سکتا۔ ان کے شرعی احکام اسی صنف کے مطابق ہونے چاہییں جو ان کو پیدائشی طور پر حاصل تھی۔
سوال ۶
شریعت میں کراس ڈریسنگ کا کیا حکم ہے؟ کیا بذریعہ قانون سازی اس پر پابندی لگائی جا سکتی ہے؟
جواب
کراس ڈریسنگ شرعاً درست نہیں۔ حسب مصلحت اس پر قانونی پابندی بھی لگائی جا سکتی ہے۔
سوال ۷
جنس (Sex)یا صنف (Gender)کی تبدیلی میں اصطلاحی اعتبار سے کوئی فرق ہے؟ ان اصطلاحات کے استعمال سے احکام اور قانون پر کوئی اثر پڑے گا؟
جواب
یہ سوال زیادہ واضح نہیں۔ سیکس سے مراد حیاتیاتی اعتبار سے انسان کی صنف لی جاتی ہے، جبکہ جینڈر سے مراد وہ کردار اور مقام وحیثیت لی جاتی ہے جو کوئی معاشرہ کسی صنف کے افراد کے لیے متعین کرتا ہے۔ اس مفہوم کے مطابق اگر جینڈر کی تبدیلی سے مراد یہ ہے کہ جسمانی اوصاف کے لحاظ سے کوئی انسان کسی ایک صنف سے تعلق رکھتا ہو، لیکن جنس تبدیل کیے بغیر صرف اپنی وضع قطع مخالف صنف کی طرح بنا کر معاشرے میں اسی کی طرح زندگی گزارنا چاہے تو یہ شرعاً درست نہیں۔
سوال ۸ و۹
خنثیٰ کی وراثت اور باجماعت نماز میں شریک ہونے کے متعلق کیا حکم ہے؟
خنثیٰ کی شادی کا کیا حکم ہے؟ کیا یہ شادی کر سکتے ہیں؟
جواب
خنثیٰ کے فقہی احکام مثلاً باجماعت نماز، وراثت اور شادی وغیرہ کا مدار اس پر ہے کہ غالب علامات کی رو سے اس کو کس صنف میں شمار کیا گیا ہے۔ جس صنف میں شمار کیا جائے گا، اسی کے احکام اس پر لاگو ہوں گے۔ اگر کچھ افراد ایسے ہوں جن کو کسی صنف میں شمار نہ کیا جا سکتا ہو تو ان کے احکام مختلف معاملات کی نوعیت کے لحاظ سے مختلف ہو سکتے ہیں۔ مثلاً اگر ان کے تناسلی أعضاء یا جنسی خواہش موجود نہیں تو ان کا نکاح نہیں ہونا چاہیے، جبکہ وراثت اور دیگر احکام میں ان پر حسب مصلحت ونوعیت مرد یا عورت کے احکام جاری کیے جا سکتے ہیں۔
سوال ۱۰
کیا مرد کے لیے ٹرانس ویمن (Trans-Woman)سے شادی جائز ہے؟
جواب
کسی پیدائشی مرد کے لیے اپنے فیصلے سے جنس تبدیل کروا کر عورت بننا جائز نہیں۔ تاہم اگر کوئی ایسا کر کے بالفعل عورت بن جائے اور اس کا جسم زنانہ اوصاف وخصائص، خصوصاً تولیدی أعضاء کا حامل ہو تو کیا اس کو فقہی طور پر مرد ہی شمار کیا جائے گا یا اب اس پر عملاً عورت کے احکام جاری ہوں گے؟ یہ سوال ذرا غور طلب ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ شرعاً وہی صنف معتبر ہے جو انسان کو پیدائشی طور پر حاصل ہو تو اس پہلو سے ٹرانس وومن پر مرد ہی کے احکام جاری ہونے چاہییں۔ لیکن اگر وہ بالفعل عورت بن چکا ہے اور اس سے مردانہ وظائف کی ادائیگی کی توقع نہیں کی جا سکتی تو اس لحاظ سے اسے، تبدیلی جنس کے گناہ ہونے کے باوجود، فقہی احکام کے لحاظ سے عورت شمار کرنا چاہیے ۔ ایسی صورت میں اس کے ساتھ کسی مرد کا نکاح کرنا بھی درست ہوگا۔
اسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
حضرت قرآن کریم میں خدا نے فرمایا کہ بے شک ہم نے انسان کو احسن بنایا ۔۔
اب جو شخص ( مرد یا عورت ) قدرتی طور پر تیسری دنیا سے ہے اس کی تخلیق کے وقت کون سے سائنسی مراحل میں ( مکمل پراسس جس میں بچہ پیدا ہوتا ) میں تبدیلی آتی ہے اس کا زکر کر دیں
دوسرا وہ قدرتی طور پر ہوتا ہے یا مرد یا عورت کی کوئ غلطی وغیرہ کا نتیجہ ۔
وعلیکم السلام ورحمت اللہ
اس آیت میں دراصل اخلاقی تقویم کا ذکر ہے۔ یعنی انسان کو خیر وشر کا شعور اور ان میں فرق کی بہترین صلاحیت دی گئی ہے، لیکن جب انسان اس پر عمل نہیں کرتا تو اخلاقی پستی میں گر جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے قانون کے مطابق اس کو گرنے دیتے ہیں۔ جسمانی تخلیق یہاں زیر بحث نہیں۔ اس میں اللہ کی حکمت کے تحت کسی ایک صنف کی خصوصیات میں بھی کمال یا نقص پایا جا سکتا ہے اور اسی طرح ایسے عوارض بھی ہو سکتے ہیں جو صنف کی تعیین میں مشکل پیدا کر دیں۔ سائنسی لحاظ سے شاید اس میں بنیادی طور پر مرد یا عورت کی کسی غلطی کا دخل نہیں ہوتا، لیکن بعض صورتوں میں ہو بھی سکتا ہے۔ اس سلسلے میں طبی ماہرین بہترین راہ نمائی کر سکتے ہیں۔ واللہ اعلم (عمار ناصر)
جزاک اللہ خیرا
اسلام علیکم
آج کل ٹرانس جینڈر بل ایک بار پھر سے موضوع بحث ہے . جدید تحقیق سے معلوم ہوتا ہے ٹرانس جینڈر ہونے کے ایک سے زائد اسباب ہیں مثلاً سماجی اسباب یا فطری و تخلیقی اسباب ( ہارمونز وغیرہ کا عدم توازن) للذا اس ضمن میں تبدیلی جنس کی سرجری بھی زیر بحث آتی ہے
ازرائے کرم راہنمائی فرمائے کہ تبدیلی جنس کی مذہب میں ککا نوعیت و حثیت ہے
متمنی جواب
شکریہ
عمار حمید صاحب ایسا قدرتی طور پر ڈی این اے میں ہونے والی بعض میوٹیشنز کی وجہ سے ہوتا ہے اس میں مرد یا عورت کا یا کسی بھی بیرونی عمل کا کوئی کردار نہیں ہوتا۔