Home » نبی اور امتی کا تعلق اور صفت “خاتمیت” کی وراثت: تصور “خاتم الاولیاء” کی بنیاد
اسلامی فکری روایت تصوف شخصیات وافکار

نبی اور امتی کا تعلق اور صفت “خاتمیت” کی وراثت: تصور “خاتم الاولیاء” کی بنیاد

حدیث کا مفہوم ہے کہ علماء انبیاء کے وارث ہوتے ہیں۔ پچھلی امتوں میں دین کی حفاظت، تشریح و تبلیغ کا جو کام اللہ تعالی نبیوں سے لیا کرتے تھے، اس امت میں وہی کام علماء کرتے ہیں۔ نبی کی یہ وراثت دو امور سے عبارت ہے: نبی کے جاری کردہ احکام شریعہ جس کے وارث فقہا ہوئے اور نبی کے شخصی اوصاف و قلبی احوال جس کے وارث صوفیا ہوئے۔ ناقدین کا شکوہ ہے کہ آخر یہ “خاتم الاولیاء” کا تصور دین میں کہاں سے آگیا نیز اس بات کی کیا بنیاد ہے کہ محمدﷺ کی صفت خاتمیت کی وراثت بھی کسی صورت آگے جاری ہوگی؟ آئیے اس کے جواب کے لئے کسی صوفی شیخ نہیں بلکہ علمائے اصول و فقہ میں سے ایک مشہور شخصیت علامہ شاطبی (م 790 ھ) کی طرف رجوع کرتے ہیں۔

علامہ شاطبی اصول فقہ پر اپنی مشہور کتاب “الموافقات” میں کہتے ہیں کہ جس طرح نبی سے ملنے والے شریعت کے احکام مکلفین کے حق میں عام ہیں الا یہ کہ رسول کے لئے کسی خاص حکم کی تخصیص ثابت ہو اور اس بنا پر وہ حکم امتیوں کے حق میں ثابت نہ ہو، اسی طرح وہ مناقب و فضائل بھی امت کے لئے عام ہیں جو اللہ تعالی کی عنایات کے طور پر نبیﷺ کو عطا ہوئے الا یہ کہ رسول کے لئے کس وصف کی تخصیص ثابت ہو۔ آپ کہتے ہیں کہ استقرا یہ بتاتا ہے کہ ہر وہ وصف جو اللہ نے آپﷺ کو عطا کیا، اس میں سے امتیوں کے لئے بھی حصہ و مثال رکھا۔ آپ شیخ ابن العربی کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ شیخ کے مطابق تمام ملتوں میں اللہ کی یہ سنت رہی ہے کہ وہ امتیوں کو نبی کے تمام عطایا میں سے حصہ عطا کرتے ہیں۔ اس کے بعد علامہ شاطبی نے قرآن و سنت سے استدلال کرتے ہوئے ایسے تیس اوصاف کا ذکر کیا ہے جہاں نبیﷺ کے امتیوں کے لئے بھی کسی صورت وہ بات کہی گئی جو آپﷺ کے لئے کہی گئی۔ یہاں ہم اپ کی بحث کا خلاصہ دیتے ہیں، تفصیل کے شوقین حضرات کتاب الموافقات جلد دوئم، النوع الرابع، المسئلة العاشرۃ ملاحظہ کریں۔ تحریر طویل ہوجانے کے سبب ہم آیات و احادیث کا ترجمہ نہیں لکھیں گے اور بعض مقامات پر صرف اشارہ کریں گے۔

1۔ اجتہاد کے ذریعے احکام اخذ کرنا
* نبی کے لئے: لتَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ بِمَا أَرَاكَ اللَّه
* امتیوں کے لئے: لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنْبِطُونَهُ مِنْهُمْ

2۔ اللہ اور فرشتوں کا صلوۃ بھیجنا
* نبی کے لئے: إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِي
* امتیوں کے لئے: {هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ وَمَلائِكَتُهُ }، نیز {أُولَئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ}

3۔ اللہ کی رضا مندی کا عطا ہونا
* نبی کے لئے: وَلَسَوْفَ يُعْطِيكَ رَبُّكَ فَتَرْضَى
* امتیوں کے لئے: {رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ} نیز {لَيُدْخِلَنَّهُمْ مُدْخَلًا يَرْضَوْنَهُ}

4۔ جمیع ذنوب کی مغفرت
* نبی کے لئے: لِيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ
* امتیوں کے لئے: لِيُدْخِلَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَيُكَفِّرَ عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ

5۔ اتمام نعمت کیا جانا
* نبی کے لئے: وَيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكَ وَيَهْدِيَكَ صِرَاطًا مُسْتَقِيمًا
* امتیوں کے لئے: مَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُمْ مِنْ حَرَجٍ وَلَكِنْ يُرِيدُ لِيُطَهِّرَكُمْ وَلِيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكُم

6۔ عطائے وحی و نبوت
* نبی کے لئے: إِنَّا أَوْحَيْنَا إِلَيْك
* امتیوں کے لئے: حدیث: الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ جُزْءٌ مِنْ سِتَّةٍ وَأَرْبَعِينَ جُزْءًا من النبوة

7۔ مراد کے موافق قرآن کا نزول ہونا
* نبی کے لئے: قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاء
* امتیوں کے لئے: حضرت عمر کی موافقت میں احکام کا اترنا، حضرت عمر کی حدیث “وَافَقْتُ رَبِّي فِي ثَلَاثٍ”، اسی طرح حضرت عائشہ کی براۃ کا اعلان ان کی خواہش کے مطابق ہونا

8۔ شفاعت کرنے کا حق دیا جانا
* نبی کے لئے: عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا، نیز متعدد احادیث
* امتیوں کے لئے: اس کی صورتیں احادیث میں مذکور ہیں جیسے حضرت اویس کے لئے آیا “يُشَفَّعُ في مثل ربيعة ومضر” اور اسی طرح دیگر صورتیں ثابت ہیں

9۔ اللہ کی طرف سے شرح صدر ہونا
* نبی کے لئے: أَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَك
* امتیوں کے لئے: أَفَمَنْ شَرَحَ اللَّهُ صَدْرَهُ لِلْإِسْلامِ فَهُوَ عَلَى نُورٍ مِنْ رَبِّه

10۔ اللہ کی محبت کے ساتھ خاص کرنا
* نبی کے لئے: حدیث: أَلَا وَأَنَا حَبِيبُ اللَّهِ
* امتیوں کے لئے: فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَه

11۔ دخول جنت میں اولیت
* نبی کے لئے: حدیث: أَنَّهُ أَوَّلُ مَنْ يدخل الجنة
* امتیوں کے لئے: امت کا بھی یہی معاملہ ہے کہ وہ دیگر امتوں سے پہلے جنت جائے گی

12۔ اولین و آخرین میں سب سے مکرم ہونا
* نبی کے لئے: حدیث: وَأَنَّهُ أَكْرَمُ الْأَوَّلِينَ وَالْآخَرِينَ
* امتیوں کے لئے: كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ

13۔ امت پر گواہ بنانا
* نبی کے لئے: فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيد وَجِئْنَا بِكَ عَلَىٰ هَٰؤُلَاءِ شَهِيدًا
* امتیوں کے لئے: وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا

14۔ معجزات و کرامات (خوارق عادت)
* نبی کے لئے: متعدد دلائل
* امتیوں کے لئے: متعدد دلائل

15۔ پچھلی کتب میں اوصاف مذکور ہونا
* نبی کے لئے: وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَد
* امتیوں کے لئے: ذَٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ ۚ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنجِيلِ

16۔ امی ہونا
* نبی کے لئے: فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ الَّذِي يُؤْمِنُ بِاللَّه
* امتیوں کے لئے: هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِنْهُمْ

17۔ ملائکۃ کا مناجات و گفتگو کرنا
* نبی کے لئے: متعدد دلائل
* امتیوں کے لئے: بعض صحابہ سے ملائکہ کا کلام ثابت ہونا اور اسی طرح اولیاء سے

18۔ عفو و معافی قبل از سوال
* نبی کے لئے: عَفَا اللَّهُ عَنْكَ لِمَ أَذِنْتَ لَهُم
* امتیوں کے لئے: ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْهُمْ لِيَبْتَلِيَكُمْ وَلَقَدْ عَفَا عَنْكُمْ

19۔ اللہ کی جانب سے رفع ذکر ہونا
* نبی کے لئے: وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَك
* امتیوں کے لئے: اس امت کے فضائل کا ذکر پچھلی امتوں میں ہونا جیسے حدیث میں آیا کہ انبیاء نے اس امت میں ہونے کی دعا کی

20۔ ان کی دشمنی کو اللہ کی دشمنی قرار دینا
* نبی کے لئے: إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّه
* امتیوں کے لئے: حدیث: مَنْ آذَى لِي وَلِيًّا، فَقَدْ بَارَزَنِي بِالْمُحَارِبَةِ

21۔ اللہ کا خصوصی چناؤ یا انتخاب ہونا
* نبی کے لئے: {وَاجْتَبَيْنَاهُمْ وَهَدَيْنَاهُمْ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيم} نیز حدیث: أَنَّهُ عليه الصلاة والسلام مصطفى من الخلق
* امتیوں کے لئے: {هُوَ اجْتَبَاكُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَج} نیز {أَوْرَثْنَا الْكِتَابَ الَّذِينَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا}

22۔ اللہ کی طرف سے سلامتی ہونا
* نبی کے لئے: قُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ وَسَلامٌ عَلَى عِبَادِهِ الَّذِينَ اصْطَفَى
* امتیوں کے لئے: وَإِذَا جَاءَكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِآياتِنَا فَقُلْ سَلامٌ عَلَيْكُمْ نیز حدیث: وَقَالَ جِبْرِيلُ لِلنَّبِيِّ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ فِي خَدِيجَةَ: “اقْرَأْ عَلَيْهَا السَّلَامَ مِنْ رَبِّهَا وَمِنِّي

23۔ انسانی کمزوری کے سبب قلب کو تقویت دینا
* نبی کے لئے: وَلَوْلا أَنْ ثَبَّتْنَاكَ لَقَدْ كِدْتَ تَرْكَنُ إِلَيْهِمْ شَيْئًا قَلِيلًا
* امتیوں کے لئے: يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ

24۔ بے حد و حساب اجر عطا ہونا
* نبی کے لئے: وَإِنَّ لَكَ لَأَجْرًا غَيْرَ مَمْنُون
* امتیوں کے لئے: فَلَهُمْ أَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُون

25۔ قرآن کا آسان کردینا
* نبی کے لئے: إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ، فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ، ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَه
* امتیوں کے لئے: وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُدَّكِر

26۔ نماز میں سلامتی کا ذکر
* نبی کے لئے: التحیات میں آتا ہے: السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ
* امتیوں کے لئے: التحیات میں آتا ہے: السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ

27۔ ان کے لئے اسمائے باری کا ذکر ہونا
* نبی کے لئے: بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ
* امتیوں کے لئے: مختلف اوصاف کا ذکر ہونا جیسے الْمُؤْمِنِ وَالْخَبِيرِ وَالْعَلِيمِ وَالْحَكِيمِ

28۔ ان کی اطاعت کا حکم دینا
* نبی کے لئے: أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْر
* امتیوں کے لئے: {وَأُولِي الْأَمْر مِنكُمْ} نیز حدیث: مَنْ أَطَاعَ أَمِيرِي، فَقَدْ أَطَاعَنِي

29۔ اللہ کا از راہ شفقت خطاب کرنا
* نبی کے لئے: {طه، مَا أَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لِتَشْقَى} نیز {فَلا يَكُنْ فِي صَدْرِكَ حَرَجٌ مِنْهُ لِتُنْذِرَ بِهِ} نیز {وَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنَا}
* امتیوں کے لئے: {مَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُمْ مِنْ حَرَجٍ وَلَكِنْ يُرِيدُ لِيُطَهِّرَكُمْ} نیز {يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ}

30۔ گمراہی سے عصمت و حفاظت ہونا
* نبی کے لئے: متعدد دلائل
* امتیوں کے لئے: حدیث: لَا تَجْتَمِعُ أُمَّتِي على ضلالة

غور کیجئے کہ نمبر 6 کے تحت علامہ شاطبی وحی و نبوت کی وراثت بھی امتیوں میں جاری ہونے کی بات کررہے ہیں اور یہ بعینہہ وہی بات ہے جو صوفیا کرتے ہیں۔ اس بحث کے بعد علامہ شاطبی خلاصہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

وَمَنْ تَتَبَّعَ الشَّرِيعَةَ وَجَدَ مِنْ هَذَا كَثِيرًا [مَجْمُوعُهُ] يَدُلُّ عَلَى أَنَّ أُمَّتَهُ تَقْتَبِسُ مِنْهُ خَيْرَاتٍ وَبَرَكَاتٍ، وَتَرِثُ أَوْصَافًا وَأَحْوَالًا مَوْهُوبَةً مِنَ الله تَعَالَى وَمُكْتَسَبَةً، وَالْحَمْدُ لله عَلَى ذَلِكَ
مفہوم: جو کوئی دلائل شریعہ میں تحقیق کرتا ہے وہ ایسا بہت کچھ پاتا ہے جو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ آپﷺ کی امت آپ سے خیر و برکات حاصل کرتی ہے اور اللہ کی طرف سے وہبی اور اکتسابی اوصاف و احوال کی وراثت پاتی ہے، اور اس پر اللہ کا شکر ہے

آپ اس ساری تفصیل کی اصل یہ قاعدہ بتاتے ہیں:

أَنَّ جَمِيعَ مَا أُعْطِيَتْهُ هَذِهِ الْأُمَّةُ مِنَ الْمَزَايَا وَالْكَرَامَاتِ، وَالْمُكَاشَفَاتِ وَالتَّأْيِيدَاتِ وَغَيْرِهَا مِنَ الْفَضَائِلِ إِنَّمَا هِيَ مُقْتَبَسَةٌ مِنْ مِشْكَاةِ نَبِيِّنَا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَكِنْ عَلَى مِقْدَارِ الِاتِّبَاعِ، فَلَا يَظُنُّ ظانٌّ أَنَّهُ حَصَلَ عَلَى خَيْرٍ بدون وساطة نبوية، كيف وهو السراج المنير الذي يستضيء بِهِ الْجَمِيعُ
مفہوم: قاعدہ یہ ہے کہ اس امت کو جو بھی کرامات و عنایات و مکاشفات و تاییدات وغیرہ جیسے فضائل عطا ہوئے وہ سب ہمارے نبیﷺ کی شمع نور ہی سے حاصل شدہ ہیں، ہر کسی کو اس کی طاعت و اتباع کے حساب سے حصہ ملتا ہے۔ کوئی گمان کرنے والا یہ گمان نہ کرے کہ اسے یہ خیر واسطہ نبوت کے بغیر ہی مل جاتا ہے۔ اور یہ ہو بھی کیسے سکتا ہے جبکہ ہمارے نبیﷺ ایسے سراج منیر ہیں جس سے سب چراغ روشن ہیں

اس تفصیل سے واضح ہے کہ نبیﷺ کی وراثت میں آپﷺ کے شخصی اوصاف و عنایات بھی شامل ہیں جو اللہ تعالی امتیوں کو بطور وراثت عطا فرماتے ہیں نیز یہ سب انبیاء کے واسطے سے ملتا ہے، یہی رب تعالی کی سنت ہے۔ اس قاعدے کے پیش نظر اگر صوفی حکیم ترمذی (م 320 ھ) یہ بات کہیں کہ محمد عربیﷺ کی صفت “خاتمیت” کے مظاھر بھی اس امت میں ہوں گے (مثلا خاتم الاولیاء یا خاتم المجتھدین وغیرہ) تو اس میں حیرانی کیسی؟ (یہ بات کہ وہ “خاتم الاولیاء فلاں ہے یا فلاں” تو یہ محض اطلاقی چیز ہے) اگر اس استدلال کو اصول فقہ والوں کی زبان میں کہا جائے تو یوں ہے کہ یہ قیاس ایک ایسے قاعدے پر مبنی ہے جو شریعت کے نظائر کی رو سے “ملائم” ہے، یعنی نصوص میں متعدد مقامات پر اس کی رعایت ملتی ہے۔ ایسے قاعدے پر مبنی قیاسی حکم کی صحت اسی قدر مضبوط ہوتی ہے جس قدر منصوص نظائر میں اس قاعدے کی رعایت ملتی ہو، اور علامہ شاطبی نے 30 نظائر میں اس کی رعایت گنوا دی ہے حالانکہ ایسے قیاسی حکم کے شرعی اعتبار (یعنی اس کے دین ہونے) کے لئے ایک نظیر بھی کافی ہے۔ اس پر دو ہی طرح کے لوگ نقد کرسکتے ہیں: وہ جو اس درجہ ظاھر پرست ہوں کہ قیاس کا انکار کرنے والے ہوں، اور یا وہ جو کم علم و کم فہم ہونے کے باعث وجوہ استنباط کا ادراک نہ رکھتے ہوں۔

ڈاکٹر زاہد صدیق مغل

زاہد صدیق مغل، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد میں معاشیات کے استاذ اور متعدد تحقیقی کتابوں کے مصنف ہیں۔
zahid.siddique@s3h.nust.edu.pk

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں