حج کا مہینہ دین ابراہیمی کی روایت میں ہمیشہ سے متعین رہا ہے. قدیم عہد میں سفر اس طرح آسان نہیں ہوا کرتے تھے اس لیےعازمین حج طویل مسافت کومعاشی ضروریات کے پیش نظر تجارتی قافلوں کی صورت میں طے کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ خدا کے دین میں ذالقعدہ، ذی الحجہ اور محرم میں حج کے لیے اوررجب میں عمرے کی غرض سے جنگ و جدال سختی سے ممنوع رہی تاکہ لوگ بغیرکسی تردد کے امن کے ساتھ حرم کا سفر طے کر لیں اور خدا کے حضور میں پیش ہو کر آسانی سے حج و عمرہ ادا کرسکیں۔ان مہینوں کو ”الاشھر الحرم” کہا جاتا ہے۔
عربوں نے خدا کی اس ہدایت میں دو بدعات پیدا کر لیں تھی۔پہلی یہ کہ وہ کسی کے خلاف لڑنا چاہتے تو حرام مہینے کی جگہ حلال مہینہ رکھ کر اس لڑائی کو جائز کر لیتے۔دوسری یہ کہ تجارتی مقاصد کے لیے قمری سال کو شمسی سال کے مطابق کرنے کے لیے اُس میں کبیسہ کا ایک مہینہ بڑھا دیتے تاکہ حج ہمیشہ ایک ہی موسم میں آتا رہے۔قرآن مجید نے حرام مہینوں میں اس طرح کے گھپلوں کو صریح نافرمانی قرار دیا، اہل ایمان کو تنبیہ کی کہ وہ ان مہینوں کی اس حیثیت کوہمیشہ پیش نظر رکھیں اور کبھی جنگی اقدام میں پہل نہ کریں۔البتہ اگر ان مہینوں میں مسلمانوں پر جنگ مسلط کر دی جائے تو اس صورت میں کیا کیا جائے،قرآن مجید نے اس بات کی بھی وضاحت کردی کہ اس طرح کی صورت حال میں اہل ایمان بھی لڑنے کا حق رکھتے ہیں۔چنانچہ ارشاد ہوا ہے:
“ماہِ حرام کا بدلہ ماہِ حرام ہے اور (اِسی طرح) دوسری حرمتوں کے بدلے ہیں ۔ لہٰذاجو تم پر زیادتی کریں ، اُن کو اپنے اوپر اِس زیادتی کے برابر ہی جواب دو ، اور اللہ سے ڈرتے رہو”(بقرہ۔۱۹۴)
ایک دوسرے مقام پر قرآن مجید نے اس بات کو مزید توضیح کے ساتھ بیان کیاہے،ارشاد ہوا ہے:
“وہ تم سے پوچھتے ہیں کہ حرام مہینے میں قتال کا کیا حکم ہے ؟ کہہ دو کہ اِس میں قتال بڑی ہی سنگین بات ہے ، لیکن اللہ کی راہ سے روکنا اور اُس کو نہ ماننااور بیت الحرام کا راستہ لوگوں پر بند کرنا اور اُس کے رہنے والوں کو وہاں سےنکالنا اللہ کے نزدیک اِس سے بھی زیادہ سنگین ہے” (بقرہ۔ ۲۱۷)
اللہ تعالی نے رسول کی بعثت کے بعد جانتے بوجتے انکار کرنے والوں کو دنیا میں عذاب دینے کے لیے بھی ان مہینوں کی حرمت کوملحوظ رکھا ۔چنانچہ ارشاد فرمایا:
“(بڑے حج کے دن) اِس (اعلان) کے بعد جب حرام مہینے گزر جائیں تو اِن مشرکوں کو جہاں پاؤ، قتل کرو”۔(توبہ۔۵)
اس آیت کی وضاحت میں صاحب البیان لکھتے ہیں:
“اِس سے وہ چار مہینے مراد نہیں ہیں جن کا ذکر اوپر ہوا ہے، بلکہ وہی مہینے مرادہیں جنھیں اصطلاح میں اشہر حرم کہا جاتا ہے۔ یہ تعبیر اِن مہینوں کے لیے بطوراسم و علم استعمال ہوتی ہے، اِس لیے عربیت کی رو سے کوئی اور مہینے مراد نہیں لیے جا سکتے۔ حج اکبر کے موقع پر جس اعلان کے لیے کہا گیا ہے، اُس کے بعد ۲۰دن ذوالحجہ اور ۳۰ محرم کے باقی ہوں گے۔ یہ اُنھی کے بارے میں فرمایا ہے کہ اِن دنوں میں چونکہ جنگ و جدال ممنوع ہے، اِس لیے یہ جب گزر جائیں تو اِس اعلان کے نتیجے میں جن لوگوں کے خلاف کارروائی کی ضرورت ہو، اُن کے خلاف کارروائیکا آغاز کیا جائے، اِس سے پہلے کوئی کارروائی نہ کی جائے۔ ذوالحجہ اور محرم کے پچاس دنوں کے لیے یہ تعبیر بالکل اُسی طرح اختیار کی گئی ہے، جس طرح ہم اپنی زبان میں بعض اوقات نومبر یا دسمبر کے مہینے میں کہتے ہیں کہ یہ سال گزرجائے تو فلاں کام کیا جائے گا”
ان تمام مقامات کو دیکھنے کے بعد بغیر کسی تردد کہ کہا جا سکتا ہے کہ قرآن مجید نے ان مہینوں کی حرمت کو ہمیشہ قائم رکھا ہے اور اہل ایمان پر بھی لازم کیا ہے کہ وہ ان کی حرمت کو کبھی پامال نہ کریں اور “الاشھر الحرم”کی اصطلاح بھی یہی بتاتی ہے کہ ان مہینوں کا متعین تصور پہلے سے موجود تھا۔اگر ایسا نہ ہوتا تو قرآن مجید اس اصطلاح کو کبھی استعمال نہ کرتا بلکہ پہلے بتاتا ہے کہ اس سے مراد کیا ہے.
قرآن مجید میں اس حکم کی اس درجے میں وضاحت کےباوجود بعض اہل علم اسے “منسوخ ” مانتے ہیں۔مثلا امام سرخسی کا کہنا ہے کہ قرآن مجید اگرچہ یہ حکم دے رہا ہے کہ حرام مہینوں میں جنگی اقدام نہ کیا جائے،لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل نے قرآن مجید کے اس حکم کو منسوخ کر دیا ہے۔امام صاحب نےایک روایت کو اپنا بنائے استدلال بنایا ہے۔یہ روایت انھوں نے امام محمد کی السیرالصغیر سے لی ہے۔روایت کے الفاظ یہ ہیں:
غزا رسول الله صلى الله عليه وسلم في المحرم لمستهل الشهر ؛ وأقام عليها أربعين يوما؛ وفتحها ، يعنى الطائف ، في صفر ۔
رسول اللہ ﷺ نے جب طائف کی جنگ شروع کی تو اس وقت محرم کی ابتدا تھی ۔آپ چالیس دنوں تک وہاں رہے اور پھر آپ نے طائف کو ، صفر میں فتح کیا کرلیا۔
امام صاحب کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اقدام خود بتا رہا ہے کہ حرمت والے مہینوں میں جنگ کی جاسکتی ہے لہذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن مجید کے حکم کو اپنے عمل سے منسوخ کر دیا ہے،اور رسول اللہ چونکہ دین کے معاملے میں خود سے کوئی فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں رکھتے ،اس لیے امام صاحب کے نزدیک یہ حرمت خود اللہ تعالی نے ہی رسول اللہ کے اس عمل کے ذریعے ختم کر دی ہے۔
ہمارے نزدیک امام صاحب کا یہ استدلال درست نہیں ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن مجید پوری قطعیت سے آخری وقت تک اس بات کو موضوع بنا رہا ہے اور باربار واضح کر رہا ہے کہ ان مہینوں کی حرمت قائم رہنی چاہیے تو سوچنا اس پہلو پرچاہیے کہ اس قدر تنبیہ کے باوجود ایک روایت رسول اللہ کا ایسا عمل کیوں بیان کررہی ہے،جو بظاہر قرآن مجید کے صریح حکم کے خلاف ہے۔غور اس پہلو سے بھی ہونا چاہیے کہ حرمت والے مہینوں کے بارے جو قانون اور اس میں جو استثنا قرآن مجید میں بیان ہوا ہے تو آیا رسول اللہ کا یہ عمل اس سے متعلق تو نہیں ہے؟غور اصلا اس روایت پر ہونا چاہیے کہ کیوں ایک روایت کی بنیاد پر ہم اللہ تعالی کے کلام سے مختلف جگہ پر کھڑے ہو جائیں۔خدا کے کلام میں تنسیخ کا حق اگر کسی کو ہے تو وہ صرف خدا ہی کو ہے،لہذا اگر ان مہینوں کی حرمت کی منسوخی پر کسی چیز کوبنائے استدلال بنایا جا سکتا تو وہ صرف اور صرف خدا ہی کے کلام میں ہو سکتی ہے۔اس کلام کی محکم ہدایت کو کسی سنی سنائی بات کی بنیاد پر رد نھیں کیا جاسکتا۔رد اگر ہوگی تو لازما وہ بات ہوگی جو قرآن مجید کے خلاف پیش کی جا رہی ہے۔
اس کے بعد ہم اس روایت پر آتے ہیں جو اصلا امام محمد نے پیش کی تھی اور جس کی بنیادپر امام سرخسی نے قرآن مجید کے حکم کو منسوخ قرار دیا ہے۔السیر الصغیر میں یہ روایت پانچ روایوں کے ساتھ نقل ہوئی ہے۔وہ روای یہ ہیں:مُحَمَّد عَن أبي يُوسُفعَن الْحسن بن عمَارَة عَن الحكم عَن مقسم عَن ابْن عَبَّاس.ان میں آخری راوی امام محمد خود ہیں۔امام محمد کو حدیث کے راوی کی حیثیت سے جرح و تعدیل کے علماکس مقام رکھتے ہیں ،یہ حقیقت شاید بعض عقیدت مندوں کے لیے باعث تکلیف ہو،لہذا اس سے گریز کر کے ہم حسن بن عمارہ پر آجاتے ہیں۔ابن حجر علیہ رحمہ کے نزدیک یہ صاحب “متروک” ہیں اور امام ذہبی ان کا ذکر “ضعیف احباب” میں کرتے ہیں۔ اگرچہ اس روایت کی عمارت بنیاد ہی میں مخدوش تھی لیکن حسن بن عمارہ کے آجانے کے بعد یہ روایت کسی درجہ میں بھی قابل التفات نہیں رہی ۔لہذا اسے کسی صورت میں رسول اللہ سے منسوب نھیں کیا جا سکتا۔یہ سر تا سرایک ضعیف روایت ہے جسے “سنت مشہورہ” قرار دے کر اس کےذریعے سے کلام اللہ کو منسوخ کیا جا رہا ہے ۔
اس ضعیف روایت کے برخلاف صحاح ہی میں رسول اللہ کے طائف کے غزوہ کی”صحیح” روایات موجود ہیں جو بتا رہی ہیں کہ یہ غزوہ حرمت والے مہینوں میں پیش ہی نھیں آیا۔امام بخاری نے طائف کے غزوہ کا باب ان الفاظ میں باندھا ہے:”باب غزوۃ الطائف فی شوال” یعنی غزوہ طائف کا باب جو کہ شوال میں پیش آیا ۔
اس غزوہ کا پس منظر اور واقعاتی ترتیب کیا تھی؟حدیث اور تاریخ کی کتب میں اس کی بھی تفصیل درج ہےکہ یہ غزوہ دراصل غزوۂ حنین ہی کا تسلسل تھا۔ ہوازن وثقیف کے شکست خوردہ لوگوں نے اپنے سربراہ مالک بن عوف نصری کے ساتھ بھاگ کر جب طائف میں پناہ لے لی اور وہاں قلعہ بند ہوگئے تو رسول اللہﷺ نےحنین سے فارغ ہوکر اسی ماہ شوال میں طائف کا قصد کیا۔یہ بات بھی قابل غورہے کہ مکہ سن ۸ ھجری رمضان میں فتح ہوتا ہے ،اسی سال اگلے ہی ماہ شوال میں حنین کا معرکہ پیش آجاتا ہے،یہ ہو کیسے سکتا ہے کہ سن ۸ ھجری کے آغاز میں محرم کے وقت فتح مکے سے پہلے ہوازن کے سرداروں سے طائف کا وہ معرکہ پیش آگیا ہو جس میں آپ نے چالیس دن محاصرہ کیے رکھا اور مشرکین مکہ بےخبرسوتے رہے۔اور پھر اسی سال فتح مکہ کے بعد دوبارہ انھی لوگوں سے حنین کامعرکہ بھی پیش آگیا ۔اس بات کا کوئی امکان ہی نھیں کہ یہ معرکہ محرم سن ۸ھجری کو پیش آیاتھا۔اور اگر روایت کے ۹ ھجری کے محرم کے آغاز کا ذکر کر رہی ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے شوال میں حنین کی فتح کے بعداس کے پاس ہی موجود طائف میں قلعہ بند حنین کے بھگوڑوں کو اگلے سال محرم تک امن سے رہنے دیا گیا اور اگلے سال اچانک محرم میں آکر چالیس دن کا محاصرہ کر کے پکڑ لیا گیا۔علم و عقل ان حقائق کو کسی صورت تسلیم نہیں کر سکتے۔ لہذا تاریخی لحاظ سے اس میں دو آرا نہیں ہیں کہ غزوہ طائف شوال ہی میں پیش آیا تھا۔اِس بات کو مذید محکم خود بخاری ہی نے کر دیا ہے اور موسیٰ بن عقبہ سے روایت کیا کہ یہ غزرہ شوال سن ٨ھجری میں پیش آیا۔ یہاں کسی کو یہ مغالطہ نہ ہو کہ جس غزوہ طائف کا ہم ذکر کرہیں وہ کوئی اور ہے اور امام محمد کی بیان کردہ روایت کسی اور غزوہ کی طرف اشارہ کر رہی ہے،تو یہ غلط فہمی بھی ذخیرہ حدیث میں موجود لاتعداد روایات نے دور کردی ہے اِس صراحت کے ساتھ کہ یہی وہ غزوہ طائف تھا کہ جب رسول اللہ نے کئی روز تک مسلسل محاصرہ کیے رکھا۔
اس معرکے پر غور کرتے ہوئے ایک اور پہلو بھی پیش نظر رہے اگر ہمیں تاریخی واقعات سے یہی خبر پہنچتی کہ غزوہ طاٰئف حرمت والے مہینوں ہی میں ہی ہوا تھاتب بھی یہ قرآن مجید کے حکم کے عین مطابق ہوتا ،اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ معرکہ اس قتال کے تسلسل میں تھا جس کا آغاز حنین میں ہوا تھا ،اور قرآن مجید نے پہلےہی اس امکان کی وضاحت کر دی تھی کہ اس صورت حال میں حرمت کے مہینوں میں بھی لڑنا اہل ایمان کے لیے پوری طرح جائز تھا۔
کمنت کیجے