Home » فلسفہ اور مذہب کے داخلی اختلافات اور نتائج
تہذیبی مطالعات فلسفہ کلام

فلسفہ اور مذہب کے داخلی اختلافات اور نتائج

عمران شاہد بھنڈر

تاریخی اعتبار سے دیکھیں تو فلسفے اور مذہب کے درمیان کوئی موازنہ نہیں بنتا۔ فلسفہ تمام علوم، تمام سائنسز کی ماں ہے۔ جبکہ مذہب کا روز اول سے کردار سیاسی نوعیت کا رہا ہے۔ سیاسی مذہبیت ہو یا مذہبی سیاست جو کہ لازم و ملزوم ہیں، ان کا سب سے بڑا ہتھیار علم نہیں سیاسی طاقت تھی۔ فلسفہ بنیادی طور پر انسانی تفکر کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے اور اس مسلسل تفکری عمل سے فلسفے نے سماجی مظاہر کی ان کی کُلیت میں تفہیم کا جو بے مثل طریقہ کار وضع کیا ہے اسے منطق کہتے ہیں۔یہی منطق ہے جسے متکلمین استعمال کرکے اپنے عقائد کو عقلی ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ متکلمین کسی منطق کے خالق نہیں ہیں اور نہ ہی منطق کا مذہب کے ساتھ کوئی تعلق ہے۔منطق فلسفیوں کی تخلیق ہے۔ اس میں ہر کمی بیشی ایک منطقی قضیے کے طور پر عمل میں آتی ہے۔ منطق میں ارسطو سے لے کر گوتلوب فریگے تک ہر اضافہ فلسفیوں نے ہی کیا ہے جو کہ منطق کے ذریعے، منطق کے لیے مفید ثابت ہوا ہے۔۔منطق کے بغیر ہر سائنسی مشاہدہ ناقابلِ فہم ہے
فلسفیانہ فکر کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ جونہی کوئی علم منطقی سطح پر اپنی بنیادیں تشکیل دے کر تیقن کی سطح پر پہنچ جاتا ہے، وہ ایک سائنس بن کر فلسفے سے الگ ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ فلکیات جو کبھی فلسفے کا موضوع تھا، آج سائنس ہے۔ ارسطو کی کتاب کا عنوان ”فزکس” تھا، لیکن اس میں موجود ساری بحث فلسفیانہ نوعیت کی ہے۔ نیوٹن کی کتاب کا عنوان ”فلسفہ فطرت کے ریاضیاتی اصول تھا۔“ اسی طرح نفسیات جو کبھی فلسفے کا موضوع تھا، جونہی اس میں تیقن پیدا ہوا وہ ایک سائنس کی شکل اختیار کر کے فلسفے سے الگ ہو گیا۔یہی علم الکلام کے ساتھ بھی ہوا، جونہی مذہب کو منطقی دائرے میں لایا گیا، وہ ایک ”الگ“ علم کی صورت میں تشکیل پا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ مذہبی ’علما‘ کی اکثریت علم الکلام کو مذہب سے متصادم سمجھتی ہے۔
فلسفے کا حسن اور اس کی طاقت فلسفیوں کا باہمی اختلاف ہوتا ہے اور یہی اختلاف ایک مشترک منطقی بنیاد فراہم کرتا ہے، جس میں تبدیلیاں اس میں مزید گہرائی لانے کے لیے لازمی ہوتی ہیں۔ علم الکلام کی روایت میں جو بھی اختلافات سامنے آئے ہیں وہ مذہب کے اختلافات نہیں ہیں، بلکہ وہ اس منطقی طریقہ کار کے اطلاق کے اختلافات ہیں۔ اور وہی منطقی اختلافات متکلمین میں وہ حوصلہ پیدا کرتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے کو برداشت کر پاتے ہیں۔ ابو حامد غزالی نے ”تہافت الفلاسفہ“ میں متکلمین کے خلاف منطقی طریقہ کار اختیار کرتے ہوئے دلائل پیش کیے تھے۔ تاہم جونہی ان میں مذہبی روح بیدار ہوتی ہے وہ ان کے خلاف فتوے بھی جاری کرتے ہیں جو مذکورہ کتاب کے آخر میں درج ہیں۔
علم الکلام میں جہاں مخالفت فتوؤں تک لے جاتی ہے تو وہاں فلسفیوں کے افکار میں مماثلت نہیں، بلکہ امتیازات ارتقا کا باعث بنتے ہیں۔ یہی فلسفیانہ فکر کے ارتقا کا تقاضا ہے۔ فلسفہ انسانی فکر کے ہر گوشے کا سراغ لگاتا ہے، کہیں خلا نہیں چھوڑتا، اس لیے کوئی فلسفی جب دوسرے فلسفی سے مختلف تجزیات اور نتائج پیش کرتا ہے، تو وہ فکر کے انہی مخفی گوشوں کو منکشف کر رہا ہوتا ہے جو دیگر فلسفیوں کی نظر سے اوجھل رہتے ہیں اور فلسفیانہ فکر کا ارتقا اسی سمت میں ہونا ہوتا ہے۔ فلسفیانہ فکر کا بنیادی تفاعل ہی فکری خلا و تضادات کی دریافت اور ان کی تحلیل کرنا ہے۔ فلسفیوں کے درمیان افکار کی اسی پیکار سے خلا پر ہوتا ہے اور نتیجہ یہ کہ ایک معین علم وجود میں آتا ہے۔ جونہی ایک سائنس تشکیل پا جائے تو فلسفہ پھر اپنی پرانی روش پر چل پڑتا ہے، یعنی تفکر اور صرف تفکر۔
جہاں فلسفے میں تھیسس اور اینٹی تھیسس فلسفیانہ فکر کی روح ہیں تو وہاں اس کے برعکس خدا کی کتابوں میں گہرے اختلافات صحیح اور غلط کے درمیان ایک ناقابل عبور خلیج پیدا کر دیتے ہیں۔ آزاد خیال لوگوں کے لیے ان اختلافات کا لازمی نتیجہ خدا کی جانب تشکیک کی صورت میں نکلتا ہے۔ جبکہ مذاہب کے درمیان سچ اور جھوٹ کی ایک مستقل دیوار کھڑی ہو جاتی ہے، جو انہی اختلافات کی بنیاد پر انسانوں کے درمیان مستقل نفرت کو قائم رکھتی ہے۔ آزاد خیال لوگوں میں مذاہب کے درمیان اختلافات مذاہب کے مکمل استرادار کا باعث بنتے ہیں۔ بائبل میں خدا کہتا ہے کہ وہ ابراہام کے گھر گیا۔ ابراہام دہی اور دودھ کے ساتھ دنبہ بھی لائے۔ سارا نے کھانا پکایا۔ خدا نے گوشت کھایا۔ قرآن میں خدا کہتا ہے کہ مسیح اور مریم انسان تھے اور وہ کھانا کھاتے تھے۔ یعنی خدا کھانا نہیں کھاتا۔ اسی طرح انجیل میں مسیح کا خدا کے بیٹا ہونے کا تصور اور قرآن میں مسیح کو نبی کہنا کلی طور پر متصادم ہیں۔ انجیل میں مسیح کو نبی نہ کہنا اور خدا کا بیٹا ماننے کا اختلافات تفسیر یا تاویل کا نہیں ہے بلکہ ایک ہی خدا کے اپنے ”وجود” کے بارے میں ہیں۔ ”بھگوت گیتا” میں لکھا ہے کہ ہر انسان میں برہما کی روح موجود ہوتی ہے جو انسان کے عمل سے ایک مختلف قالب میں چلی جاتی ہے۔ اسے آواگون، سمسار، تناسخ وغیرہ بھی کہا جاتا ہے۔ بلآخر وہ روح نجات پاتی ہے اور جسم خاک ہو جاتا ہے۔ اس کے مکمل طور پر برعکس اسلام کا جنت دوزخ کا نظریہ ہے۔ جنت میں حوریں، لونڈے اور شراب ہوں گے، جبکہ جہنم میں آگ ہو گی۔ اگر خدا ایک ہے تو اس خے نظریات میں یہ گہرے تضادات کیوں ہیں؟ یہ ایسے اعتقادات ہیں کہ جن کا نہ تو علم حاصل کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی ان کو رد کیا جا سکتا ہے۔ عقیدے پر مبنی اختلافات اور تضادات کی تحلیل عقیدے کے ذریعے ممکن نہیں ہوتی، کیونکہ دو مختلف عقائد کے پاس اپنی کوئی بھی علمیاتی یا منطقی بنیاد نہیں ہوتی کہ دوسرے عقیدے کو صحیح یا غلط ثابت کر سکیں۔
اس کے علاوہ فلسفہ سیاست اور اخلاقیات میں بھی بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ فلسفیوں نے ریاست کی تشکیل اور سیاسی عمل کے گہرے تجزیات کے بعد اصول دیے ہیں۔ انصاف کی ماہیت، مثبت اور منفی آزادی کے تصورات، مساوات کی نوعیت، انفرادیت کی حدود وغیرہ جیسے موضوعات کے اعلیٰ تجزیات پیش کیے ہیں جو کہ جدید ریاستوں میں عمل پذیر ہیں۔ سماجی عمل میں پیچیدگی سے ان اصولوں کی ازسر نو تشکیل ہوتی ہے۔ چونکہ طریقہ پیداوار کی تبدیلی سے سماجی اور سیاسی تشکیلات میں بھی بنیادی تغیرات واقع ہوتے ہیں، اس لیے یہ موضوعات مستقل طور پر فلسفے میں زیرِ بحث آتے رہتے ہیں۔
فلسفہ مذہب نہیں ہوتا کہ ایک بار پیش کر دیا تو تاقیامت اس کے احکامات تک ہر سماجی، سیاسی اور فکری عمل کی تخفیف کا سلسلہ جاری رکھا جائے۔ مذہب نے انسانی علم کے کسی ایک شعبے میں ایک ذرے برابر نہ اضافہ کیا، اور نہ کسی علم کی بنیاد رکھی۔ مذہب کے پاس سماجی، سیاسی، اخلاقی تفہیم کا کوئی پیمانہ سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ مذہب کے پاس وہ اوزار ہی نہیں ہیں کہ جدید معاشروں میں تغیرات کے محرکات کو سمجھ سکے، حل پیش کرنا تو بعد کا معاملہ ہے۔ وجہ یہ کہ مذہب چند گھڑے گھڑائے احکامات کا مجموعہ ہوتا ہے۔ یہ کرو،یہ نہ کرو۔ اگر کوئی سوال پوچھ لے کہ کیوں کریں اور کیوں نہ کریں؟ تو جواب گھڑا گھڑایا کہ فلاں ”مقدس“ کتاب میں یہ حکم ہے۔ لیکن آج تو بچے بھی منطقی طور پر سوچتے ہوئے ہر عمل کی وجہ معلوم کرنا چاہتے ہیں۔ اب مجددین نے اپنے تئیں مذہب کا دائرہ بہت محدود کر دیا ہے۔ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ مذہب کا علوم و فنون سے کوئی تعلق نہیں ہے، بلکہ یہ تو انسان کو موت کے بعد کی زندگی کے لیے تیار کرتا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مذہب جدید معاشروں اور ان میں برپا ہونے والے تغیرات پر گرفت تو درکنار ان کو سمجھنے سے بھی مکمل طور پر قاصر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مذہب کا دائرہ کسی مجدد نے نہیں خود جدید ریاست کے داخلی، پیچیدہ اور متبدل تقاضوں نے محدود کیا ہے۔ فرقہ پرستی، تشدد، دہشت، توہین وغیرہ جیسے غیر اخلاقی و غیر انسانی عوامل جو کہ مذہبی تعبیرات کا لازمی نتیجہ تھے، اب مذہب کی قوتِ محرکہ ہیں۔ اب مذہب اپنے ہی داخلی تضادات کا شکار ہو چکا ہے۔ ان تضادات سے باہر نکلنے کی فلسفیانہ کاوش مذہب کی موت ہے جبکہ خود مذہبی ذرائع سے ان تضادات کی تحلیل کی کوشش دہشت و بربریت کے مزید اظہار کی صورت اختیار کرے گی۔ کیونکہ مذہب کی بنیاد کسی دلیل نہیں ہوتی، بلکہ اس کا انحصار سیاسی طاقت، گھناؤنی سزاؤں اور اخروی زندگی کے لالچ پر مبنی تصورات پر ہوتا ہے۔ یہی اس کی مکمل تاریخ کا ماحصل ہے۔ تاہم جدید معاشروں میں تو اب یہ خود تاریخ کا حصہ بن چکا ہے، جبکہ پسماندہ ممالک میں اس کا کردار ان ممالک کو مزید پسماندہ بنانے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ زندگی کا کوئی ادنیٰ سا شعبہ بھی ایسا نہیں ہے کہ جس میں مذہب کو ایک ذرے برابر بھی متعلقہ کہا جا سکے۔ یہ ہر سماج کے لیے ناقابل عمل ہے۔ اب یہ پسماندہ ممالک کے لیے صرف ایک سیاسی آئیڈیالوجی کے طور پر موجود ہے۔ ایسی آئیڈیالوجی جو ناقابل عمل ہے۔ مذہب کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ یہ ”مکمل ضابطہ حیات ہے۔“ تاہم آج یہ زندگی کے ہر نظم و نسق میں انتشار کی وجہ ہے۔ یہی انتشار، دراصل، انسانی اور اخلاقی بحران کی علامت ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عمران شاہد بھنڈر صاحب یو۔کے میں مقیم فلسفے کے استاد اور کئی گرانقدر کتب کے مصنف ہیں ۔

منتظمین

ا کمنٹ

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں