مولانا طلحہ نعمت ندوی
حج کا وقت قریب ہے، حجاج کرام کے قافلے رواں دواں ہیں، ایسی صورت میں احرام اور اس کے آداب کا ذکر مناسب معلوم ہوتا ہے۔ کیوں کہ لاعلمی کی وجہ سے احرام میں بہت سی ایسی غلطیاں سرزد ہوجاتی ہیں جو مقاصد شریعت کے خلاف ہیں۔ اور اس سلسلہ میں بڑی کمی اور بے توجہی نظر آتی ہے، آداب آحرام کا بالکل خیال نہیں رکھا جاتا۔ جب کہ عبادت میں جس قدر آداب کا خیال رکھا جاتا ہے اتنا ہی اس کا فائدہ ہوتا ہے اور اس کے اثرات ظاہر ہوتے۔
یہ سچ ہے کہ احرام میں زیب وزینت سے سختی سے منع کیا گیا ہے، سلے ہوئے لباس کی کسی طرح گنجائش نہیں، لیکن اس کا یہ مطلب بالکل نہیں کہ بدن ڈھکنے میں کمی کی جائے، ستر کا خیال نہ رکھا جائے، شریعت نے لباس کا بنیادی مقصد ستر پوشی قرار دیا ہے، اور مکمل جسم کو ڈھانپنا شرعا مطلوب ہے، اگر اسی قدر زینت سے بچنے کی تاکید ہوتی تو صرف لنگی پہننے کو کافی قرار دیا جاتا، بدن پر چادر ڈالنے کی تاکید نہ کی جاتی لیکن اللہ تعالی کے دربار میں اس طرح جانا بھی بے ادبی ہے۔
آج کل عام طور یہ دیکھا جاتا ہے کہ بہت سے لوگ جسم سے چادر ہٹادہتے ہیں یا سمیٹ کر کاندھے پر رکھ لیتے ہیں، یہ بے ادبی ہے، کوشش ہو کہ جہاں تک ممکن ہو جسم کا کوئی حصہ نہ کھلے اور نہ نظر آئے، یہی حیا ہے جو جزو ایمان اور مطلوب شریعت ہے۔ ازار میں بھی یہ بے احتیاطی دیکھنے میں آتی ہے کہ نصف پنڈلی سے بھی اوپر کر لیا جاتا ہے، اور بعضوں کا تو گھٹنے سے کچھ ہی نیچے ہوتا ہے، اس کے بعد نیچے تک پنڈلی کا پورا حصہ کھلا ہوتا ہے۔ یہاں انسان اللہ کے دربار میں بھی ہوتا ہے اور مرد وخواتین کے مخلوط مجمع میں بھی، اس لیے ان آداب کا خیال رکھنا اور حیا کی پاسداری کرنا عین دین ہے۔
اس سلسلے میں چند باتوں کا خیال رکھنا چاہیے،
1 کوشش کی جائے کہ احرام کی چادر کا کپڑا کچھ موٹا ہو اور جسم کو مکمل ڈھانک سکے، عام طور پر آج کل اچھے قسم کا احرام اسی طرح کا ہوتا ہے اسے ہی خریدنا چاہیے۔
2 جسم کو مکمل ڈھکا جائے، ازار یعنی نیچے کا کپڑا اتنا ہو کہ ٹخنوں سے کچھ ہی اوپر ہو، زیادہ اوپر نہ ہو۔ اور اوپر کا کپڑا جو رداء کہلاتا ہے وہ اتنا ہو کہ بدن سے لے کر نیچے تک آجائے اور ستر کا حصہ بھی اس سے ڈھک جائے، بہتر ہے کہ اتنا لمبا ہو کہ گھٹنوں تک رہے تاکہ ستر پوشی کا مقصود پوری طرح حاصل ہو۔
3 اگر دونوں کپڑوں کو کسی طرح بٹن لگا کر بند کرنا اور ملانا ممکن ہو تو بہتر ہے کیوں کہ اس سے مزید ستر و جسم کے تحفظ میں مدد ملتی ہے۔ اسی وجہ سے علماء نے سلی ہوئی لنگی کے استعمال کی بھی اجازت دی ہے، بالخصوص اس وقت جب کہ ازار کو سنبھالنا مشکل ہو اور کشف ستر کا اندیشہ ہو۔
4 اس کے بعد بھی ہر وقت اس کا خیال رکھا جائے کہ جسم کا کوئی حصہ کسی وقت دکھائی نہ دے۔
5 جس طواف میں اضطباع کیا جاتا ہے یعنی کندھا کھول دیا جاتا ہے اس میں بھی کوشش کی جائے کہ صرف طواف شروع کرنے سے پہلے کھولا جائے اور طواف مکمل کرنے کے بعد فورا جسم ڈھانک لیا جائے، بہت سے لوگ ہر وقت اسی طرح احرام باندھے رہتے ہیں یہ غلط ہے، اور فرض طواف کے علاوہ کسی میں یہ مشروع نہیں۔
6 عمرہ یا حج مکمل ہونے کے بعد کوشش کی جائے کہ جلد از جلد لباس پہن لیا جائے، شوقیہ احرام کا لباس پہنے رہنا مطلوب نہیں، اسی لیے حج کے فرض طواف میں بھی غسل کرکے اور عمدہ لباس پہن کر ہی طواف کرنا بہتر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مولانا طلحہ نعمت ندوی، خدا بخش لائبریری، پٹنہ، بہار (انڈیا) کے ساتھ بطور تحقیق کار وابستہ ہیں۔
کمنت کیجے