Home » تصورِ عقل، لازمی وجودی حقائق، اور محترم زاہد مغل صاحب : قسط اول
شخصیات وافکار فلسفہ

تصورِ عقل، لازمی وجودی حقائق، اور محترم زاہد مغل صاحب : قسط اول

میں ابھی سوچ میں غلطاں، فرصت کا متلاشی ہوتا ہوں کہ محترم زاہد مغل صاحب بھوسے کا ڈھیر لگا دیتے ہیں اور گوہرِ مراد کھو دیتے ہیں۔ پتہ نہیں وہ panic کیوں کر جاتے ہیں حالانکہ پورے برگڈ کی داد کے دونگڑوں میں وہ بھیگ رہے ہوتے ہیں، اور ہم ہیں کہ بے داد سے چھلنی ہوئے جاتے ہیں اور خاموش رہتے ہیں۔ حالیہ پوسٹ پر ایک برگڈی نے میرے نسب کو موضوع بنایا اور کنایتاً بات جہاں پہنچی میں اس کا کوئی جواب نہیں دینا چاہتا۔ پھر ایک اور برگڈی نے مجھے کنایتاً ایک ایسے گدھے سے تعبیر کیا جس پر کتابیں لدی ہوتی ہیں۔ میری طرف سے اس کا جواب بھی ندارد ہے۔ کچھ حمقائے علم الکلام نے مجھے fideist بھی فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت دے۔
میرا موقف ہے کہ علمی گفتگو میں بعض اوقات تلخی اور سمیّت (toxicity) پیدا ہو جاتی ہے لیکن اس کے باوجود مکالمہ نہیں رکنا چاہیے۔ مجھے ایک لمحے کے لیے اپنے کسی بھی intelocutor کی نیت پر کبھی شک نہیں ہوا۔ مکالمے کا مطلب ہی یہ ہوتا ہے کہ آپ اپنے مخاطب کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور اس کی بات کو بھی حد درجہ اہم سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہوتی ہے کہ جن سے آپ کا سنجیدہ مکالمہ ہوتا ہے ان سے تعلق کی گہرائی ذاتی تعلقات کے برابر ہو جاتی ہے اور وہ لوگ اسی طرح سے مانوس ہو جاتے ہیں جس طرح سے ذاتی تعلق والے ہوتے ہیں۔ انسان کی موت کے بعد تو ذاتی تعلق کا خاتمہ ہو جاتا ہے لیکن بامعنی مکالمے کا تعلق انسان کے مرنے کے بعد بھی باقی رہتا ہے۔ ایسے مکالمے میں اگر کچھ اونچ نیچ بھی ہو جائے تو برا نہیں منانا چاہیے۔ میں ایک بات یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر محترم زاہد مغل صاحب یا عمران شاہد بھنڈر صاحب میرے پاس تشریف لائیں تو کیا وہ میرے اہم ترین مہمان نہیں ہوں گے؟ یقیناً ہوں گے اور میں ان سے بھی اسی بات کی توقع رکھتا ہوں۔
میں نے ایک بات ایسی کہی ہے جسے احباب نے سختی سے تعبیر کیا ہے کہ زاہد مغل صاحب علم کے نام پر جہالت پھیلا رہے ہیں۔ میں اس کی اخلاقی ذمہ داری قبول کرتا ہوں۔ میرا خیال ہے کہ اب ان سے گفتگو چلتی رہے گی، اور ان کی سرپرستیِ جہالت کی مثال کے طور پر ایک ضمنی بات احباب پہلے ملاحظہ فرما لیں تاکہ ان کا غصہ کچھ کم ہو۔ ویسے تو ان کا متن ایسی مثالوں سے بھرا ہوتا ہے اور یہ فقرہ بھی میں نے سرسری خواندگی میں درمیان سے اٹھایا ہے۔
ابھی تھوڑی دیر پہلے کی ایک پوسٹ میں زاہد مغل صاحب فرماتے ہیں کہ ”متکلم ریشنل میٹافزکس کی بات اس لئے کرتا ہے تاکہ نبوت کا اس طرح اثبات ہو سکے کہ نبی انسانی زندگی میں حاکم کی حیثیت اختیار کر لے۔“ پہلے انہوں نے لکھا تھا ”متکلم میٹافزکس کی بات اس لئے کرتا ہے تاکہ نبوت کا اس طرح اثبات ہو سکے کہ نبی انسانی زندگی میں حاکم کی حیثیت اختیار کر لے۔“ میں اپنی پوسٹ کو ایڈٹ کرنے کے ان کے اختیار کو موضوع نہیں بنا رہا۔ پہلے وہ ”میٹا فزکس“ فرماتے ہیں اور تھوڑی دیر بعد اس کو ”ریشنل میٹافزکس“ فرماتے ہیں۔ تلونِ عقلی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ اس پر مجھے ایک سردار جی کی بیوی کی طرف سے جلیبیاں منگوانے والا لطیفہ یاد آ گیا۔ بہرحال جو احباب مجھے ذاتی طور پر جانتے ہیں یا میری تحریروں سے تھوڑا بہت واقف ہیں، ان کو معلوم ہے کہ میں اپنے موقف کو ہرگز ابہام میں رکھنے والا آدمی نہیں ہوں۔ میں تو میٹا فزکس اور (اسلامی) علم الکلام کو ویسے ہی الگ الگ شعبۂ ہائے ”علوم“ سمجھتا ہوں جیسے کہ فزکس اور بائیولوجی ہیں۔
کچھ تو بدیہات ہوتی ہیں، اور کچھ مسلمات ہوتے ہیں۔ اب بدیہات اور مسلمات کے دلائل نہیں ہوتے، کچھ بیانات (axioms) وغیرہ پر مبنی ہوتے ہیں۔ دلائل تو علوم کے اندر منہج کے اطلاق کے بعد شروع ہوتے ہیں۔ اب اگر کوئی گوجرانوالہ میں رہتا ہو اور کہتا ہو کہ گجرات اور گوجرانوالہ ایک ہی شہر ہے تو اس کو جاہل کہیں گے کیونکہ وہ بدیہات کا انکار کر رہا ہے۔ اگر کوئی آدمی متن کی پوچی لگانے کا ماہر ہو اور فزکس اور بائیولوجی کو ایک ہی علم مانتا ہو تو اسے جاہل مطلق نہ سہی، جاہل تو یقیناً کہیں گے کیونکہ وہ مسلمات سے ہی واقف نہیں ہے۔ اب زاہد مغل صاحب فرما رہے ہیں کہ متکلم ایک ریشنل میٹافزکس تشکیل دیتا ہے۔ عرض ہے کہ متکلم کا تعلق و تعرض براہِ راست علم الکلام سے ہوتا ہے اور جو مکمل طور پر rational ہے اور میں صراحتاً یہ بات پہلے لکھ چکا ہوں، کئی بار کہہ چکا ہوں۔ لیکن متکلم کا میٹافزکس سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، اور میٹافزکس اس معنی میں ہرگز rational نہیں ہوتی جس معنی میں کہ علم الکلام ہوتا ہے۔ میں نے سابقہ تحریر میں یہاں تک عرض کر دیا تھا کہ میں علم الکلام اور فزکس کو یکساں طور پر عقلی علوم سمجھتا ہوں اور ان کا فرق تشبیہی اور تنزیہی ہونے میں ہے۔ لیکن یہ متن نہ جانے کس طرح پڑھتے ہیں کہ وہ اپنے مخاطب کے موقف کو سننا ہی نہیں چاہتے۔ بس جواب دیے کیا داغتے جانے کا شوق ہے۔
زاہد مغل صاحب کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ہمارے کلاسیکل علم الکلام اور شیخ اکبرؒ کی میٹافزکس/ مابعدالطبیعات کو ایک ہی شے سمجھتے ہیں اور دونوں کو rational بھی کہتے ہیں۔ ان کے خیال میں متکلم ایک مابعدالطبیعات بناتا ہے۔ کیا میں ان سے پوچھ سکتا ہوں کہ علم الکلام یہ گلی کی نکڑ والا کوئی موچی بناتا ہے؟ اب ان کو یہ بھی معلوم نہیں کہ دلیل کسے کہتے ہیں، تو مجھ سے وہ یہ مطالبہ کریں گے کہ علم الکلام اور مابعدالطبیعات کے الگ الگ علم ہونے کے دلائل ان کی خدمت میں پیش کروں۔ اب یہ علم کی وہ سطح ہے جہاں ٹھوس چیز کو ہاتھ سے ٹٹول کر ہی محسوس کیا جا سکتا ہے جیسے کہ مولانا رومؒ کی ایک حکایت میں ہے جب کچھ اندھے ہاتھی دیکھنے گئے تھے۔ تو ایسے آدمی کو جاہل نہیں کہیں گے تو کیا کہیں گے؟ اب ہمارے ہاں غزالیِ دوراں اور رازیِ زماں کے خطابات جیسے عام ہیں تو اہلِ برگڈ اگر زاہد مغل صاحب کو حجت الاسلام کہہ دیں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے اور میں آئندہ ایسا ہی کہنے کا غیرمشروط پابند رہوں گا۔ یعنی حالت یہ ہے کہ ان کو نہ علم الکلام کی کچھ خبر ہے، نہ مابعدالطبیعات کا کچھ پتہ ہے اور نہ ان کے امتیازات معلوم ہیں۔ اب ایسے متکلم اسلام اور عرفانی کے فوائد تو کسی صاحبِ کشف سے ہی پوچھے جا سکتے ہیں، مجھ ناچیز کے بس میں تو نہیں ہیں۔
میں پھر سے عرض کر دیتا ہوں حالانکہ میں سابقہ تحریروں میں صراحت سے لکھ چکا ہوں کہ علم الکلام اسی طرح عقلی اور منطقی ہے جس طرح کہ جدید فزکس۔ ان میں فرق صرف تشبیہی اور تنزیہی ہونے کا ہے۔ ہمارے اس وقت کے علمی اور بحرانِ شعور کا نقطۂ ماسکہ بھی یہی ہے کہ ہم جدید مادی علوم کے بالمقال ایسے علوم لانے میں کامیاب نہیں ہو رہے جو مکمل طور پر عقلی ہوں لیکن تنزیہہ کو compromise نہ کرتے ہوں۔ میرے نزدیک یہ ہمارا تہذیبی بحران ہے۔ میں یہ بھی بہت صراحتاً عرض کر چکا ہوں کہ میں وحی کو ثقہ بنیادوں پر عقل کے لیے قابلِ تسلیم سمجھتا ہوں لیکن وحی خود عقلی یعنی rational نہیں ہے۔ یعنی ہمیں عقل کا مفہوم طے کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر جدید فزکس عقلی ہے تو اس بنیاد پر وحی عقلی نہیں ہے۔ اگر عقل کا کوئی ایسا تصور ہے جس کی بنیاد پر وحی عقلی ہے تو عین اس بنیاد پر فزکس عقلی نہیں ہو سکتی۔ یہ میرا موقف نہیں ہے بلکہ مولانا ایوب دہلویؒ کا موقف ہے۔ اس وقت ہمارا سب سے بڑا تہذیبی مسئلہ عین یہی ہے۔ اور عین اسی کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔ مادی سائنسز کے ظہور سے پہلے علم الکلام یہ مسئلہ حل کر چکا تھا اور اسی بنیاد پر یونانی فلسفے کے دھاوے کو روکا جا سکا تھا۔
اب اس بیان کے دوسرے پہلو کو دیکھ لیجیے۔ وہ فرماتے ہیں کہ ”متکلم ریشنل میٹافزکس کی بات اس لئے کرتا ہے تاکہ نبوت کا اس طرح اثبات ہو سکے کہ نبی انسانی زندگی میں حاکم کی حیثیت اختیار کر لے۔“ اب میں روتا ہوں اور ادھر صادق آباد میں تنہائی کا یہ عالم ہے کہ کوئی چپ کرانے والا بھی نہیں کہ وہ مقاصدِ علم سے بھی بے خبر ہیں اور اہل برگڈ کی شقاوت قلبی ایسی کہ آلام انسانیت سے مطلق بے خبر۔ اس میں زاہد مغل صاحب نے کوئی علمی یا منطقی دلیل نہیں دی اور دینی مقصد بیان کر کے اپنی بات کا ہی الغا کر دیا۔ جیسا کہ جہانگیر حنیف صاحب نے بتایا ہے کہ جناب زاہد مغل صاحب self-decimating تحریر لکھنے کے ماہرِ اتم ہیں۔ یہی کچھ وہ اس بیان میں کر رہے ہیں۔ بقول ان کے علم الکلام یعنی ریشنل میٹافزکس (sic) کا مقصد یہ ہے ” تاکہ نبوت کا اس طرح اثبات ہو سکے کہ نبی انسانی زندگی میں حاکم کی حیثیت اختیار کر لے۔“ یہ مقصد تو دینی ہے اور اس کا بیان بھی دینی ہے۔ سوال یہ ہے کہ دین کا یہ بنیادی ترین مقصد کلامی کیسے ہو گیا؟ یعنی ان کے خیال میں نبوت اور وحی کوئی عقلی چیز ہیں اور علم الکلام /ریشنل میٹافزکس اس لیے تشکیل دی گئی ہے تاکہ ان کا عقلی اثبات ہو سکے۔ ان کا موقف جو میں سمجھ سکا ہوں یہ ہے کہ علم الکلام عقل کے ذریعے وجود باری اور دیگر مذہبی حقائق کو ”ثابت“ کرنے کا علم ہے۔ ہماری تاریخ کی ابتدائی صدیاں تو بغیر علم الکلام کے تھیں اور یہ مقصد بھی بہ تمام و کمال حاصل ہوتا تھا۔ اور اب بھی کروڑوں مسلمان ہیں جو بغیر علم الکلام کے یہ مقصد حاصل کیے ہوئے ہیں۔ تو ان کے نام نہاد علم الکلام کی کوئی منطقی دلیل پیدا ہو سکی اور نہ ہی مذہبی۔ نہ دنیا رہی نہ دین رہا۔ مقاصد دین کا علم ہو سکا نہ مقاصد علم کا۔ اگر اہلِ برگڈ اجازت دیں تو عرض کروں کہ اس کو علم نہیں کہتے، اسے جہالت کہتے ہیں۔ میرے نزدیک علم الکلام کا جو ایک عقلی علم ہے بنیادی ترین مقصد دین یا کسی جزو دین کی عقلی تشکیلات پر روک لگانا ہے تاکہ دین میں تنزیہہ کا ہر لحاظ سے دفاع کیا جا سکے۔ جبکہ محترم زاہد مغل صاحب کا خیال ہے کہ علم الکلام کا بنیادی ترین مقصد دین کے عقلی دلائل فراہم کرنا ہے، یہانتک کہ وجودی باری کے عقلی دلائل قائم کرنا ہے۔ ہمارے اختلاف کی جڑ عقل کے تصور کا بنیادی اختلاف ہے۔
علم الکلام اور مابعدالطبیعات / میٹافزکس
علم الکلام شعور کی جس پوزیشن سے پیدا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ وجود غیب و شہود میں منقسم ہو، اور عقل وجودِ غیب کو عقلی بنیاد پر ماننے سے انکاری ہو۔ اب عقل کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ وجود غیب کی ”عقلی“ دلیل لائے۔ علم الکلام نے یہ کام کر دکھایا اور واجب الوجود کی سلبی دلیل پیدا کی۔ اب محترم زاہد مغل صاحب کو یہ بات سمجھ نہیں آ رہی کہ سلبی دلیل سے کیا مراد ہے؟ حالانکہ سلبی دلیل ایک طرف عقل سے مکمل موافقت رکھتی ہے اور دوسری طرف ہمارے مذہبی معتقدات سے مکمل ہم آہنگ ہے۔ واجب الوجود کی سلبی دلیل عقلِ انکار کی شکست فاش ہے۔ یعنی اس سے دو قضیے حل ہو گئے: ایک یہ کہ سلبی دلیل سے غیب کا عقلی ”اثبات“ ہو گیا، اور دوسری یہ کہ وحی کے انکار کا موقف فنا ہو گیا کہ واجب الوجود شہود میں وجود اور شعور دونوں کو sustain کر سکتا ہے۔ میٹافزکس/ مابعدالطبیعات عقل کا مسئلہ ہے اور نہ عقل کے بس کی بات ہے۔ علم الکلام واجب الوجود کی بحث میں اصلاً دوئی کے مسئلے کو عقلی بنیادوں پر اڈریس کرتا ہے، یعنی شعور و وجود کی دوئی، اور شہود و غیب کی دوئی۔ ہمارے علم الکلام نے ثنویت کا مسئلہ حل کیا۔ واجب الوجود عقل کے تناظر میں شعور و وجود کی یکتائی ہے کیونکہ ثنویت عقل کی تقدیر ہے اور جو جدید علوم سے قطعی ظاہر ہے۔ علم الکلام اس عقل سے پیدا ہوتا ہے جو امر عام کو موضوع بنائے اور جو کافر و مسلم کے مابین متفق علیہ ہو۔ یہی وجہ ہے ہمارے متکلمین ارسطو کو ہمیشہ معلم اول کے نام سے یاد کرتے رہے اور خراج عقیدت پیش کرتے رہے کیونکہ علم الکلام اور منطق میں ارسطو ان کا استاد رہا ہے، اور کافر معلمِ اول کی حیثیت ہمارے علم الکلام میں ہمیشہ مرکزی رہی ہے۔ ایک اردنی جاہل سعید فودہ بھی کلاسیکل علم الکلام کا جھنڈا اٹھائے ہوئے ہے۔ وہ شیخ اکبر ابن عربیؒ کے خلاف ہے لیکن علم الکلام سے غیب پر ”سائنٹفک/عقلی“ دلائل قائم کرتا ہے۔
میں تو سمجھا ہوں کہ محترم زاہد مغل صاحب کا خیال ہے کہ مسلمانوں کا عقل کا تصور exclusive ہے۔ اگر ایسا ہی ہے تو یہ عقل نہیں موت ہے۔ آج ہمیں جو علم کا چیلنج درپیش ہے اس میں عقل کا عین وہی تصور کارآمد ہے جو جدید علوم مثلاً فزکس میں ہے کیونکہ عصر حاضر میں جدید علم کا پیمانہ یہی ہے۔ ہمیں پیمائش دوسری طرح کی درپیش ہے لیکن پیمانے میں ہیرا پھیری نہیں کی جا سکتی۔ رائج پیمانے کو رد کیے بغیر اپنا پیمانہ بھی وضع نہیں کیا جا سکتا۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ عقل سے ہمارا مفاد اور مقصد عین وہی ہے جو جدید علم اور جدید مغربی تہذیب کا ہے۔ یہ دونوں قطعی مختلف ہیں۔ ہماری عقل کا مور جہالت کے جنگل میں ناچتا بھی رہے تو کوئی فائدہ نہیں۔ عقل محض کے عقل تسلیم بننے سے اس کی نوعیت ہرگز تبدیل نہیں ہوتی صرف دائرہ کار تبدیل ہوتا۔ یہ بات محترم زاہد مغل صاحب کو سمجھ نہیں آ رہی۔
گزارش ہے کہ میٹافزکس /مابعدالطبیعات شعور کی اس پوزیشن سے پیدا ہوتی ہے جس میں وہ شہود و غیب میں کسی جز کا انکاری نہ ہو، اور کثرتِ وجود میں وحدت کا متلاشی ہو۔ علم الکلام انکار سے نبرد آزما ہے، اور عقلی علوم کی طرح اس کا اسلوب سخت جدلیاتی ہے۔ علم الکلام is        the        overcoming        of        negation۔ مابعدالطبیعات اثبات سے شروع ہوتی ہے اور اس میں جدلیاتی اسلوب کا کوئی نشان بھی نہیں ہوتا۔ علم الکلام کا ٹول عقل ہے جبکہ عرفانی مابعدالطبیعات کا اصولِ ”علم“ ایسا خیال ہے جس میں مرکزیت تخیل کو ہوتی ہے جبکہ عقل، جذبہ، حافظہ اس میں گھلے ہوئے ہوتے ہیں۔ شیخ اکبر ابن عربیؒ کی ساری مابعدالطبیعات خبرِ غیب سے چمٹ کر چلتے ہوئے جہانِ غیب کی سیر ہے۔ اس سیر میں جو ”مناظر“ مشاہدے اور تجربے میں آتے ہیں وہ سب کشفی اور الہامی ہیں۔ شیخ اکبر ابن عربیؒ کی میٹافزکس کافر و مسلم میں مشترک نہیں ہے۔ بعد از ایمان کثرتِ وجود کا مسئلہ باقی رہتا ہے اور وحدت الوجود کثرت کو جس علم میں حل کرنے کا نام ہے اس کو میٹافزکس کہتے ہیں۔ ہم شیخ اکبر ابن عربیؒ کی میٹافزکس کو historical        metaphysics کہہ سکتے ہیں۔ اس وقت علمی ”مارکیٹ“ میں تین طرح کی مابعدالطبیعاتیں موجود ہیں: ایک speculative        metaphysics جس کا بنیاد گزار افلاطونِ عظیم تھا اور جو نوفلاطونیت میں اپنے کمال کو پہنچی۔ دوم، ”تاریخی“ مابعدالطبیعاتیں، جو ہر مذہب کی روایت میں پیدا ہوئیں، جیسے کہ وحدت الوجود، ویدانتہ، تاؤازم وغیرہ۔ تیسری، pure        metaphysics جو مکتبۂ روایت کے شیاطین مثلاً شوآن، رینے گینوں، یولیس ایولا وغیرہ نے بنائی۔ ان تینوں قسموں میں سے کوئی مابعدالطبیعات بھی عقلی یا rational نہیں ہے۔ صرف مطلق جاہل ہی ان کو ریشنل کہہ سکتا ہے۔ شیخ اکبر ابن عربیؒ کی مابعدالطبیعات کو عموماً عرفان بھی کہا جاتا ہے اور ہماری روایت میں عرفان ہمیشہ کشف و الہام کے ذریعے سلوک کے ہم قدم رہا ہے۔ شیخ اکبر ابن عربیؒ کا عرفان/میٹافزکس /مابعدالطبیعات سر تا سر کشفی اور الہامی ہے۔ وہ اس معنی میں عقلی نہیں ہے جس معنی میں علم الکلام ہے۔ اب زاہد مغل صاحب چونکہ علم الکلام اور میٹافزکس کو ایک ہی چیز سمجھتے ہیں اس لیے وہ ہر وقت خلط مبحث میں پڑے رہتے ہیں۔ اگر انہیں فلسفے یا علم الکلام یا عرفان کا کوئی متن سمجھ آیا ہوتا تو اس طرح کی لغو تحریریں نہ لکھا کرتے۔ وہ معقولات اور ماکولات میں فرق نہیں کر پا رہے۔ ہم ان کی ماکولات کے غائبانہ قدر دان ہیں۔ بس اس میں معقولات کو منہا ہونا چاہیے اور مشروبات کا اضافہ ہونا چاہیے۔

محمد دین جوہر

محمد دین جوہر، ممتاز دانش ور اور ماہر تعلیم ہیں اور صادق آباد میں مدرسۃ البنات اسکول سسٹمز کے ڈائریکٹر کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔
mdjauhar.mdj@gmail.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں