کتاب اللہ کے عمیق مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانی زندگی کے دو پہلو ہیں :تغیر و ثبات. زندگی کے بہت سے امور و مسائل ایسے ہیں جن میں تاریخی، جغرافیائی، معاشی اور عمرانی عوامل کسی قسم کی تبدیلی نہیں لاتے بلکہ وہ امور ہمیشہ ایک ہی طرح رہتے ہیں مثلاً بندے اور رب کے درمیان تعلق، یا نسل انسانی کی بقا سے متعلق امور ایسے ہیں جو تمدن کی تبدیلی سے متاثر نہیں ہوتے اس لئیے زندگی کے ثباتی پہلو سے متعلق الوہی ہدایات ایسی ہونی چاہیے تھیں جو تغیر پذیر نہ ہوں بلکہ دائمی اور ابدی ہوں جبکہ بہت سے امور ایسے ہیں جن میں انسانی تمدن کے ارتقا سے تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں مثلاً حصول معاش کے ذرائع، نظام حکومت کیسا ہو؟ کسی ملک کے دستور کی ساخت کیسی ہو؟ عدلیہ، انتظامیہ اور مقننہ کے باہمی روابط کی نوعیت کیا ہو؟ قومی یا بین الاقوامی تعلقات کی تفصیلات کیا کیا ہونی چاہیے. یہ تمام ایسے امور ہیں جن میں تغیر و ارتقا ناگزیر ہے.
آخری الہامی ہدایت نے انسانی زندگی کے ان دونوں پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے غیر مبدل امور میں مفصل اور ناقابل تغیر ہدایات دی ہیں جبکہ دوسری قسم کے امور میں اصولی ہدایات اور قواعد کلیہ دینے کے بعد تفصیلات ماہرین فن پر چھوڑ دی ہیں.
اسلامی ہدایت کی یہی خوبی ہے جو اسے کسی دور اور کسی ماحول میں از کار رفتہ اور سماجی حالات سے الگ نہیں ہونے دیتی. اس کا ایک حصہ الہامی ہے جو محفوظ ہے اور انسانی تحریف کاری سے ماورا جبکہ دوسرا حصہ انسانی فکر و دانش کی تخلیق ہے جس میں ایک طرف غلطی کا امکان ہمیشہ رہتا ہے جو اس کے بارے میں مزید بحث و تحقیق کا دروازہ کھولتا ہے تو دوسری طرف وہ ایک متعین زمانے، مخصوص تمدن اور خاص حالات سے وابستہ ہونے کی وجہ سے قابل تغير اور تمدن کے پہلو بہ پہلو ارتقا پذیر رہتا ہے.
سماجی ارتقا کے دوش بہ دوش فقہی اور قانونی ارتقا کا سلسلہ جاری تھا کہ فقہ تقدیری کی بدولت اجتہاد کی رفتار بہت بڑھ گئی اور سماج اس کا ساتھ نہ دے سکا، نتیجتاً اپنے اختیارات سےایک گونہ تجاوز کرتے ہوئے ایک طبقے نے اجتہاد کا دروازہ بند کر دیا لیکن سماج کا ارتقا جاری رہنا تھا اور رہا. آخر الأمر امت کے ایک طبقے نے اسلامی تحقیقات کے عنوان سے اجتہاد کا دروازہ کھول دیا. جن تالیفات کے ذریعے معاصر دور میں سکالرز کی تربیت کی جا رہی ہے ان کی طویل فہرست پیش کرنا ممکن نہیں تاہم مولانا محمد تقی امینی کی تالیف
“احکام شرعیہ میں حالات و زمانہ کی رعایت”
ایک اساسی کتاب ہے. ہر چند یہ کتاب اس سے پہلے ایک سے زائد مرتبہ طبع ہوئی لیکن ہر طباعت باذوق اہل نظر پر گراں گزرتی تھی.
اب جامعہ فتحیہ لاہور کے مدیر جناب حافظ نعمان اور ان کے بردار عزیز حافظ عفان نے کتاب کے شایان شان طباعت کا اہتمام کیا مولانا ڈاکٹر محمد سعید عاکف نے دنیا کے اعلی ترین معیار پر ایڈیٹ کر کے اس کا نسخہ تیار کیا، کاغذ کا معیار، طباعت، اشاعت اور دلآویزی بتاتی ہے کہ جہاں ارباب ہمم نے بے دریغ خرچ کیا وہاں یہ حسین مرقع جناب حسان عارف کے تخلیق کار ہاتھوں سے گزر کر ہم تک پہنچا ہے.اس کار خیر کے تمام شرکاء ہماری طرف سے مبارک باد اور اسلامیان برصغیر کی طرف سے شکریہ کے مستحق ہیں.
کمنت کیجے