Home » ولی عہدی سے خلافت کے انعقاد کے قانونی اثرات پر بحث سے زاہد مغل صاحب کا گریز (قسط نمبر 2)
اسلامی فکری روایت تاریخ / جغرافیہ تہذیبی مطالعات فقہ وقانون

ولی عہدی سے خلافت کے انعقاد کے قانونی اثرات پر بحث سے زاہد مغل صاحب کا گریز (قسط نمبر 2)

وہ سوالات جن کے جوابات ڈاکٹر صاحب نے خود دینے ہیں۔

اس کے بعد ڈاکٹر صاحب پوچھتے ہیں: “پھر جن حضرات کے نزدیک وہ فاسق و فاجر نہ تھا تو “غیر فاسق” ہوتے ہوئے یہ کس بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ جن صحابہ نے اس سے بیعت کی وہ فتنے کے خوف سے تھی؟” یہ سوال تو مجھ سے بنتا ہی نہیں ہے کیونکہ میرے متعلق تو ڈاکٹر صاحب جانتے ہیں کہ میں یزید کے فسق کا قائل ہوں۔ البتہ ڈاکٹر صاحب چاہیں، تو خود اپنے اس سوال کا جواب دے سکتے ہیں۔

ڈاکٹر صاحب مزید فرماتے ہیں: “اسے تاریخی طور پر یوں بھی دیکھیے کہ ادھر حضرت امیر معاویہ کا انتقال ہوا، ادھر نئی حکومت دو حضرات یعنی حضرت عبد اللہ بن زبیر اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما سے بیعت کا مطالبہ کرتی ہے۔ اگلے دن یہ حضرات مدینہ سے مکہ چلے جاتے ہیں۔ کیا محض دو تین دنوں میں ان پر یزید کا کوئی ایسا فسق و فجور کھل گیا تھا جو حضرت امیر معاویہ کے علم میں دس سال تک نہ آسکا تھا؟”

یہ سوالات بھی، جیسا کہ مکرر عرض کیا گیا، موجودہ بحث، یعنی ولی عہدی کے متعلق ڈاکٹر صاحب کی تحقیق کے لازمی نتائج، کے لیے  قطعی طور پر غیر متعلق ہیں، لیکن اس آخری سوال پر جب ڈاکٹر صاحب سوچ بچار کرلیں، تو ساتھ ہی اس پر بھی کچھ دیر کےلیے غور کرلیں کہ سیدنا نوح علیہ السلام پر ان کے بیٹے کا کفر کیوں اس وقت تک واضح نہیں ہوسکا تھا جب تک طوفان آچکنے کے بعد اس نے کشتی میں آنے سے انکار نہیں کیا اور پھر ڈوب نہیں گیا اور پھر آپ نے دعا نہیں کی اوراللہ تعالیٰ نے آپ کو بتا نہیں دیا کہ یٰنوح انہ لیس من اھلک، انہ عمل غیر صالح، فلا تسئلن ما لیس لک بہ علم؟ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا دفاع سر آنکھوں پر، لیکن کیا نعوذ باللہ ان کا مقام سیدنا نوح علیہ السلام سے بڑھ کر تھا؟

آگے ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں: “کیا اس سے یہ عندیہ نہیں ملتا کہ حضرت حسین کا یہ طرز عمل پہلے سے چلے آنے والے صحابہ کے مابین ہوئے اختلاف کا تسلسل تھا نہ کہ یزید سے متعلق معلوم ہونے والے کسی فوری تاثر پر مبنی تھا؟ ”

اس پر مکرر عرض ہے کہ موجودہ بحث، یعنی ولی عہدی کے متعلق ڈاکٹر صاحب کی تحقیق کے لازمی نتائج، کے لیے  تو یہ سوال بھی قطعی طور پر غیر متعلق ہے، لیکن میں آپ کو اتنا ضرور بتا سکتا ہوں کہ میرے نزدیک اس سوال کا جواب اثبات میں ہے۔ ایک تو یہ پہلے سے چلے آنے والے اختلاف کا تسلسل تھا، اور اسی لیے اس بحث میں مختصراً اور اس سے پہلے دیگر مقامات پر تفصیلاً میں عرض کرچکا ہوں کہ بات سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کی خلافت کے انعقاد سے شروع کریں جو ہمارے نزدیک خلیفۂ برحق تھے اور کسی بھی سبب سے ان کی بیعت سے انکار کا موقف غلط تھا اور جمل و صفّین سمیت جس جنگ میں سیدنا علی کرم اللہ وجہہ نے شرکت کی، اس میں وہی برحق تھے۔ مزید یہ کہ یزید کے فسق کے اچانک منکشف ہوجانے کا تاثر آپ کا ہوگا۔ ہمارا موقف یہ ہے ہی نہیں۔

آپ بھی صحیح اور وہ بھی غلط نہیں!

ڈاکٹر صاحب کے آخری تین سوالات بھی موجودہ بحث، یعنی ولی عہدی کے متعلق ڈاکٹر صاحب کی تحقیق کے لازمی نتائج، کے لیے  قطعی طور پر غیر متعلق ہیں، لیکن اس لحاظ سے اہم ہیں کہ ان سے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ امام حسین رضی اللہ عنہ کے اقدام کے متعلق ڈاکٹر صاحب کا زاویۂ نظر کیا ہے اور ہم نے ان سے جو سوالات کیے ہیں ممکنہ طور پر وہ ان کے کیا جوابات دیں گے؟

چنانچہ ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں: “بعض لوگوں کو لگے کہ فلاں کی خلافت منعقد ہوگئی اور بعض کو لگے کہ نہیں ہوئی۔ ایسے میں صحابہ کے حوالے سے اپنا نظریہ طے کرتے ہوئے ایک صورت یہ ہوسکتی ہے کہ ہم ایک کی رائے کو راجح اور دوسری کو مرجوح قرار دیں اور دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ہم دونوں کو درست قرار دیں۔”

اب آیا اونٹ پہاڑ کے نیچے!

یعنی ایک جانب یزید کی ولی عہدی کے معاً بعد اس کی خلافت کے انعقاد کا موقف ہے اور دوسری جانب امام حسین رضی اللہ عنہ جیسی شخصیت کا اس نام نہاد خلیفہ کی بیعت سے انکار ہے، تو ڈاکٹر صاحب چاہتے ہیں کہ کسی طرح یہ راستہ نکالا جائے کہ آپ ٹھیک کہتے ہیں اور وہ بھی غلط نہیں کہتے!

یاد کیجیے کہ پیچھے بھی ڈاکٹر صاحب نے اسے یوں پیش کیا تھا کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ (اور 75 صحابہ) ایک طرف تھے اور “بعض دیگر لوگ” دوسری طرف اور ہم نے اس پر گرفت کی ہے کہ ایک تو “بعض دیگر لوگ” کی ترکیب مناسب نہیں ہے اور پھر  ہمارا سوال صحابہ کے درمیان اختلاف کے بارے میں نہیں، بلکہ اس بارے میں ہے کہ امام حسین رضی اللہ عنہ کی جانب سے انکار کی روش اور یزید کی جانب سے ان سے بیعت لینے کی کوشش میں کون سا موقف درست تھا؟ یعنی ہم حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد کی صورت حال پر ڈاکٹر صاحب کی تحقیق کے لازمی نتائج پر ان کی سوچی سمجھی راے جاننا چاہتے ہیں۔

بہرحال، آگے ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں کہ یہ “آپ بھی صحیح اور وہ بھی غلط نہیں” والی راے ” ان لوگوں کے مطابق ہے جن کے مطابق ظنی مسائل میں حق ایک سے زیادہ ہو سکتا ہے۔” یہ ہے وہ بات جس کی طرف ہم نے پیچھے اشارہ کیا تھا ۔

ڈاکٹر صاحب یہاں سوال اٹھاتے ہیں: ” کیا ایک سے زیادہ حق کی یہ رائے اہل سنت ہی کے اندر پائی جانے والی ایک معتبر رائے نہیں ہے؟” اس پر ہماری جانب سے وہی گزارش ہے جو ہم پیچھے بیان کرچکے ہیں کہ سوال تو یہ ہے ہی نہیں کہ اہلِ سنت کے ہاں کتنی آرا پائی جاتی ہیں؟ سوال تو یہ ہے کہ اپنی تحقیق کی روشنی میں ڈاکٹر صاحب جس نتیجے پر پہنچے ہیں اس کے لازمی نتائج کیا ہیں؟ یا ڈاکٹر صاحب یہ فرمانا چاہ رہے ہیں کہ وہ خود کسی ایک راے کے تو قائل ہی نہیں ہیں، یہ بھی صحیح ہے اور وہ بھی غلط نہیں، اور ہماری مرضی جہاں یہ راے لیں اور جہاں وہ؟

ڈاکٹر صاحب آگے فرماتے ہیں: ” دو آراء کے مابین اولی و خلاف اولی کی ایسی نسبت ماننے کا امکان بھی ہوتا ہے جہاں ہر فریق مصیب ہو۔” یہ بات کس حد تک درست ہے، ہم اس کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتے، لیکن اتنا ضرور کہیں گے کہ ایسی عمومی بات کہنے کے بجاے خصوصی طور پر اس مسئلے میں بتائیے کہ یزید کی جانب سے بیعت لینے کی کوشش اور امام حسین رضی اللہ عنہ کی جانب سے انکار کی روش میں معاملہ “حلال و حرام” کا تھا یا “اولی اور خلافِ اولی” کا، اور اس میں کس کا طرز عمل اولی تھا اور کس کا خلافِ اولی؟

ڈاکٹر صاحب آگے فرماتے ہیں: “کیا اہل سنت کے نکتہ نگاہ سے یہ ماننا ضروری ہے کہ حضرت حسین کے سوا دیگر صحابہ کم ہمت اور رخصتیں تلاش کرنے والے تھے؟ ” اس پر مکرر عرض ہے کہ ہمیں اس سے غرض ہی نہیں ہے کہ اہل سنت کی اس باب میں کتنی آرا ہیں، یا کیا ان کی ایک راے یا کئی ایک، بلکہ ہمارا سوال ڈاکٹر صاحب کے موقف کے بارے میں ہے کہ ڈاکٹر صاحب اس باب میں کیا راے رکھتے ہیں؟ ویسے اندازہ تو ہمیں ہو ہی گیا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کا جواب کیا ہوگا، لیکن وہ تصریح کر لیں تو بہتر ہوگا۔

ڈاکٹر صاحب کا اگلا سوال بھی اسی نوعیت کا ہے اور اس کا جواب بھی یہی ہے۔

خلطِ مبحث کا شاہ کار

اس کے بعد جو آخری سوال ہے وہ خلطِ مبحث کا شاہ کار ہے۔ ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں: “اگر یہ مان لیا جائے کہ یزید فاسق تھا یا اس کی ولی عہدی جائز نہ تھی یا اس کی حکومت قائم نہ ہوئی تھی، تب بھی اگلا سوال یہ ہے کہ فقہی نقطہ نگاہ سے حضرت حسین کا عمل “خروج” تھا؟ ”

یہاں پہلے تو “اگر یہ مان لیا جائے” پر نظر رہے۔ میں اس پر کچھ کہوںگا نہیں، لیکن اسے نظر میں رکھنا ضروری ہے۔

پھر جب ڈاکٹر صاحب یہ پوچھتے ہیں کہ  کیا ” حضرت حسین کا عمل “خروج” تھا”، تو سوال یہ ہے کہ ہم نے کب اسے خروج کہا ہے؟ یہ تو ڈاکٹر صاحب نے ہمیں بتانا ہے کہ وہ خود اسے کیا سمجھتے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک یزید کی خلافت منعقد ہوچکی تھی اور وہ خلیفۂ برحق تھا۔ اسی لیے تو ہم نے ڈاکٹر صاحب کے سامنے وہ سوالات رکھے کہ جب ڈاکٹر صاحب کے نزدیک ولی عہدی سےہی خلافت منعقد ہوجاتی ہے، تو پھر امام حسین رضی اللہ عنہ کے اقدام کی تکییف وہ کیسے کریں گے؟ خروج اور بغی کے متعلق اگر ہمارا موقف جاننے سے آپ کو واقعی دلچسپی ہے، تو ہم اس موضوع پر برسہا برس سے تفصیلاً لکھتے آئے ہیں اور ہم اس کے قائل ہیں کہ جو حکمران “امامِ برحق” نہ کہلایا جاسکے اس کے خلاف نکلنا بغاوت ہے ہی نہیں، اور یہ کہ شرعاً یہ ہرگز ضروری نہیں ہے کہ باغی وہی کہلائیں جو حکمران کے خلاف نکلیں بلکہ بعض اوقات خود مسند حکومت پر براجمان شخص ہی شرعاً باغی کہلاتا ہے۔

اپنے سوالات کے آخر میں ڈاکٹر صاحب نے قوسین میں ہی سہی، یہ مان لیا ہے کہ ” اس موقع پر نواسہ رسولﷺ کو قتل کردیا جانا ظلم وعدوان تھا۔” اس پر ہم اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے اپنے پہلے سے ذکر کیے گئے سوالات پر اس سوال کا اضافہ کرتے ہوئے پوچھنا چاہیں گے کہ اس ظلم و عدوان کےلیے ذمہ دار کون تھا؟ یزیدی لشکر کے جنگجو، کمانڈر، خود یزید، یا کچھ نامعلوم چور ڈاکو؟ بیّنوا تؤجروا۔

ڈاکٹر صاحب کے مضمون پر تبصرہ پورا ہوا لیکن اس دوران میں تماشائیوں کی جانب سے کچھ ہڑبونگ بھی ہوئی ہے، تو ہم مختصراً تین توضیحات پیش کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔

تین ضروری توضیحات

پہلی توضیح اس سیریز کے اسلوب کے متعلق ہے۔ عرض ہے کہ اسلوب ایسا ہی ہونا چاہیے تھا کیونکہ ڈاکٹر صاحب نے مناظرانہ داو پیچ کے گر آزماتے ہوئے ہمارے سوالات کے جوابات دینے سے نہ صرف گریز کی راہ اختیار کی بلکہ ایک طویل تحریر اس مقصد سے لکھی کہ بحث دوسرے کونوں میں چلی جائے۔ اس صورت میں یہ لازم تھا کہ انھیں بتایا جائے کہ وہ امور زیرِ بحث ہیں ہی نہیں، کیونکہ ہمارے سوالات خصوصاً صرف اور صرف اس پہلو سے تھے کہ ڈاکٹر صاحب نے جو موقف اختیار کیا ہے اس کی سے امام حسین رضی اللہ عنہ کے اقدام کی کیا حیثیت بنتی ہے؟ اسی وجہ سے ہم نے مسلسل اس بات کی نشان دہی کی ہے اور ڈاکٹر صاحب سے مطالبہ کیا ہے کہ دیگر امور میں الجھنے کے بجاے اس مسئلے پر اپنا موقف بتائیے۔

یہاں ہم یہ ضرور کہنا چاہیں گے کہ جو 12 سوالات ڈاکٹر صاحب نے لکھے ہیں، ہم ان کی اہمیت سے انکاری نہیں ہیں اور ڈاکٹر صاحب نے اس مسئلے پر جو پوزیشن لی ہے وہ ان سوالات پر غور کرنے کے بعد ہی لی ہوگی، لیکن ہماری گزارش فقط اتنی ہے کہ ہم تو ڈاکٹر صاحب سے صرف یہ چاہتے تھے کہ ان سوالات پر انھوں نے جو بھی پوزیشن لی ہے، اب ہمیں صرف اتنا بتادیں کہ جب انھوں نےبالآخر ولی عہدی پر ایک موقف بنا ہی لیا ہے، تو اس کی روشنی میں امام حسین رضی اللہ عنہ کے اقدام کی شرعی تکییف کیا ہے؟

دوسری توضیح خود ڈاکٹر صاحب کے ایک اعتراض کے جواب میں ہے۔ انھوں نے گلہ کیا کہ ہم نے” ابتدائی چھ سوالات کو گول کردیا گیا جو بحث کا اصل رخ متعین کرنے میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں”۔ اس پر عرض ہے کہ ہمارے نزدیک ڈاکٹر صاحب کے 12 کے 12 سوالات گول کرنے چاہیے تھے اور ہم نے انھیں گول ہی کیا ہے کیونکہ ہم  نے یہ سیریز “بحث کا اصل رخ متعین کرنے” کےلیے نہیں لکھی، بلکہ اس لیے لکھی کہ بحث کا اصل رخ جو بھی ڈاکٹر صاحب نے متعین کیا ہے اور جن سوالات کے جواب میں متعین کیا ہے، وہ ڈاکٹر صاحب جانیں، ہم تو صرف یہ جاننا چاہتے ہیں کہ جب ڈاکٹر صاحب نے صرف بحث کا رخ ہی متعین نہیں کیا بلکہ ولی عہدی پر ایک سوچا سمجھا موقف اپنا بھی لیا ہے، تو اب اس سوچے سمجھے موقف کے لازمی نتائج پر بھی کچھ سوچی سمجھی راے بھی دیتے جائیں۔ یہ ہے ہماری اس مغز ماری کا مقصد جو ہم بار بار لکھتے آئے ہیں۔

تیسری اور آخری وضاحت اس سیریز کے اصل مقصد کے بارے میں ہی ہے۔ ہم نے ابتدا میں ہی واضح کیا تھا، بلکہ اس سیریز سے پہلے بھی لکھا تھا، کہ ہم اس پر بحث نہیں کررہے کہ ولی عہدی کے متعلق ڈاکٹر صاحب کا موقف درست ہے یا غلط، نہ ہی اس پر بحث کررہے ہیں کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا دفاع وہ درست طریقے سے کررہے ہیں یا نہیں، بلکہ ہمارا مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ ہم ڈاکٹر صاحب سے صراحت کے ساتھ سن لیں کہ ولی عہدی پر ان کے موقف کی رو سے امام حسین رضی اللہ عنہ کے طرزِ عمل کی شرعی تکییف کیا ہے؟ یہ صراحت ہم اس لیے سننا چاہتے ہیں کہ بعض اوقات کسی شخص کا دھیان خود اپنے موقف کے لوازم کی طرف نہیں جاتا اور جب کوئی توجہ دلائے، تو یا تو وہ لوازم مان لیتا ہے یا اپنے موقف کی نوک پلک درست کرلیتا ہے۔

اس لیے آخر میں پھر ان سوالات کو ہم یہاں لکھ دیتے ہیں جو اس مقصد کےلیے ضروری ہیں:

1۔ کیا ولی عہدی کی بنا پر یزید پہلے دن سے ہی، یعنی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے فوراً بعد، خلیفہ اور امامِ بر حق بن گیا تھا؟ یعنی کیا اس کی خلافت پہلے دن سے ہی منعقد تھی؟

2۔ کیا جس خلیفہ کی خلافت منعقد ہوچکی ہو، اس کی بیعت سے انکار جائز ہے، خواہ یہ انکار کتنی ہی نیک نیتی کے ساتھ کیا جائے؟

3۔ جس خلیفہ کی خلافت منعقد ہوچکی ہو اور اس کے باوجود اس کی بیعت سے کسی نے انکار کیا، تو انکار کرنے والے کے خلاف مسلح طاقت کا استعمال جائز ہوتا ہے؟ اگر ہاں، تو کس حد تک؟

4۔ اگر یزید کی خلافت منعقد ہوچکی تھی اور اس کی بیعت سے انکار ناجائز تھا اور انکار کرنے والوں کے خلاف مسلح طاقت کا استعمال جائز تھا، تو کیا آپ امام حسین کےلیے ثواب کے صرف اس وجہ سے قائل ہیں کہ انھوں نے یہ انکار نیک نیتی سے کیا؟ اور کیا ان کو داد آپ صرف اس وجہ سے دیتے ہیں کہ انھوں نے اس نیک نیتی سے کیے گئے غلط انکار پر استقامت دکھائی؟

ان 4 سوالات پر ایک پانچویں سوال کا اضافہ ہمارے فاضل دوست کے اس بیان سے ہوا ہے کہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کا قتل ظلم و عدوان تھا، تو سوال یہ ہے کہ اس ظلم و عدوان کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟ یزیدی لشکر کے جنگجوؤں پر، کمانڈر پر، خود یزید پر یا نامعلوم ڈاکوؤں اور رہزنوں پر؟ ڈاکٹر صاحب اس پانچویں سوال کا جواب نہ دینا چاہیں، تو ہم اس پر اصرار نہیں کریں گے، لیکن اگر پہلے 4 سوالات کے جوابات سے وہ گریز کریں گے، تو ہماری جانب سے اس بحث کو یہیں پر ختم سمجھیے۔ کوئی بھی بامعنی بحث اس وقت تک نہیں ہوسکتی جب تک ڈاکٹر صاحب ان 4 سوالات کے جوابات مرحمت نہ فرمائیں۔

پروفیسر ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

پروفیسر ڈاکٹر محمد مشتاق احمد شفاء تعمیر ملت یونیورسٹی اسلام آباد میں شعبہ شریعہ وقانون کے چیئرمین ہیں اور بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے ذیلی ادارہ شریعہ اکیڈمی کے ڈائریکٹر کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔

(mushtaq.dsl@stmu.edu.pk)

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں