از مولانا محمد علی صدیقی کاندھلویؒ
تحقیق وتخریج: ڈاکٹر انعام الحق غازی/نوید الرحمن داور
تفسیر قرآن اور مولانا ضیاء الدین سنامی:
اتنی بات تو سب ہی جانتے اور مانتے ہیں کہ قرآن کی تشریح کا جو فرض اللہ سبحانہ نے نبی کریم ﷺ کے ذمے لگایا تھا یا اللہ سبحانہ و تعالی نے آپ کا جو مقام مقرر کیا تھا :” وَاَنۡزَلۡنَاۤ اِلَيۡكَ الذِّكۡرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ”[1] ، اسی مقام کی رعایت سے آپ نےقرآن عزیز کی تشریح و تفسیر فرمائی ہے۔ اُس کا کوئی گوشہ تشنہ ٔ بیان نہیں چھوڑا۔ قرآن ِحکیم کی تشریح کے سارے پہلو آپ نے کھول کھول کر بتا دیئے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ اعتقاد و عقیدت کی قرآن و نبوت کی حد تک یہ ایک اہم بنیاد ہے۔ حضور اقدسﷺ سے صحابہ نے قرآن کا بیان سنا۔ انہوں نے قرآن عزیز خود دہانِ نبوت سے حاصل کیا۔ اب قرآن کی تعلیم دیتے۔ اس کے احکام و عقائد بتاتے۔ اس کے معانی اور مطالب سمجھاتے۔
ابو عبد الرحمن السلمی فرماتے ہیں:
صحابہ کرام میں سے کچھ ہمیں قرآن کی تعلیم دیتے جیسے عثمان ابن عفان اور عبد اللہ بن مسعود وغیرہ۔ وہ فرمایا کرتے تھے کہ جب رسول اللہ ﷺ سے ہم دس آیتیں سیکھ لیتے تو اُن سے اس وقت تک آگے نہ بڑھتے جب تک اُن آیتوں کا علم و عمل مکمل نہ کر لیتے۔ اِس طرح ہم نے قرآن کے علم و عمل دونوں کی تعلیم حاصل کی۔[2]
صحابہ کرام صرف الفاظ کے لئے قرآن نہیں پڑھتے تھے بلکہ الفاظ کےساتھ اُس کے معنی بھی محفوظ رکھتے تھے۔ حافظ ابن تیمیہ مقدمۂ تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ہر شخص جانتا ہے کہ کلام کا مقصد اُس کے معنی اور مفہوم کو سمجھنا ہے نہ کہ صرف الفاظ کا پڑھنا۔ لوگ طب، حساب یا کسی اور فن کی کتاب پڑھتے ہیں، اُس کی شرح بھی معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پر وہ کلام بغیر معنی سمجھے کیسے سیکھا جا سکتا ہے جس پر اُن کا گناہ سے محفوظ رہنا ، نجات کا حاصل کرنا، سعادت سے بہرہ ور ہونا، دین کو بنانا اور دنیا کو سنوارنا موقوف ہے؟ اِسی وجہ سے صحابہ کے درمیان تفسیرِ قرآن کے موضوع پر بہت کم اختلافات ہیں، بلکہ نہ ہونے کے برابر ہیں۔ [3]
تابعین نے تفسیر کا فن صحابہ کرام سے سیکھا تھا۔ امام مجاہد کہتے ہیں کہ میں نے عبد اللہ بن عباس کے سامنےقرآن کی تلاوت کی ، ہر آیت پر سوال کیا، اور اسکے بارے میں پوری تحقیق کی۔ [4]
اسی لئے سفیان ثوری کہتے ہیں کہ:
جب ہمیں کوئی تفسیر امام مجاہد سے مل جائے تو بس وہ کافی ہے، چنانچہ مجاہد کی تفسیر پر امام شافعی ، امام بخاری اور دوسرے اہل علم کو بہت زیادہ اعتماد ہے۔ امام احمد تفسیر میں دوسروں کی نسبت مجاہد سے زیادہ روایت کرتے ہیں۔ [5]
اس سے معلوم ہوا کہ قرآن کی طرح تفسیر ِقرآن کا علم بھی صحابہ سے تابعین کو ملا ہے اور تابعین نے اپنے بعد آنے والوں کے لئے ورثہ میں چھوڑا ہے۔ بتانا یہ چاہتا ہوں کہ قرآن خوانی کے سا تھ قرآن دانی کے لئے اسلامی تاریخ نے امت کو فکری آوارگی کا شکار ہونے سے محفوظ کیا ہے۔ قرآن کی تفسیر علمائے امت کی مساعی کے نتیجے میں حضور اقدس ﷺ سے نسلاً بعد نسل وراثت میں آئی ہے۔ تفسیرقرآن کے چند مراتب ہیں:
1۔ قرآن کی تفسیر قرآن سے کی جائے۔
2۔ قرآن کی تفسیر سنّت سے کی جائے۔
3۔ قرآن کی تفسیر احوالِ صحابہ سے کی جائے۔
4۔ قرآن کی تفسیر تابعین کے احوال سے کی جائے۔
مولانا ضیاء الدین سنامی قرآن کی تفسیر اِسی اعتبار سے بیان کرتے تھے۔ آیت قرآنی کی تشریح اولا قرآن سے، پھر ارشاداتِ نبوت اور اسوۂ رسول سے، پھر صحابہ کے ارشادات اور اقوالِ تابعین سے مطالب و معانی کی تشریح کرتے تھے۔ اوروں کا پتہ نہیں، نظریاتی اختلاف کے باوجود برنی کی زبانِ قلم سے یہ بات نکل گئی ہے کہ: وہ قرآن کی ہر آیت پر متعدد اقوال بیان کرتے یعنی اُس کی مفصل تشریح پیش کرتے۔
کشاف، ایجاز اور عمدۃ التفاسیر تو اُس دور کی درسی کتابیں ہیں اور درجۂ فضل میں پڑہائی جاتی ہیں لیکن جاننے والے جانتے ہیں کہ یہ اندازِ تفسیر صرف ایجاز کی خواندگی سے حاصل نہیں ہو سکتا۔ تفسیر کا یہ انداز وہ شخص اپنا سکتا ہے جس کے فکر و تذکیر کا خاص موضوع ہی تفسیر ہو اور ذوق اس قدر غالب ہو کہ اس کی کوئی تذکیر مشکل ہی سے ایسی ہو جس میں قرآن حکیم کی تفسیر کا مواد نہ ہو۔ اور جس کے مطالعہ میں اونچے درجے کی کتابیں ہوں اور تفسیر میں مجتہدانہ بصیرت حاصل ہو۔ بلا شبہ آپ کے سامنے اس دور تک کا سارا تفسیری سرمایہ موجود ہو گا؛ ان میں امام بخاری کی کتاب التفسیر ، ابو عبیدہ کی مجاز القرآن، ابن جریر کی جامع البیان، ابواللیث سمرقندی کی بحر العلوم، بغوی کی معالم التنزیل ، ابن عطیہ کی الوجیز، ثعلبی کی الکشف و البیان ،یہ سارا تفسیری سرمایہ اُن کے مطالعہ میں ہو گا۔ پھر آیاتِ احکام میں احکام القرآن للجصاص، احکام القرآن ابن العربی، احکام القرآن الکیا الھراسی آپ کے زیر ِنظر ہوں گے۔ اس کے بغیر ہر آیت پر متعدد اقوال پیش کرنے کا تصور بھی نہیں ہو سکتا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اُن کی تفسیر ِقرآن ، حقائق قرآنی کا ایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہی نہیں بلکہ تفسیر کا ایک بہت قیمتی اور مستند سرمایہ ہو گا۔ فکر و نظر کی گہرائی اور ذوقِ روایات پر کامل عبور اور اُن سے استفادہ، آیات قرآنی کی زندگی پر تطبیق، اپنے ماحول اور معاشرے سے واقفیت، داعیانہ روح اور جذبۂ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اور محبتِ دین کی جو نعمت اللہ نے اُن کو دی تھی ُاس کی وجہ سے اُن کی زبان سے نکلی ہوئی تفسیر بلا شبہ حقائق اور معانی کا ایک ناپیدا کنار سمندر ہو گا۔ مولانا عبد الحی نزہۃ الخواطر میں لکھتے ہیں:
“مولانا ضیاء الدین سنامی کا تفسیر ِقرآن اور قرآن کے حقائق بیان کرنے میں بہت اونچا مقام تھا “۔[6]
اور یہ بھی لکھا ہے کہ تفسیر ِقرآن پر مبنی آپ کا درس مغز دار ہوتا تھا۔ یہ با ت بھی مولانا عبد الحی کی ہی کی زبانی سنیئے کہ حلقۂ درس ِقرآن میں شرکا کی تعداد کس قدر ہو تی:
“اس درسِ قرآن میں شریک ہونے والوں کی تعدد تین ہزار سے زائد ہوتی تھی”۔[7]
بلا شبہ اِس درسِ قرآن میں ہر قسم کا شہری طبقہ شریک ہوتا تھا۔ صرف مزدور اور طلبہ نہیں بلکہ تاجر، کارخانہ دار، اساتذہ، سرکاری ملازمین اور امراء شریک ہوتے تھے اور اِن شریک ہونے والوں کی درس سننے کے بعد کیا کیفیت ہوتی تھی، یہ بات مولانا عصمت اللہ سہارنپوری کی زبان سے سنیئے:
درس کا لوگوں پر اس قدر اثر ہوتا تھا کہ دوسرے ہفتہ تک لوگوں کو اس کی حلاوت محسوس ہوتی تھی۔
یہ تو سننے کے بعد والی کیفیت کا ذکر ہے۔ خود درس سنتے وقت لوگوں کا کیا حال ہوتا تھا۔ مولانا عبد الحی نے درس میں بیٹھ کر تفسیر سننے والوں کی جو تصویر کھینچی ہے وہ سننے کے لائق ہے:
“حاضرین ِمجلس میں سے کسی کی توجہ اس کے علاوہ کسی چیز کی طرف نہ ہوتی تھی”۔[8]
یہ تو صرف درس کی خوبصورتی ہے، اور سب کی آنکھوں سے نظر آتی ہے۔ اِس سے بڑھ کر وہ چیز ہے جو آنکھ نہیں دیکھتی مگر دل محسوس کرتا ہے اور ذوق پہنچانتا ہے جسے مولانا عصمت اللہ سہارنپوری نے حلاوت سے تعبیر کیا ہے۔ یا جسے حافظ شیرازی نے اِن کے لفظ سے تعبیر کیا ہے۔
شاہدآں نیست کہ موئے ومیانے دارد
بندہ ٔ طلعت آں باش کہ آنےدارد[9]
جسے حلاوت کہتے ہیں یہ ایک کیفیت ہے۔ جو لفاظی سے پیدا نہیں ہوتی۔ بلاشبہ اُس کا ظہور اس وقت ہوتا ہے جب بات دل کی گہرائیوں سے آ رہی ہو اور بیان کرنے والا صرف صاحبِ قال نہیں بلکہ صاحبِ حال ہو۔ ضیاء الدین برنی نے بھی اختلافِ مسلک کے باوجود اقرار کیا ہے۔ اور مولانا عبد الحی نے اُن کا یہ اقرار نقل کیا ہے۔
قرآن کی تفسیر میں اُن کو کمال ہے۔ افسوس ہمارے پاس اُن کے زبانِ قلم سے نکلی ہوئی کوئی تفسیر نہیں ۔ مولانا عبد الحی نے ثقافۃ السند اور نزہۃ الخواطر میں بتایا ہے کہ اُنہوں نے سورہ یوسف کی تفسیر لکھی ہے اُس کا بھی کہیں نام و نشان نہیں ہے۔ یہ تھے مولانا ضیاء الدین سنامی مفسر قرآن۔
مولانا ضیاء الدین سنامی مذکر:
ضیاء الدین برنی نے تاریخِ فیروز شاہی میں علاء الدین کے زمانے میں واعظین اور مذکرین کا ذکر کیا ہے۔ اُن میں مولانا عماد الدین حسام کا بھی ذکر ہے، اُنہی مذکرین میں بادل ِناخواستہ مولانا ضیاء الدین سنامی کا بھی ذکر ہے۔ بادل ِنخواستہ اس لئے اس لئے لکھ رہا ہوں کہ برنی نے یہ بتانے کے باوجود کہ مولانا سنامی کو تفسیرِ قرآن میں کمال حاصل ہے اور یہ لکھنے کے باوجود کہ مفسر ہیں ، فقیہہ ہیں، استاد ہیں اور استاد زادے ہیں، ان کا صف ِ علماء میں نہیں بلکہ مذکرین میں ذکر کیا ہے۔ لیکن مشک آنست کہ خود ببوید نہ کہ عطار بگوید، مولانا سنامی کے مقام پر اِس سے کوئی حرف نہیں آتا۔ برنی نے لکھا ہے:
“اِن مشہور واعظوں اور معتبر مذکرین میں دوسرے مولانا ضیاء الدین سنامی تھے جو مفسر بھی تھے، فقیہہ بھی تھے، وہ خود بھی استاد تھے اور استاد زادے تھے، وہ عہدِ علائی کی ساری مدّت وعظ کہتے رہے”۔[10]
شیخ علی ابن ابی بکر نے معارج البدایہ میں لکھا ہے کہ:
“ہر انسان کا حسن و کمال تمام اُمور میں ظاہراً و باطناً ، اُصولاً و فروعاً، عقلاً و فعلاً ، عادۃ و عبادۃ ، کامل اتباع ِرسو ل میں مضمر ہے”۔ [11]
اس کو سامنے رکھ کر مولانا سنامی کی زندگی پر نظر کیجئے تو معلوم ہو گا کہ مولانا کی زندگی اُسی کا پرتو تھی۔ شاہ عبد الحق محدث دہلوی اخبار الاخیار میں لکھتے ہیں کہ : “بر پایہ شریعت بغایت قدم راسخ داشت”[12]۔
مولانا عبد الحی لکھتے ہیں:
” كانت له قدم راسخة في التقوى والديانة والاحتساب في الأمور الشرعية “۔[13]
تقوی ، دینداری اور خلاف سنت کاموں کی گرفت میں بہت اونچا مقام تھا۔
واعظ تو اور بھی تھے اور ہندوستان کے اسلامی دور کا کوئی قرن بھی ایسے واعظوں سے خالی نہیں رہا ہے جنہوں نے اپنی سحر بیانیوں سے عام مسلمانوں کے جذبات کو بیدار رکھنے کی کوشش نہ کی ہو۔ لیکن مولانا سنامی کی ذاتِ گرامی کے مقام قبولیت کی ابتدا بھی اتباعِ سنت سے ہے اور انتہا بھی کمال اتباعِ سنت پر ہے۔ سنت سے شیفتگی شریعت کی نگرانی اور بدعت سے نفرت کا شغف اُن کے مخالفین کو بھی تسلیم ہے لیکن یہ شغف محض علمی اور نظری نہ تھا، عملی اور ظاہری بھی تھا۔ اُن کے معاصرین شہادت دیتے ہیں کہ مقامِ شریعت کا جیسا ادب و احترام اور اتباعِ سنت کا جیسا اہتمام مولانا سنامی کےیہاں دیکھا برنی کے بیان کردہ علمائے دین میں سے کسی کے یہاں نظر نہیں آیا۔ ابھی ابھی شیخ عبد الحق کی زبان سے سن آئے ہیں کہ “بپایہ شریعت بغایت قدم راسخ داشت”۔ یہ چیز اُن پر اتنی غالب تھی اور اُن کی زندگی میں جاری تھی کہ دیکھنے والوں کا قلب شہادت دیتا تھا کہ اتباع کام اور سنت کا عشق اس کا نام ہے۔ نزہۃ الخواطر میں ہے کہ وہ اس معاملہ میں کسی سے نہ ڈرتے تھے اور نہ اُن کو اس معاملہ میں کسی ملامت گر کی ملامت کا خوف تھا۔ [14]
مولانا سنامی کی پوری دعوت اور وعظ و تذکیر کی بنیاد ہی اتباعِ سنت پر تھی۔ خود آپ کی زندگی مؤرخین کے بیان کے مطابق سنت کی پیروی اور رسول اللہﷺ کی محبت کی پرتو تھی۔ گویا اعتماد علی اللہ او ر اتباعِ سنت میں اُن کو ایک الگ ملکہ حاصل تھا اور آپ کا یہ ملکہ لازمی نہیں بلکہ متعدی تھا یعنی وعظ میں شریک ہونےو الا اور وعظ سننے والا بھی اپنے دل کو خدا اور رسول کی محبت سے سرشار پاتا۔ اسی کو مولانا عصمت اللہ سہارنپوری نے اِن لفظوں میں بیان کیا ہے:
آپ کے وعظ میں ہر طبقہ کے لوگ ہوتے اور آپ کے وعظ سے اِس درجہ اثر پذیر ہوتے کہ اپنے اندر ایک حلاوت اور مٹھاس محسوس کرتے تھے۔
مولانا عبد الحی نے مولانا سنامی کے وعظوں کی جو کیفیت لکھی ہے اُسے پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ مولانا سنامی کے مواعظ اس دور کے عام علما سے ممتاز تھے، اُس کی شان ہی نرالی تھی، اُس کے روحانی اثرات تھے، اُس کے ذریعے سننے والوں کے افکار، اعمال، اخلاق تبدیل ہوتے اور لوگ صاحب ِحال ہوتے۔ مولانا عبد الحی فرماتے ہیں: “مولانا سنامی کے وعظ میں سننے والوں کا ہجوم ہوتا تھا ، خاص اور عام سب ہی ہوتے تھے، تین ہزار سے زیادہ سامعین کی تعداد ہوتی تھی اور وعظ کے وقت سننے والوں کا یہ حال ہوتا کہ وعظ سننے کے علاوہ کسی چیز کی طرف دھیان نہ جاتا تھا”۔
اتباع ِسنت آپ کی زندگی اور آپ کے وعظ و تذکیر کا اہم جز وتھی۔ آپ کے نزدیک عبادات کے ساتھ معاملات اور امور معاد کے ساتھ امور معاش میں بھی اتباعِ سنت اور ترکِ بدعت ضروری ہے۔ وعظ کے وقت آپ توحید اور ترکِ شرک کے ساتھ اتباعِ سنت اور ترک ِبدعات کی تاکید فرماتے اور شرک و بدعت کا مفہوم اور دائرہ عبادت سے تجاوز کر کے عاداتِ معاشرت پر حاوی ہوتا ۔ مولانا عبد الحی کا یہ تعارفی فقرہ اُن کے مواعظ کے نصب العین اور پیش نہاد کی نشاندہی کر رہا ہے: كان شديد النكير على أهل البدع. مولانا سنامی اہل ِبدعت کے خلاف ننگی تلوار تھے اور صرف بدعات ہی نہیں بلکہ معاشرے میں پھیلے ہوئے منکرات پر اُن کی گرفت تیز سے تیز تر ہوتی تھی۔ خواہ یہ منکرات ہندؤوں اور تاتاریوں کی محبت اور اختلاط سے مسلمانوں میں آئے ہوں۔ اُن میں وہ نومسلم بھی تھے جو ہندووں میں سے مسلمان ہو گئے اور وہ بھی تھے جو مملوک میں سے مسلمان ہو گئے اور اقتدار پر قابض تھے۔ اِن نو مسلموں کے عادات ، اخلاق، رسم و رواج اور تہذیب و معاشرت حتی کی عقائد و خیالات کا اثر مسلمانوں پر پڑنا لازمی تھا۔ اِس اختلاف نے بہت سے مسائل پیدا کر دیئے تھے اور ایک نئی تہذیب اور نئی معاشرت وجود میں آ گئی تھی جس کے متعلق یہ کہنا ہی مشکل تھا کہ یہ اسلامی تہذیب ہے۔ اِس صورت حال سے ایک ایسے مصلح کی ذمہ داری بہت زیادہ وزنی ہو جاتی ہے جو مسلمانوں کی زندگی میں غیر اسلامی اثرات اور جاہلی عادات کو دیکھنا گوارا نہیں کرتا اور جو اس کو سر تا سر کتاب و سنت کے تابع صدرِ اول اور خیر القرون کی تفسیر دیکھنا چاہتا ہے۔
[1] ۔ النحل: 44
[2] ۔ مقدمة في أصول التفسير،ابن تيمية، دار مكتبة الحياة، بيروت، لبنان، 1980، ص: 9
[3] ۔ المرجع السابق: 10
[4] ۔ الإتقان في علوم القرآن، السيوطي، الهيئة المصرية العامة للكتاب، 1974، ج: 4، ص: 240
[5] ۔ مقدمة في أصول التفسير، ص: 10
[6] ۔ نزهة الخواطر وبهجة المسامع والنواظر، عبد الحي، دار ابن حزم ، بيروت، لبنان، 1999، ج: 2، ص: 182
[7] ۔المرجع السابق
[8] ۔ المرجع السابق
[9] ۔ دیوان خواجہ حافظ شیرازی، ترجمہ، شمس بریلوی، سعید کمپنی، کراچی، 1391ھ، ص: 156
[10] ۔ تاریخ فیروز شاہی ، محولہ بالا ، ص: 356
[11] ۔ مکتوبات خواجہ محمد معصوم،تلخیص و ترجمہ مولانا نسیم احمد فریدی امروہی، ناشر: مکتبہ سراجیہ خانقاہ سعیدیہ موسی زئی شریف، ڈیرہ اسماعیل خان، پاکستان، ص: 63
[12] ۔ اخبار الاخیار، محولہ بالا، ص: 239
[13] . نزهۃ الخواطر، ج: 2، ص: 182
[14] ۔ المرجع السابق
کمنت کیجے