Home » ہاشم پورہ
احوال وآثار اردو کتب سیاست واقتصاد

ہاشم پورہ

ہندو اکثریت رکھنے والا ہندوستان کثیر مذاہب کے حامل لوگوں کا ملک ہے جس میں مسلمان دوسری بڑی اکثریت یا سب سے بڑی اقلیت ہیں۔ ہندوستان کی تاریخ میں فرقہ وارانہ فسادات ایک تکلیف دہ باب ہیں۔ ان فرقہ وارانہ فسادات میں بھی ہندو مسلم فسادات سب سے زیادہ اہم اس وجہ سے ہیں کہ ان کی تاریخ تقسیم سے پہلے کی ہے، بلکہ پاکستان کے بننے کی وجوہات میں سے ایک وجہ مستقل فسادات کا خدشہ بھی تھا۔ ہندوؤں کے طاقت اور اقتدار میں ہونے کے باعث ان سانحات میں پلڑا تو ہندوؤں کا بھاری رہا ہے۔ مگر ان فسادات میں سے ہاشم پورہ کا سانحہ ایک منفرد نوعیت کا حامل کا ہے۔ یہ آزاد ہندوستان کے سب سے بڑے حراستی قتل کی داستان ہے جس کو مختلف طریقوں سے بھلانے کی کوشش کی گئی۔ بھارتی پولیس میں خدمات انجام دینے والے وبھوتی نار این رائے جو کئی کتابوں کے مصنف ہیں نے اس سانحہ پر تحقیق کی اور اس کے حقائق سے پردہ اٹھانے کی کوشش کی۔وبھوتی نار این اے کا یہ کام اس وجہ سے زیادہ اہمیت کیا حامل ہے کہ وہ اس سانحہ کے شاہدین میں سے ہیں۔ اس سانحہ کی تحقیق پر بھی انہوں نے کئی سال لگائے ہیں ۔انہوں نے اس سانحے پر ہندی میں کتاب لکھی جس کا ترجمہ “ہاشم پورہ ۲۲ مئی” کے نام سے اُردو زبان میں ارجمند آراء جو کہ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی دہلی سے فارغ التحصیل اور دہلی یونیورسٹی میں اردو زبان و ادب کی پروفیسر ہیں۔ اس کتاب کے علاوہ بھی ارجمند آراء نے کئی کتب کے تراجم کیے ہیں۔ پاکستان میں اس کتاب کو عکس پبلیکیشنز لاہور نے شائع کیا ہے۔ اس کتاب کو لکھنے میں بھی وبھوتی جی کو تقریباً دس سال کا عرصہ لگا ہے۔
ہاشم پورہ کا سانحہ ۲۲ مئی ۱۹۸۷ کو ہوا۔ جس میں میرٹھ کے علاقے ہاشم پورہ سے چالیس سے زائد مسلمانوں کو اتر پردیش کی مسلح پولیس Police Armed Constabulary نے حراست میں لے کر مکن پور گاؤں کی نہر پر لاکر قتل کر دیا تھا۔ وبھوتی جی جو اس وقت غازی آباد میں پولیس کیپٹن تھے۔ یہ قتل عام ان کے علاقے میں ہوا۔ وہ اس رات جائے وقوعہ پر پہنچے جہاں پر انہیں لاشیں ہی لاشیں نظر آئیں، ان کی پہلی تلاش یہ تھی کہ ان میں سے کوئی زندہ بچ جانے والا بھی موجود ہے تو ایک شخص باب الدین جو زخمی حالت میں ان کے ہاتھ لگا اس سے اس واقعے کی جانکاری ہوئی۔ وبھوتی جی کہتے ہیں کہ باب الدین سے اس واقعے کی داستان سن کر وہ چونک گئے اور اس وقت انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اس واقعے پر لکھیں گے۔ وبھوتی جی ایک محب وطن بھارتی ہونے کے ناطے اس سانحہ کو سیکولر بھارت پر ایک بدنما داغ تصور کرتے ہیں۔ وبھوتی جی درست کہتے ہیں کہ ہندوستان کے مسلمان سیکولرزم کے اس وجہ سے شدید حامی ہیں کیونکہ اس کا الٹ ہندو راج ہے جس میں ان کی بقاء اور زیادہ مشکل ہے۔ وبھوتی جی بھی بھارت کی ترقی کے لیے سیکولرزم کو ہی ضمانت مانتے ہیں اور خود بھی اس کے وکیل ہیں۔ یہ واقعہ اس سیکولر بھارت پر ایک بڑا حملہ ہے، اس لیے وہ اس پر زیادہ حساس ہیں۔
وبھوتی جی کہتے ہیں کہ پولیس افسر ہوتے ہوئے ان کی سی آئی ڈی اور پی اے سی میں جان پہچان تھی جس کی وجہ سے اس سانحہ کے حوالے سے کئی ایسی دستاویزات تک ان کی رسائی ہوئی جس پر ہر کسی کا پہنچنا ممکن نہ تھا۔
وبھوتی جی نے اس کتاب کا انتساب زیب النساء کی بیٹی عظمیٰ کے نام کیا ہے۔ اس عظمٰی کو زیب النساء نے اس شام جنم دیا جس شام زیب النساء کے شوہر کو سرکاری حراست میں قتل کیا گیا۔
وبھوتی جی بتاتے ہیں کہ اس سانحہ کے ساتھ ملیانہ میں بھی ایک سانحہ ہوا جس میں ہندوؤں انتہاء پسند جتھوں اور پی اے سی کے ہاتھوں مسلمان کا قتل ہوا مگر ہاشم پورہ کی نسبت یہ حراستی قتل عام نہیں تھا اس لیے ہاشم پورہ زیادہ سنگین ہے۔ اور مسلمان شعراء نے بھی ہاشم پورہ سانحہ پر شاعری بھی کی تو براہ راست ہاشم پورہ کے نام سے نہیں بلکہ اس پر ملیانہ کا عنوان لگا کر شاعری کی۔
اس سانحہ پر وبھوتی جی ایک اور تکلیف دہ بات یہ بیان کرتے ہیں کہ اس سانحہ کے ذمہ داران کو عدالت سے مکمل چھوٹ مل گئی۔ وبھوتی جی کے لیے یہ سب مایوس کن تھا کیونکہ انہیں ایک امید تھی کہ ملک کے سیکولر سماج کو یقینی بنانے کے لیے متاثرین کو انصاف ملنا چاہیے تھا مگر اس فیصلے کو اٹھائیس سال لگے اور فیصلے میں تمام ملزمان کو رہائی مل گئی۔
اس سانحہ کے حوالے سے ایک اور اہم بات ذہن میں رکھنے کی ہے کہ اس وقت صوبہ اتر پردیش میں ویر بہادر سنگھ وزیر اعلیٰ اور راجیو گاندھی وزیراعظم تھے اور ان دونوں کا تعلق کانگریس سے ہے۔ وہ کانگریس جس کا تاثر ایک سیکولر جماعت کا ہے، جس کو مسلمانوں کے حق میں بھارتیہ جنتا پارٹی سے بہتر سمجھا جاتا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کانگریس مذہبی جنونیت کے معاملے میں بھاجپا سے مختلف نہیں ہے۔
وبھوتی جی کہتے ہیں کہ اس رات وہ غازی آباد سے ساڑھے دس بجے واپس آ رہے تھے تو ان کو انسپکٹر وی بی سنگھ دکھائی دئیے جو انہیں گھبرائے ہوئے بتاتے ہیں کہ Police Armed Constabulary نے کچھ مسلمانوں کو مار دیا۔ کیوں مارا ؟ کتنے لوگوں کو مارا ؟ کہاں سے لاکر مارا؟ یہ واضح نہیں تھا۔ وی بی سنگھ کے جائے وقوعہ پر جانا بھی اتفاق تھا کیونکہ وہ ایک سپاہی کے ساتھ موٹر سائیکل پر سوار تھا تو سڑک پر سامنے سے تیز رفتار ٹرک سے وہ ٹکراتے ہوئے بچے، سنبھل کر انہوں نے دیکھا تو یہ پیلے رنگ کا ٹرک تھا جس کے پیچھے ۴۱ لکھا ہوا تھا اور پیچھے خاکی کپڑے پہنے لوگ بیٹھے تھے۔ پولیس والے کے لیے یہ سمجھنا آسان تھا کہ یہ پی اے سی کی اکتالیسویں بٹالین کا ٹرک تھا۔ یہ گتھی سلجھنے کی بجائے مزید الجھ گئی۔ وی بی سنگھ نے سوچا کہ مکن پور گاؤں سے پی اے سی کا ٹرک کیوں آ رہا تھا کیا کچھ دیر پہلے آنے والی گولیاں پی اے سی کے اس اکتالیسویں بٹالین نے چلائی تھیں۔ وی بی سنگھ اپنے ساتھی کے ساتھ مکن پور کی طرف گیا تو تقریباً ایک کلو میٹر کے فاصلے پر انہوں نے چاروں طرف تازہ خون پڑا تھا اور لاشیں پڑی تھیں۔ وی بی سنگھ اور اس کے ساتھیوں نے ان لاشوں اور پی اے سی کے ٹرک میں تعلق کے بارے میں سوچا۔
وبھوتی جی بتاتے ہیں کہ اس وقت میرٹھ ہندو مسلم فسادات کی زد میں تھا تو اس واقعے سے یہ خطرہ بھی پیدا ہوا کہ فسادات کی یہ آگ غازی آباد کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ وبھوتی جی نے ضلعی مجسٹریٹ نسیم زیدی کو فون کیا اور ان کو اور دیگر پولیس حکام کو ساتھ لیکر سات آٹھ گاڑیوں میں سوار ہو کر مکن پور پہنچے۔ وہاں لاشیوں کا انبار دیکھ کر وہاں موجود سب لوگ چونک گئے۔ وبھوتی جی کہتے ہیں کہ میں نے لاشوں کی گنتی کی بجائے وہاں کسی زندہ یا زخمی کی تلاش کو ضروری سمجھا اور تو وہاں جھاڑیوں میں ادھی نہر میں ڈوبے ایک وجود کی حرکت محسوس ہوئی وہ باب الدین تھا۔ وبھوتی جی کہتےہیں کہ ہمیں پہلے اس کو یہ یقین دلانا تھا کہ ہم اس کے قاتل نہیں بلکہ بچانے والے ہیں۔ اس کے جسم میں بھی گولی لگی تھی مگر وہ قاتلوں کو دھوکا دینے میں کامیاب رہا کہ وہ بھی مر گیا ہے۔ باب الدین نے بتایا اس سہ پہر تلاشی کے دوران پی اے سی کے ٹرک میں چالیس پچاس لوگوں کو لے جایا گیا تو انہوں نے سمجھا کہ انہیں گرفتار کر کے جیل لایا جا رہا ہے۔ ان کو پکڑنے والے پورا راستہ خاموش تھے اور گرفتار ہونے والوں نے بھی اس کو معمولی لیا، مگر جب نہر کنارے پہنچ کر ایک ایک کو اتار کر مارا جانے لگا تو انہیں اس خاموشی کی وجہ سمجھ آئی
وبھوتی جی کہتے ہیں کہ اس واقعے نے ان کے اندر کے لکھاری کو بھی ہلا کر رکھ دیا اور وہ اس قتل کے پیچھے ذہنیت کو جانچنا چاہتے تھے کہ کیسے قاتلوں نے بغیر کسی جان پہچان اور ذاتی دشمنی کے چالیس سے زائد لوگوں کو گولیوں سے بھون ڈالا گیا۔
وبھوتی جی نے جائے وقوعہ سے باب الدین کو ہسپتال پہنچایا، اس کے بعد وہ بٹالین کیپمس گئے تو پتہ چلا کہ صوبیدار سریندر پال سنگھ ایک ٹرک کے ساتھ کیمپس آئے اور ڈیڑھ دو گھنٹے تک اس ٹرک کو دھویا گیا۔ وبھوتی جی نے اس جگہ کو دیکھا جہاں ٹرک دھویا گیا تھا تو وہاں انہیں پانی میں لالی نظر آ رہی تھی ۔ مطلب ایک بڑا ثبوت مٹا دیا گیا تھا۔
وبھوتی جی نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ وی بی سنگھ اس ٹرک کا پیچھا کرتے ہوئے جب بٹالین کے دفتر تک گیا تو اس کو کسی نے دروازہ نہیں کھولا۔ یہ اپنی نوعیت کا ایک اور سوال ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ کاروائی بہت منصوبہ بندی سے کی گئی تھی۔
وبھوتی جی نے بچنے والے باب الدین کی زبانی اس واقعے کو بیان کیا ہے اس کا مختلف پہلوؤں سے جائزہ لیا ہے، اس میں ایک اہم چیز یہ ہے کہ وہاں اتفاقی طور پر ایک دودھ والی گاڑی آ گئی جس کی وجہ سے پی اے سی کو وہ جگہ جلد چھوڑ کر جانا پڑا۔ باب الدین کے علاوہ بھی کچھ اور لوگ تھے جو اس واقعے سے زندہ بچ گئے تھے۔ جن میں ایک ذوالفقار ناصر بھی تھا۔ جس سے وبھوتی جی نے بعد میں تفصیلی ملاقات کی اور اس سے واقعے کی تفصیلات اس سے جانیں ۔ ذوالفقار ناصر کے بچ جانے اور چھپنے کی داستان کا مصنف نے ذکر کیا ہے۔ ذوالفقار ناصر نے وبھوتی جی سے اس واقعے کے تقریباً انیس سال بعد ملاقات میں بتایا کہ وہ اب گہری نیند میں پسینے سے شرابور جاگ اٹھتا ہے۔ اس سانحہ نے اس کی یاداشت اور سوچ پر بہت گہرا اثر چھوڑا ہے۔ یہ گو کہ عام مگر بہت اہم بات ہے۔ ایسا حادثہ جس میں آپ تقریباً موت کے منہ میں چلے گئے ہوں اور محض اتفاق سے بچے ہوں، اس کے نقوش ذہن سے کیسے نکل سکتے ہیں پھر اس حادثے میں ذوالفقار نے اپنی آنکھوں سے رشتے دار ، اور جاننے والوں کو قتل ہوتے دیکھا تھا یہ انسان کی یاداشت سے کیسا بھلایا جا سکتا ہے۔ ذوالفقار ناصر کی خوش قسمتی تھی کہ نہر سے بچ جانے کے بعد اس کی ملاقات سید شہاب الدین جن کے گھر اس کو پناہ ملی سے ہوئی، بلکہ ان کی کاوشوں سے ذوالفقار کا داخلہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ایک تکنیکی کورس میں ہو گیا۔ جہاں سے وہ اپنی زندگی میں آگے بڑھ گیا۔
ذوالفقار ناصر نے اپنے بیان میں بتایا کہ پی اے سی نے محلے کے لوگوں کو دو حصوں میں بانٹا اور اس میں بچوں اور بوڑھوں کو الگ کیا اور جوانوں کو الگ ، پھر بوڑھوں اور بچوں کو چھوڑ دیا گیا جبکہ جوانوں کو حراست میں لے لیا گیا۔
ذوالفقار ناصر زخمی ہونے کے بعد پہلے اپنے چچا کے سسرال دوسرے گاؤں میں گیا، وہاں سے اپنے پھوپھا معراج الدین کے پاس جہاں سے وہ سید شہاب الدین کے پاس پہنچا۔
وبھوتی جی نے بتایا ہے کہ مکن پور جیسا واقعہ مراد نگر کی نہر پر بھی ہوا تھا۔ اب اس واقعے پر کاروائی کا مرحلہ تھا۔ اس سلسلے میں وبھوتی جی نے فیصلہ کیا کہ وہ ڈائریکٹر جنرل پولیس سے ملاقات کریں گے اور ان کو تفصیلات سے آگاہ کریں گے۔ ابھی ڈائریکٹر جنرل پولیس سے ملاقات کے لیے وبھوتی جی پلان کر رہے تھے کہ وزیر اعلیٰ اتر پردیش ویر بہادر سنگھ اچانک میرٹھ دورے پر آ گئے جن کے ساتھ ڈائریکٹر جنرل پولیس بھی تھے۔ غازی آباد پولیس کے پاس وزیر اعلیٰ کے حفاظتی دستے کی ذمہ داری تھی۔ تو وبھوتی جی اور نسیم زیدی نے وزیر اعلیٰ کی گاڑی میں جا کر ان کو ساری صورتحال سے آگاہ کیا۔ وبھوتی جی بتاتے ہیں کہ ویر بہادر سنگھ کے چہرے کے تاثرات ان کو یاد ہیں، جب وہ ان کو ساری تفصیلات بتا رہے تو ان کے چہرے سے پریشانی عیاں تھی۔ وہ بار بار کہہ رہے تھے کہ پی اے سی نے مسلمانوں کو کیوں مارا۔ اس کے بعد کمرے میں میٹنگ ہوئی جہاں وزیر اعلیٰ نے وبھوتی جی اور نسیم زیدی کو سنئیر پولیس افسران کے درمیان بلایا اور اس واقعے کی تفصیلات بتانے کا کہا جس پر نسیم زیدی تو خاموش رہے مگر وبھوتی جی نے سب واقعات بیان کیے ۔ بعد میں اس سانحے کی تفتیش پولیس سے لیکر سی آئی ڈی کو دے دی گئی ۔ اس فیصلے پر وبھوتی جی کو کافی مایوسی ہوئی کیونکہ سی آئی ڈی کی کارکردگی اب پہلے جیسی نہیں تھی ۔ اب یہ طاقتور لوگوں کو بچاتی ہے۔ اور مصنف کا خدشہ درست ثابت ہوا۔ یہاں بھی ملزمان سزا سے مکمل بچ گئے۔
سی آئی ڈی تفتیشی افسر خالد رضوی نے مصنف کو بتایا کہ سررینڈر پال سنگھ کے مطابق اس قتل عام کی اجازت وزیر اعلیٰ ویر بہادر سنگھ نے دی تھی مگر مصنف اس بات پر یقین نہیں کرتے کیونکہ ویر بہادر سنگھ کو سب سے پہلے جب انہوں نے اس واقعے کی خبر دی تو ان کے چہرے کے تاثرات بتا رہے تھے کہ وہ اس واقعے سے ناصرف لاعلم تھے بلکہ حیرت زدہ بھی تھے۔ پھر ویر بہادر سنگھ ایک عملی سیاست دان تھے وہ بیشک نظری طور پر سیکولرزم پر یقین نہ رکھتے ہوں مگر ان کے سخت ناقدین بھی ان پر فرقہ پرستانہ سلوک کا الزام نہیں لگا سکتے۔ ویر بہادر سنگھ کے علاوہ ایک اور سیاست دان چدمبرم جو راجیو گاندھی حکومت کے وزیر داخلہ تھے کا کردار بھی مشکوک ہے اور کہا جاتا ہے کہ وہ بھی اس سانحے میں ملوث تھے۔ چدمبرم پر مصنف نے کوئی زیادہ بات نہیں کی مگر ویر بہادر سنگھ کے اس میں ملوث ہونے پر مصنف کو یقین نہیں ہے
اخبارات میں بھی اس سانحے اور قتل عام کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی گئی۔ مصنف کہتے ہیں کہ شروع میں وہ بھی ڈر گئے تھے کہ اخبارات میں ان کے نام سے اس واقعے پر خبر شائع ہو۔ البتہ انہیں سکون نہیں مل رہا تھا اور ان کے اندر کا بھارتی اور لکھاری یہ کہہ رہا تھا کہ اس سانحے کی روداد عوام تک پہنچانا بہت ضروری ہے۔ اس کے لیے انہوں نے ایک صحافی ارن ودھن جو کہ ایک پروفیشنل صحافی تھے کو اس خبر کا بتایا اور اس کی سٹوری فائل کرنے کو کہا۔ یہ خبر ارن ودھن کو ایک بڑا نام بنا سکتی تھی اس نے اس میں دلچسپی بھی لی اور پہلے اس کی انتظامیہ سٹوری شائع کرنے پر راضی بھی ہوئی مگر اس کی سٹوری کبھی بھی شائع نہیں ہوئی۔ ارن ودھن بھارت ٹائمز سے وابستہ تھے جو ایک بڑا اخبار تھا۔ مگر وہ یہ خبر چھاپنے کا رسک نہیں لے رہا تھا۔ اس وقت بھارت ٹائمز کے مدیر راجندر ماتھر کے بارے میں مصنف نے بتایا کہ ان کے مرنے پر ان کی صحافتی خدمات پر لوگوں نے جو رائے دی اس سے کہیں بھی نہیں لگتا کہ وہ مذہبی انتہا پسند تھے۔ مگر مصنف اب تک یہ سوال پوچھتے ہیں کہ آخر راجندر ماتھر نے یہ خبر کیوں نہیں شائع ہونے دی ۔ اس سے پہلے مصنف نے ستاسی کے بھارتی سماج پر روشنی ڈالی ہے اور بتایا کہ اس وقت جوان ہندو نسل میں انتہا پسندی پنپ رہی تھی لوگ گاندھی مردہ آباد اور گوڈسے زندہ آباد کے نعرے لگاتے تھے۔ کیا راجندر ماتھر بھی اس انتہا پسندی کا شکار ہو گئے تھے ؟ اس سوال کا جواب مصنف کو نہیں مل سکا۔ بہرحال جب یہ سٹوری بھارت ٹائمز میں نہ چھپ سکی تو وبھوتی جی نے دوسرے ذرائع سے رابطہ کیا۔ اس کے لیے وبھوتی جی نے ایک ہفت روزہ “چوتھی دنیا” کو چنا جس کا دفتر لکشمی نگر دہلی میں تھا۔ وہاں پہنچ کر چنچل نام کے صحافی کو انہوں نے روداد سنائی اور ایڈیٹر سنتوش بھارتی کو بھی اس سے آگاہ کیا۔ وہ اس خبر کو اپنے اخبار میں لگانے کے لیے تیار ہو گئے اور اس کے لیے انہوں نے اپنے اخبار کے ایک اور صحافی ویریندر سینگر کو چنا، جس نے سٹوری کو وبھوتی جی کے ساتھ ملکر ڈرافٹ کیا اور اس میں جان بوجھ کر کئی جگہ وبھوتی اور نسیم زیدی کے خلاف بھی ریمارکس شامل کیے تاکہ کسی کو اس کے سورس کی خبر نہ ہو۔
ہاشم پورہ کی خبر کے اوپر اخبارات کا لیت و لعل کرنا اور پھر ایک غیر معروف ہفت روزہ میں اس کی اشاعت ایک اور پہلو کی جانکاری دیتی ہے کہ صحافت کی دنیا میں سٹوری کو شائع کرنے یا پھر اس کو روکنے کے لیے اخبارات کو کیسے کیسے دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پھر ان اخبارات کو کیا کیا نتائج کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ سب ہم نے ڈان لیکس میں بھی دیکھا ، پاور سینٹر کے ساتھ لڑائی لینا اور ان کے خلاف خبر شائع کرنا اخبارات کے لیے بڑا چیلنج ہوتا ہے۔ اب چونکہ یہ ان کی جاب کی نیچر ہی ایسی ہوتی ہے اس لیے کئی بار یہ چیز نظر انداز ہو جاتی ہے۔
اس سانحہ میں ایک اور اہم کردار میجر ستیش چندر کوشک کا بھی ہے۔ جو ۲۲ مئی کی شام جائے واردات پر موجود تھا۔ میجر ستیش چندر کوشک کا بھائی پربھات کوشک ۲۱ مئی کو ہاشم پورہ محلے میں گولی لگنے سے مرا تھا، کہا جاتا ہے کہ یہ گولی پڑوسی محلے سے آئی تھی۔ لیکن اس بارے میں دلچسپ بات یہ ہے کہ پربھات کوشک کا پوسٹ مارٹم اس کے لواحقین نے نہیں ہونے دیا۔ اس قتل کو بعد کی تفتیشی رپورٹ میں وجہ بتایا گیا جس کی وجہ سے ہاشم پورہ کا حادثہ پیش آیا ، ان رپورٹوں کو وبھوتی جی نے مضحکہ خیز قرار دیا ہے۔ لیکن میجر ستیش چندر کوشک کا ۲۲ مئی کو جائے واردات پر موجود ہونا تفتیش طلب تھا جس پر غور نہیں کیا گیا، کیونکہ اس دن میجر کوشک کی ڈیوٹی بھی نہیں تھی اور پھر ایک دن پہلے اس کے بھائی کا قتل ہوا تھا اس کو اپنے گھر والوں کے ساتھ ہونا چاہیے تھا۔
کوشک کی خالا شکنتلا شرما جس کے گھر پربھات کوشک قتل ہوا تھا، بھاجپا کی رکن تھی اور نفرت ، انتقام اور مذہبی تشدد اس میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ خود پربھات بھی ہندو انتہا پسند تنظیم کا رکن تھا۔ وبھوتی جی نے شکنتلا شرما کی ڈائریوں کا بھی ذکر کیا ہے جس میں اس نے اپنی زندگی کے چھوٹے بڑے واقعات نقل کیے ہیں۔
اس سلسلے میں ایک اور کردار میجر بی ایس پٹھانیا کا بھی ہے جو میرٹھ فسادات کی رپورٹ آرمی ہیڈکوارٹر بھیجا کرتا تھا۔ وبھوتی جی کہتے ہیں کہ پٹھانیا کی سب رپورٹس اس کی غیر قانونی حرکتوں کا اعتراف ہے۔ طرفہ تماشا یہ کہ سی آئی ڈی کی تفتیشی ٹیم نے متعدد بار پٹھانیا کو بلانے کی کوشش کی مگر وہ نہیں آیا۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس تفتیش کا کیا نتیجہ نکلنا تھا اور فریقین اس میں کتنا تعاون کر رہے تھے۔ بہت سی کوششوں کے بعد پٹھانیا سی آئی ڈی کے سامنے پیش ہوا تو اس نے سب حقائق سے انکار کر دیا۔
وبھوتی جی نے بتایا ہے کہ بھارت میں فوجی افسران کو سول معاملات سے سختی سے دور رکھا جاتا ہے، اور سول بالادستی کو یقینی بنایا گیا ہے۔ اس کے خلاف کسی کوشش کو ابتداء ہی سے ناکام بنا دیا گیا ہے۔ اس کی مثال دیتے ہوئے بتایا ہے کہ پندرہ اگست کو یوم آزادی پر لال قلعہ پر پرچم کشائی کی تقریب تھی تو کمانڈر ان چیف جنرل لاک ہارٹ نے عام جنتا کو شرکت سے روکنے کا حکم جاری کیا تو اس کو جواہر لعل نہرو نے ناصرف رد کیا بلکہ جنرل لاک کو اپنی حدود میں رہنے کا سخت حکم جاری کیا اور بتایا کہ بھارت کی پالیسی بھارتی سرکار طے کرے گی۔ جونا گڑھ فوج بھیجنے کی انگریز فوجی افسروں نے مخالفت کی تھی مگر سردار پٹیل اور نہرو نے اس کو اہمیت نہیں دی اور اپنا حکم منوایا۔
یہ سول بالادستی کی قابل ذکر روایت ہے جس پر بھارت اور اس کی سرکار کو دادا دینی چاہیے کہ انہوں نے اپنی اتھارٹی کو منوایا۔
سول بالادستی کے اس مضبوط نظام کے باوجود جب ہاشم پورہ سانحہ کو دیکھا جائے تو یہاں ناصرف فوج اپنی حدود سے تجاوز اور من مانی کرتی نظر آتی ہے بلکہ یہ کردار سراسر قانون کے بھی خلاف تھا۔ یہ سانحہ اس نوعیت کا منفرد واقعہ ہے جہاں فوج اپنی آئینی حدود سے تجاوز کرتی ہے۔ امن عامہ کی بحالی کے نام پر فوج نے یہاں دہشت پھیلائی، لوگوں کی تلاشی لی ، میجر پٹھانیا لاؤڈ سپیکر لے کر لوگوں کو گھروں سے باہر نکال رہا تھا بعد میں اپنے آس بیان سے ہی وہ مکر گیا کہ اس نے تلاشی لینے کا حکم جاری کیا۔
وبھوتی جی کہتے ہیں کہ پربھات کوشک کا قتل فقط ایک بہانہ تھا ، ۲۱ اور ۲۲ مئی کو ہونے والی سیکورٹی اداروں کے بھیٹکوں میں یہ طے کر لیا گیا تھا کہ اب مسلمانوں کو سبق سکھانا ہے۔ ان محفلوں کے منٹس نہیں لکھے جاتے مگر وبھوتی جی خود پولیس میں رہے ہیں اور سیکورٹی اداروں کی بیچ ہونے والی بیٹھکوں کا حصہ رہے ہیں اس لیے یہ ان کا اندازہ ہے
وبھوتی جی نے اس سانحہ کی وجوہات جاننے کی کوشش کی تو انہیں محسوس ہوا کہ اس کے پیچھے وہ ذہنیت کارفرما تھی جو فرقہ وارانہ تشدد کا کام کرتی ہے۔ اپنے تحقیق میں وبھوتی جی نے ایک اوسط مسلمان اور ہندو کے انداز فکر کے بارے میں بتایا جو وہ پولیس کے بارے میں سوچتا ہے اس کے مطابق مسلمان پولیس کے بارے میں شاکی جبکہ ہندو ان کو اپنا دوست سمجھتا ہے۔ پھر ہندو مسلم فسادات میں دونوں فریقین کا انداز بیان بھی مختلف ہوتا ہے۔ ہندؤ سمجھتے ہیں کہ پہلے شرارت مسلمان کرتے ہیں جبکہ ہندو پولیس سے تعاون کر کے ان کا مقابلہ کرتے ہیں اور نقصان بھی زیادہ ہندوؤں کا ہوتا ہے ۔ اس پر وبھوتی جی کہتے ہیں کہ ممکن ہے کہ پہل مسلمانوں کی جانب سے ہو مگر ان فسادات کے نقصانات کا تخمینہ لگایا جائے تو مسلمانوں کا جانی و مالی نقصان بہت زیادہ ہے۔ ناصرف مرنے والے زیادہ مسلمان ہوتے ہیں بلکہ ان ہی کی املاک تباہ ہوتی ہیں۔اعداد و شمار کے مطابق یہ شرح پچھتر فیصد ہے۔پولیس میں بھرتی ہوئے والے لوگ بھی سماج ہی کا حصہ ہوتے ہیں اس لیے پہلے سے ہی مسلمانوں کے بارے میں ان کے دل میں شکوک وشبہات ہوتے ہیں پھر وہ یہ بیانیہ بھی اپناتے ہیں کہ فسادات شروع ہی مسلمانوں کی جانب سے ہوتے ہیں تو ان کو روکنے کے لیے وہ اپنی ڈیوٹی سر انجام دیتے ہیں۔
ہاشم پورہ سانحہ میں تین مسلمان کرداروں پر بھی وبھوتی جی نے سوال اٹھایا ہے جن میں ایک ضلعی مجسٹریٹ نسیم زیدی ، دوسرے سی آئی ڈی تفتیشی افسر خالد رضوی اور تیسری محسنہ قدوائی جو کہ کانگریس رکن مرکزی حکومت میں وزیر تھیں۔ ان تینوں نے اپنی کمیونٹی کے لیے وہ کام نہیں کیا جو یہ کر سکتے تھے۔ انہوں نے کہیں بھی کھل کر آواز نہیں اٹھائی۔ یہ اس ڈر سے خاموش رہے کہ کوئی ان پر فرقہ وارانہ حمایت اور تعصب کا الزام نہ دھرے۔
وبھوتی جی نے یہ بھی لکھا ہے کہ اکثر مسلمان ہندو سامعین کے سامنے بغیر کسی سیاق و سباق کے پاکستان کی برائی کرتے ہیں تاکہ خود کو ایک محب وطن ہندوستانی ثابت کیا جا سکے۔
ہندو مسلم فسادات پر وبھوتی جی نے لکھا ہے کہ یہ برطانوی راج کی دین ہیں اس سے پہلے مسلم افواج یا ہندو راجاؤں کے بیچ ہوئی لڑائیاں مذہبی نہیں بلکہ سیاسی تھیں اور دونوں جانب دوسرے مذاھب کے لوگ فوج کا حصہ ہوتے تھے۔مذہبی رواداری کے حوالے سے کبھی بھی یہ مسائل نہیں آئے جو برطانوی راج کے بعد ہوئے۔
بالآخر اس حادثے پر ۲۸ سال بعد فیصلہ آیا اور سولہ کے سولہ ملزمان بری ہو گئے کیونکہ استغاثہ ملزمان کی جائے واردات پر موجودگی ثابت کرنے میں ناکام رہا ۔ اس کا ذکر پہلے بھی کیا جا چکا ہے کہ سی آئی ڈی سے تعاون نہیں کیا گیا اور جب یہ کیس پولیس سے لیکر سی آئی ڈی کو منتقل کیا گیا اس وقت بھی وبھوتی جی نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ ملزمان چھوٹ سکتے ہیں اور بعد میں بھی وبھوتی جی کے نزدیک یہ تفتیش شروع دن سے ہی مشکوک تھی جس کا مقصد ملزمان کو بچانا تھا۔ پھر جن سولہ ملزمان کو نامزد کیا گیا ان میں ایک سمیع اللہ نام کا مسلمان تھا جس کا جائے واردات پر موجود ہونا ناقابلِ یقین تھا۔ یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ اپنے ہم مذہبوں کو قتل کرنے والے گروہ میں شامل ہوتا اور یہ کیسے ممکن ہے کہ سرریندر پال اس پر اعتماد کرتا۔ سمیع اللہ کا ملزمان میں نام ہونا ہی یہ بیان کرنے کے لیے کافی ہے کہ یہ مقدمہ کس قدر کمزور بنیادوں پر بنایا گیا اور جان بوجھ کر ایسے لوگوں کو ملزمان کی فہرست میں ڈالا گیا جو جائے واردات پر موجود نہیں تھے۔سی آئی ڈی نے تو اس حد تک بددیانتی کی کہ اس نے گواہوں کے بیانات تک بدل دئیے جس سے مقدمہ مزید کمزور ہو گیا۔
اس حادثے کے آغاز سے لیکر اس کے فیصلے تک وبھوتی جی غیر مطمئن نظر آتے ہیں اور اس کو وہ ہندوستان کی تاریخ کا سب سے بڑا حراستی قتل کہتے ہیں۔ اس پر ناصرف فوج ، پولیس اور عدلیہ کا رویہ افسوس ناک بلکہ محسنہ قدوائی جیسے مسلم سیاست دان سمیت وہ چدمبرم ، وزیر اعلیٰ ویر بہادر سنگھ اور وزیر اعظم راجیو گاندھی کے رول سے بھی مایوس نظر آتے ہیں۔
ہاشم پورہ بیشک بھارتی تاریخ کا بدترین سانحہ ہے۔ جس میں چالیس سے زائد بے گناہ مسلمانوں کو حراست میں قتل کیا گیا۔ وبھوتی جی نے اس کی حساسیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کے حقائق پر بات کی ہے جس کو سراہا جانا چاہیے۔اس سانحہ کے احوال پڑھ کر ایک بات کا احساس ہوا کہ تقسیم ہند کی وجوہات بہت ٹھوس تھیں اور مسلم قیادت نے جن خدشات کا اظہار دو قومی نظریہ کے نام پر کیا تھا وہ بالکل درست تھا۔ اس لیے بطور پاکستانی بھی میں اس تقسیم کو درست سمجھتا ہوں۔ مگر جب اپنے وطن کی صورتحال پر غور کریں مشرقی پاکستان ، بلوچستان اور فاٹا میں ہونے والی کاروائیوں پر اپنے آپ کو لاجواب پاتا ہوں پھر ان دنوں جس طرح بے دردی کا سلوک اختلاف کرنے والی آوازوں کے ساتھ ہو رہا ہے اور مقتدر اشرافیہ نے طاقت کا اندھا دھند استعمال کیا اور تشدد کے مختلف طریقے استعمال کیے ہیں تو ہمارے ہاں بھی ہاشم پورہ سے مختلف حادثات نہیں ہیں مگر وبھوتی جی نے دلیرانہ فیصلہ کر کے اس کے حقائق کو منظر عام پر لانے کی کوشش کی مگر ابھی ہمارے ملک میں ایسے دلیرانہ اقدام کا وقت نہیں ہے کیونکہ ابھی حال ہی میں جو کچھ ارشد شریف کے ساتھ ہوا ہے ایسے سانحات کے بعد حالات کبھی بھی موافق نہیں ہیں۔
یہ کتاب ہاشم پورہ سانحہ کے ساتھ ساتھ بھارتی سماج اور پھر اس کی انتظامیہ کے اندرونی ڈھانچے کے متعلق بھی آگاہی فراہم کرتی ہے۔ وبھوتی جی نے حقائق کی تلاش اور ان کو بیان کرنے میں خوب محنت کی ہے اور پیشہ ورانہ تربیت کا ثبوت دیتے ہوئے واقعات کا تجزیہ غیر جانبداری سے کیا ہے

راجہ قاسم محمود

راجہ قاسم محمود پیشے کے اعتبار سے اکاونٹنٹ ہیں اور مختلف علمی وفکری موضوعات پر اظہار خیال کرتے ہیں۔
rajaqasimmehmood@gmail.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں