حضرت امام حسن ؓ انتہائی حسین وجمیل تھے ۔ ان کی جوانی سیّدنا حضرت یوسف علیہ السّلام کی طرح مثالی تھی ۔
” جو دیکھتا توپھردیکھتا ہی چلا جاتا “
جوں جوں باغ نبوت کے اس بے مثال پھول کے ماہ وسال گذرتے جاتے توں توں اس کی ذات عالی میں پوشیدہ جوہرابھرتے جاتے ۔
ایک مرتبہ کریم ناناﷺدل لگی کے طورپر اپنے دونوں نواسوں کی کشتی کروارہے تھے اورباربارامام حسن ؓکا حوصلہ بڑھاتے۔ پاس ہی بیٹھی حسنین ؓ کی بے مثال اماں سیّدہ زہراءؓ سارا ماجرا دیکھ کرلطف اندوزہو رہی تھیں۔ کہنے لگیں ” اباجان آپ حسن ؓکا حوصلہ بڑھارہے ہیں جبکہ وہ توبڑے ہیں ۔“ اس پرکریم ناناﷺنے فرمایا کہ جبرئیل امین بھی یہ کھیل دیکھ رہے ہیں اوروہ حسین ؓکا حوصلہ بڑھا رہے ہیں اورمیں حسن کا ۔
ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ منبر پر جلوہ افروز تھے اور آپ کے پہلو میں آپ کامحبوب نواسہ امام حسن ؓتشریف فرما تھے ۔ آنحضرت ﷺ ایک بارحاضرین کی طرف متوجہ ہوتے اور ایک بار اپنے ننھے شہزادے کی طرف اور فرماتے
”میرایہ بچہ سردارہے۔ امید ہے اللہ تعالی اس کے ذریعے مسلمانوں کے دوگروہوں کے درمیان صلح کرادے گا“
چنانچہ آپ نے اپنے ناناجانﷺکی پیشین گوئی کو پورا کیا اورآپ کی وجہ سے مسلمانوں کے دوبڑے گروہوں کے مابین صلح کی وجہ سے لاکھوں مسلمانوں کا قتل عام رک گیا ۔
آپ ربیع الاول ۱۴ہجری میں خلافت کے حق سے یہ کہتے ہوئے دست بردارہوگئے کہ ” میں اس بات کو ناپسندکرتا ہوں کہ میری حکومت کی خاطرمسلمانوں کا خون بہے“۔
ایک موقع پر ارشاد فرمایا کہ ”عربوں کی کھوپڑیاں میرے ہاتھ میں تھیں جس سے میں صلح کرتا اس سے وہ صلح کرتے اورجس سے میں جنگ کرتا وہ جنگ کرتے مگر میں نے ا س کو (حکومت کو)اللہ کی رضاجوئی کے لئے چھوڑ دیا “۔
ایک بارفرمایا، ”مجھے خوف تھا کہ قیامت کے روزمیرے سامنے ستّرہزار یا اسّی ہزار یا اس سے زیادہ یا کم لائے جائیں اوران سب کی رگوں سے خون بہہ رہا ہو اور جن کاخون بہا وہ اللہ تعالی سے میرے خلاف شکوہ کریں ۔“
آپ نے بہت سے پیدل حج کئے اورفرمایا کرتے کہ” مجھے اس سے شرم آتی ہے کہ قیامت کے روزاللہ تعالی کی بارگاہ میں اس حال میں حاضرہوں کہ اس کے گھر پیدل چل کرنہ گیاہوں۔
ساری زندگی انتہائی سادگی اورعاجزی کے ساتھ بسرکی اوراپنی ذات کی وجہ سے کبھی کسی سے بدلہ نہیں لیا یہاں تک کہ جس بدبخت نے آپ کو زہر دیا جوکہ آپ کی شہادت کا باعث بنا اس کو بھی معاف کردیا۔
قریش کا ایک آدمی آپ کی خدمت میں حاضر ہوا توآپ نے اس کو بتلایا کہ مجھے باربار زہر دیا گیا اور ہر مرتبہ پہلی بار سے زیادہ تیزاورسخت قسم کا زہردیا گیا۔ اس وقت آپ پرنزع کی کیفیت طاری ہوچکی تھی ۔ حضرت امام حسین ؓآپ کے برادرصغیر اس موقع پر تشریف لائے اورسرہانے بیٹھ گئے اورکہنے لگے بھائی جان آپ کو زہردینے والا کون ہے؟ فرمایا کیا تم اس کو قتل کرناچاہتے ہو؟
کہنے لگے جی ہاں۔ اس پرفرمایا اگرمجھے زہردینے والاوہی شخص ہے جس کوسمجھ رہاہوں تواللہ تعالی زیادہ سخت انتقام لینے والاہے۔اوراگروہ نہیں ہے تومیں نہیں چاہتا کہ تم کسی بے قصورکو (شبہ میں) قتل کرو۔
آپ کی وفات کے بعدجنت البقیع میں آپ کودفن کیاگیا۔ آپ کے جنازہ میں اس قدرمجمع تھاکہ راوی فرماتے ہی کہ اگرسوئی پھینکی جاتی تووہ بھی کسی نہ کسی کے سرپرگرتی نہ کہ زمین پر۔
حضرات حسنین کریمین ؓپوری امت مسلمہ کے ماتھے کا جھومراور افتخارہیں ۔رحمة للعالمین ﷺحالت نمازمیں سجدہ کی حالت میںٰ ہوتے تو امام حسینؓ ان کی پشت پرسوارہوجاتے جس پر فرط محبت میں سبطین کریمین کے شفیق ناناﷺ سجدہ کوطویل کردیتے ہیں لیکن اپنے پیارے نواسہ کو نیچے نہ اتارتے ۔
سیّدنا حضرت عمرفاروق ؓ ایک دن دیکھتے ہیں سبطین کریمین ؓ کے محبوب ناناﷺاپنے مبارک کندھوں پراپنے شہزادوں کو اٹھائے ہوئے ہیں ۔تودیکھ کرفرمایا واہ واہ کیاہی اچھی سواری ہے ۔کریم نانا نے فوراً فرمایا ذرادیکھو توسواربھی توکتنے اچھے ہیں؟
اپنے شہزادوں کی محبت میں ایک مرتبہ ارشاد فرمایا ، ” حسن ؓ کے لئے میری ہیبت اورمیری سرداری میراورثہ ہے “ اور” حسین ؓکے لئے میری جرات اورمیری سخاوت میراورثہ ہے“
ایک دفعہ اندھیری رات میں نواسہ رسول جگرگوشہ ابوتراب وبتول امام حسن ؓدوجہاں کے سرداررحمة للعالمین کی آغوش شفقت سے برکتیں اوررحمتیں سمیٹ رہے تھے ۔ اسی اثناءمیں ننھے شہزادے نے اپنی اماں سیّدہ زہراءکے پاس جانے کی خواہش کا اظہارکیا توپاس بیٹھے محبوب صحابی سیّدنا ابوھریرہ ؓفوراحاضرخدمت ہوئے اورعرض کی، حضور اجازت ہوتومیں ننھے شہزادے کوچھوڑ آوں، توآپ ﷺنے جواب میں فرمایا نہیں۔ اسی دوران دفعتا آسمان میں بجلی چمکی اوراس کی روشنی اتنی دیررہی کے جنت کے نوجوانوں کایہ ننھا ساسرداراپنی پیاری اماں کے پاس پہنچ گیا ۔
حضرات حسنین کریمین ؓسے رب العالمین کی کس حدتک وارفتگی تھی کہ اپنے محبوب کے محبوب اورلاڈلے نواسے کی راہوں میں آسمانوں سے چراغاں کردیا۔
امام حسن ؓسینہ تک اپنے کریم ناناﷺکے مشابہ تھے۔ جو پہلی نظرحیدرکرارؓ کے شہزادے کو دیکھتا تو وہ بے اختیار کہہ اٹھتا کہ یہ دوجہاں کے سردارکاخون ہے ۔ ایک دن سیّدناابوبکرصدیق ؓحیدرکرارؓ کے لخت جگر کو کندھے پر سوار کئے ہوئے جارہے تھے کہ راستہ میں ان سے آمنا سامنا ہوا تو بے ختیار کہہ اٹھے، ” اے علی ؓیہ بیٹا تو تیرا ہے مگر مکھڑا کریم نانا ﷺ کا ہے“۔
ایک دن شیر خدا ؓ اپنے شہزادے امام حسن ؓ سے فرمانے لگے کہ ”میرادل یہ چاہتاہے کہ تم تقریرکرو اور میں سامنے بیٹھ کرسنوں“ جس پرفرماں بردارشہزادے نے فرمایا ابا جان مجھے شرم آتی ہے کہ آپ کے سامنے زبان کھولوں۔
ایک روزحضرت علی المرتضی ؓایسی جگہ جاکربیٹھ گئے جہاں حضرت حسن ؓ کونظرنہ آسکیں ۔آپ نے لوگوں کے سامنے اسی دلپذیرتقریر کی کہ حضرت علیؓ کی زبان سے بے ساختہ قرآن کریم کی یہ آیت مبارکہ نکلی ”ذُرّیة بعضھامن بعض واللہ سمیع علیم “ (یہ ایک ہی نسل توہے جس میں ایک دوسرے کا فرزندہے۔)
قربان جائیں سیّد ہ زہراءوحیدرکرّارؓکے جگرگوشوں پرکے کریم نانااپنے نواسوں کو اکثرسونگھا کرتے اورفرماتے کہ یہ دونوں میرے پھول ہیں ۔ یہ ایسے دلآویزپھول ہیں کہ جن کی مہک سے قیامت تک کائنات معطرہوتی رہے گی اورقیامت کے بعدجنت ان کی آمدپرفخرمحسوس کرے گی۔ جن پھولوں کو عظیم المرتبت ناناﷺکے حسین ہونٹوں نے بوسے دیے ہوں، جن کی بھوک وپیاس کریم ناناﷺکی شیریںلسان کوچوسنے سے مٹتی ہو، جن کے لیے سرورکائنات امام الانبیاءکاسینہ مبارک تکیہ بناہو،جن کی سواری مخدوم الانبیاء ﷺ ہوں، جن کی اداسی سے اللہ تعالی کے پیارے رسول ﷺبے چین ہوجائیں، ان کی عظمت کائنات کا کوئی مصنف ،مولف ،خطیب ،ادیب ،شاعربیان نہیں کرسکتا ۔
کمنت کیجے