عبدالغنی محمدی
علامہ شبلی نعمانی اس لئے ہمیشہ سے پسندیدہ رائٹر رہے ان کو جب بھی پڑھا بہت کچھ نیا ملا ۔ الکلام ، الغزالی ، الفاروق شبلی کی کوئی کتاب دیکھ لیں موضوع کا حق اداء کرتی نظر آئے گی ۔ علامہ کی سیرت النبی جیسی بے مثال کتاب کو دیکھ رہا تھا مقدمہ بہت اہم مباحث کا احاطہ کرتا ہے ۔ احادیث میں صحابہ کرام سے ہی یہی رحجان رہا ہے کہ اس کو عقل کی بناء پر رد کیا جاسکتا ہے کہ نہیں ۔ صحابہ کرام میں اگر ایک طبقہ ایسا تھا جو درایت کی بناء پر احادیث کو رد کردیتا تھا تو ایک طبقہ ایسا بھی تھا جو سمجھ آئے نا آئے ان روایات کو ماننے پر زور دیتا تھا اور اگر کوئی حدیث کو عقل کی بناء پر رد کرتا تو اس سے ناراض ہو جاتے تھے کہ میں تمہیں رسول اللہ سے بیان کررہا ہوں تم اپنی عقل سے بات کررہے ہو ۔ اس لئے یہ بحث بہت تفصیلات کی متقاضی ہے اس پر کافی کچھ اصول فقہ ، حدیث اور کلام کی ابحاث میں لکھا جاچکاہے ۔
علامہ شبلی اس بحث کے دونوں پہلوؤں کا احاطہ کرتے ہیں کچھ روایات کو عقل کی بناء پر رد کرنے کی مثالیں ائمہ محدثین سے دیتے ہیں تو کچھ ایسی مثالیں بھی دیتے ہیں جنمیں عقل کی بناء پر روایت کو رد نہیں کیا گیا اس لئے صرف عقل کا لفظ استعمال کردینا کافی نہیں بلکہ وہ عقل عام اور مسلم ہو ۔
کچھ روایات ایسی تھیں جن کو دیکھتے ہوئے ذہن میں اشکال رہتا تھا ان کوکیسے قبول کیا جاسکتا علامہ شبلی محدثین کی عقلی آراء ان کے بارے پیش کرتے ہیں ۔
عمرو بن میمون سے روایت ہے کہ میں نے زمانہ جاہلیت میں ایک بندر کو دیکھا جس نے زنا کیا تھا اس پر اور بندروں نے جمع ہو کر اس کو سنگسار کیا، حافظ ابن عبدالبر نے جو مشہور محدث ہیں، اس بنا پر اس حدیث کی صحت میں تامل کیا کہ جانور مکلف نہیں، اس لئے ان کے فعل پر نہ زنا کا اطلاق ہو سکتا، نہ اس بنا پر ان کو سزادی جاسکتی ہے۔ ابن عبدالبر کا یہ قول ایک رحجان کی عکاسی کرتا ہے جبکہ ابن حجر کی تاویل دوسرے رحجان کی عکاسی کرتی ہے
حافظ ابن حجر لکھتے ہیں۔
و قد استنكرا بن عبدالبر قصة عمرو بن ميمون هذه و قال فيها اضافة الزنا الى غير مكلف و اقامة الحد على البهائم ” ابن عبدالبر نے عمرو بن میمون کے اس قصہ سے انکار کیا ہے اور کہا ہے کہ اس میں غیر مکلف کی طرف زنا کی نسبت ہے اور جانوروں پر حد قائم کرنا بیان کیا گیا ہے۔
حافظ ابن حجر نے یہ قول نقل کر کے لکھا ہے کہ اعتراض کا یہ طریقہ پسندیدہ نہیں ہے اگر سند صحیح ہے تو غالبا یہ بندرجن رہے ہوں گے ۔ تو یہاں ابن حجر نے اس کی تاویل کرکے اس کو مقبول بنانے کی کوشش کی ہے گویا اعتراض ان کے ہاں بھی قائم ہے اس کو حل کرنے کا ایک مختلف انداز ہے ۔
بخاری میں روایت ہے کہ خدا نے جب حضرت آدم کو پیدا کیا تو ان کا قد ساٹھ گز کا تھا حافظ ابن حجر اس کی شرح میں لکھتے ہیں ۔
و يشكل على هذا ما يوجد الآن من اثار الامم السابقة كديار ثمود، فان مساكنهم تدل على ان قاماتهم لم تكن مفرطة الطول على جسماً يقتضية الترتيب السابق ….. . لم يظهر الان ما يزيل هذا الاشكال .
اس پر یہ اشکال وارد ہوتا ہے کہ قدیم قوموں کے جو آثار اس وقت موجود ہیں مثلا قوم ثمود کے مکانات ان سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کے قد اس قدر بڑے نہ تھے جیسا کہ ترتیب سابق سے ثابت ہوتا ہے ….. اور اس وقت تک مجھ کو اس اشکال کا جواب نہیں معلوم ہوا ۔
حافظ ابن حجر نے یہاں آثار کی بناء پر اعتراض کیا کہ ان کے گھر آج کے دور میں اس طرح کے ہیں ایسے کوئی شواہد نہیں ملے کہ انسانوں کے قد اتنے لمبے تھے ۔ اس روایت پر موجودہ دور میں بھی علم البشریات اور آثار قدیمہ کی رو سے یہی اعتراض کیا جاتا ہے جس کو ابن حجر جیسے ذہین آدمی نے بہت پہلے سمجھ لیا تھا ۔ محدثین اور فقہاء کی ذہانت کی ایسی مثالیں ان کی کتابوں میں جابجا ملتی ہیں ۔ ابن حجر نے اس روایت کا انکار نہیں کیا شاید کوئی تاویل ہوسکتی ہو یا ایسے کوئی آثار مل جائیں جن کی روشنی میں یہ بات درست ثابت ہو ۔
صحیح مسلم، کتاب الجہاد باب الفی میں روایت ہے کہ حضرت عباس اور حضرت علی حضرت عمر کے پاس آئے حضرت عباس نے حضرت عمر سے کہا کہ اقض بيني و بين هذا الكاذب الاثم الغادر الخائن میرے اور اس جھوٹے مجرم دھوکہ باز خائن کے درمیان فیصلہ کیجئے
چونکہ حضرت علی کی شان میں یہ الفاظ کسی مسلمان کی زبان سے نہیں نکل سکتے، اس لئے بعض محدثین نے اپنے نسخہ سے یہ الفاظ نکال دیئے ( نووی شرح صحیح مسلم ذکر حدیث مذکور ) ۔ علامہ مازری اس حدیث کی نسبت لکھتے ہیں۔ اذا انسدت طرق تاويلها نسبنا الكذب الى رواتها جب اس حدیث کی تاویل کے سب رستے رک جائیں گے تو ہم راویوں کو جھوٹا کہیں گے۔
شبلی کی عقیدت کا بھی اس حدیث پر بحث میں دخل ہے ۔ ایسے الفاظ شخصی تنازع میں ہوسکتا ہے بولے گئے ہوں کیونکہ حضرت عباس کی طبیعت بھی ایسی تھی جیسا کہ کچھ دیگر روایات سے معلوم ہوتا ہے لیکن ان الفاظ کا روایت بننا یقینا تکلیف دہ ہے کوئی بھی حضرت علی کی نسبت ان الفاظ کو پسند نہیں کرسکتا ۔ یہ حدیث کوئی رسول اللہ کا فرمان بھی نہیں ہے لیکن محدثین کے درایتی اور داخلی نقد کی مثال ہے ۔
اسی بحث کا دوسرا پہلو ہے کہ عقل کی بناء پر روایات کو رد کرنے لگیں تو ہر شخص کسی بھی روایت پر یہ فیصلہ کرنے میں دیر نہیں کرے گا کہ یہ اس کی عقل پر پورا نہیں اترتی ۔ اس لئے شبلی اس پر سوال اٹھاتے ہیں کہ کوئی روایت اگر عقل یا مسلمات یا دیگر قرائن صحیحہ کے خلاف ہو تو آیا صرف اس بناء پر واجب التسلیم ہوگی یا نہیں کہ رواۃ ثقہ ہیں اور سلسلہ سند متصل ہے؟ علامہ ابن جوزی نے اگر چہ لکھا ہے کہ جو حدیث عقل کے خلاف ہو اس کے رواۃ کی جرح و تعدیل کی ضرورت نہیں، لیکن اس سے اصل بحث کا فیصلہ نہیں ہوتا۔ عقل کا لفظ ایک غیر شخص لفظ ہے حامیان روایت لکھتے ہیں کہ اگر اس لفظ کو وسعت دے دی گئی تو ہر شخص جس روایت سے چاہے گا انکار کر دے گا کہ یہ میرے نزدیک عقل کے خلاف ہے۔
اس لئے اگر روایت کے رواۃ ثقہ اور مستند ہوں اور سلسلہ روایت کہیں سے منقطع نہ ہو وہ باجود خلاف عقل ہونے کے انکار کے قابل نہیں ۔
علامہ شبلی اس کی کچھ مثالیں دیتے ہیں کہ روایات کو خلاف عقل ہونے کی بناء پر رد کیا گیا لیکن محدثین نے ان کے رد پر سوال اٹھائے ہیں کہ ان روایات کی اصل قرآن مجید میں مذکور ہے تو کیا قرآن مجید کو بھی اس پر رد کیا جاسکتا ہے ۔
صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت ابراہیم نے تین دفعہ جھوٹ بولے تھے امام رازی نے اس حدیث سے اس بنا پر انکار کیا ہے کہ اس سے حضرت ابراہیم کا جھوٹ بولنا لازم آتا ہے اس لئے زیادہ آسان صورت یہ ہے کہ ہم حدیث کے کسی راوی کا جھوٹا ہونا مان لیں ۔ علامہ قسطلانی امام رازی کا یہ قول نقل کر کے لکھتے ہیں۔ فليس بشيء اذ الحدیث ثابت و ليس فيه نسبة محض الكذب الى الخليل و كيف السبيل الى تخطية الراوى مع قوله انى سقیم و بل فعله كبيرهم هذا و عن سارة اختى اذ ظاهر هذه الثلاثة بلاريب غير مراد امام رازی کا قول بالکل بیچ ہے اس لئے کہ حدیث ثابت ہے اور اس میں محض کذب کی نسبت حضرت خلیل” کی طرف نہیں ہے اور راوی کا تخطیہ کیونکر ہوسکتا ہے جب کہ حضرت ابراہیم کا یہ قول موجود ہے انی سقیم اور بل فعله كبيرهم هذا اور سارة أختى ) کیونکہ ان تینوں جملوں میں ظاہر لفظ قطعا مراد نہیں۔
علامہ قسطلانی نے اس حدیث کے خلاف عقل ہونے کا انکار کردیا کہ ایسا تو قرآن مجید میں بھی مذکور ہے ۔
دوسرا مشہور قصہ ہے جو تلك الغرانيق العلى کی حدیث میں ہے کہ شیطان نے آنحضرت ﷺ کی زبان مبارک سے وہ الفاظ نکلوا دیے جن میں بتوں کی تعریف ہے ۔ بعض محدثین نے ضعیف اور نا قابل اعتبار کہا تھا، اس کے باطل ہونے کی ایک عقلی دلیل یہ بیان کی تھی ۔لو وقع لا رتد كثير ممن اسلم و لم ينقل ذلك اگر ایسا ہوتا تو بہت سے مسلمان اسلام سے پھر جاتے حالانکہ ایسا ہونا مذکور نہیں۔
حافظ ابن حجر فتح الباری میں اس قول کو نقل کر کے لکھتے ہیں ۔ ذلك لا يتمشى على القواعد فان الطرق اذا كثرت و تباينت مخارجها دل ذلك على ان لها اصلا یہ تمام اعتراضات اصول کے موافق چل نہیں سکتے اس لئے کہ روایت کے طریقے جب متعدد ہوتے ہیں اور ان کے ماخذ مختلف ہوتے ہیں تو یہ اس بات کی دلیل ہوتی ہے کہ روایت کی کچھ اصل ہے۔ علامہ شبلی کہتے ہیں اس قسم کی بہت سی مثالیں مل سکتی ہیں کہ محدثین نے کسی روایت کے خلاف عقل ہونے کو تسلیم نہیں کیا ۔
کمنت کیجے