ابوبکر المشرقی
تعارف: سید خاندان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبت کی وجہ سے عالمِ اسلام میں خصوصی عزت دی جاتی ہے۔ معاشرتی طور پر اکثر سید زادیوں کے نکاح غیر سید مردوں سے ناپسند کیے جاتے ہیں۔ اس مضمون میں ہم شرعی وفقہی بنیادوں پر یہ جانچیں گے کہ آیا یہ نکاح جائز ہے یا نہیں، اور مختلف مکاتبِ فکر کا اس بارے میں کیا موقف ہے۔
1. نکاح میں کفاءت کا شرعی تصور: اسلام میں نکاح کے لیے “کفاءت” (برابری) کا تصور ضرور ہے، لیکن اس کی بنیاد دین، تقویٰ، اخلاق، اور بعض اوقات مالی حیثیت پر ہے، نہ کہ صرف نسب پر۔
حدیث: قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم: “إذا جاءكم من ترضون دينه وخلقه فزوجوه، إلا تفعلوه تكن فتنة في الأرض وفساد عريض”۔ (سنن الترمذی، رقم الحدیث: 1084، صحیح)
شرح: اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ نکاح کے لیے دین اور اخلاق اصل معیار ہیں۔ اگر اس معیار کو چھوڑا گیا تو معاشرتی فساد پیدا ہوگا۔
2. فقہ حنفی: فقہائے احناف نے کفاءت کو معتبر مانا ہے، مگر اصل بنیاد دین داری ہے۔ نسب کو اگرچہ ایک پہلو کے طور پر ذکر کیا گیا ہے، مگر اس کی غیر موجودگی نکاح کے جواز کو ختم نہیں کرتی۔
ماخذ: قال المرغینانی: “والکفاءة معتبرة في النكاح، وهي في الدِّين والحُرِّية والصناعة والنسب عند بعضهم…” (الهدایة، کتاب النکاح، جلد 2، ص 238، دار المعرفۃ)
تشریح: اگرچہ بعض احناف نے نسب کو بھی کفاءت میں شامل کیا، مگر نکاح کی صحت اس پر موقوف نہیں کی گئی۔ بالغہ لڑکی اگر ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرے اور لڑکا کفؤ ہو، تو نکاح جائز ہوگا۔ (رد المحتار، ابن عابدین، جلد 3، ص 60)
3. فقہ شافعی: شافعی فقہ میں نسب کو کفاءت کا ایک جزو مانا گیا ہے، مگر اگر ولی اور عورت راضی ہوں تو نکاح جائز ہے۔
ماخذ: “الکفاءة معتبرة في النكاح دفعاً للعار، وتُنظر في الدِّين، والنسب، والصناعة، والحرية.” (المهذب للشيرازي، جزء 2، ص 44)
تشریح: اگر ولی نکاح سے راضی ہو تو غیر سید سے نکاح میں کوئی قباحت نہیں۔ شوافع کے نزدیک عورت ولی کی اجازت کے بغیر نکاح نہیں کر سکتی، مگر اگر اجازت ہو تو نسب مانع نہیں۔
4. فقہ مالکی: مالکی فقہ میں دین داری کو کفاءت کا اصل معیار مانا گیا ہے۔ نسب کی بنیاد پر نکاح کو ناجائز کہنا درست نہیں۔
ماخذ: “ليس في الكفاءة نسب، وإنما الكفاءة في الدين.” (المدونة الکبریٰ، جلد 2، ص 285، دارالفکر)
تشریح: امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک کسی دیندار اور نیک مرد سے نکاح ہو جائے تو وہ درست ہے، چاہے وہ نسب میں برابر نہ ہو۔
5. فقہ حنبلی: حنابلہ کے نزدیک بھی دین اصل کفاءت ہے، اور نسب ثانوی چیز ہے۔
ماخذ: قال ابن قدامة: “الكفاءة تعتبر في الدين فقط، لقوله صلى الله عليه وسلم: إذا جاءكم من ترضون دينه فزوجوه.” (المغنی، جلد 7، ص 28، دارالفکر)
تشریح: امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے نزدیک اصل کفاءة دین ہے، اور نکاح میں نسب کا فرق مانع نہیں۔
6. فقہ جعفریہ (شیعہ اثنا عشری): فقہ جعفریہ میں بالغہ عاقلہ لڑکی کو اپنے نکاح کے فیصلے کا اختیار ہے، اور نکاح میں نسب شرط نہیں۔ اصل معیار ایمان و عدالت ہے۔
ماخذ: “إذا كانت المرأة بالغة عاقلة، فهی حرة في اختیار الزوج، ولا يشترط النسب أو الكفاءة ما دام الطرف الآخر مؤمناً عدلاً.” (تحریر الوسیلة، للإمام الخمینی، کتاب النکاح، مسألة 16، دارالأعلمی)
تشریح: آیت اللہ العظمیٰ خمینی اور آیت اللہ سیستانی دونوں کے نزدیک نسب کفاءت کی شرط نہیں۔ عدالت، دیانت اور ایمان اصل معیار ہے۔
7. جدید مراجع اور فتاویٰ:
آیت اللہ سیستانی: “یجوز للسیّدة أن تتزوج غیر السیّد، بشرط الإیمان والعدالة.” (جامع المسائل، باب النکاح، استفتاء رقم 112)
شیخ عبدالعزیز بن باز (حنبلی): “الکفاءة فی النکاح تكون فی الدین، ولیس النسب شرطًا لصحة النکاح.” (فتاویٰ ابن باز، جلد 21، ص 55)
ڈاکٹر یوسف القرضاوی (معاصر سنی فقیہ): “لا یجوز ردّ الخاطب الصالح بسبب نسبه، فهذا من العصبیة الجاهلیة.” (الحلال والحرام فی الإسلام، ص 315)
8. خلاصہ: تمام مکاتبِ فکر کے نزدیک سید زادی کا غیر سید مرد سے نکاح شرعاً جائز ہے بشرطیکہ وہ مرد صالح، باعمل اور دیندار ہو۔ نسب کی برابری بعض فقہاء کے نزدیک مستحب یا معاشرتی اعتبار رکھتی ہے، مگر شرعی ممانعت نہیں۔ لہٰذا ایسے نکاح کو ناجائز کہنا شرعی اعتبار سے درست نہیں بلکہ بعض اوقات یہ تعصب اور جاہلیت کے زمرے میں آتا ہے۔
زبردست
Reality