Home » مصادرِ شریعت: جمہور امت اور علمائے اہلِ ظواہر
اسلامی فکری روایت فقہ وقانون

مصادرِ شریعت: جمہور امت اور علمائے اہلِ ظواہر

محمد خزیمہ الظاہری

اہل ظاہر کا اختلاف معتبر ہے یا نہیں ؟ اسکا تعلق اجماع میں اہل بدعت کو شامل کرنے یا نہ کرنے سے ہے. یعنی اہل سنت متفق ہوں تو اجماع ہو جائے گا یا دیگر فرقوں کا اتفاق بھی لازمی ہے.. ؟

چنانچہ جن علماء کا کہنا ہے کہ : (1) شیعہ کی طرح اہل ظاہر بھی بدعتی ہیں. اور (2) اہل بدعت کا اجماع میں کوئی اعتبار نہیں. انہوں نے اہل ظاہر کے اختلاف سے اجماع کا ٹوٹنا ناجائز قرار دیا ہے. یعنی اہل ظاہر کا فقہی موقف جو بھی ہو, اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا.

مگر یہ دونوں مقدمات ہی اپنے آپ میں علمائے اصول کے ہاں نزاعی ہیں کہ :
اہل ظاہر بدعتی ہیں ؟
اہل بدعت کا اجماع کے وقوع و نقض میں اعتبار ہے یا نہیں ؟

دوسرے مقدمے کی بنیاد پہلے پر ہے یعنی اگر اہل ظاہر اہل بدعت ہیں تو ہی یہ بحث ہو گی کہ انکا اختلاف معتبر ہے یا نہیں ؟

مگر پہلا مقدمہ ثابت کیسے ہو جس پر اتنی بڑی عمارت کھڑی کر دی گئی ہے ؟

اسکے لئے جو بنیادی مقدمہ پیش ہوا ہے وہ یہ ہے کہ : اہل ظاہر دیگر فقہاء کی طرح قرآن کے عموم و خصوص وغیرہ وغیرہ کو تو استنباطِ احکام کے لئے مانتے ہیں. حدیث کو بھی شرعی احکام کا مصدر مانتے ہیں. اجماع کو بھی حجت مانتے ہیں. پھر نزاع کہاں ہے ؟

یہ نزاع اصلاً دو جگہوں پر ہے. ایک آثار صحابہ پر اور دوسرا علل کی بنیاد پر مستنبط ہونے والے احکام پر. علّت و مقصد بیسڈ اصولِ استدلال جنہیں اہل ظاہر نہیں مانتے, قیاس, مصالح اور سد ذرائع ہیں.

اس لحاظ سے دیکھا جائے تو اہل ظاہر, اہل سنت کے اصول و مصادر فقہ کی بڑی تعداد کو نہیں مانتے. جس وجہ سے انکا اہل سنت سے اخراج درست معلوم ہوتا ہے.

مگر یہیں پر بس کر دیں تو یہ بات ادھوری ہے. پوری بات یہ ہے کہ اہل سنت سے کئی اصولوں میں الگ ہونے کے باوجود جب تک مجموعی تعامل نہ دیکھا جائے, بات مکمل نہیں ہو سکتی ہے. لہذا چند اہم امور کا تذکرہ لازم ہے :

١) جن اصولوں میں اہل ظاہر نے جمہور سے اختلاف کیا ہے. ان میں کئی اصول جمہور کہلائے جانے والے فقہاء میں بھی نزاعی ہیں. چنانچہ اقوال صحابہ پر شوافع نے اختلاف کیا ہے اور شافعی فقہاء قول صحابی کو حجت نہیں مانتے. اسی طرح مصالح اور سد ذرائع کے اصول مذاہب اربعہ میں نزاعی ہیں.
٢) اختلاف کے باوجود مجموعی تعامل میں اہل ظاہر کا معاملہ لگ بھگ وہی ہے جو اختلاف کے وقت مذاہب اربعہ کا اندرونی معاملہ ہے. یعنی مختلف فیہ اصول کے باب میں بھی کئی مسائل دونوں طرف سے مانے جا رہے ہوتے ہیں حالانکہ وہ مسائل جس مصدر سے نکلتے ہیں اس میں اختلاف ہوتا ہے.
چنانچہ اہل ظاہر اقوال صحابہ کو حجت نہ ماننے کے باوجود آثار کو یکسر رد نہیں کرتے. بلکہ انہیں تائید کے طور پر لاتے ہیں اور انکی اہمیت تسلیم کرتے ہیں.
اسی طرح قیاس نہ کرنے کے باوجود بیشتر قیاسی مسائل تسلیم کرتے ہیں. لہذا قاضی شوکانی کا کہنا ہے کہ قیاس میں کئی مقامات پر اہل ظاہر اور جمہور کے مابین نزاع محض لفظی ہے.
٣) اہل ظاہر کیساتھ مذاہب اربعہ کا جو نوک جھوک کا معاملہ رہا ہے. یہی معاملہ مذاہب اربعہ کے بیچ بھی رہا ہے. حتی کہ دو مختلف رجحان پائے جاتے ہیں. اہل رائے اور اہل حدیث کے مستقل طبقے ہیں. اور ان دو کے بیچ منافرت کی وہی فضا ہے جو اہل ظاہر کے ساتھ ہے.
ایسی صورت میں کیا معاملے کو اس لحاظ سے نہیں دیکھا جا سکتا جیسے اہل حدیث اور اہل رائے کو دیکھا جاتا ہے ؟
جی ہاں! یہ وہ مقام ہے جہاں پر مسئلے کو انجام تک پہنچایا جا سکتا ہے کہ فقہ و فروع کے باب میں تین رجحان ملتے ہیں جو اہل سنت کے ہاں رائج ہیں.
اہل رائے کا طریق.
اہل حدیث کا منہاج.
اہل ظاہر موقف.
جیسے اہل ظاہر اصولی دلائل میں جمہور سے کئی جگہ الگ ہیں. اسی طرح کئی اصولی مواضع پر اہل حدیث اور اہل رائے کا اختلاف ہے. حتی کہ قیاس جیسی بنیادی چیز پر کئی لحاظ سے اختلاف ہے مثلاً قیاس آرائی کی حد کیا ہے اور کتنی مقدار میں رائے و قیاس درست ہے اور اس سے بڑھنا رائے پرستی ہے. یہ چیزیں محدثین کے ہاں زیر بحث رہی ہیں جب اہل رائے سے اختلافات شروع ہوئے تھے. اسی طرح حدیث کے ساتھ تعامل کی کیا کیفیت ہے اور روایات کو کیسے پرکھنا ہے ؟ عمل متواتر و متوارث کے مقابل آنے پر روایات پر کیا زد پڑتی ہے ؟
یہ سب چیزیں اصولی مواقع پر قائم ہیں اور نزاعات کی بھرمار رہی ہے. اور اسی طرح کی باتیں رہی ہیں کہ اہل رائے کا اعتبار نہیں.. وغیرہ وغیرہ.
لیکن وقت کے ساتھ ساتھ بہت کچھ سمیٹ لیا گیا اور اہل حدیث کے بہت سے حلقوں نے احناف کو اہل رائے کی صورت میں یوں قبول کیا کہ انہیں اہل سنت میں سمجھا اور انکا اعتبار روا رکھا.
بعینہ یہ صورت حال اہل ظاہر کی ہے کہ جیسے اہل رائے سے اختلاف کے باوجود تعامل ممکن ہوا, اہل ظاہر سے بھی ممکن ہے. اور یہ تین الگ الگ رجحانات ہونے کے باوجود عملی طور انکے فقہی مسائل میں ایسا بُعد نہیں کہ معاملہ بہت بڑھ جائے. سوائے ان حلقوں کے جو اہل ظاہر کی طرح اہل رائے اور پھر خود اہل حدیث کے حلقوں میں بھی بد مزگی پیدا کرتے ہیں. یہ مزاج جیسے اہل ظاہر کو یکسر رد کر سکتا ہے, اسی طرح مذاہب اربعہ کے تشخص کو بھی اہل حدیث اور اہل رائے کی تفریق سے برباد کر سکتا ہے اور نتیجے میں اہل سنت کے فقہی مناہج کے تنوّع ہی کی گنجائش نہیں بچ سکتی.

الغرض, ان علماء کا موقف راجح ہے جو اہل ظاہر سے کئی اصولوں میں اختلاف کے باوجود انکا اعتبار کرتے ہیں اور معاملے کو اسی نظر سے دیکھتے ہیں جیسے اہل حدیث اور اہل ظاہر کا اختلاف ہے. اسکا سبب اوپر بیان کر دیا ہے کہ : اصولی اختلاف کے باوجود تعامل میں زیادہ بُعد نہیں ہے. جیسا کہ مذاہب اربعہ میں کئی اصولوں میں اختلاف کے باوجود فقہی مسائل میں زیادہ دوری نہیں ہے.

چنانچہ جیسے اجماع کے تحقق میں اہل حدیث اور اہل رائے, دونوں کا اعتبار ضروری ہے, اسی طرح اہل ظاہر کا بھی ضروری ہے.

یہ موقف اس لئے بھی سائغ ہے کہ اجماع کی دو صورتیں ہیں. ایک صحابہ کا اجماع. دوسرا صحابہ کے بعد کا اجماع. جبکہ اہل ظاہر کا اختلاف جہاں مسئلہ پیدا کر سکتا ہے, یہ اجماع کا وہ مقام ہے جو صحابہ کے اجماع کے بعد ہو. اور ایسی صورت میں یہ اصول اگر مقرر کر لیا جائے کہ فلاں کا اجماع معتبر نہیں. تب بھی اسکا اختلاف عملی طور پر مسئلہ پیدا کرے گا کیونکہ اسکے مقابلے میں اسی کے زمانے کے فقہاء ہیں. صحابہ نہیں ہیں جنکے نام پر مخالف کو خاموش کروایا جا سکے.

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں