Home » روایت یا تجدد : ہمارا موقف
اسلامی فکری روایت شخصیات وافکار

روایت یا تجدد : ہمارا موقف

محترم جوہر صاحب نے روایت اور تجدد پر ایک تازہ تحریر لکھی ہے جو مدرسہ ڈسکورسز ویب پر دیکھی جا سکتی ہے ۔ مجھے ان سے اتفاق ہے اور اسی بنیاد پر میں دیوبندی فکر، اہل حدیث فکر، سرسید کی فکر، مولانا مودودی کی فکر اور غامدی صاحب کی فکر، سب کو بنیادی طور پر باختلاف مدارج ’’تجدد’’ ہی کے نمائندہ افکار سمجھتا ہوں، کیونکہ ان میں سے کوئی بھی موجود اور چلی آنے والی روایت کو بعینہ قبول نہیں کرتا بلکہ ’’اصل مآخذ’’ کی روشنی میں موجود روایت کی اصلاح وترمیم یا اضافہ کی بات کرتا ہے۔ یہی ’’تجدد’’ کا سادہ مفہوم ہے۔ ہاں، موجود روایت کے کس حصے کو لینا ہے اور کس کو چھوڑنا ہے، اس کے معیارات سب اپنے اپنے وضع کرتے ہیں، اور پھر دینی استناد پر دعویٰ جتانے کے لیے ایک گروہ خود کو ’’تجدید’’ کا اور دوسرے گروہوں کو جو روایت میں ان کی طے کردہ حدود سے زیادہ ترمیم یا اضافہ کر رہے ہوں، ’’تجدد’’ کا نمائندہ باور کرانے کی کوشش کرتا ہے۔ نتیجتاً‌ جدید دور میں روایت اور تجدد کا کوئی ایک واضح مفہوم موجود نہیں ہے۔ یہ خالی از معنی اصطلاحات ہیں جو حسب مفاد استعمال کی جا رہی ہیں۔

جوہر صاحب نے ’’تجدد’’ کے نمائندہ ان سب فکری دھاروں پر تنقید کے لیے ایک دو چیزیں بطور بنیاد پیش کی ہیں، لیکن میرے خیال میں وہ بھی اس الجھن یا ابہام کو دور نہیں کرتیں۔ اس حوالے سے ان کی پوسٹ پر جو کمنٹ کیا گیا، وہ حسب ذیل ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’بہت قابل توجہ تجزیہ ہے۔ بعض حصوں سے تو کلی اتفاق ہے، مثلاً‌ ’’مسلم معاشروں میں تجدد اور روایت کا تنازع ابھی تک لاینحل ہے یعنی یہ امر کہ تجدد کیوں غلط ہے اور روایت کیوں صحیح ہے ابھی تک علمی توسیط سے محروم ہے۔’’ اور یہ کہ ’’جب ہم روایت یا روایتی یا اہل روایت کے الفاظ استعمال کرتے ہیں تو اس سے کچھ خاص مراد نہیں ہوتا اور ہر شخص اپنی صوابدید کے مطابق اس کا معنی سمجھتا ہے۔’’ اور یہ بھی کہ میرے فیصلے سے ’’مکتب دیوبند کو ضرر کا اندیشہ ضرور ہے لیکن اپنے والد گرامی سے ان کا اختلاف کوئی بڑی فکری معنویت نہیں رکھتا۔’’ اس سے بہت قریب الفاظ میں یہ بات میں بھی متعدد مواقع پر عرض کر چکا ہوں۔

کچھ امور مزید توضیح کے طالب ہیں، کیونکہ تجدد یا روایت پر کوئی بھی ججمنٹ ان کے واضح ہوئے بغیر کوئی معنی نہیں رکھتی۔ مثلاً‌ ’’اہلِ علم کے حلقوں میں یہ باور کیا جاتا ہے کہ تجدد اور روایت میں بہت ہی بنیادی نوعیت کے فروق ہیں اور یہ دونوں دین کو دیکھنے اور سمجھنے کے نہ صرف دو بالکل مختلف تناظر ہیں بلکہ ایک دوسرے کی ضد ہیں۔’’ یہ بنیادی نوعیت کے فروق کیا ہیں؟ اور ان کی تعیین کس معیار پر ہوگی؟ خاص طور پر اگر ’’روایت اور اس کے تمام جدید تصورات جدیدیت ہی کے پیدا کردہ ہیں’’ تو تجدد اور روایت میں فرق کے لیے کون سا تصور کارآمد ہوگا اور وہ کہاں سے لایا جائے گا؟

اسی نوعیت کا سوال اس تجزیے پر بھی وارد ہے کہ ’’فکر (thought) کا الوہی ہدایت سے کوئی براہ راست تعلق نہیں، بالواسطہ ضرور ہے۔ فکر انسانی اصلاً دنیا کی تفہیم کا ایک فلسفیانہ طریقۂ کار ہے اور الوہی ہدایت کے سامنے فکر بگھارنا اس کا انکار ہی ہے۔’’ کیا فکر اور الوہی ہدایت کے تعلق کا یہ تصور روایت سے لیا گیا ہے یا یہ بھی جدیدیت کی دین ہے؟ اگر روایت سے ہے تو پھر وہی سوال ہے کہ روایت کیا ہے؟ اگر یہ جدیدیت سے مستعار ہے تو بات آگے کیسے بڑھے؟’’

محمد عمار خان ناصر

محمد عمار خان ناصر گفٹ یونیورسٹی گوجرانوالہ کے شعبہ علوم اسلامیہ میں تدریس کے فرائض انجام دیتے ہیں۔
aknasir2003@yahoo.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں