Home » قرآن تغیرِ پیہم کے اصول کی توثیق کرتا ہے
تفسیر وحدیث سائنس

قرآن تغیرِ پیہم کے اصول کی توثیق کرتا ہے

ڈاکٹر ظفر اللہ خان 

قرآن تغیر پیہم کے اصول کی توثیق کرتا ہے۔
كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِيْ شَاْنٍ. (سورۃ الرحمٰن، آیت: ۲۹)
(ہر آن وہ نئی شان میں ہے)
اس کارگاہ عالم میں اللہ تعالیٰ کی کارفرمائی کا ایک لا متناہی سلسلہ جاری ہے۔ وہ بے حد و حساب نئی سے نئی وضع اور شکل اوصاف پیدا کر رہا ہے۔ اس کی دنیا کبھی ایک حال پر نہیں رہتی۔ ہر لمحہ اس کے حالات بدلتے رہتے ہیں۔ اوراس کا خالق ہر بار اُسے ایک نئی صورت سے ترتیب دیتا ہے جو پچھلی تمام صورتوں سے مختلف ہوتی ہے۔
يُقَلِّبُ اللّٰهُ الَّيْلَ وَالنَّهَارَ ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَعِبْرَةً لِّاُولِي الْاَبْصَارِ. (سورۃ النور، آیت: ۴۴)
(رات اور دن کا الٹ پھیر وہی کر رہا ہے۔ اس میں ایک سبق ہے آنکھوں والوں کے لیے)
یہ آیات ا س بدیہی (manifest) صداقت کی طرف واضح طور پر اشارہ کرتی ہیں کہ کائنات میں بنیادی اصول حرکت ہے، جمود (innertia) نہیں۔ یہاں مسلسل آگے کی طرف بڑھتی ہوئی ایک حرکت اور ایک مستقل تخلیقی بہاؤ ہے، نہ کوئی ٹھہراؤ ہے اور نہ رکاوٹ ہمیشہ ایک پیش قدمی ہے، ہر لمحہ نیا ہے اور ہر لمحہ ایک نئی دنیا سامنے لاتا ہے۔ کائنات متحرک ہے اور مستقلاً حرکت میں رہتی ہے۔ اس کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں اور ماضی، حال اور مستقبل کی کوئی واضح و صحیح تقسیم نہیں۔ جدید سائنس اس حقیقت کی دریافتوں کے ساتھ شہادت دیتی ہے کہ مادہ (matter) مستقل وجود نہیں رکھتا بلکہ ہمیشہ ’سیال حالت‘ میں رہتا ہے۔
لیکن کائنات کی تبدیل ہوتی ہوئی حالت کے بارے میں ہمارے علم کی بنیاد اللہ تعالیٰ کی طرف سے فراہم کی گئی ہے جس میں ہمیں ہدایت دی گئی ہے کہ صرف تغیر مستقل ہے۔ خالق حقیقی ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ صرف اہل بصیرت حالتِ تغیر کو سمجھ سکیں گے بہ الفاظ دیگر نادان مستقل رہتے ہیں اور حالتِ موجود میں خوش و خرم رہتے ہیں اور وہ مستقلاً تبدیل ہوتے ہوئے زمانے اور ہمیشہ برپا رہتی ہوئی تبدیلیوں کا ساتھ نہیں دیتے۔ وہ یقینا فہم و بصیرت سے محروم ہیں۔
اس فہم کو حاصل کرنے کے لیے ہمیں حالتِ تغیر کو قبول کرنا ہوگا۔ ہر تغیر ایک لمحہ پہلے مستقل (constant) تھا۔ تسلسل، تغیر کے لیے اتنی ہی ضروری ہے جتنا کہ حال (present) کے لیے ماضی (past) ضروری ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فطرت میں تغیر اور تسلسل / استقلال (استحکام) پہلو بہ پہلو موجود ہوتے ہیں۔ یہ ایک دائمی قانون ہے جو بتاتا ہے کہ ’پائیداری‘ اور تغیر کو لازماً ساتھ ساتھ رہنا ہے۔ صرف حالتِ استحکام (stability) میں موجود رہنے کا مطلب جامد (static) رہنے اور ملیامیٹ ہو جانے کی طرف میلان کا مظہر ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ناعاقبت اندیشی سے تبدیلی کر دینا دروازے کے قبضے اکھاڑ دینے کے مترادف ہے۔ اگر کوئی آدمی استحکام کے ساتھ زنجیر سے بندھا رہے اور مسلسل ہونے والی تبدیلیوں کا ساتھ نہ دے تو وہ ماضی کی یاد گار بن جائے گا، یا زیادہ بہتر الفاظ استعمال کئے جائیں تو وہ ایک پتھرایا ہوا ڈھانچہ (fossil) کہلا سکے گا۔ اگر وہ صرف تبدیلی کے ہی ساتھ رہے تو وہ ماضی کے استحکام کے ساتھ اپنے نفع بخش روابط منقطع کر بیٹھے گا۔ شواہد کے اس مجموعے سے ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ تسلسل اورتغیر کائنات کے دو مطلق حقائق ہیں اور ان کامسلسل باہمی انحصار انسانی زندگی کے توازن کی ضمانت ہے۔

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں