Home » مسئلہ اتصال الصفوف میں فقہاء کی آراء کا تنقیدی جائزہ
اسلامی فکری روایت تفسیر وحدیث فقہ وقانون کلام

مسئلہ اتصال الصفوف میں فقہاء کی آراء کا تنقیدی جائزہ

ڈاکٹر فرخ نوید

جماعت کے ساتھ نماز ادا کرتے ہوئے کبھی ایسی صورتحال بھی پیش آ جاتی ہے جہاں پہلی صفوں سے کچھ فاصلے پر اگلی صفوف بنائی جاتی ہیں (چاہیے پیچھے ہو یا دائیں بائیں)۔ ایسا مشاہدہ جمعے کے اوقات میں مسجد سے متصل پبلک مقامات ، پارکس ، یونیورسٹیز، یا مختلف اجتماعات پہ ہوتا ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسی صف بندی جائز ہے اور کیا اس طرح صف بندی کرنے والوں کی اقتداء اور نماز درست ہو جاتی ہے یا نہیں؟ دوسرے لفظوں میں کیا اتصال صفوف صحت جماعت کے لئے شرط ہے یا نہیں۔ سطور ذیل میں اس مسئلے کا مذاہب خمسة کی روشنی میں جائزہ لے کر اس ضمن میں زیادہ راجح اور درست بات کی نشاندہی کی گئی ہے۔

حنفیہ کا نقطہ نظر
جہاں تک مسئلہ ھذا میں حنفیہ کے نقطہ نظر کا تعلق ہے تو حنفی فقہاء کی تصریحات کے مطابق اتصال صفوف نہ ہونے سے ان مقتدیوں کی نماز درست نہیں ہوتی جن کی صفوف متصل نہ ہوں۔ اور اتصال صفوف اس وقت سمجھا جاتا ہے جب دو صفوف کے درمیان ایک بیل گاڑی کے گزرنے سے بھی کم فاصلہ ہو۔ لہذا اگر کچھ صفوف کسی ایسی جگہ بنائی گئی ہیں کہ ان میں اور پہلی صفوف کے درمیان ایسا راستہ و گزرگاہ ہے جہاں سے بیل گاڑی وغیرہ گزر سکے تو اس راستے میں صف بنانے والوں کی نماز درست نہ ہو گی بوجہ عدم اتصال صفوف کے۔ ہاں البتہ اگر راستے میں بنائی گئی صفوف دوسری صفوف سے متصل ہوں تو اقتداء درست ہو گی کیونکہ متصل صفوف بننے کی وجہ سے یہ راستہ گزرگاہ کے حکم میں نہیں رہا بلکہ مصلے کے حکم میں ہو گیا ہے۔ اسی طرح صفوف کے درمیان نھر حائل ہونے سے بھی اقتداء درست نہیں ہوتی البتہ اگر اس پر پل بنا ہو اور اس پل پر صفوف بنائی جائیں جو پہلی صفوف سے مل جائیں تو اقتداء درست ہو جاتی ہے۔ چناچہ علامہ کاسانی بدائع الصنائع میں تحریر فرماتے ہیں۔
” من کان بینہ و بین الامام طریق عام یمر فیہ الناس، او نھر عظیم، او خلاء فی الصحراء، اور صف من النساء بلا حائل قدر ذراع او بغیر ارتفاعھن قدر قامة الرجل، لا یصح الاقتداء لان ذلک یوجب اختلاف المکانین عرفا مع اختلافھما حقیقة فیمنع صحة الاقتداء لقول عمر رضی اللہ عنہ ‘ من کان بینہ و بین الامام نھر او طریق او صف من النساء فلا صلاة لہ’
و مقدار الطریق العام الذی یمنع صحة الاقتداء ھو مقدار ما تمر فیہ العجلة او تمر فیہ الاحمال علی الدواب۔ فان کان الصفوف متصلة علی الطریق کما یحصل فی الحرمین او بالمساجد المزدحمة بالمصلین جاز الاقتداء لان اتصال الصفوف اخرجہ من ان یکون ممر الناس، فلم یبق طریقا بل صار مصلی فی حق ھذہ الصلاة۔ و کذلک ان کان علی النھر جسر و علیہ صف متصل۔
(بدائع الصنائع و الفقہ الاسلامی و ادلتہ

شوافع کا نقطہ نظر
شافعیہ کے نقطہ نظر کے مطابق مقتدی کو امام کے انتقالات کی خبر ہونا ضروری ہے چاہے اسے دیکھ کر ہو یا سن کر ۔ لہذا اگر تو امام اور مقتدی ایک ہی مسجد میں جمع ہیں تو مقتدیوں کی اقتداء درست ہے چاہے ان میں اور امام میں تین سو ذراع سے زیادہ کا فاصلہ ہی کیوں نہ ہو۔ ہاں البتہ اگر کچھ نمازی مسجد میں ہوں اور باقی مسجد سے ہٹ کر راستے میں کچھ صفوف بنائیں (جگہ کی تنگی کی وجہ سے) تو اگر مسجد والی صفوف اور راستے پر بنائی گئی صفوف میں تین سو زراع( ایک زراع دو شبر یا گٹھ کے برابر ہے تقریبا) سے زیادہ فاصلہ ہے تو راستے میں بنائی جانے والی صفوف کی اقتداء درست نہیں ہو گی اور اگر تیں سو زراع سے کم فاصلہ ہے تو اقتداء درست ہو جائے گی۔ چناچہ صاحب علامہ خطیب شربینی (مشہور شافعی فقیہ) مغنی المحتاج میں تحریر فرماتے ہیں۔
” فان کان الامام و الماموم مجتمعتین فی مسجد صح الاقتداء و ان بعدت المسافة بینھما فیہ اکثر من ثلاثة مئة ذراع ۔ اما ان کان الامام و الماموم فی غیر مسجد کصحراء فتصح الصلاة بشرط ان لا یکون بینھما و بین کل صفین اکثر من ثلاثة مئة ذراع تقریبا۔ و ان لا یکون بینھما جدار او باب مغلق۔ و لو کان الامام فی المسجد و الماموم خارجہ فالثلاث مئة ذراع محسوبة من آخر المسجد۔
(مغنی المحتاج 1 / 248)
.
مالکیہ کا نقطہ نظر
مالکیہ کے نقطہ نظر کے مطابق اتصال مکان صحت اقتداء کے لئے شرط نہیں۔ اسی طرح اگر دو صفوف کے درمیان کوئی گزر گاہ ہے یا نھر وغیرہ تب بھی دوسری جانب کی صفوف کی اقتداء درست ہو جاتی ہے بشرطیکہ امام کے انتقالات کی خبر مقتدی کو ہوتی ریے چاہے دیکھ کر ہو یا سن کر۔
” اما المالکیة فقالوا لا یشترط ھذا الشرط، فاختلاف مکان الامام و الماموم لا یمنع صحة الاقتداء، و وجود حائل من نھر او طریق او جدار لا یمنع الاقتداء متی امکن ضبط افعال الامام برویة او سماع۔
(الفقہ الاسلامی و ادلتہ, 2 / 208)

حنابلہ کا نقطہ نظر
حنابلہ کا موقف اس باب میں یہ ہے کہ صحت اقتداء کے لئے اتصال ضروری ہے تاہم اتصال کے لئے اتنا کافی ہے کہ امام کی رویت ہو جائے (تاکہ اسکے انتقالات کا علم ہو سکے). اگر امام اور مقتدی دونوں مسجد کے اندر ہی ہیں تو اگرچہ اتصال صفوف نہ ہو اور ان میں کچھ فاصلہ رہ جائے تو کوئی حرج نہیں کیونکہ پوری مسجد نماز ہی کے لئے بنائی گئی ہے اور وہ محل جماعت ہے۔ تاہم اگر امام مسجد کے اندر ہو اور مقتدی باہر صف بنائیں تو مقتدیوں کی اقتداء درست ہو گی (چاہے امام کے مساوی خارج المسجد صف بنا لیں یا کسی اونچی جگہ پر) بشرطیکہ صفوف متصل ہوں اور مقتدیوں کو امام کی رویت ہوتی رہے چاہے مقتدی باہر کسی اونچی جگہ پر کھٹرے ہوں یا متصلا کسی گھر کی چھت پر (یعنی کسی طرح امام کے انتقالات کا علم ہوتا رہے)۔
اتصال صفوف کا مطلب حنابلہ کے ہاں یہ ہے کہ دو صفوف میں اتنا بعد یا دوری نہ ہو جو عادة بہت زیادہ سمجھی جاتی ہو جس سے امام کا مشاہدہ نہ ہو سکے اور اسکے انتقالات کا علم نہ ہو سکے۔ چناچہ علامة ابن قدامة المغنی میں تحریر فرماتے ہیں
” ولا یعتبر اتصال الصفوف اذا کان جمیعا فی المسجد لان المسجد بنی للجماعة فکل من حصل فیہ فقد حصل فی محل الجماعة۔
و ان کان الماموم فی غیر المسجد او کانا جمیعا فی غیر مسجد صح ان یاتم بہ سواء کان مساویا للامام او اعلی منہ بشرط کون الصفوف متصلة و یشاہد من وراء الامام و سواء کان الماموم فی رحبة الجامع او دار او علی سطح و الام علی سطح آخر”
(المغنی لابن قدامة ٢/ ۴٢٢ طبع دار الحدیث)۔
یہاں تک حنابلہ کا معروف موقف بیان کیا گیا ہے تاہم علامة ابن قدامة نے اس مسئلے پہ مذید بحث کرتے ہوئے یہ تحریر فرمایا ہے کہ اگر امام اور مقتدی کے درمیان کوئی راستہ حائل ہو یا نھر وغیرہ آ جائے تو اس کا کیا حکم ہے۔ اس سلسلے میں حنابلہ کے دو اقوال ہیں۔ ایک یہ کہ اس صورت میں اقتداء صحیح نہیں (جیسا کہ حنفیہ کا مذہب ہے) اور دوسرا قول یہ کہ اقتداء صحیح ہے (جیسا شوافع اور مالکیہ کا مذہب ہے) کیونکہ اس کے ممنوع ہونے پہ قرآن و سنت کی کوئی صریح نص نہیں اور ہی کوئی اجماع ہے۔لہذا اس باب میں موثر بات یہ ہے کہ اگر امام کے انتقالات کا علم ہو رہا ہے چاہے مشاہدے سے ہو یا آواز کو سن کر تو اقتداء درست ہے۔ علامة ابن قدامة نے اسی رائے کو ترجیح دی ہے۔ چناچہ وہ المغنی میں رقم طراز ہیں کہ
” و اذا کان بینھما طریق او نھر تجری فیہ السفن او کان فی سفینتین مفترقتین ففیہ وجھان
احدھا لا یصح ان یاتم بہ و ھو اختیار اصحابنا و مذہب ابی حنیفہ لان الطریق لیست محلا للصلاة فاشبہ ما یمنع الاتصال۔
والثانی یصح وھو الصحیح عندی و ھذا ایضا مذہب مالک و الشافعی۔ لانہ لا نص فی منع ذلک ولا اجماع ولا ھو فی معنی ذلک لانہ لا یمنع الاقتداء، فان الموثر فی ذلک ما یمنع الرویة او سماع الصوت و لیس ھذا بواحد منھما”
(المغنی لابن قدامة 2/ 223 طبع دار الحدیث)۔
لہذا اس توجیہ کے مطابق حنابلہ کا مذہب بھی اس مسئلے میں شوافع اور مالکیہ کے مذہب کے موافق بن جاتا ہے۔

ظاہریہ کا نقطہ نظر
فقہ ظاہری کے مطابق اگر کسی مسجد کے اندر جمعے کی نماز میں جگہ باقی نہ رہے اور باہر راستے کو چھوڑ کر صفوف بنانی پڑیں یا امام اور صفوف کے درمیان کوئی نھر ، خندق، دیوار وغیرہ حائل ہو جائے تو تب بھی صف بنانے والوں کی نماز ہو جائے گی (بشرطیکہ امام کے انتقالات کی خبر ہوتی رہے چاہے دیکھ کر ہو یا تکبیر کی آواز سن کر)۔ اور یہ حکم صرف جمعے کی نماز کے لئے نہیں بلکہ باقی نمازوں کی جماعت کا بھی یہی حکم ہے۔ چناچہ علامة ابن حزم المحلی میں رقم طراز ہیں کہ
” من حال بینہ و بین الامام و الصفوف نھر عظیم او صغیر او خندق او حائط لم یضرہ شیئی و صلی الجمعة بصلاة الامام”
و حکم الامامة سواء فی الجمعة و غیرھا ، و النافلة و الفریضة، لانہ لم یات قرآن ولا سنة فی الفرق بین احوال الامامة فی ذلک ۔
علامة ابن حزم اپنے اس دعوے کے ثبوت میں مصنف عبد الرزاق کی درج ذیل روایات سے استدلال کرتے ہیں۔
ایک روایت ابو مجلز کی ہے جو فرماتے ہیں کہ عورت بھی امام کی نماز کے ساتھ نماز پڑھے سکتی ہے بشرطیکہ وہ امام کی تکبیر کو سن رہی ہو اگرچہ اس عورت میں اور امام کے درمیان کوِئی راستہ یا دیوار حائل ہو۔
” عن المعتمر بن سلیمان عن ابیہ عن ابی مجلز قال: تصلی المراة بصلاة الامام وان کان بینھما طریق او جدر بعد ان تسمع التکبیر”
(مصنف عبدالرزاق ٣/ ٨٢ (۴٨٨۴)
اسی طرح مصنف ابن ابی شیبہ کی بھی ایک روایت پیش کی جاتی ہے
” عن الحماد ابن سلمة عن ھشام بن عروةعن ابیہ انہ جاء یوم الجمعة الی المسجد و قد امتلاء فدخل دار حمید بن عبد الرحمن بن عوف و الطریق بینہ و بین المسجد ، فصلی معھم و ھو یری رکوعھم و سجودھم
(مصنف ابن ابی شیبة ۴ / ٣٢٩ (٦٢٢٠)

القول الراجح
مسئلہ ھذا میں مختلف فقہاء کے اقوال کا جائزہ لینے کے بعد یہ بات واضح ہوتی ہے کہ صرف حنفیہ کے ہاں راستے کو چھوڑ کر صف بندی کرنے سے نماز نہیں ہوتی اگر پہلی صفوف اور بعد میں قائم کردہ صفوف کے درمیان اتنا فاصلہ ہو جس سے بیل گاڑی گزر سکے۔ جبکہ باقی تمام مذاہب کے فقہاء (شوافع ، مالکیہ، ظاہریہ اور علامة ابن قدامة کی رائے کے مطابق حنابلہ) اس صورت میں اقتداء اور جماعت کو درست قرار دیتے ہیں۔
حنفیہ کی دلیل حضرت عمر رضی کا قول ہے کہ راستے اور نھر کے درمیان میں حائل ہونے کی وجہ سے نماز نہیں ہوتی
میری نظر سے وہ قول بھی گزرا ہے لیکن اسکی سند مجھے نہیں مل سکی۔ علامة کاسانی نے یہ قول تو ذکر کیا ہے لیکن اسکی سند مذکور نہیں۔ دوسرے تمام فقہاء جب حنفیہ کے موقف پہ تنقید کرتے ہیں تو حضرت عمر کے قول کا حوالہ نہیں دیتے بلکہ اور زاویے سے تنقید کرتے ہیں۔ اگر یہ قول مستند ہوتا تو باقی فقہاء کے درمیان زیر بحث ضرور آتا حالانکہ وہ صراحتا کہتے ہیں کہ کسی قسم کی تحدید پہ نہ تو قرآن و سنت کی کوئی نص ہے اور نہ ہی اجماع۔
پھر اگر حضرت عمر کے قول کو درست مان بھی لیا جائے تو بیل گاڑی جنتنے راستے کی صراحتا تحدید تو اس سے بھی ثابت نہیں ہوتی اور اسے ثابت کرنے کے لئے فقہاء حنفیہ کو پھر استنباط کرنا پڑتا ہے۔
آخری بات یہ ہے کہ حنفیہ کا قول بسا اوقات تنگی و حرج کا باعث بنتا ہے۔
حنفیہ کی رائے کا تجزیہ کرنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ بیل گاڑی کے گزرنے والی بات محض فقہاء حنفیہ کی آراء پر مبنی ہے جس پہ نہ تو قرآن و سنت کی کوئی دلیل ہے اور نہ ہی اجماع۔ لہذا اس تحدید کی بنیاد پر اقتداء کے درست نہ ہونے کا حکم لگانا درست معلوم نہیں ہوتا۔ آج کل مسجد سے متصل عوامی جگہوں ، پارکس، پلے گراونڈز، اور تعلیمی ادراوں میں اس طرح کی صف بندی کر دی جاتی ہے جہاں درمیان میں راستہ گزرنے کی جگہ چھوڑ دی جائے یا مسجد سے متصل شارع عام کو چھوڑ کر صف بنا لی جائے۔ اگر اسے صرف اس رائے کی بنیاد پر ناجائز قرار دے کر فساد صلاة کا حکم لگایا جائے اور نماز کو لوٹانے کا فتوی دیا جائےتو لوگ تنگی و حرج میں مبتلا ہو جائیں گے۔ لہذا اس ضمن میں دوسرے فقہاء کی آراء پر عمل کرنے کی گنجائش دی جانی چاہیئے۔
رہ گئی یہ بات کہ امام شافعی بھی تو تین سو ذراع تک کے فاصلے کی حد بندی کے قائل ہیں (چاہے بیل گاڑی جتنے فاصلے تک کے قائل نہ ہوں)۔ تو اگر ان کے ہاں تیں سو زراع تک تحدید کی جاسکتی ہے تو حنفیہ کے تحدید کے قول کو کیوں اختیار نہیں کیا جا سکتا؟
اس کا جواب علامة ابن قدامة نے المغنی میں دیا ہے کہ حد بندی کسی قسم کی بھی ہو بہرحال انسانی رائے پر مبنی ہے نہ کہ قرآن و سنت و اجماع پر۔ لہذا کسی نص کے نہ ہوتے ہوئے کسی بھی تحدید کو حتمی قرار نہیں دیا جا سکتا ۔
” و حکی عن الشافعی انہ حد الاتصال بما دون ثلاثة مائة ذراع ، و التحدیات بابھا التوقیف، و المرجع فیھا الی النصوص و الاجماع، ولا نعلم فی ھذا نصا نرجع الیہ ولا اجماعا نعتمد علیہ”
خلاصة کلام یہ ہے کہ اس مسئلے میں مالکیہ ، شوافع ، ظاہریہ، اور علامة ابن قدامة کا قول (جو حنابلہ کی ترجمانی کرتا ہے) راجح معلوم ہوتا ہے اور اس کے حق میں مختلف آثار بھی موجود ہیں جبکہ احناف کا قول اس ضمن میں درست معلوم نہیں ہوتا۔ لہذا راستے کو چھوڑ کر بھی اگر صفوف بنا لی جائیں (چاہے بیل گاڑی کے گزرنے سے زیادہ فاصلہ ہی کیوں نہ ہو) تب بھی جماعت اور اقتداء درست ہو جاتی ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈاکٹر صاحب نے مینجمنٹ سائنسز میں پی ایچ ڈی کی ہے ائیر یونیورسٹی اسلام آباد سے۔ ان کے تخصص کا میدان فنانس ہے خصوصا اسلامک و کارپوریٹ فنانس اور اس میں مختلف مقالات بھی تحریر فرمائے چکے ہیں جو موقر بین الاقوامی ریسرچ جرنلز میں شائع ہوئے ہیں۔ علوم اسلامیہ میں درس نظامی کے بھی فاضل ہیں۔ آج کل رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی فیصل آباد میں مینجمنٹ سائنسز کے شعبہ میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر خدمات انجام دے رہے ہیں۔

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں