Home » نیتن یاہو کے وارنٹ گرفتاری
سماجیات / فنون وثقافت سیاست واقتصاد فقہ وقانون

نیتن یاہو کے وارنٹ گرفتاری

ڈاکٹر عبداللہ فیضی

۱۔ نییتتن یاہئوو اور انکے سابق وزیر دفاع گییلاانت کے خلاف انٹرنیشنل کریمینل کورٹ کے وارنٹ گرفتاری کا کیا مطلب ہے؟
ہالینڈ کے شہر دی ہیگ میں قائم بین الاقوامی عدالت کی طرف سے جاری کردہ وارنٹ، آئی سی سی کے دائرہ اختیار والے ممالک میں سفر کرنا مشکل بنا دیتا ہے۔ دنیا کے جن ممالک نے روم معاہدے پر دستخط کیے ہیں ان پر بین الاقوامی قانون کے تحت کڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ آئی سی سی کو مطلوب ملزم کو اپنے ملک میں قدم رکھنے پر فورا گرفتار کریں۔
۲۔ یہ وارنٹ جنگ کے سال بعد کیوں جاری ہوئے؟
آئی سی سی کے پراسیکیوٹر کی طرف سے جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کی ذمہ داری عائد ہونے کے قابل بھروسہ الزامات کے بعد پراسیکیوشن کی درخواست منظور ہونے پر عدالت کی طرف ملزمان کے وارنٹس ایشو کیئے جاتے ہیں۔ عدالتی کاروائی ایک طویل عمل ہے جسمیں آئی سی سی کے ججز کا پراسیکیوشن کی درخواست سے دلائل اور کافی سماعتوں کے نتیجے میں متفق ہونا ضروری ہے۔
۳۔ آئی سی سی کے دائرہ اختیار میں کونسے ممالک ہیں؟
تقریبا ایک سو چالیس ممالک جس میں برطانیہ اور کافی یوروپئین ممالک بھی شامل ہیں۔ امریکہ نے بیشتر عالمی معاہدوں کی طرح روم معاہدے کی بھی توثیق یا ریٹیفائی نہیں کیا۔ جسکا مطلب ہے کہ آئی سی سی کو مطلوب ملزم یا مجرم امریکہ کا سفر کرسکتا ہے کیونکہ معاہدے اطلاق ابھی تک امریکہ پر نہیں ہوتا۔ جبکہ چند افریقی ممالک بھی اسکا حصہ نہیں۔
۴۔ گرفتاری وارنٹس سے عملی طور پر کیا فرق پڑے گا؟
یہ اقدام خاص طور پر نییتتن یاہوو کی ساکھ کے لیئے کافی برا اور چیلینجنگ ہوگا، جو اکثر مغربی دارالحکومتوں میں آتے جاتے ہیں جو آئی سی سی کے دائرہ اختیار میں شامل ہیں۔ آخری عالمی رہنما جن کے لیے گرفتاری کے وارنٹ جاری ہوئے تھے، وہ روس کے صدر ولادیمیر پوتن تھے، جن پر یوکرینی بچوں کو جبراً ملک بدر کرنے کا الزام تھا۔ گرفتاری کے وارنٹ کی وجہ سے پوٹن کو سنہ ۲۰۲۳ میں جنوبی افریقہ کا دورہ منسوخ کرنا پڑا۔ اس سے کچھ سال قبل سوڈان کے عمر البشیر کے خلاف وارنٹ نکلے تھے۔
۵۔ کیا بین الاقوامی قانون کے تحت سربراہان مملکت کو حاصل استثنی ،انکی گرفتاری میں رکاوٹ بن کتا ہے؟
اس سوال کے کچھ پیچیدہ جواب بھی ہوسکتے ہیں لیکن اس حوالے سے اہم ترین خود آئی سی سی کا عمر البشیر کیس کا فیصلہ ہے جسمیں روم معاہدے کے آرٹیکل ۲۷ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یہ استثنی لاگو نہیں ہوتا کیونکہ “جو سرکاری حیثیت کسی شخص کو حاصل ہو سکتی ہے، وہ عدالت کو اپنے دائرہ اختیار کو استعمال کرنے سے نہیں روکتی۔” یہ بات آئی سی سی کے فیصلے میں بھی دہرائی گئی تھی جو کہ سوڈان کے سابق صدر عمر ال بشیر کیس میں دی گئی تھی، جہاں یہ فیصلہ کیا گیا کہ ایک ریاست کے سربراہ کو جو استثنیٰ حاصل ہوتا ہے وہ آئی سی سی کے سامنے لاگو نہیں ہوتا۔ اس کیس میں عدالت کے سامنے مسئلہ یہ تھا کہ کچھ ریاستیں بشیر کی گرفتاری کے لیے تعاون کرنے میں ناکام رہی تھیں، ان کا استدلال یہ تھا کہ بشیر ابھی بھی ایک فعال ریاستی سربراہ ہیں اور اس لیے ان کو ان کی دائرہ اختیار میں استثنیٰ حاصل ہے۔ آئی سی سی نے اس بات کو واضح کیا اور کہا کہ جب ریاستی فریق گرفتاری کے وارنٹ پر عمل کرتے ہیں تو وہ آئی سی سی کی طرف سے عمل کر رہے ہوتے ہیں، نہ کہ اپنے ذاتی طور پر ایک ریاستی فریق کے طور پر۔ لہٰذا، اگرچہ یہ ان کا دائرہ اختیار ہے، استثنیٰ لاگو نہیں ہوتا کیونکہ وہ آئی سی سی کے لیے عمل کر رہے ہیں۔
۶۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مغربی ممالک خاص طور وہ ممالک جو آئی سی سی کی دائرہ اختیار میں شامل ہیں اور معاہدہ روم کا حصہ ہیں۔ بین الاقوامی قانون کے حوالے سے عائد اپنی ذمہ داری کس حد تک ادا کرتے ہیں۔ اور کیا یہاں بھی وہ کوئی دوہرا معیار اپنائیں گے یا پھر غاصب ریاست کے وزیر اعظم اور انکے شریک جرم کو گرفتار کریں گے؟
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈاکٹر عبداللہ فیضی کوالالمپور کی کرٹن یونیورسٹی میں انٹرنیشنل لاء کے استاد ہیں ۔

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں