جزیرہ نما عرب کے ممالک میں مندر کی تعمیر پر ممانعت کی ہماری رائے لوگوں کے لیے باعث حیرت اور تعجب معلوم ہوئی۔ اور اس پر یہ سوال اٹھایا گیا کہ موجودہ دور میں اگر یہی پابندی دوسرے مذاہب کی جانب سے ہم پر عائد کردی جائے تو بھارت، یورپ اور امریکہ میں ہم مسلمان کس اصول پر مساجد تعمیر کر سکیں گے؟
یہ اضطراب دو جانب سے سامنے آیا ہے:
پہلے وہ مسلمان ہیں جو اس موقف کی بناے استدلال میں موجود دینی استدلال کو قابل اعتناء سمجھے بغیر اسے اوپن مائینڈنس(open mindness) کے خلاف سمجھتے اور اس رائے کا مذاق اڑا رہے ہیں، ان کی یہ پریشانی قابل فہم ہے کیونکہ مسلمانوں کے اس گروہ کے نزدیک اسلام محض ایک تعارف اور شناخت کی چیز ہے۔تہذیبی مرعوبیت میں اپنے مذہبی تقاضوں سے عاری یہ قوم أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ کی مدعی اور ہر دینی تقاضے کو نیشن اسٹیٹ اور جدید مغربی تصور آزادی سے مطابق مان کر قبول کرتی ہے۔ اور جو شرعی حکم اس دور کی حرکیات میں قابل عمل نہ نظر آئے اس سے اعلانیہ انکاری ہے۔
ایسے لوگ اسلام کو کلچرلی اپنائے ہوئے ہیں، ان کی خدمت میں عرض ہے کہ خدا کے آخری پیغمبر کے فیصلے کو ماننے کا اگر واحد پیمانہ جدید دنیا کے لیے قابل قبول ہونا ہے تو اس عذر خوائی سے ہزار درجے بہتر ہے کہ مسلمانی کا یہ طوق بھی گلے سے اتار پھنکیں، کیونکہ جس خالق کی وفاداری کا ہم دم بھر رہے ہیں، اس کی بارگاہ میں وہی ایمان قابل قبول ہوگا جو اس کی شریعت پر عمل درآمد کے ساتھ پیش ہو،ورنہ اس کا ارشاد ہے: وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ ہیں ۔
البتہ سنجیدہ مسلمان جو خدا کے پیغمبر کی ہدایت کے امتثال امر میں موجودہ دنیا کی رعایت سے سوال اٹھا رہے ہیں ان کے لیے چند باتیں عرض ہیں:
دنیا میں ایسا کوئی قانون نہیں جو ہماری اس رائے سے متصادم ہو، میرا گھر میرا ہے، آپ کا ویٹیکن (Vatican) کا آپ ہے۔
جب ہم ایک مرتبہ کسی جگہ کو خاص کر لیتے ہیں، تو اس خصوص کا پوری دنیا احترام کرتی ہے۔۔میں اگر کوئی سینٹر قائم کرتا ہوں تو کوئی بھی میری اجازت کے بغیر وہاں داخل ہوکر اپنا کام نہیں کر سکتا ہے۔ یہی معاملہ چرچ کا ہے ۔اسے آپ نے اپنی عبادت کے لیے خاص کیا ہے تو اب مجھے وہاں اذان کی اجازت نہیں ہوگی۔۔
چنانچہ جزیرہ نما عرب کے بارے میں ہمارا یہ دعوی ہے کہ ہمارے پیغمبر نے، ہمارے خدا کے کی ہدایت پر اس سرزمین کو توحید کے لیے خاص کردیا ہے، لہذا وہاں کی مستقل سکونت صرف مسلمانوں کو حاصل ہے، وہاں يَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلَّهِ ہے یعنی صرف خدا کا ہی دین ہے جو اپنے شعائر کے ساتھ نمایاں ہوگا، باقی کسی کو اپنی عبادت گاہیں بنانے کی اجازت نہیں، بلکل ایسے جیسے ویٹکین میں مسجد بنانے کی آپ ہمیں اجازت نہیں دیں گے۔
اگر بھارت کے ہندوں کے پاس بھی خدا کی سند کے ساتھ ایسی کوئی ہدایت ہے کہ بر صغیر کی سرزمین ان کے لیے خاص کردی گئی تو ہماری رائے میں انھیں بھی اس پر عمل درآمد کرنا چاہیے ۔ باقی اپنے تصورات پر عمل درآمد طاقت سے کروایا جاتا، ہمارے پیغمبر جب تھے اور خدا کی معیت ان کے ساتھ تھی تو انھیں نے اس پر عمل کروا لیا۔توحید کے اس عالمی مرکز سے شرک کی غلاظت کو اکھاڑ پھینکا، اور جب طاقت نہیں ہوتی تو مندر کھڑا ہوجاتا اور ہماری فریادوں پر لوگ قہقہے لگاتے رہتے ہیں۔
کمنت کیجے