ڈاکٹر محمد زاہد صدیق مغل
بعض دوستوں کا کہنا ہے کہ امام اشعری (م 324 ھ) کی کتاب “الابانۃ عن اصول الدیانۃ” سے معلوم ہوتا ہے کہ صفات خبریہ یا متشابہات (جیسے کہ ید، استوی وغیرہ) سے متعلق آپ اسی مذہب پر تھے جس کی تعلیم بعض متاخرین علما جیسے کہ علامہ ابن تیمیہ (م 728 ھ) نے دی نیز آخری عمر میں اس حوالے سے امام صاحب اصحاب الحدیث کے موقف پر آگئے تھے۔ اسی طرح امام مالک (م 179 ھ) کے مشہور قول “الاستوی معلوم والکیفیة مجهول والایمان به واجب والسوال عنه بدعة” کا مفہوم بھی وہی ہے جو علامہ کہتے ہیں اور سلف کا موقف بھی یہی تھا۔ اس بنا پر دعوی کیا جاتا ہے کہ متاخرین اشاعرہ نے امام اشعری کے موقف کو ترک کردیا۔
تبصرہ
یہ دلیل محل نظر ہے کیونکہ امام اشعری کی کتاب میں ہماری معلومات کی حد تک ایسی کوئی صریح عبارت موجود نہیں جو متعلقہ استدلال کے لئے مفید ہو اور نہ ہی امام مالک کے قول میں کوئی ایسی بات ہے، بلکہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔
1۔ سب سے پہلے نفس مسئلہ سے متعلق فریقین کے مواقف کو سامنے رکھنا ضروری ہے۔ اشاعرہ و ماتریدیہ کا کہنا ہے کہ صفات خبریہ جیسے کہ ید (ہاتھ) کے حقیقی معنی جسم و جزئیت جیسی کیفیات (اعراض) پر دلالت کرتے ہیں، اس معنی کے سوا لفظ ید کے چند ثانونی یا مجازی معانی بھی ہیں جیسے کہ قدرت، عطا وغیرہ۔ چونکہ دلیل سے ثابت ہے کہ اللہ تعالی کی بارگاہ میں اس کے حقیقی معنی قطعی طور پر مراد نہیں لئے جاسکتے اور کسی قرینے کی بنا پر اس لفظ کا مجازی معنی مراد لینا بارگاہ الہی میں غیر محتاط ہے، لہذا مناسب بات یہ کہنا ہے کہ ید اللہ کی ایک صفت ہے تاہم اس کے حقیقی معنی ہمیں معلوم نہیں اور اللہ ہی اس کے معنی سے واقف ہے۔ اس موقف کو “تفویض معنی” کہتے ہیں۔ اس کے برعکس علامہ ابن تیمیہ (اور ان سے قبل حنابلہ و کرامیہ وغیرہ) کا کہنا ہے کہ لفظ “ید” کے معنی ہمیں معلوم ہیں جو کہ وہی ہیں جو عربی لغت میں مراد ہیں البتہ اسکی کیفیت معلوم نہیں۔ اس موقف کو یہ حضرات “تفویض کیفیت” کا نام دیتے ہیں، یعنی معنی معلوم مگر کیفیت مجہول۔ علامہ ابن تیمیہ کا کہنا ہے کہ جو ان کے اس موقف سے اختلاف کرتے ہوئے تفویض معنی کا قول اختیار کرتا ہے وہ دراصل اللہ کی صفات کی تجھیل و تعطیل کا مرتکب ہے۔
2۔ امام اشعری کی کتاب الابانۃ میں اللہ کی صفات پر گفتگو کے تحت یہ الفاظ منقول ہیں:
وأن له وجهًا بلا كيف، وأن له يدين بلا كيف، وأن له عينين بلا كيف
مفہوم: بے شک اللہ کا وجہ (چہرہ) بلا کیف ہے، اللہ کے یدین (دو ہاتھ) بلا کیف ہیں، اللہ کی عینین (دو آنکھیں) بلا کیف ہیں
امام مالک سے جب ایک شخص نے پوچھا کہ استوی سے کیا مراد ہے تو آپ نے فرمایا:
” الاستوی معلوم والکیفیة مجهول والایمان به واجب والسوال عنه بدعة “، اس کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ “استوی معلوم ہے، اس کی کیفیت مجہول ہے، اس پر ایمان لانا واجب ہے اور اس بارے میں سوال کرنا بدعت ہے”۔
ان اقوال کی بنیاد پر ان دوستوں کا دعوی ہے کہ سلف کا موقف وہی تھا جو امام ابن تیمیہ نے بیان کیا۔ اس دعوے کے لئے وجہ استدلال یہ ہے کہ امام مالک نے استوی کو معلوم کہا اور صرف کیفیت کو مجہول کہا، اسی طرح امام اشعری نے ید کا اقرار بلا کیف کیا۔ اب ہم اس استدلال کی غلطی واضح کرتے ہیں۔
3۔ استدلال میں بنیادی غلطی “کیفیت کی نفی” اور “کیفیت کے علم کی نفی” میں فرق نہ کرنا ہے، اشاعرہ و ماتریدیہ کا موقف اول الذکر جبکہ علامہ ابن تیمیہ کا موخر الذکر ہے (اگر علامہ کا یہ موقف نہیں تو پھر ان کی ساری بحث لفظی نزاع ہے جیسا کہ آگے آرہا ہے)۔ امام اشعری و امام مالک دونوں کے اقوال میں کیفیت کی نفی کی گئی ہے نہ کہ کیفیت کے علم کی۔ اس نکتے کو سمجھنے کے لئے متکلمین کی اصطلاح میں “کیف” کا مطلب سمجھنا ضروری ہے نہ یہ کہ ہم کسی فن کے ماہرین کے معنی کو اگنور کرتے ہوئے کیف کو اپنی طرف سے کوئی معنی پہنا کر عبارات پڑھنا شروع کردیں (یاد رہے کہ امام اشعری منجھے ہوئے متکلم تھے)۔
4۔ کیف کا مطلب کسی موجود کے ہونے کی وہ حالتیں ہیں جو زمانی و مکانی مشاہدے سے متعلق ہیں اور جنہیں اعراض یا modalities کہا جاتا ہے اور متکلمین کے نزدیک وہ نو (9) ہیں۔ سب کا تعارف یہاں مقصود نہیں، ان سے مراد اس قسم کے امور ہیں جیسے کمیت یا مقدار، رنگ، ٹھنڈا و گرم، طول و عرض و لمبائی، مکانی جہت وغیرہ۔ ان اعراض کا مطلب یہ ہے کہ یہ امور انسانی مشاہدے میں آسکنے والی جمیع اشیا کے مابین ممکنہ طور پر مشترک امور میں سے سب سے عمومی امور (upper tips) کی حیثیت رکھتے ہیں۔ چنانچہ جب کہا جاتا ہے کہ “اللہ کا ید بلا کیف ہے” تو یہ کیفیت کی نفی ہے، یعنی ہمیں یہ تو معلوم ہے کہ اللہ کی صفت ید ثابت ہے کیونکہ نص میں اس کا ذکر ہے مگر ہم اس بات کی نفی کرتے ہیں کہ وہ کیف (اعراض) کے ساتھ ہے۔ یعنی اللہ کے ید پر نہ کمیت و مقدار کا اطلاق ہے اور نہ رنگ و ٹھنڈک کا، نہ طول و عرض کا اور نہ جسم و جہت کا وغیرہ۔ یہ مطلب ہے “ید بلا کیف” اور “وجہ بلا کیف “کا اور یہی اشاعرہ کا مذہب ہے۔
5۔ کیف (یعنی اعراض) کی نفی کا اس کے سوا کوئی مطلب نہیں کہ ہمیں لفظ ید کا حقیقی مطلب معلوم نہیں اس لئے کہ “ید” کا حقیقی معنی تو ان کیفیات کے ساتھ عبارت ہے کیونکہ اہل عرب نے یہ اسی تناظر میں وضع کیا، اس کے بعد جو بچتا ہے وہ یا مجازی معنی ہیں اور یا معنی سے لاعلمی۔ کیا اہل عرب کے کلام میں لفظ ید کے استعمال کی کوئی ایسی نظیر ملتی ہے جو اس کے حقیقی معنی کے ساتھ متصل تمام کیفیات سے ماورا بھی ہو اور مجازی معنی بھی نہ کہلاتا ہو؟ جو اس کے مدعی ہیں انہیں اس کی دلیل عربی کلام کے نظائر سے لانا ہوگی۔ چنانچہ جب ان سب کیفیات یعنی modalities) کی نفی کردی گئی تو سمجھ آنے والے معنی کی نفی ہوگئی کیونکہ جو ید ان سب سے ماورا ہے اس کا علم حاصل ہونے کا ہمارے پاس کوئی ذریعہ ہی نہیں، حس و عقل جس ید سے واقف ہوسکتے ہیں وہ اعراض یا modalities کے ساتھ ہیں۔ پس جب اس لفظ سے سمجھ آنے والے سب سے اوپری امور (upper tips) کی بھی نفی کردی گئی تو اس کے بعد حقیقی معنی میں سے “معلوم” کیا رہا؟ ایسے میں ہم ایک سچے کی خبر کی بنیاد پر اس ید کے متحقق و ثابت ہونے کی تصدیق کرسکتے ہیں لیکن اس کے معنی معلوم ہونے کی بات ایک خالی دعوی ہے۔ یعنی ترتیب یوں ہے:
- ید کیف کے ساتھ: حقیقی معنی
- ید بلا کیف: معنی معلوم نہیں کیونکہ اس کے علم کا کوئی ذریعہ موجود نہیں
- ید کا معنی قدرت و عطا وغیرہ: مجازی معنی یا تاویل
چنانچہ امام مالک کی بات کا بھی یہی مفہوم ہے: “الاستوی معلوم ای ثابت “، کسی چیز کا ثابت ہونا بھی اس کا علم ہونا ہے۔ ہمارے دوستوں نے “الاستوی معلوم” میں معلوم کا مطلب یہ فرض کرلیا ہے کہ “معنی معلوم” ہے جبکہ امام صاحب کے الفاظ میں ایسی کوئی بات موجود نہیں، امام صاحب کی بات میں یہ اضافہ ان دوستوں نے اپنے موقف کے تحت کیا ہے۔ الغرض امام مالک کے قول کو اس خاص مفہوم میں پڑھنے کی ایسی کوئی قطعی دلیل موجود نہیں کہ اس کی بنیاد پر متکلمین کے موقف کو سلف کے خلاف ثابت کردیا جائے بلکہ یہ قول متکلمین کے موقف کے مطابق پڑھا جانا بھی اتنا ہی ممکن ہے۔
6۔ اس موقف کے برعکس جب ہمارے دوست کہتے ہیں کہ “ید کے معنی معلوم مگر کیفیت مجہول ہے” تو اس کا اس کے سوا کوئی قابل فہم مطلب نہیں کہ “کیف تو ثابت ہے البتہ ہمیں اس کیف کا علم نہیں”، گویا اللہ کے لئے وہ اعراض تو ثابت ہیں جن سے ہم واقف ہیں بس ہم ان کی کیفیت کو نہیں جانتے (یہ بذات خود ایک متضاد بات ہے کیونکہ جب کیف معلوم ہے تو کیف مجہول کیسے ہے؟) یہ دعوی دو میں سے کسی ایک بات سے خالی نہیں: یا یہ تجسیم و تشبیہہ ہے اور یا پھر بے معنی بات یعنی words without meaning ہے۔ اس موقف کے قائلین سے سوال ہے کہ جب آپ کہتے ہیں کہ “ید کا معنی معلوم ہے” تو کیا آپ یہ کہتے ہیں کہ “موڈیلٹی یعنی کیف ثابت ہے”؟ اگر جواب اثبات میں ہے تو یہی تجسیم و تشبیہہ ہے اور اگر آپ کہتے ہیں کہ کیف ثابت نہیں تو پھر وہ معنی معلوم کیا ہیں جس کا دعوی کیا جارہا ہے؟ اس کے بعد آپ کے اور متکلمین کے موقف میں کیا فرق رہا؟
پس اس فرق کو خوب سمجھ لینا چاہئے کہ امام اشعری کی عبارت میں “ید بلا کیف” کا مطلب “کیف ثابت ہونا نہیں” جیسا کہ ہمارے دوستوں کے موقف کا مفروضہ ہے بلکہ اس کا مطلب “کیف کی نفی” ہے۔
7۔ “معنی معلوم و کیفیت نامعلوم” کےموقف کی غیر ہم آہنگی کو ہم ایک اور طرح سمجھاتے ہیں۔ اس موقف کے حاملین کہتے ہیں کہ “اللہ کا ید ہے مگر ہمارے ید جیسا نہیں، اس کی جہت ہے مگر ہماری جہت جیسی نہیں” وغیرہ۔ اسی قسم کے جملے کرامیہ فرقے والے کہتے تھے کہ “اللہ کا جسم ہے مگر ہمارے جسم جیسا نہیں”۔ یہ جملے یا ایک ہی چیز کی تصدیق و نفی سے عبارت ہیں اور یا تاویل سے۔ “اللہ کا ید ہے مگر ہمارے ید جیسا نہیں” میں ید دو مرتبہ استعمال ہوا ہے۔ یہاں دو امکان ہیں، یا لفظ ید دونوں مرتبہ ایک معنی میں استعمال ہوا ہے اور یا الگ معنی میں۔
- فرض کریں ید ایک معنی میں استعمال ہوا ہے اور اس کا مطلب ہے “ہاتھ جو جسم کا جزو ہے”، تو جملہ یوں بنا: “اللہ کا ہاتھ جسم کا جزو ہے مگر جسم کے جزو جیسا نہیں” ۔۔۔ ظاہر ہے یہ بے معنی جملہ ہے کیونکہ پہلا حصہ جس بات کی تصدیق کررہا ہے دوسرا اسی کی نفی کررہا ہے
- اور اگر ید کا مطلب دونوں مرتبہ الگ ہے، یعنی پہلی مرتبہ جسے ید کہا وہ کلی طور پر ید کی ان کیفیات سے مختلف ہے جو اس کے حقیقی معنی ہیں تو جملہ یا بے معنی ہے (کیونکہ تمام کیفیات سے ماورا ید کا کوئی معنی ہمیں معلوم نہیں) اور یا تاویل کی جانب رواں دواں ہے۔
خلاصہ بحث
امام مالک اور امام اشعری کی عبارات کو اس طرح پڑھنا قطعاً ضروری نہیں جو ہمارے دوستوں نے فرض کیا ہے اور ان عبارات کی بنیاد پر اپنے موقف کو سلف کا واحد موقف باور کرانے کی کوشش کرنا تحکم ہے (ہاں اگر سلف سے کسی کی مراد ان کے موقف سے ہم آہنگ رائے رکھنے والے چند افراد ہیں تو الگ بات ہے)۔ دوستوں نے یہ نتیجہ “کیفیت کی نفی “اور “کیفیت کے علم کی نفی” میں خلط مبحث پیدا کرکے کھڑا کیا ہے۔ امام اشعری کی عبارت کیفیت کی نفی کررہی ہے اور یہی متکلمین کا موقف ہے۔ مزید یہ کہ “معنی معلوم کیفیت نامعلوم” متکلمین کے نکتہ نظر سے یا غیر ھم آھنگ و بے معنی جملہ ہے کیونکہ یہ ایک ہی بات کی تصدیق و نفی ہے اور یا تجسیم و تاویل پر مبنی ہے۔ تاہم اگر کسی کے نزدیک کیف کا مطلب وہ نہیں جو متکلمین مراد لیتے ہیں تو یہ الگ بحث ہوگی اور جب تک وہ “کیف” کا کوئی متبادل مطلب نہیں بتاتے کوئی بامعنی گفتگو ممکن نہیں۔
کمنت کیجے