بعض سنی / حنفی حضرات کا خیال ہے کہ قرآنی آیت میں اہل بیت کا مصداق ازواج مطہرات نہیں بلکہ وہ افراد ہیں جن کا ذکر حدیث میں ہوا اور وہ سوال پوچھتے ہیں کہ کیا کسی حدیث میں ازواج مطہرات کو اہل بیت کہا گیا؟ ان حنفی دوستوں کا یہ طریقہ استدلال ہی غلط ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ جس اصول فقہ کو وہ مانتے ہیں اس کی رو سے وہ کیا کہنا چاہتے ہیں۔
ان دوستوں سے ہمارا سوال ہے کہ وہ ہمیں یہ بتائیں کہ سورہ احزاب میں لفظ “اہل بیت” لفظ کے معنی کے ظہور کی آٹھ اقسام (محکم، مفسر، نص، ظاہر، خفی، مشترک، مجمل و متشابہ) میں سے کیا ہے؟ یہاں دو امکان ہیں:
الف) لفظ “اہل بیت” ایک ایسا لفظ ہے جیسے مثلا “القارعۃ” کہ جس کے معنی صرف شارع کے بیان ہی سے سمجھ آسکتے ہیں۔ اس صورت میں یہ مجمل کہلائے گا اور مطلب یہ ہوگا کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو لفظ اہل بیت سے اس وقت تک شارع کی کوئی مراد سمجھ نہ آئی جب تک کہ وہ حدیث آگئی اور چونکہ اس حدیث میں ازواج کے بجائے دیگر افراد کو اہل بیت کہا گیا لہذا ازواج مطہرات اس میں شامل نہیں۔ کیا یہ مفروضہ قرین از قیاس ہے کہ یہ آیت مجمل ہے جبکہ سورہ احزاب کی متعلقہ آیات یا سیاق صاف طور پر ازواج مطہرات سے متعلق ہے نیز قرآن مجید میں یہ لفظ “اہل بیت” حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بیوی کے لئے ہی استعمال ہوا ہے (أَتَعْجَبِينَ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ ۖ رَحْمَتُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ) وہ بھی اس وقت جب آپ علیہ السلام کی کوئی اولاد نہ تھی، اسی طرح دنیا کی شاید ہی کوئی ایسی لغت اور معاشرہ ہو جس میں “گھر والے” کا لفظ بولا جائے تو بیوی کا مراد ہونا بھی سمجھ نہیں آتا؟ الغرض سورہ احزاب کی اس آیت سے ازواج کو خارج قرار دے کر حدیث سے اس کا مطلب متعین کرنے کا مطلب یہ مفروضہ قائم کرنا ہے کہ یہ لفظ مجمل تھا جو گویا نماز کی طرح اصطلاحات شریعہ کی قبیل سے ہے مگر ایسا مفروضہ قائم کرنے کی بنیاد موجود نہیں۔ پس آیت کو مجمل کہنا تحکم ہے۔
ب) دوسری صورت یہ ماننا ہے کہ آیت مجمل نہیں بلکہ عربی لغت کے استعمال، سیاق کلام اور قرآن کے نظائر کی رو سے کسی ایک معنی کی جانب واضح رجحان رکھتی ہے۔ اس ترجیح یافتہ معنی میں دو امکان ہیں: یا ابتدا ہی سے ازواج مطہرات اور دیگر افراد کا ظاہر کے درجے میں شامل ہونا سمجھ آجاتا ہے اور یا صرف ازواج مطہرات کا مراد ہونا سمجھ آتا ہے:
* اگر سب کا مراد ہونا سمجھ آجاتا ہے تو حدیث نے کوئی نئی بات نہیں بتائی۔ تاہم آیت کے سیاق کلام سے صرف کسی ایک خاص داماد کا اہل بیت میں شامل ہونا اور دیگر سب کا خارج ہونا لغت اور استعمال کی رو سے سمجھ نہیں آتا
* اور اگر ابتداءً ازواج مطہرات مراد ہونا سمجھ آتا ہے جو کہ قرین از قیاس ہے تو اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ حدیث کو آیت کے ساتھ ملا کر کس طرح پڑھنا ہے؟ اس کا ایک طریقہ قیاسی الحاق ہے، یعنی آیت میں بظاہر جس قرابت مصاہرت کی بنا پر ازواج کو اہل بیت کہا گیا ہے، رسول اللہﷺ نے اس جزئی سے متعلق معنی قرابت کے مفہوم کو وسعت دے کر قرابت کے ایک وسیع مفہوم کی بنا پر دیگر افراد کو بھی اہل بیت میں شامل فرمایا۔ اس کی مثال بلی کی نجاست کے حکم میں نرمی کو طوافین پر قیاس فرمانا ہے۔ یعنی حدیث میں دیگر افراد کا قرآن میں مذکور اہل بیت کے افراد کے ساتھ الحاق کیا گیا ہے نہ یہ کہ کسی مجمل لفظ کی طرح ان کی تعیین کی گئی ہے۔ اس صورت میں نہ صرف یہ کہ ازواج مطہرات اہل بیت میں شامل ہوں گی بلکہ جس توسیعی معنی کی بنا پر ایک داماد قیاساً اہل بیت میں شامل ہوئے حضرت عثمان بھی اس میں شامل ہوں گے، الا یہ کہ یہ کہا جائے کہ یہ الحاق امور تعبدیہ کی قسم میں سے تھا جو بذات خود ایک دعوی ہے۔ حدیث کو آیت کے ساتھ ملا کر پڑھنے کا دوسرا طریقہ یہ فرض کرنا ہوسکتا یے کہ حدیث نے آیت کے مفہوم میں اضافہ کردیا ہے۔ اگرچہ اس استدلال کی رو سے بھی ازواج مطہرات اہل بیت سے خارج نہ ہوں گی تاہم حنفی اصول کی رو سے غور کرنے کی بات یہ ہے کہ کیا آیت کے یہ معنی “نص” و “ظاہر” کے درجے میں ہیں یا “مشترک” کے ظنی متعین شدہ معنی کے درجے میں؟ کہیں یہ قرآن کے مفہوم میں اضافے کی وہ صورت تو نہیں جسے حنفی نسخ کہتے ہیں؟ اگر ہاں، تو حنفی اصول کی رو سے کیا خبر واحد سے آیت کے معنی میں اضافہ جائز ہے؟ اور اگر یہ وہ صورت نہیں بلکہ مشترک کے مؤول شدہ ظنی معنی پر اضافے کی صورت ہے جو حنفی اصول کی رو سے خبر واحد سے بھی جائز ہے، تو پھر ازواج مطہرات اس سے خارج کیسے ہوئیں؟
الغرض اہل بیت سے ازواج مطہرات کو خارج سمجھنے والے ان حنفی دوستوں کو چاہئے کہ وہ اپنے اصول فقہ کی روشنی میں اپنی رائے پر غور کریں اور اپنی رائے کو اپنے اصول فقہ کے ساتھ ہم آھنگ بنانے کی کوشش فرمائیں۔
کمنت کیجے