نو گیارہ کے واقعے نے جہاں عالمی سیاسی منظر نامے کو تبدیل کیا وہاں بین المذاہب مکالمے کی آوازیں بلند ہوئیں بالخصوص دنیا کے دو بڑے مذاہب اسلام اور عیسائیت کے مابین مکالمے کی باتیں ہوئیں جس پر دونوں جانب سے لوگوں نے اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے اس مکالمے میں حصہ لیا۔ بین المذاہب مکالمے کے ساتھ ہی عالم اسلام میں بین المسالک مکالمے کی راہ بھی نکلی۔ اس سلسلے میں ۲۰۰۴ میں بحرین میں ایک بین المسالک ہم آہنگی پر کانفرنس ہوئی جس میں ڈاکٹر یوسف القرضاوی نے بھی شرکت کی جس میں انہوں نے اپنا رسالہ لکھا جس کو “بین المسالک ہم آہنگی اور مکالمے کے بنیادی اصول” کے نام سے اقبال انسٹی ٹیوٹ فار ریسرچ اینڈ ڈائیلاگ نے شائع کیا۔ اس کا اردو ترجمہ محمد جان اخون زادہ نے کیا ہے۔ اس رسالے میں مسلمانوں کے دو بڑے دھڑوں یعنی اہل سنت اور اہل تشیع کے مابین مکالمے کو موضوع بنایا گیا ہے اور ڈاکٹر یوسف القرضاوی نے اس مکالمے کو بامقصد اور بامعنی بنانے کے لیے کچھ اصول بنائے جن کی وضاحت اس رسالے میں کی ہے۔
بین المسالک ہم آہنگی کی وضاحت ڈاکٹر یوسف القرضاوی نے شروع میں ہی کر دی کہ اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ شیعہ اپنے مسلک کو خیر باد کہہ کر سنی بن جائیں یا پھر سنی شیعہ مسلک اختیار کر لیں۔ ڈاکٹر قرضاوی نے بتایا کہ دونوں مسالک کی پیدائش پر کئی صدیاں بیت گئی ہیں اور یہ نسل در نسل منتقل ہونے والی مذہبی روایت ہے جس کو کسی تحریر یا مقالہ سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ جانبین کی طرف سے ایسی تمام چیزوں کو چھوڑا جائے جو سینوں میں نفرت ابھارتی ہیں۔ اس لیے ابتداء ایسے مسائل سے کی جانی چاہیے جہاں فریقین ایک دوسرے کی راۓ کو بآسانی قبول کر سکیں اور جو اختلافی مسائل کم حساسیت پر مبنی ہیں ان سے شروع کیا جائے۔
ڈاکٹر قرضاوی نے بین المسالک مکالمے کے لیے اپنے دس اصول دئیے ہیں جن سے اس مکالمے کو فروغ ملے گا اور مسالک کے مابین ہم آہنگی بڑھنے میں مدد ملے گی۔ پھر اپنے ان دس اصولوں کی ترتیب وار وضاحت کی ہے۔
پہلا اصول حسن فہم ہے۔ ڈاکٹر قرضاوی حسن فہم سے مراد دوسری جانب کی رائے سے اچھی طرح واقفیت لیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمیں دوسری جانب کا موقف بجائے عوام کہ ان کے مستند اور معتمد ذرائع اور اہل علم سے لینا چاہیے۔
یہاں پر ڈاکٹر قرضاوی نے تحریف قرآن کے مسئلہ پر بات کی ہے اور لکھا ہے کہ اس کو شیعہ مسلک کا متفقہ عقیدہ نہیں قرار دیا جا سکتا یہ درست ہے کہ چند شیعہ علماء نے تحریف قرآن پر کتابیں لکھی ہیں مگر یہ رائے اتفاقی نہیں ہے۔ اہل تشیع میں سے خود بہت سے علماء نے قرآن مجید کی تحریف کی نفی کی ہے اور اکثر شیعہ اس پر اعتماد کرتے ہیں۔ ڈاکٹر قرضاوی نے اس کی وجوہات میں لکھا کہ
شیعوں کے ہاں قرآن مجید کا وہ ہی مصحف رائج ہے جو اہل سنت کے ہاں ہے۔
ان کے مفسرین اس ہی قرآن کی تفسیر کرتے رہے جس کی سنی مفسرین نے کی ہے۔
وہ اپنے عقائد کے اثبات میں اس ہی قرآن کی آیات کو بطور استدلال پیش کرتے ہیں
ان کے مدارس و جامعات میں اس ہی قرآن کی تعلیم دی جاتی ہے
ایران میں اس ہی قرآن مجید کی بڑے پیمانے پر اشاعت کی جاتی ہے۔
ڈاکٹر قرضاوی کہتے ہیں کہ یہ باتیں اس کا وافر ثبوت ہے کہ تحریف قرآن کے نظریے کی نسبت اہل تشیع کی طرف درست نہیں ہے۔
دوسری مثال ڈاکٹر قرضاوی نے مٹی پر سجدہ کرنے کے بارے میں دی کہ وہ خود بھی پہلے یہ سمجھتے تھے کہ شیعہ مٹی کی ڈلی اس لیے رکھتے ہیں کہ وہ اس مٹی کی تقدیس کرتے ہیں کیونکہ یہ کربلا کی مٹی ہوتی ہے۔ مگر بعد میں دوحہ میں ان کی ملاقات شیعہ عالم امام موسیٰ الصدر سے ہوئی تو ان سے یہ معلوم ہوا کہ شیعہ کے نزدیک شرط ہے کہ سجدہ جنس زمین پر کیا جائے اس لئے وہ جائے نماز یا قالین پر سجدے کو درست نہیں سمجھتے۔ اس لیے وہ ڈلی جو جنس زمین سے ہو پر سجدہ درست ہے اس کے لیے کربلا کی مٹی یا مخصوص زمین کی مٹی کی کوئی شرط نہیں۔ بعد میں ڈاکٹر قرضاوی کہتے ہیں کہ انہوں نے فقہ جعفریہ کی مستند کتب میں بھی اس مسئلہ کو پڑھا تو یہی معلوم ہوا کہ مٹی کی تقدیس والے نظریے کا شیعہ کی طرف انتساب درست نہیں ہے۔
ڈاکٹر قرضاوی کا ذکر کردہ دوسرا اصول حسن ظن ہے۔ اسلام اپنے پیروکاوں کو آپس میں حسن ظن کی بنیاد پر تعلقات استوار کرنے کو پسند کرتا ہے وہ بدگمانی سے منع کرتا۔ اس لیے حتی الامکان ہمیں دوسروں سے خوش گمانی کی تعلیم دیتا ہے جب تک اس برعکس ثابت نہ ہو جائے۔ صحت مند مکالمے کے لیے بھی جانبین کی طرف سے ایک دوسرے سے حسن ظن لازمی ہے اس کے بغیر بات چیت بامقصد نہیں ہو سکتی۔
تیسرا اصول مشترکات پر زور ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ فریقین کو اختلافی کی بجائے اتفاقی امور پر توجہ مرکوز رکھنی چاہیے۔ ڈاکٹر صاحب نے لکھا ہے کہ شیعہ و سنی عقائد میں ایمان باللہ ،ایمان بالرسالت ، ایمان بالآخر ،ختم نبوت وغیرہ جیسی بنیادی چیزوں پر اتفاق ہے۔اس کے علاوہ عملی ارکان میں سے نماز ،روزہ ، زکوٰۃ اور حج پر بھی اتفاق ہے۔ ان عبادات کو بجا لانے میں جو دونوں میں اختلاف ہے وہ بالکل اس طرح کا ہے جیسے اہل سنت کے ہاں آئمہ اربعہ کا ہے۔ بہت سے مسائل میں احناف کی رائے آئمہ ثلاثہ سے مختلف ہے اور ایسے ہی شوافع ، حنابلہ اور مالکیہ کی آراء بھی مختلف ہیں۔
یہاں پر نکاح متعہ کے بارے میں ڈاکٹر قرضاوی نے لکھا ہے کہ اہل سنت اس کے قائل نہیں مگر صحابی رسول حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما پہلے اس کے قائل تھے بعد میں انہوں نے اپنی رائے سے رجوع کیا۔ جبکہ ان کے اصحاب میں سے عطاء، سعید بن جبیر اور طاؤس اس کے جواز کا فتویٰ دیتے تھے۔
چوتھا اصول اختلافی مسائل میں مکالمہ ہے۔ یہاں ڈاکٹر قرضاوی نے شیخ رشید رضا مصری کا قول نقل کیا ہے کہ
” ہم اتفاقی مسائل میں باہمی تعاون کی راہ اپنائیں گے اور اختلافی مسائل میں ایک دوسرے کو معاف رکھیں گے”
یہاں پر ڈاکٹر قرضاوی نے ایک جگہ بہت اہم بات کی ہے جس میں اس اصول کی بہت کھل کر وضاحت کے ساتھ دیگر اور بہت سی باتوں کو سمجھنے کی دعوت دی گئی ہے۔ میں ڈاکٹر صاحب کا اقتباس نقل کرتا ہوں
“اکثر نصوص ایسی ہوتی ہیں جن کا ثبوت یقینی ہے لیکن ان کا معنی ظنی ہے۔ یا ثبوت ظنی ہے اور معانی یقینی ہے،یا اس کا ثبوت اور معنی دونوں ظنی ہیں۔ معانی کے ظنی ہونے کی وجہ نصوص میں اجتہاد اور اختلاف کی گنجائش پیدا ہو جاتی ہے اور یہیں سے مخالفت کرنے والوں کو معاف کیا جا سکتا ہے۔ کبھی کبھار کسی مسئلے میں آپ کے پاس حدیث ہوتی ہے، اس کے باوجود میں آپ سے اختلاف رکھتا ہوں۔ کیونکہ وہ آپ کے نزدیک ثابت ہوتی ہے لیکن میرے نزدیک نہیں۔ اس کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ یا وہ حدیث ہم دونوں کے نزدیک ثابت ہوتی ہے لیکن میں اس حدیث کا معنی وہ نہیں سمجھتا جو آپ سمجھ رہے ہوتے ہیں اس سے میرا استنباط آپ کے استنباط کے مخالف ہوتا ہے۔ اس لیے میں جو آپ سے اختلاف کرتا ہوں اس کا مطلب حدیث کی مخالفت نہیں ،بلکہ آپ کے فہم حدیث کی مخالفت ہے۔ اب حدیث وحی ہے لیکن آپ کا فہم وحی نہیں ہے”
یہ اقتباس بہت معنی خیز ہے جس میں بہت سے اختلافات جو کہ فہم کا نتیجہ ہیں کے بارے میں درست طرزِ عمل اختیار کرنے کی دعوت دی گئی ہے اور اس سے اختلافات میں وہ شدت اور انتہا پسندی برقرار نہیں رہتی جو افتراق اور انتشار پیدا کرتی ہے۔ اس معاملے میں دوسرے کے فہم سے اختلاف کرنے کا انداز بھی سنجیدگی اور متانت کا متقاضی ہے۔
ڈاکٹر قرضاوی نے اس اصول کی مزید وضاحت میں لکھا ہے کہ اختلافی معاملات میں ان معاملات پر گفتگو ہونی چاہیے جو کے عملی نوعیت کے ہیں فکری و نظریاتی پہلوؤں کو مؤخر کرنا چاہیے کیونکہ ان کا نتیجہ نکلنا مشکل ہے اس کی مثال ڈاکٹر قرضاوی نے آخرت میں رؤیت باری تعالیٰ کی دی ہے جس میں اہل سنت کا معتزلہ ، اباضیہ اور شیعہ سے اختلاف ہے۔ اس مسئلہ پر بحث و مباحثے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
دو نمازوں کو جمع کرنے پر ڈاکٹر قرضاوی نے لکھا ہے کہ اہل تشیع عالم شیخ سبحانی نے اپنی کتاب میں واضح طور پر لکھا ہے کہ اگرچہ دو نمازوں کو جمع کرنا جائز ہے مگر الگ الگ اپنے وقت پر پڑھنا افضل ہے۔
پانچواں اصول اشتعال انگیزی سے اجتناب ہے۔مصنف نے لکھا ہے کہ قرآن مجید نے ہمیں اچھے طریقے سے بحث یعنی ‘جادلھم بالتی ھئ احسن ‘ کا حکم دیا ہے۔ اس لیے فریقین کو ایک دوسرے کو مخاطب کرتے ہوئے ایسے الفاظ سے گریز کرنا چاہیے جو دوسرے فریق کو مشتعل کریں۔ جیسے شیعہ ناپسند کرتے ہیں کہ انہیں روافض کہہ کر پکارا جائے یا پھر شیعہ کی جانب سے اہل سنت کو ناصبی قرار دینا۔
ڈاکٹر صاحب نے لکھا کہ ایسے حساس موضوعات جن سے نفرتیں بڑھیں سے دور رہا جانا چاہیے۔ جیسے کہ اہل تشیع کا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی بے ادبی کرنا یا اہل سنت کی جانب سے اہل بیت کی بے ادبی کرنا۔
اہل سنت کی طرف سے اہل بیت کی بے ادبی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا، اس لیے ڈاکٹر قرضاوی نے اس کے بعد میں فوری طور پر وضاحت کی ہے کہ اہل سنت کے نزدیک اہل بیت کا مقام و مرتبہ انتہائی بلند ہے۔ ان سے محبت اور ان کی مدح سرائی ہر سنی کرتا ہے۔ حضرت سیدنا علی، حضرت سیدنا حسن، حضرت سیدنا حسین اور حضرت سیدہ نساء العالمین رضی اللہ عنہم سے محبت اور ان کے فضائل و مناقب بیان کرنا اہل سنت اپنے لیے اعزاز سمجھتے ہیں۔ اس لیے ڈاکٹر صاحب کو اپنی تحریر میں کمزوری کے اس پہلو کا احساس تھا جو انہوں نے اس کی از خود وضاحت کر دی۔
جہاں تک اہل تشیع کی جانب سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی بے ادبی کا مسئلہ ہے تو ڈاکٹر یوسف القرضاوی کو بھی اس کی حساسیت کا اندازہ ہے جس کا انہوں نے اظہار کیا ہے اور لکھا ہے کہ یہ ممکن نہیں کہ ہمارے درمیان افہام و تفہیم کا سلسلہ شروع ہو جبکہ ہم حضرت سیدنا ابوبکر صدیق کو رضی اللہ عنہ کہیں جبکہ دوسرا فریق لعنت بھیجے۔ ڈاکٹر قرضاوی کہتے ہیں کہ میں نے اس مسئلہ پر شیعہ علماء سے بات کی ہے اور انہوں نے اس کو تسلیم کیا کہ یہ چیز ہمارے مابین ہم آہنگی کی اولین رکاوٹ ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا ہے کہ شیعہ کے اندر بھی اس بات کا احساس پایا جاتا ہے اس لیے اب رجحان تبدیل ہو رہا ہے۔ شیعہ عالم آیت اللہ تسخیری اور آیت اللہ واعظ زادہ نے ڈاکٹر قرضاوی کو بتایا کہ ایران میں جدید نصابی کتب میں حضرت سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہم کی تاریخی آراء کا ذکر کیا جاتا ہے جس سے ان کی عظمت ظاہر ہوتی ہے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مابین باہمی تنازعات پر ڈاکٹر قرضاوی نے شیعہ کو مخاطب کر کے کہا ہے کہ یہ تاریخ کا حصہ ہے اور اللہ تعالیٰ ان لوگوں سے ان کے اعمال اور نیتوں کے مطابق بدلہ دے گا۔ ہمارے لیے بہتر یہی ہے کہ ان کا معاملہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیں اور ان کے حساب کتاب کی ذمہ داری اپنے سر نہ لیں۔ وہ ایک امت تھی جو گزر چکی ان کے اعمال کا حساب ہم سے نہیں ہوگا۔ ہمیں ساتھ ساتھ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ کسی کے کفر یا گمراہی کا حساب اللہ تعالیٰ کا کام ہے ہمارا نہیں اور اس کا اصل وقت دنیا نہیں بلکہ آخرت ہے۔
ڈاکٹر قرضاوی نے ایک بہت اہم بات یہ بھی لکھی ہے کہ بالفرض مان بھی لیا جائے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم گناہ گار یا خطاء کار تھے مگر پھر بھی امکان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت اور ان کی معیت میں جہاد ان کی سفارش کا ذریعہ بن جائے۔
میرے خیال میں بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں اختلاف ہی شیعہ و سنی کا سب سے بڑا اور حساس اختلاف ہے۔ اس بارے میں جب تک ایک فریق کم از کم زبان بندی پر راضی نہیں ہوتا اس وقت تک اس کو حل نہیں کیا جاسکتا۔
ڈاکٹر قرضاوی نے اس پر مزید وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ گالم گلوج ویسے بھی مسلمانوں کا شعار نہیں ہے، بلکہ ہمیں تو کسی کے جھوٹے خدا کو برا بھلا کہنے سے بھی روکا گیا ہے۔ اس کے علاوہ بھی قرآن و حدیث سے متعدد شواہد کے ساتھ ڈاکٹر صاحب نے بتایا ہے دین اسلام گالی کو ناپسند کرتا ہے۔
چھٹا اصول کلمہ گو کی تکفیر سے اجتناب ہے۔ ڈاکٹر قرضاوی نے لکھا ہے کہ احادیث میں صریح الفاظ میں مسلمان پر کفر کے الزام سے منع کیا گیا ہے۔ اس بارے میں ڈاکٹر قرضاوی نے کئی احادیث نقل کی ہیں جن میں ایک حدیث جو صحیحین میں آئی ہے کے مطابق کسی مسلمان پر کفر کا الزام اس کے قتل کے مترادف ہے۔
ڈاکٹر قرضاوی نے لکھا ہے کہ ہم ظاہر کے پابند ہیں ہمیں یہ حکم نہیں کہ کسی کا سینہ چیر کر دیکھیں کہ وہ مسلمان ہے کہ نہیں ۔ ڈاکٹر صاحب نے حضرت سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کی وہ حدیث کئی جگہ نقل کی جس میں انہوں نے ایک شخص جو کلمہ پڑھ رہا تھا کو قتل کیا جس کو سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معلوم ہونے پر ناپسند فرمایا۔
ڈاکٹر قرضاوی نے لکھا کہ کسی کا گناہ میں مبتلا ہونا یا بدعت کا ارتکاب کرنا یا کسی غلط رائے کو اختیار کرنا اس کے لیے تکفیر کو جائز نہیں کرتا۔
یہاں پر ڈاکٹر قرضاوی نے شیخ ابنِ تیمیہ کی تحریر بھی نقل کی ہے جس میں تکفیر کی بابت حد درجے احتیاط پر زور دیا گیا ہے۔ اور کسی گناہ کی وجہ سے اس کے ناجائز ہونے کو بیان کیا ہے۔ شیخ ابنِ تیمیہ نے خوارج کی مثال دی ہے جن سے حدیث میں قتال کا حکم ہے اور حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان سے قتال کرنے کے باوجود ان کی تکفیر نہیں کی اور ان سے قتال کرتے ہوئے بھی انہیں مسلمان سمجھا۔ شیخ ابنِ تیمیہ کہتے ہیں کہ ایسے لوگ جن کی گمراہی نص اور اجماع سے ثابت ہے ان کی تکفیر نہیں کی گئی تو ان گروہوں کی تکفیر کیسے کی جا سکتی جنہیں چند مسائل میں شبہ ہوا ہو۔
اس جگہ ڈاکٹر یوسف القرضاوی نے یہ بھی لکھا ہے کہ بعض لوگ بعض احادیث جو خبر واحد سے تعلق رکھتی کا انکار کرتے ہیں جس پر جلد باز مفتی ان کی تکفیر کر دیتے ہیں جبکہ انکار کرنے والوں کے نزدیک یہ احادیث قرآن مجید یا متواتر احادیث یا دیگر دلائل کے خلاف ہوتی ہیں اس لیے وہ ان کو تسلیم نہیں کرتے۔ ان کی سمجھ میں غلطی ہو سکتی ہے مگر ان کے شبہات کو جانے بغیر ان کو منکرین حدیث میں شمار کر کے ان کی تکفیر کرنا درست نہیں ہے۔ علماء نے فقط ان لوگوں کی تکفیر کی ہے جو علی الاطلاق سنت کا انکار کرتے ہیں۔
اس بارے میں ڈاکٹر قرضاوی نے ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی مثال ذکر کی ہے کہ چند احادیث پر ان کی خاص آراء تھیں اور وہ انہیں قرآن مجید کے خلاف مانتے ہوئے ان کا انکار کرتی تھیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی نے بھی ان کو سنت سے انکار کا طعنہ نہیں دیا،بلکہ ان کی آراء سے اختلاف ضرور کیا۔
یہ ایک اہم موضوع ہے کہ کسی خاص حدیث کا انکار کرنے اور پھر اس کے فہم میں باقی اہل علم سے اختلاف کو کس انداز میں دیکھا جانا چاہیے۔ اس بارے میں حسن ظن کا مظاہرہ بھی ضروری ہے تو ساتھ ہی علمی روایت کو بھی سامنے رکھنا ہو گا۔
ساتواں اصول انتہاء پسندی سے دوری ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے لکھا ہے کہ ہم آہنگی کے لیے ضروری ہے کہ دونوں جانب سے اصحاب بصیرت جو تنگ دل نہ ہوں اور معاملات کو سکون و دانش کے ساتھ اور اعتدال سے دیکھتے ہوں آگے بڑھیں۔
اس جگہ مصنف نے شیعہ کی طرف تحریف قرآن کے عقیدے کے غلط ہونے کو پھر سے بیان کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ علامہ رحمت اللہ کیرانوی رحمہ اللہ کی کتاب اظھار الحق سے ایک اقتباس نقل کیا ہے جس میں عیسائیوں کو جواب دیتے ہوئے علامہ کیرانوی نے لکھا کہ اثناء عشری علماء کے نزدیک قرآن مجید کسی قسم کے تغیر و تبدل سے پاک ہے۔ تحریف کا قول شیعہ علماء کے نزدیک مردود اور ناقابل قبول ہے۔
اس کے علاوہ شیعہ کے اوپر لگے دیگر الزامات جن کی وجہ سے کچھ گروہ ان کی تکفیر کو جائز قرار دیتے ہیں کے بارے میں بات کی ہے۔
تحریف قرآن کے بعد شیعہ پر دوسرا الزام انکار سنت کا آتا ہے۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے ڈاکٹر قرضاوی نے لکھا کہ وہ سنت کو اپنے احکام کا مصدر مانتے ہیں مگر اس کو لیتے اپنے راویوں سے ہیں
جہاں تک شیعہ کی جانب سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر تبراء کرنے کی بات ہے تو بیشک یہ ایک بڑا مسئلہ ہے مگر ان کے پاس شبہات اور تاویل ہے جس کی وجہ سے ان کی طرف کفر کی نسبت نہیں کی جا سکتی البتہ اس تاویل سے ان کی جانب فسق کا قول کیا جائے گا۔
اپنے آئمہ کو معصوم ماننے کی بنیاد پر بھی کچھ لوگ ان کی تکفیر درست سمجھتے ہیں ۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے ڈاکٹر قرضاوی نے لکھا ہے کہ ہم اس معاملے پر ان کو غلطی پر مانتے ہیں مگر ہماری رائے میں یہ بھی کفر بواح میں نہیں ہے۔
شیعوں کے کچھ افعال جیسے مصائب کے وقت اپنے اماموں کو پکارنا اور ان سے مدد مانگنا، نیز مزارات پر جا کر سجدے کرنا اس کی بنیاد پر لوگ شیعہ کو توحید الٰہی کا قائل نہ مانتے ہوئے ان کی تکفیر کرتے ہیں تو اس کے جواب میں ڈاکٹر قرضاوی نے لکھا کہ یہ مسائل اہل سنت میں صوفیاء کے پیروکاروں میں بھی پائے۔ یہ مرض سب کا ساجھا ہے مگر فرق یہ ہے کہ اہل سنت میں بہت سے اہل علم نے ان بدعات و خرافات پر تنقید کی ہے جبکہ اہل تشیع میں اس کی مثال نہیں ملتی۔
میں کہتا ہوں کہ جیسے ڈاکٹر قرضاوی نے فہم نصوص کے بارے میں اس سے قبل اپنے چوتھے اصول میں گفتگو کی اس کو مدنظر رکھتے ہوئے اس مسئلہ کو بھی سمجھا جا سکتا ہے۔ غیر اللہ سے مدد مانگنا یا توسل اختیار کرنا اس بارے میں کچھ اہل علم کا فہم ڈاکٹر قرضاوی یا پھر ان کے ہم خیال لوگوں سے مختلف ہے۔ کسی مسلمان کے لئے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ توحید اور رب تعالیٰ کی واحدانیت کی ادنی سی بھی خلاف ورزی کرے۔
جہاں تک مزارات پر خرافات والی بات ہے تو خود صوفیاء سے منسلک سنی علماء نے اس کا پرزور رد کیا ہے۔
تکفیر کے سلسلے میں ڈاکٹر قرضاوی علامہ ابنِ عابدین شامیؒ کے کلام کو نقل کیا ہے۔ جس میں علامہ حصکفیؒ کے قول کہ جس نے شیخین رضی اللہ عنہم کو گالی دی وہ کافر ہو گیا نیز اس کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی۔ علامہ شامیؒ نے لکھا کہ توبہ قبول نہ کرنے کا قول ائمہ میں سے کسی سے ثابت نہیں۔ اس لیے علامہ حصکفی رحمہ اللہ کا قول مضبوط نہیں ہے۔
علامہ شامیؒ نے خوارج کی مثال بھی دی جو کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تکفیر کرتے تھے، فقہاء اور محدثین نے ان کا شمار باغیوں میں کیا ہے مگر ان کی تکفیر نہیں کی۔
علامہ شامی نے لکھا ہے کہ جو لوگ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگائے ، حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صحابیت کا انکار کرے یا حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو الوہیت کے درجے پر فائز کرے یا حضرت جبریل علیہ السلام کی طرف وحی لانے میں خطا کرے تو اس شخص کی تکفیر کی جائے گی ۔ پھر بھی اگر وہ توبہ کرے تو اس کی توبہ قبول کی جائے گی۔
علامہ شامی کی اس بات کو غور سے دیکھا جائے تو حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صحابیت کا انکار ہو یا ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت یا پھر حضرت جبریل علیہ السلام سے وحی کی خطا یہ دراصل قرآن کا انکار ہے۔ حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو الوہیت کا درجہ دینا عقیدہ توحید کی صریح خلاف ورزی ہے۔ اس لیے اس بنیاد پر ایسے شخص کی تکفیر بالکل درست ہے۔
آٹھواں اصول حکیمانہ صاف گوئی کے نام سے ہے۔ مصنف کے نزدیک ہمیں چیزوں کو چھپا کر ان کو ٹالنا نہیں چاہیے۔ بلکہ مسائل کو حکیمانہ انداز میں پیش کرنا چاہیے۔
ڈاکٹر قرضاوی نے سنی علاقوں میں شیعیت کی تبلیغ یا پھر شیعہ علاقوں میں سنیت کی تبلیغ کو نقصان دہ قرار دیا ہے اور لکھا کہ یہ چیز اتحاد کو نقصان پہنچانے کا باعث بنتی ہے۔ اس لیے مناسب نہیں ہے کہ ایک مسلک کی اکثریت کے علاقے میں دوسرا اپنے مسلک کی اشاعت کرے ۔
ڈاکٹر قرضاوی نے تہران میں رہنے والے سنیوں جن کی تعداد لاکھوں میں ہے کہ مطالبہ کے انہیں مسجد بنانے دی جائے پر ایرانی حکومت سے مطالبہ کیا کہ ایران میں رہنے والے سنیوں کا یہ مطالبہ پورا کیا جائے۔ عراق میں بھی صدام حکومت کے خاتمے کے بعد کئی مساجد جو کہ اہلسنت علاقوں میں تھیں پر شیعہ نے قبضہ کیا حالانکہ وہ پورے کے پورے علاقے سنیوں پر مشتمل ہیں۔
بین المسالک ہم آہنگی کے لیے ڈاکٹر قرضاوی نے نواں اصول دشمن کی سازشوں سے ہوشیاری کے نام سے دیا ہے۔ یہ ہم آہنگی کو قائم رکھنے کے لیے ایک اہم نکتہ ہے کیونکہ مسلمانوں کی باہمی تفریق اور انتشار کا فائدہ دشمن کو ہوتا ہے۔ اس بارے میں ڈاکٹر قرضاوی نے قرآن مجید کی وہ آیات اور احادیث ذکر کی ہیں جو اہل ایمان کی گروہی تقسیم کی مذمت کرتی ہیں۔
دسواں اور ڈاکٹر صاحب کا مرتب کردہ آخری اصول مصیبت کے وقت اتحاد ہے۔ ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ ہو سکتا ہے امن و عافیت اور عیش و راحت میں انتشار اور اختلاف کی کوئی گنجائش نکلتی ہو مگر یہ کسی صورت درست یا جائز نہیں کہ مصیبت کے وقت تفرقہ پیدا کیا جائے۔ آج امت مسلمہ جس طرح کے مصائب و مشکلات میں مبتلا ہے تو اس کا تقاضا ہے کہ سب مسلمان یکجا ہو کر اس کا مقابلہ کریں۔ جس طرح کے عالمی حالات پیدا ہو گئے ہیں اس کے بعد اتحاد کی ضرورت اور بڑھ گئی ہے۔ اس لیے اس ضرورت کو پیش نظر رکھتے ہوئے اگر بین المسالک مکالمے کی بنیاد رکھی جائے تو نتیجہ خیز ہونے کے امکانات زیادہ بڑھ جائیں گے ۔
ڈاکٹر یوسف القرضاوی نے بہت خلوص سے بین المسالک ہم آہنگی اور مکالمے پر اپنی رائے پیش کی اور اس میں اکثر باتیں بہت منطقی اور انتہائی مناسب ہیں۔ جس میں دوسرے فریق کے لیے حتی الوسع نرمی اور حسن ظن پایا جاتا ہے۔
اس بات کی گنجائش ہے کہ اس معاملے پر زیادہ حساس لوگوں کے نزدیک ڈاکٹر یوسف القرضاوی نے ضرورت سے زیادہ حسن ظن اور نرمی کا مظاہرہ کیا ہے۔ کیونکہ ایسے لوگ جن کا ان دو مسالک کے مابین کشمکش کا وسیع مطالعہ ہے اس کے نزدیک ڈاکٹر یوسف القرضاوی کی تجاویز ناقابلِ عمل ہوں۔ لیکن یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ جب مکالمے کی بنیاد ڈل جائے تو پھر فریق مخالف کو اتنا موقع دینا پڑتا ہے کہ وہ اپنا نکتہء نظر پیش کر سکے۔اب یہ اپنی بات پیش کرنے والے کے اوپر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ کس انداز میں اپنا نکتہء نظر پیش کرتا ہے اور اس کو اپنے عمل سے بھی ثابت کرنا پڑتا ہے کہ وہ اس معاملے پر کتنا سنجیدہ ہے۔ مثلاً اگر ایرانی دارالحکومت میں لاکھوں سنیوں کے ہوتے ہوئے بھی سنی مسجد قائم کرنے کی اجازت نہیں ہے تو پھر کیسے دوسرے فریق کے دل میں یہ خیال پیدا ہو گا کہ وہ ہم آہنگی کے لیے دوسری جانب اخلاص اور سنجیدگی پائی جاتی ہیں۔
ڈاکٹر یوسف القرضاوی نے اس رسالے میں حقیقت پسندی کا بھی مظاہرہ کیا ہے اور بتا دیا ہے کہ اس مکالمے کا مقصد شیعہ کو سنی بنانا یا پھر سنیوں کو شیعہ بنانا نہیں ہونا چاہیے۔ یہ اولین شرط ہے جس کی پاسداری کرنے سے ہر مسلک عدم تحفظ کا شکار نہیں ہو گا۔
ڈاکٹر قرضاوی کے وضع کردہ اصولوں پر بھی اختلاف کی گنجائش ہے، مثلاً کہا جا سکتا ہے کہ آخری دو اصول سے زیادہ حالات کا تقاضا ہیں۔ ڈاکٹر قرضاوی نے اہم اور حساس موضوع پر قلم اٹھایا اور ان جیسے جید اور وسیع المطالعہ شخص ہی کو زیب دیتا تھا کہ وہ ان مسائل پر امت کی راہنمائی فرمائیں۔ رب تعالیٰ ان کو جزائے خیر عطا فرمائے
بہت بہت شکریہ راجا صاحب کہ آپ نے کتاب کے ترجمے پر لکھا۔