علی حمزہ افغان
امام عالی مقام، نواسہ رسول، ابو عبداللہ الحسین بن علی بن ابی طالب بن عبد المطلب بن ہاشم رضی اللہ تعالی عنہ کی ولادت شعبان کے مہینے میں، سن چار یا پانچ ہجری میں ہوئی ۔
(الإصابة في تمييز الصحابة: ۱۷۲۹ ، سير اعلام النبلاء: ٢٨٠/٣)
حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ لکہتے ہیں کہ آپ علیہ السلام کی ولادت شعبان سے جب چار دن باقی رہتے تہے، سن چار میں ہوئی، اور کہا گیا ہے کہ سن تین میں ہوئی اور یہ واقدی سمیت ایک گروہ کا قول ہے۔
(الاستيعاب في معرفة الاصحاب: ٥٥٦)
سیدنا علی رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ جب حسن علیہ السلام کی ولادت ہوئی تو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا: مجہے میرا بیٹا دکھاؤ، اسکا کیا نام رکہا ہے؟ میں نے جواب دیا: میں نے اسکا نام حرب رکہا ہے، فرمایا: بلکہ یہ حسن ہے۔ پہر جب حسین علیہ السلام کی ولادت ہوئی تو آپ نے فرمایا: مجہے میرا بیان دکھاؤ، اسکا کیا نام رکہا ہے؟ میں نے عرض کیا: میں نے اسکا نام حرب رکہا ہے، فرمایا: بلکہ یہ حسین ہے۔ پہر جب تیسرے کی پیدائش ہوئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا: مجہے میرا بیٹا دکھاؤ، اسکا کیا نام رکہا ہے؟ میں نے جواب دیا: میں نے اسکا نام حرب رکہا ہے، فرمایا: بلکہ یہ محسن ہے، پہر فرمایا: میں نے انکا نام ہارون علیہ السلام کے بیٹوں شبر، شبیر اور مشبر کے نام پر رکہا ہے۔
) مسند احمد: ۷۶۹، الأدب المفرد: ۸۲۳، صحيح ابن حبان: ۶۹۵۸ ، شیخ شعیب الأرنؤوط رحمہ اللہ نے اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے ، مسند احمد ، ت: الرسالة ، ۱۵۹/۲(
آپ کی طرف سے عقیقہ آپ کے برادر حسن علیہ السلام کی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کیا تہا۔
(الاستيعاب في معرفة الاصحاب: ۳۹۳/۱)
ابن عباس رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن وحسین کی طرف سے ایک ایک دنبہ عقیقہ میں قربان فرمایا تہا۔
(سنن ابي داود: ۲۸۴۱، اسے امام ابن حزم [المحلى: ۵۳۰/۷]، عبد الحق الاشبیلی [الاحكام الوسطى: ۱۴۱/۴] اور ابن دقیق العید نے [الاقتراح ص ۴۵۸] صحیح قرار دیا ہے۔)
امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے جد أمجد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے آغوش رحمت میں پرورش پائی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے احادیث بہی روایت فرمائیں جنہیں اصحاب سنن یعنی ترمذی، ابوداود، نسائی اور ابن ماجہ وغیرہ نے نقل کیا ہے۔
(الإصابة في تمييز الصحابة: ٦٨/٢)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ سے بے حد محبت فرمایا کرتے تہے۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو ان دونوں سے محبت رکہتا ہے، وہ مجہ سے محبت رکہتا ہے، اور جو ان دونوں سے نفرت کرتا ہے وہ مجہ سے نفرت کرتا ہے۔
(مسند احمد: ۷۸۷۶، السنن الكبري للنسائى: ۸۱۶۸، شیخ شعیب ارنوؤط لکہتے ہیں: اسکی اسناد قوی ہیں اور اسکے راوی ثقہ ہیں [مسند احمد، ت: الرسالة، ۲۶۰/۱۳]) ۔
یعلی بن مرة فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حسین مجہ سے ہے اور میں حسین سے ہوں، اللہ اس سے محبت کر جو حسین سے محبت رکہے، حسین نواسوں میں سے ایک نواسے ہیں ۔
(سنن الترمذي: ۳۷۷۵، امام ترمذی رحمہ اللہ لکہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے) ۔
علامہ عبد الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں لکہتے ہیں:
قاضی فرماتے ہیں، گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وحی کے نور سے دیکہ لیا تہا کہ جو آپ علیہ السلام اور قوم کے درمیان ہوگا، اس لئے آپ نے ان کا خصوصی ذکر فرمایا اور واضح فرمادیا کہ آپ دونوں محبت اور تعرض وحرب کی حرمت میں ایک ہی ہیں۔
) تحفة الأحوذي: ۱۹۰/۱۰)
عبد الرحمن بن ابی نعیم کہتے ہیں، میں ابن عمر رضی اللہ عنہ کو دیکہ رہا تہا اور ان سے ایک آدمی نے مچہر کے خون کے بارے میں پوچہا (کہ اگر وہ کپڑوں کو لگ جائے تو کیا حکم ہے؟) تو آپ نے پوچہا، تم کہاں سے ہو؟ تو اس نے جواب دیا: اہل عراق سے، آپ نے فرمایا: اس کو دیکھو! مجہ سے مچہر کے خون کے بارے میں سوال کرتا ہے جبکہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے کو قتل کردیا، اور میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: یہ دونوں دنیا میں میرے خوشبودار پہول ہیں۔
(صحیح البخاري: ۵۹۹۳، سنن الترمذي: ۳۷۷۰)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بذریعہ وحی امام حسین علیہ السلام کی شہادت کی اطلاع دی گئی تہی ۔
ام المومنین عائشہ یا ام سلمہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس آئے اور فرمایا: آج میرے پاس ایک فرشتہ آیا جو اس سے پہلے کبہی میرے پاس نہ آیا تہا اور اس نے مجہ سے کہا، آپ کا یہ بیٹا حسین شہید ہوگا اور اگر آپ چاہیں تو میں آپ کو اس جگہ کی مٹی دکہا سکتا ہوں جہاں یہ شہید ہوں گے، فرمایا: پہر اس نے سرخ مٹی نکالی۔
) مسند احمد: ۲۶۵۲۴، المصنف لابن ابي شيبة: ۹۷/۱۵، فضائل الصحابة للإمام احمد: ۱۳۵۷، المعجم الكبير الطبراني: ۲۸۱۵، المستدرك للحاكم: ۳۹۸/۴، دلائل النبوة للبيهقي: ۴۶۸/۶۔ امام الہیثمی نے [مجمع الزوائد: ۱۸۷/۹ میں] کہا کہ اسکے راوی صحیح کے راوی ہیں، شیخ شعیب الارنوؤط نے [مسند احمد، ت: الرسالة، ۱۴۴/۴۴میں] اسے شواہد کی بنا پر حسن قرار دیا اور علامہ البانی نے [السلسلة الأحاديث الصحيحة: ٨٢٢ میں] اسے شیخین کی شرط پر صحیح قراردیا] (
ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اللہ تعالی نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے طرف وحی فرمائی کہ میں نے یحیی بن زکریا علیہ السلام کے بدلے میں ستر ہزار قتل کئے تہے اور میں تیرے نواسے کے بدلے میں ستر ستر لاکہ قتل کروں گا۔
(المستدرك: ۴۸۲۲، امام حاکم رحمہ اللہ کہتے ہیں: اسکی اسناد صحیح ہیں اور امام ذہبی رحمہ اللہ نے اپنی تلخیص میں اسے مسلم کی شرط پر قرار دیا ہے) ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ مدینہ منورہ ہی میں اپنے والد امام علی المرتضی کرم اللہ وجہہ اور اپنے برادر اکبر امام حسن مجتبی رضی اللہ عنہ کے ساتہ قیام پزیر رہے اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں اپنی زندگی أحسن طریقے سے گزارتے رہے ۔
عبید بن حنین امام حسین سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا: میں عمر کے پاس آیا جب وہ خطبہ دے رہے تہے تو میں انکی طرف اوپر چڑہا اور کہا: میرے بابا کے منبر سے اترو اور اپنے باپ کے منبر پر جاؤ، سو عمر نے کہا: میرے باپ کا تو کوئی منبر نہیں تہا، پہر انہوں نے مجہے اٹہالیا اور اپنے پاس بٹہالیا، اور میں اپنے ہاتہوں سے کنکریوں سے کو اوپر نیچے کرنے لگا۔ پہر جب وہ نیچے اترے تو مجہے اپنے ساتہ اپنے گہر لے گئے، اور کہا: تمہیں یہ کس نے سکھایا؟ میں نے کہا: اللہ کی قسم! کسی نے نہیں سکھایا ۔ انہوں نے کہا: اگر چاہو تو میرے پاس آجانا۔ وہ کہتے ہیں: پہر میں ان کے پاس ایک دن آیا تو وہ اندر معاویہ کے ساتہ تہے اور ابن عمر دروازے پر تہے، تو ابن عمر واپس پلٹے تو میں بہی انکے ساتہ واپس آگیا، بعد میں جب وہ مجہ سے ملے تو کہا: میں نے تمہیں دیکہا نہیں!؟ میں نے کہا: امیر المومنین! آپ معاویہ کے ساتہ مصروف تہے تو میں ابن عمر کے ساتہ لوٹ گیا۔ انہوں نے کہا: آپ ابن عمر سے زیادہ اجازت کے حقدار ہو، کیونکہ یہ جو آپ ہمارے سروں پر اگا دیکہ رہے ہونا یہ اللہ پہر آپ لوگوں کی وجہ سے ہے۔
(الاصابة في تمييز الصحابة: ۶۹/۲، حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ کہتے ہیں: اسکی سند صحیح ہے۔)
امام عالی مقام اپنے والد کے ساتہ مدینہ ہی میں قیام پزیر رہے یہاں تک کہ ان کے ساتہ انکی خلافت میں کوفہ تشریف لے گئے اور جمل وصفین اور خوارج کے خلاف جنگ میں شرکت فرمائی، پہر انہی کے ساتہ انکی شہادت تک ساتہ رہے، پہر جب آپ کے برادر امام حسن علیہ السلام نے خلافت معاویہ رضی اللہ عنہ کے سپرد کردی تو آپ انکے ساتہ مدینہ واپس آگئے اور معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات تک مدینہ ہی میں رہے۔
(الاصابة :٦٩/٢)
جب معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے یزید کو اپنے بعد خلیفہ نامزد کیا اور اسکے لئے بیعت لی تو امام حسین علیہ السلام، عبد الرحمن بن ابی بکر اور عبداللہ بن الزبیر رضی اللہ عنہما نے اسکی بیعت کرنے سے انکار کردیا۔ جب معاویہ رضی اللہ عنہ فوت ہوئے تو یزید برسر اقتدار آگیا اور اکثر لوگوں نے اسکی بیعت کرلی مگر امام حسین اور ابن زبیر نے بیعت کرنے سے انکار کردیا اور دونوں مکہ مکرمہ آگئے ۔
(سیر اعلام النبلاء: ۲۹۲/۳)
جب آپ علیہ السلام مکہ مکرمہ میں تہے تو آپ کی طرف اہل کوفہ نے خطوط لکہے جس میں آپ کو کوفہ آنے کی دعوت دی تو آپ نے مسلم بن عقیل بن ابی طالب کو کوفہ بہیجا تاکہ وہ ان باتوں کی تحقیق کریں اور اگر واقعی یہ سچ ہیں تو پہر وہاں تشریف لے جائیں ۔
(الاصابة في تمييز الصحابة :٦٩/٢)
مسلم بن عقیل نے کوفہ پہنچ کر لوگوں سے امام حسین کے لئے بیعت لی اور آپ کو لکہا کہ اب تک ۸ ہزار افراد نے بیعت کرلی ہے لہذا آپ کوفہ تشریف لے آئیں ۔
(سیر اعلام النبلاء: ۲۹۹/۳)
وہاں جب یزید کو اس بات کی خبر ملی تو اس نے عبیداللہ بن زیاد کو کوفہ کا نیا والی مقرر کرکے بہیجا جس نے کوفہ آکر لوگوں کو ڈرایا دہمکایا اور مسلم بن عقیل رحمہ اللہ کو پکڑ کر شہید کردیا۔
(سیر اعلام النبلاء: ۳۰۰/۳)
امام حسین علیہ السلام اس دوران کوفہ کی جانب روانہ ہوچکے تہے، راستہ میں آپ کو عبیداللہ بن زیاد کے لشکر نے روک لیا اور آپ سے یزید کی بیعت کرنے پر اصرار کیا اور انکار کرنے پر آپ پر پانی بند کردیا، انہوں نے آپ کو نہ تو کوفہ جانے دیا اور نہ ہی مدینہ واپس جانا گوارا کیا بلکہ آپ علیہ السلام سے جنگ کی جس میں اہل بیت رسول عکیہم السلام کے کئی افراد سمیت امام حسین رضی اللہ عنہ کی بہی شہادت واقع ہوئی ۔
(سیر اعلام النبلاء :۳۰۲/۳)
انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ، عبیداللہ بن زیاد کے پاس جب حسین علیہ السلام کا سر لایا گیا تو اس نے اسے ایک طست میں رکہا اور اس پر اپنی چہڑی مارنے لگا اور آپ کے حسن کے بارے میں کوئی بات کی تو انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سب سے زیادہ مشابہ تہے۔
(صحیح البخاری: ۳۷۴۸)
انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب عبیداللہ بن زیاد کے پاس حسین رضی اللہ عنہ کا سر لایا گیا تو وہ آپ کے سامنے کے دانتوں پر چہڑی مارنے لگا اور کہنے لگا، مجہے لگا یہ خوبصورت تہے تو میں نے کہا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس جگہ کو چومتے دیکہا ہے جہاں تو اپنی چہڑی مار رہا ہے تو اس نے اپنا ہاتہ پیچھے ہٹا لیا۔
(مجمع الزوائد: ۱۵۱۵۰، امام الہیثمی کہتے ہیں: اسے بزار اور طبرانی نے اسانید کے ساتہ روایت کیا ہے اور اسکے راویوں کی توثیق کی گئی ہے۔)
شہر بن حوشب کہتے ہیں، میں نے ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو فرماتے سنا جب حسین علیہ السلام کی شہادت کی خبر ملی کہ آپ نے فرمایا: انہوں نے اسے قتل کردیا، اللہ عزوجل انہیں قتل فرمائے اور انہیں ذلیل فرمائے، اللہ کی ان پر لعنت ہو۔
(مجمع الزوائد :۱۵۱۴۵، امام الہیثمی کہتے ہیں: اسے طبرانی نے روایت کیا ہے اور اسکے راوی ثقہ ہیں) ۔
ابراہیم النخعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں، اگر میں ان لوگوں میں سے ہوتا جنہوں نے حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کیا تہا، پہر میری مغفرت ہوجاتی اور میں جنت میں داخل ہوتا تو مجہے شرم آتی اس بات سے کہ میرا گزر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہو اور وہ میرے چہرے کو دیکھیں ۔
(مجمع الزوائد: ۱۵۱۴۷، الہیثمی کہتے ہیں: اسے طبرانی نے روایت کیا ہے اور اسکے راوی ثقہ ہیں۔)
ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں: آپ کو قتل کرنے والوں کو جو باتیں اور فتنے پیش آئے اس کے بارے میں جو روایت کیا گیا ہے اس میں سے اکثر صحیح ہے کیونکہ بہت ہی نادر ہے کہ ان لوگوں میں سے کوئی آفت اور مرض کے بغیر دنیا سے رخصت ہوا ہو اور ان میں سے اکثر پاگل ہوگئے۔
(البداية و النهاية: ۲۰۲/۸)
صالح بن احمد بن حنبل کہتے ہیں، میں نے اپنے والد سے کہا: چند لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ وہ یزید سے محبت رکہتے ہیں ۔ انہوں نے کہا: اے بیٹے! کیا یزید سے کوئی جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکہتا ہے محبت رکہ سکتا ہے!؟ میں نے کہا: ابا! پہر آپ اس پر لعنت کیوں نہیں کرتے؟ انہوں نے کہا: بیٹا! تم نے کب اپنے باپ کو کسی پر لعنت کرتے دیکہا ہے؟!
(مجموع الفتاوي ابن تيمية: ۴۱۲/۳)
حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
(حکمرانوں کے خلاف نکلنے والوں کی) ایک قسم وہ ہے جو دین کی خاطر غضب کی وجہ سے نکلے، والیوں کے ظلم اور انکے سنت نبویہ کے ترک کی وجہ سے تو یہ لوگ اہل حق ہیں اور انہی میں سے حسین بن علی، حرہ میں اہل مدینہ اور وہ قراء ہیں جو حجاج کے خلاف نکلے تہے۔
(فتح الباری :۲۸۶/۱۲)
ابن حزم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
افاضل صحابہ اور دیگر لوگ حرہ کے دن یزید بن معاویہ کے خلاف نکلے تہے اور ابن الزبیر اور جو نیک مسلمان انکی پیروی کرتے تہے وہ بہی اس کے خلاف نکلے تہے، اللہ اسکے خلاف نکلنے والوں سے راضی ہو اور ان کے قاتلوں پر لعنت فرمائے ۔
(مراتب الاجماع ص ۱۷۸
وأخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين
کمنت کیجے