1917 تک یہاں بنیادی طور پر فلسطینی عرب آباد تھے اور کچھ جگہوں پر یہودی بستیاں بھی موجود تھیں۔ یہودیوں کا تناسب کل آبادی میں تقریباً چھ فیصد تھا۔ 1917 میں برطانوی حکومت کی طرف سے اعلان بالفر میں یہ وعدہ کیا گیا کہ اس علاقے کو یہودیوں کا قومی وطن بنایا جائے گا۔
1948 میں فلسطین کو تقسیم کر کے اسرائیلی ریاست کا قیام عمل میں لایا گیا (جس سے قبل پچھلے تیس سال میں بڑے پیمانے پر پوری دنیا سے یہودیوں کو لا کر یہاں آباد کرنے کا عمل مکمل ہو چکا تھا)۔ فلسطینیوں کو ایک الگ وطن دیا گیا، لیکن آزاد فلسطینی ریاست قائم نہیں ہو سکی، کیونکہ اسرائیلی افواج نے پورے فلسطین پر قبضہ کرنے کے لیے جنگ شروع کر دی جس کو روکنے کی کوشش میں اردن نے مغربی کنارے پر جبکہ مصر نے غزہ کی پٹی پر اپنا تسلط قائم کر لیا۔
48 کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران ساڑھے سات لاکھ فلسطینیوں کو یہاں سے بے گھر کر دیا گیا۔ (یہ ذہن میں رہے کہ تقریبا” اتنی ہی تعداد میں مختلف عرب علاقوں میں مقیم یہودی بھی وہاں سے ہجرت کر کے اسرائیل میں آباد ہوئے تھے۔ یوں اسرائیل اس عمل کو تبادلہ آبادی کے اصول پر جائز قرار دیتا ہے)۔
1967 کی عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیل نے مغربی کنارے اور غزہ کو بھی اردن اور مصر سے چھین لیا۔ ان علاقوں پر اسرائیلی قبضہ 1995 میں یاسر عرفات کی پی ایل او اور اسرائیل کے مابین اوسلو معاہدوں تک جاری رہا۔ اس جنگ میں مزید تین لاکھ فلسطینیوں کو بے گھر ہونا پڑا۔ نیز اسی قبضے کے دوران میں اسرائیل نے یروشلم کو بھی پورے کا پورا، اسرائیل کا حصہ بنانے کا اعلان کر دیا۔
اوسلو معاہدات کے تحت اسرائیل نے فلسطینیوں کو محدود داخلی خود مختاری دینا قبول کیا اور فلسطینی اتھارٹی وجود میں آئی جو مغربی کنارے کے 18 فیصد علاقوں کے انتظام وانصرام کا اختیار رکھتی ہے۔ باقی علاقے بدستور اسرائیلی کنٹرول میں یا اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کے مشترکہ کنٹرول میں ہیں۔
اس سارے عرصے میں مغربی کنارے میں بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مسلسل یہودی آباد کاری جاری ہے جس کا مقصد ان علاقوں کو اسرائیل کا حصہ بنانا ہے۔ 2020 میں ڈونلڈ ٹرمپ کے دیے گئے پلان کے مطابق امریکا اور اسرائیل چاہتے ہیں کہ یروشلم سمیت مغربی کنارے کے بہت سے علاقوں سے دستبردار ہو کر فلسطینی، محدود حصے میں داخلی خود مختاری قبول کر لیں۔
خطے کے عرب ممالک بھی اس بندوبست پر راضی دکھائی دیتے ہیں اور اصولی طور پر دو آزاد ریاستوں کے قیام کو مسئلے کا حل قرار دینے کے باوجود عملا” یہ چاہتے ہیں کہ انھی شرائط پر اسرائیل کو تسلیم کر کے معمول کے تعلقات قائم کر لیے جائیں۔ تاہم فلسطینی عوام اور تنظیمیں یہ حل قبول کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہیں۔
کمنت کیجے