Home » غلام باغ: مرزا اطہر بیگ کا ناول
مدرسہ ڈسکورسز

غلام باغ: مرزا اطہر بیگ کا ناول

 

مرزا اطہر بیگ کی پیدائش شیخوپورہ کے ایک گاؤں شرقپور میں ہوئی۔ وہ ۱۹۸۰ سے ۲۰۱۰ تک گورنمنٹ کالج لاہور میں فلسفے کے شعبے کے استاد رہے۔ بیگ صاحب نے ٹیلی ویژن کے لیے کئی ڈرامے لکھے۔ غلام باغ ان کا پہلا ناول تھا جو ۲۰۰۶ میں شائع ہوا۔ یہ ناول ۳۰ ابواب اور ۸۷۸ صفحات پر مشتمل ہے جس کو سانجھ پبلی کیشنز نے شائع کیا ہے۔

غلام باغ کا شمار اردو ادب کے بڑے ناولوں میں ہوتا ہے۔ کئی لوگوں کے مطابق یہ ناول عبداللہ حسین کے ‘اداس نسلیں’ اور قرۃ العین حیدر کے ‘آگ کا دریا’ کے بعد تیسرا بڑا ناول شمار ہوتا ہے۔ جس سن میں یہ ناول سامنے آیا اس ہی سال شمس الرحمن فاروقی صاحب کا ‘کئی چاند تھے سرِ آسماں ‘ بھی سامنے آیا۔ یوں ۲۰۰۶ میں اردو ادب کے ذخیرے میں دو بڑی کتابوں کا اضافہ ہوا۔ فاروقی صاحب اور بیگ صاحب نے جس طرح سے اپنی تخلیق ایک سال میں پیش کیں تو اس طرح ان دونوں مصنفین کی یہ پہلی کاوشیں تھیں جو منظر عام پر آئیں۔

غلام باغ اُردو ادب کی تاریخ میں ایک انوکھا اور منفرد ناول ہے جس کی نظیر اس سے پہلے کے کسی ناول میں نہیں ملتی۔ یہ ناول روایت سے کافی ہٹ کر ہے۔ عبداللہ حسین کے مطابق اس ناول کی تکنیک انگریزی ناول میں بھی ناپید ہے۔ ان کے مطابق اس کے ڈانڈے فرانسیسی پوسٹ ماڈرن ناول میں ملتے ہیں۔ عبداللہ حسین ایک معتبر نام ہیں ان کی بین الاقوامی ادب سے واقفیت پر بھی سوال نہیں اٹھایا جا سکتا مگر اچھا ہوتا کہ وہ فرانسیسی ادب میں سے بھی کسی ناول کی نشاندھی کر دیتے کہ جس کی تکنیک اس ناول سے مماثلت رکھتی ہے۔
غلام باغ کی کہانی دوسرے روایتی ناولوں سے ہٹ کر ہے۔ اس کی کہانی اس طرح سے سیدھی نہیں چلتی۔ لہذا جو لوگ سیدھی کہانی پڑھنے کے عادی ہیں ان کے لیے یہ ناول کافی مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔ مجھے بھی اس کو پڑھتے ہوئے کافی مشکل پیش آئی اور یہ ناول ایک چیلنج محسوس ہوا۔ مرزا اطہر بیگ صاحب کو بھی اس ناول کو لکھنے میں تقریباً بارہ سال لگے۔
غلام باغ کی کہانی سیدھی نہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس میں تسلسل نہیں ہے۔ اس کو بیان کرنے کا انداز غیر روایتی ہے مگر جیسے جیسے قاری آگے بڑھتا جاتا ہے تو اس کی کہانی میں تسلسل محسوس ہوتا ہے۔ یہ ایک منفرد تجربہ ہے جو مصنف نے کیا ہے اور قاری کے لیے بھی یہ انداز نیا لگتا ہے۔

بیگ صاحب نے اس ناول کا انتساب ارزل نسلوں کے نام کیا ہے۔ یہ ارزل نسلوں کی داستان ہی اس ناول کا بنیادی موضوع ہے۔ ارذل نسل کو ایک علامت کے طور پر دیکھا جائے تو اس کے اندر سے ہم مابعد نوآبادیاتی نظام بھی نظر آتا ہے کیونکہ یہ ارزل و بلند نسلوں کی گہری تقسیم اس کی دین ہے۔ دوسرا اس کے اندر سے جو بنیادی فلسفہ سمجھ میں آتا ہے وہ غالب آنے کی کوشش ہے۔ ارزل و اعلیٰ نسلوں میں غالب و مغلوب کی کشمکش ہی اس ناول کا مرکزی نکتہ ہے جس کے گرد یہ کہانی گھومتی نظر آتی ہے۔ ارزل نسلوں کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ان داستان سنانے اور لکھنے والا کوئی نہیں ہوتا، بیگ صاحب نے اس ناول کے مرکزی کردار کبیر مہدی کے ذریعے ارزل نسلوں کی اساطیر کو بیان کیا ہے۔ اس سے پہلے اس بات پر بھی بحث کی گئی ہے کہ ارزل نسلوں کی کوئی اساطیر ہوتی بھی ہیں کہ نہیں جس کا نتیجہ یہ نکالا ہے کہ ان کی داستان بیان کرنے والا کوئی نہیں ہوتا۔

غلام باغ ایک غیر روایتی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک علامتی ناول ہے جس کے کرداروں اور ان کے درمیان ہونے والے مکالموں میں بہت سے موضوعات چھپے ہوئے ہیں۔ اس ناول کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ ہر کردار پر اور ان کے مابین مکالموں کے نتیجے میں اٹھنے والے موضوعات پر کئی مضامین لکھے جا سکتے ہیں۔ چونکہ مصنف فلسفے کے استاد ہیں تو اس کی کچھ اثرات ہمیں اس ناول میں نظر آتے ہیں مگر اس کے باوجود اس کو فلسفیانہ ناول نہیں کیا جا سکتا۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس ناول کے کرداروں کے اندر کچھ مباحث ایسی جنم لیتی ہیں جن کا تعلق فلسفے سے بنتا ہے، بالخصوص وجودیت کی بحث کو بآسانی محسوس کیا جا سکتا ہے۔

غلام باغ کے چار مرکزی کردار ہیں۔ کبیر مہدی ، ڈاکٹر ناصر ، ہاف مین اور زہرا۔ اس کے علاوہ بھی کچھ کردار ہیں جن میں یاور عطائی کا کردار ایسا ہے جو اپنی ابتداء سے لیکر ناول کے اختتام تک اپنا اثر قائم رکھتا ہے۔ اس کے ساتھ ایک کردار امبر جان کا بھی قابل ذکر ہے جو کہانی میں اثر ڈالٹا ہے۔جیسے کہ پہلے عرض کیا کہ اس ناول کی کہانی بے ہیت ہے، ایسے ہی یہ کہنا بھی درست ہوگا کہ اس ناول کی کہانی کا کوئی باقاعدہ آغاز اور اختتام بھی نہیں ہے۔لیکن اس ناول کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ مختلف جہات سے اس کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔

غلام باغ ایک فرضی جگہ ہے جہاں پر ایک کیفے ہیں۔ وہاں پر کبیر اور ناصر مل کر آپس میں باتیں کرتے ہیں۔ غلام باغ کے پاس ہی کچھ کھنڈرات ہیں جو کہ تاریخی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان کی ملکیت کے بارے میں حکومت اور ایک نواب جس کا نام ثریا بہادر جنگ ہے کہ درمیان کچھ قانونی جنگ بھی ہے مگر نواب صاحب کو جب وہاں نوادرات کی شکل میں کچھ نہ کچھ مل جاتا ہے تو وہ اپنے مقدمے سے بھی دستبردار ہونے پر تیار ہو جاتے ہیں۔ حکومت بھی ان کو نوادرات کی کچھ چوری پر خاموشی اختیار کر لیتی ہے۔ ہاف میں جو کہ ایک جرمن آرکیالوجسٹ ہے اس کا غلام باغ کے کھنڈرات پر تحقیق کے غرض سے آنا جانا رہتا ہے تو وہ بھی غلام باغ کے کیفے میں کبیر اور ناصر کی گفتگو میں شریک ہو جاتا ہے۔ یوں یہ محفل دو سے بڑھ کر تین لوگوں کی بن جاتی ہے۔ہاف مین جیسے اس محفل کا اتفاقی حصہ بنتا ہے۔ زہرا اس محفل کا حادثاتی طور پر حصہ بنتی ہے۔ زہرا جو اپنے باپ یاور عطائی کو ایمرجنسی ہسپتال لاتی ہے اور ڈاکٹر ناصر اس وقت ڈیوٹی پر ہوتا ہے۔ وہ یاور عطائی کو دیکھ کر اس کی بیماری کی تشخیص کرتے ہوئے اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ یاور ایک عطائی ہے اور وہ اپنی ہی کسی بنائی دوائی کے نتیجے میں ہسپتال پہنچا ہے۔ وہ یہ بھی جان جاتا ہے کہ یہ دوائی بھی کوئی عام دوائی نہیں ہے۔ جب بعد میں وہ زہراء سے اس کے بارے میں بات کرتا ہے تو اپنے باپ کے کاموں سے لاعلم زہراء اس پر سخت ردعمل دیتی ہے۔ ڈاکٹر ناصر جو پہلی نظر میں ہی زہراء کو پسند کرنے لگتا ہے کے لیے زہراء کا یہ ردعمل غیر متوقع ہوتا ہے۔ لیکن بعد میں یہ ہی زہراء غلام باغ میں سجی اس محفل کی چوتھی رکن بن جاتی ہے۔
ان چاروں کے درمیان ہونے والے لمبے مکالمے میں کبھی کبھی قاری کو محسوس ہوتا ہے کہ مصنف نے بہت سی لایعنی باتوں کو بیچ میں ڈال کر کہانی کو طول دیا ہے مگر ان مکالموں کی گفتگو خصوصی توجہ کی متقاضی ہے۔
ان چار مرکزی کرداروں میں سے بھی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ہاف مین اور بعد میں ڈاکٹر ناصر کم اہم معلوم ہوتے ہیں۔ حالانکہ کتاب کے شروع میں خیال تھا کہ ناصر اس کا مرکزی کردار ہو گا لیکن دوسرے باب میں جو کتاب کے بنیادی موضوع سے متعلق ہے کے بارے میں جب کبیر مہدی کے قلم سے ارزل نسلوں کی داستان بیان ہوتی ہے تو بآسانی فیصلہ کیا جا سکتا ہے کہ اس کہانی کا سب سے اہم کردار کون ہے۔ ڈاکٹر ناصر ان محفلوں کا لازمی حصہ تو ضرور ہوتا ہے مگر یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس کا زیادہ کردار سامع کا ہے جو کبیر مہدی کی بے ربط اور لایعنی باتیں بہت غور سے سنتا ہے۔

یاور عطائی کو کہ زہرہ کا باپ ہے کہ اپنا کردار تو ناول میں محدود ہے مگر اس کا اثر آخر تک برقرار رہتا ہے۔ سوکڑ نہر سے تعلق رکھنے والا یاور عطائی ایک ڈاکیے خادم حسین کا بیٹا ہے۔ جو کہ ارزل نسل مانگر سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ مانگر کاچھر اور پگل نسل کے لوگوں کے استحصال کا نشانہ بنتے ہیں۔ کاچھر اور پگل ارزل نسل کے مانگروں کے ساتھ جانوروں سے بھی زیادہ بدتر سلوک کرتے ہیں۔ وہ ان کی عورتوں سے زیادتی کرتے ہیں۔ مانگروں کی اکثریت ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی مگر پھر بھی ماسٹر کرم الہی اور حاکو کانٹے والے کی شکل میں ان کے اندر ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو بغاوت کرتے ہیں مگر جلد ہی موت کی نیند سلا دیتے ہیں۔ لہٰذا یاور حسین اور بعد میں اس کی بیٹی زہرہ میں جو بغاوت کے جراثیم پائے جاتے ہیں مصنف نے اس کا تاریخی جواز فراہم کیا ہے۔ یاور کا باپ جو باقی مانگروں کے برعکس کچھ پڑھ جاتا ہے اور انعام گڑھ چلا جاتا ہے کا تاثر ایک ایماندار اور فرض شناس ڈاکیے کا ہے لیکن وہ مرنے سے پہلے اپنے بیٹے یاور کو اپنی واحد خیانت کا بتاتا ہے جب ایک پارسل حکیم احسان الٰہی کے نام کا وہ اپنے پاس رکھ لیتا ہے۔ اس میں بھی اس کی خیانت شامل نہیں ہوتی مگر جو چیز اس کے ہاتھ لگتی ہے اس سے یاور حسین کو کاچھروں اور پگلوں سے بدلے لینے کا موقع مل جاتا ہے۔ یہ ایک پرانی کتاب گنجینہ نشاط کے نام سے ہوتی ہے۔ جس میں مردوں کو جوان رکھنے کے نسخے ہوتے ہیں جو کہ بہت مہنگے ہوتے ہیں۔ یاور حسین اس گنجینہ نشاط کے ذریعے سے ان اعلیٰ نسلوں کی کمزوری کو جان جاتا ہے۔ اب وہ اس گنجینہ نشاط سے عطائی بنتا ہے۔ وہ انعام گڑھ سے ہجرت کرکے شہر آ جاتا ہے۔۔یہاں پر اعلیٰ نسل اور اعلیٰ عہدیداروں کے ساتھ وہ عطائی بن کر کھیل کھیلتا ہے اور ان پر غلبہ حاصل کرتا ہے۔ وہ جان جاتا ہے کہ یہ پگل اور کاچھر اور دیگر بڑے لوگ ہمیشہ جوان رہنے کے کتنے حریص ہیں۔ وہ ان کے سرکل میں جگہ بناتا ہے۔ وہ مالدار بھی بنتا ہے اور اعلیٰ نسلوں سے اعلیٰ عہدوں تک بیوروکریسی سے لیکر جرنیلوں ، ججوں ، میڈیا مالکان اور سرمایہ داروں تک وہ ان کو اپنے جنسی طاقت کو برقرار رکھنے کےلئے اپنا ضرورت مند بنا دیتا ہے۔ اس سے ہی اس کے دونوں بیٹوں کے کاروبار میں ترقی کی راہ کھلتی ہے اور ان کا شمار دولت مندوں میں ہوتا ہے۔ یاور کے دل میں جو نفرت ان کاچھروں اور پگلوں کے بارے میں ہے اس کا اظہار کا طریقہ مختلف ہوتا ہے پھر وہ ان کو مغلوب بھی کر چکا ہوتا ہے۔ وہ اپنے ضرورت مندوں کو خصی کلب کا نام دیتا ہے۔ پھر ایک رات خصی کلب کے ایک رکن کی خباثت کو برداشت نہیں کر سکتا اور مر جاتا ہے۔ لیکن اپنے پیچھے خصی کلب کی ضروریات کو چھوڑ جاتا ہے یہ اس کلب کے ممبروں کو آخر تک بے چین رکھتی ہے۔ خصی کلب کے ممبران میں سے دو اور نام بڑی اہمیت کے حامل ہیں ایک رسالے کے ایڈیٹر نجم الثاقب اور دوسرا نواب ثریا بہادر جنگ۔ نواب صاحب کا تعلق ہاف مین کے ساتھ جبکہ نجم الثاقب کے رسالے میں کبیر مہدی اپنے مضامین لکھتا ہے۔ لہذا خصی کلب کے ممبران کا براہ راست تعلق ناول کے مرکزی کرداروں سے بھی ہے.

زہرہ کا کردار اس ناول کا دوسرا بڑا کردار ہے۔ یہ بات بھی بآسانی کہی جا سکتی ہے کہ وہ اس ناول کا مضبوط ترین کردار ہے۔ کبیر مہدی اپنی گفتگو میں یوں تو باقی سب پر غالب آتا ہے مگر زہرہ اس کو غالب نہیں آنے دیتی۔ زہرہ ایک غیر روایتی کردار ہے، وہ رات دیر تک تین مردوں کے درمیان بیٹھ کر گفتگو کرتے ہوئے نہیں گھبراتی۔ لوگ اس کے کردار پر انگلی بھی اُٹھاتے ہیں مگر وہ اس کی پرواہ بھی نہیں کرتی۔ لوگوں کی الزام تراشیاں اور شکوک کے خوف سے وہ اپنے تعلقات کو ختم یا محدود نہیں کرتی۔ وہ باپ کے مرنے کے بعد اپنی ماں اور بھائی جو زیادہ آسائش میں رہ رہے ہوتے ہیں کے پاس نہیں جاتی بلکہ باپ کے گھر میں ہی رہتی ہے۔ حق ملکیت کے بارے میں ایک وکیل سے دھوکا کھاتی ہے مگر اس کے باوجود اپنے حق کے لیے وہ اپنی ماں اور بھائیوں سمیت متعدد لوگوں کے سامنے جھکتی نہیں ہے۔ وہ کبیر مہدی کو بچانے کے لیے آگ لگے کمرے میں سے ناصر کے ساتھ ملکر اس کو نکال کر لاتی ہے۔ اس کے بعد کبیر کی مکمل دیکھ بھال بھی کرتی ہے۔۔وہ اپنی اصل کی تلاش میں کبیر کے ساتھ انعام گڑھ جاتی ہے۔ اس میں تجسّس اور غور و فکر کا مادہ وافر مقدار میں موجود ہے۔بولنے کے ساتھ اس میں لکھنے کی بھی صلاحیت ہے جس کا زیادہ اچھا مظاہرہ اس وقت ہوتا ہے جب وہ کبیر کے الفاظ کو لکھتی ہے۔ زہرہ ایک دلیر اور مضبوط اعصاب کی مالک ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے ماضی کی بازیافت کے حوالے سے بھی کافی فکر مند ہے۔ غلام باغ کی زہرہ کو ہم اُردو ادب کے نمایاں نسوانی کرداروں میں رکھ سکتے ہیں۔ ایسے مضبوط نسوانی کردار اُردو ادب میں نایاب ہیں۔

کبیر مہدی جو اس ناول کا مرکزی کردار ہے وہ بھی زہرہ کی طرح اُردو ادب کی تاریخ کا ایک منفرد اور دلچسپ کردار ہے۔ مصنف نے کبیر مہدی کے ذریعے مختلف تجربات کیے ہیں۔ کبیر ہر گفتگو میں چھایا رہتا ہے۔ اس کی گفتگو میں کئی دفعہ ربط بھی نہیں ہوتا۔ وہ ایک قلمی طوائف ہے بلکہ ایک اور زبردست لفظ mercenary writer جو اس نے اپنے لیے خود استعمال کیا ہے۔ کبیر مختلف ناموں کے ساتھ رسالوں میں مضامین لکھتا ہے۔ جیسے اس کے قلمی نام مختلف ہیں ایسے ہی اس کے قلم سے نکلے ہوئے مضامین کے موضوعات بھی کثیر ہیں۔ کبھی وہ سیاست پر لکھتا ہے تو کبھی معاشرت پر، کبھی مذہب پر تو کبھی فلسفے پر، کبھی کھیل پر تو کبھی فلموں حتی کہ حکیمی مشورے اور ڈاکٹری نسخے بھی اس کے مضامین کا حصہ ہیں۔ پھر ایک طرف وہ جہاں جمہوریت کے حق میں لکھتا ہے تو اس کی اگلی تحریر میں آمریت کے حق میں دلائل ہوتے ہیں۔ ایک طرف وہ عورتوں کے حقوق پر لکھتا ہے تو اس سے اگلے مضمون میں فیمنزم کے برے اثرات سے آگاہ کرتا ہے۔کہیں اس کے مضامین سے روشن خیالی جھلکتی ہے تو اگلے مضمون میں وہ رجعت پسندی کے حق میں لکھتا ہے۔
کبیر مہدی کے کردار کا تجزیہ کریں تو ناول کی بہت سی جہتیں سامنے آتی ہیں۔ جیسے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ کبیر متضاد موضوعات پر کثرت سے دلائل رکھتا ہے مگر اس کا اپنا نظریہ کیا ہے؟اس کی اپنی سوچ کا رجحان کس طرف ہے ؟ ان سوالوں کے جواب نہیں ملتے۔ اس کے پاس معلومات تو بھرپور ہیں مگر ہم دیکھتے ہیں کہ جیسے ہی اس کی معلومات بڑھتی جاتی ہیں اس کا ذہنی انتشار اور کنفیوژن بڑھتی جاتی ہے۔ یہاں معاشرے پر جدیدیت کے اثرات کو بھی محسوس کیا جا سکتا ہے کہ اس نے انسان کی ذہن کو کس طرح منتشر کر دیا ہے اور وہ بھرپور کوشش کے باوجود اپنے اس خلا کو پر نہیں کر پا رہا۔ کبیر مہدی کی شکل میں مصنف نے آج کے نوجوانوں کا المیہ بیان کیا ہے کہ جو علم حاصل کرنے کے باوجود اپنی منزل کا تعین نہیں کر پا رہے۔ جس طرح آج کی نسل کنفیوژن کا شکار ہے اس کو نہیں معلوم کہ درست کیا اور غلط کیا ہے وہ ایک الگ دوڑ میں لگا ہوا ہے جس کی حتمی منزل کا اس کو بھی نہیں پتہ، کبیر مہدی کی شکل میں بیگ صاحب نے آج کی نسل کے مسائل کو اجاگر کیا ہے۔

ناول کا ایک اور موضوع انسانی تعلقات کی پیچیدگی بھی ہے۔ ہم چاروں مرکزی کرداروں اور ان کے درمیان ہونے والے مکالموں کے بعد اس کو زیادہ بہتر طریقے سے جان سکتے ہیں بالخصوص زہرہ کے بارے میں آپ یقین سے فیصلہ نہیں کر سکتے کے اس کی باقی تینوں مردوں کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کیا ہے۔۔کہنے کو تو وہ ایک دفعہ کہتی ہے کہ اس کے لیے تینوں ایک جیسے ہیں مگر زہرہ کی کبیر کے ساتھ جو بانڈنگ نظر آتی ہے وہ باقی دونوں مردوں کے ساتھ نہیں۔ ہو سکتا ہے اس کی وجہ ان دونوں کی ذہانت ہو لیکن پھر بھی ان دونوں کا اصلی تعلق کی نوعیت کیا ہے مصنف نے بہت مہارت سے اس میں ابہام رکھا ہے۔اس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ انسانی تعلقات کو سمجھنا ایک محنت طلب کام ہے اس کے بارے جلدبازی یا حتمیت کا مظاہرہ اس کے بارے میں درست نتیجہ سے دور لے جانے کا سبب بن سکتا ہے۔ انسانی تعلقات کی یہ بحث زہرہ اور کبیر مہدی کے درمیان ہونے والے لمبے مکالموں میں ڈھونڈی جا سکتی ہے۔ اس موضوع پر ان مکالموں کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک الگ مضمون بھی بن سکتا ہے۔

کبیر مہدی اخبارات و رسائل میں تو مختلف ناموں سے لکھتا ہے مگر اس کا ایک کام ادھورا ہے جس کو وہ اپنے نام سے لکھنا چاہتا ہے۔ اس کے شروع کرنے کے حوالے سے وہ کافی تذبذب کا شکار ہوتا ہے مگر پھر بالاخر اس کا ارادہ عملی شکل اختیار کرنے شروع کر دیتا ہے۔ وہ ایک داستان لکھتا ہے جس میں خود کلامی بھی ہے اور اپنی روداد بھی، اس کے اندر وہ اپنے تجربات کا بھی ذکر کرتا ہے مگر یہ کام اس کا منصہ شہود پر نہیں آ سکتا۔ اس کے پاس ایک نیلا رجسٹر ہے جس میں وہ اپنے تجربات کو قلمبند کرتا ہے اس کے لیے لالکھائی یعنی ایسی تحریر جو کسی اور کو نظر نہ آئے۔ وہ اپنی باتیں جنہوں وہ کئی دفعہ بک بک کہتا ہے اس رجسٹر میں قلمبند کرتا ہے۔ جب امبر جان اس کو اس کے کمرہ جس کو وہ گھونسلہ کہتا ہے میں جلواتا ہے تو یہ رجسٹر بھی متاثر ہوتا ہے مگر ناصر اس کو اپنے پاس رکھ لیتا ہے۔

کبیر مہدی چونکہ مختلف موضوعات پر لکھتا ہے تو ایسے ہی معاوضے کے بدلے وہ ایک پروفیسر نذیر کا تھیسیس بھی لکھتا ہے۔ پروفیسر نذیر سے وہ کچھ عرصے بعد رابطہ کرتا ہے اور پروفیسر نذیر اس کو نئے گاہک ڈھونڈ کر دیتا ہے جو اپنے ایم فل اور پی ایچ ڈی کے تھیسیس کسی سے لکھوانا چاہتے ہیں۔ اس کی ایک خاتون اور دو مردوں سے ملاقات ہوتی ہے مگر کبیر کی گفتگو بلکہ گفتگو پر غالب آ جانا اور موضوع سے ہٹ جانے کے باعث یہ کام پایہ تکمیل کو نہیں پہنچتے۔ لیکن اس سے دو باتیں سامنے آتی ہیں۔ ایک ہمارے ملک کے تعلیم کے معیار پر سوال اُٹھایا گیا ہے۔ یہ نظر آتا ہے کہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے کچھ لوگوں کا مقصد علم و تحقیق نہیں بلکہ ڈگری کا حصول ہے۔ اس لیے وہ پیسوں کے عوض کسی کے لکھے پر اپنا نام لکھنے پر کوئی شرمندگی محسوس نہیں کرتے۔۔دوسری بات جو سامنے آتی ہے وہ کتاب کے مرکزی مضمون سے میل کھاتی ہے کہ ان ڈگریوں کا حصول دراصل ان ذریعہ ہے طاقت حاصل کرنے کا یعنی کہ غالب آنے کا۔ کیونکہ یہ ڈگریاں ان کو مزید طاقتور بنانے میں مددگار ثابت ہوں گی اور طاقت کے حصول کے بعد ہی وہ کسی پر غالب آئے گے۔ لہذا ڈگریوں کے اس حصول کا تعلق غالب و مغلوب کی کشمکش سے ہے۔

غالب آنے کے اس فلسفے پر کبیر کی زبانی ناول کا یہ اقتباس بہت سی چیزیں کھول دیتا ہے۔کبیر اپنے گھونسلے (کمرے) کے مالک امداد حسین کو کہتا ہے

‘امداد صاحب دیکھیں انسان کو اچھا لذیذ کھانا کھانا چاہیے، آرام دہ نرم بستروں میں ایسی عورت یا عورتوں کے ساتھ سونا چاہیے جس کے بارے میں وہ کیا کہتے ہیں کہ طرفین یکساں حظ اٹھاتے ہیں۔ اچھے مشروبات پینے چاہیے، دنیا میں اگر دل چاہے تو گھوم پھر کر بدل بدل کر منظر دیکھنے چاہیے۔ کوئی آٹھ، دس، سو،پانچ سو لوگوں پر بالادستی حاصل کر کے انہیں گاہے بگاہے ذلیل کر کے مزہ لیتے رہنا چاہیے اور کسی ایک آدھ عورت میں سے ایسے انسان ترجیحاً مرد پیدا کرنے چاہیے جو آگے چل کر یہ سب کام اپنے طور پر انجام دے سکیں۔ ٹھیک ہو گیا جی۔ اب اگر کوئی بد نصیب یہ سمجھتا ہے دنیا میں اس کے لیے اس کے علاوہ اس سے زیادہ عظیم، اصل کام بھی کوئی ہو سکتا ہے تو اسے اللہ کی مار پڑتی ہے، سمجھ گئے’

ان جملوں میں جہاں مادیت پرستی نظر آتی ہے اس کے ساتھ ہی اس میں غالب آنے کا فلسفہ بھی زیر بحث ہے۔

مغلوب یا غلاموں کی سوچ جس کو قلمبند کوئی نہیں کرتا۔ ان کے سوچنے کا انداز ایک جملے سے دیکھا جا سکتا ہے

‘بڑے گھروں میں قتل کی واردات ہو جائے تو ملازم پیشہ لوگوں کو ڈر کر بھاگ نہیں جانا چاہیے۔ کیونکہ اس طرح ان کے پکڑے جانے اور بے گناہ پھانسی چڑھ جانے کا خطرہ اور بھی بڑھ جاتا ہے’

یہ جملے حاکم و محکوم کا اور غلام اور مالک کی زندگیوں کی قیمت اور کے فرق کو واضح کرتے ہیں۔ غلاموں کی جان کی قدر و قیمت اتنے کم ہوتی ہے کہ ان کا بے گناہ پھانسی چڑھنے کا امکان ہر وقت موجود ہوتا ہے۔ یہاں سے ہی یہ سوچ ابھر کر سامنے آتی ہے کہ طاقت کا حصول اور غالب آنا کتنا ضروری ہے ورنہ ان کی جان کی کوئی قیمت نہیں وہ کسی وقت بھی کسی بھی بہانے سے لی جا سکتی ہے۔

زہرہ اور کبیر کے مابین جو لمبے مکالمے ہیں کئی دفعہ تو یہ لگتا ہے کہ وہ مصنف نے بہت سے لایعنی موضوعات کو چھیڑ دیا ہے جن کا کہانی سے تعلق نہیں ہے مگر ان مکالموں میں ہونے والی گفتگو میں کہانی کا ربط محسوس ہوتا ہے۔ یہ گفتگوؤں کا سلسلہ اپنے اندر شناخت کا بحران ، ماضی کی بازیافت اور مستقبل کی امید لیے ہوئے ہے۔۔ ان مکالموں پر فرداً فرداً الگ بھی کوئی نقاد بات کرنا چاہیے تو اس کو بہت سا مواد میسر ہے۔

مناظر کشی کے حوالے سے بھی یہ ناول ایک اچھوتا اور منفرد تجربہ ہے۔۔ وہ رات جو یاور عطائی کی آخری رات ثابت ہوتی ہے۔ اس ایک رات کی محفل کو مصنف نے چار ابواب یعنی کہ اسی صفحات پر پھیلایا ہوا ہے۔ یہ ایک زرخیز دماغ کا ہی تجربہ ہو سکتا ہے۔ اس سے مصنف کے تخلیقی صلاحیتیں کھل کر سامنے آتی ہیں۔

اس ناول ایک اور جہت اس میں مسئلہ جنس کو بھی موضوع بنایا گیا۔۔اس مسئلہ پر بات کرتے ہوئے اکثر مصنفین جو پابندیاں اپنے اوپر عائد کرتے ہیں بیگ صاحب نے یہاں بھی روایت سے انحراف کرتے ہوئے اس پر آزادی سے قلم چلایا ہے۔ اس پر ممکن ہے کچھ لوگوں کے لیے یہ تجربہ اچھا تاثر نہ پیدا کرے لیکن بیگ صاحب نے اس کی پرواہ نہیں کی

اس ناول کا لسانی مطالعہ ایک اور دلچسپ موضوع بن سکتا ہے۔ کیونکہ بیگ صاحب نے جو الفاظ اور اصطلاحات کا تجربہ اس ناول میں کیا ہے وہ بھی کافی دلچسپ ہے۔ بیت الققنس ، گیگلے، نیلا رجسٹر ، لالکھائی سمیت کئی الفاظ اور اصطلاحات ہیں جن کا استعمال کیا گیا ہے۔ اس جہت سے اگر کوئی اس ناول کا تجزیہ کرے تو اس پر بھی بھرپور گفتگو ہو سکتی ہے اور اس پر بھی پورا مضمون لکھا جا سکتا ہے۔
اس حوالے سے کچھ تنقیدی آراء بھی پڑھنے اور سننے کو ملیں کہ مصنف نے مشکل الفاظ کا استعمال کرکے اس ناول کو خواہ مخواہ مشکل بنایا ہے۔ مشکل الفاظ بالخصوص انگریزی الفاظ کے استعمال پر ان تنقیدی آراء سے کسی حد اختلاف نہیں کیا جا سکتا مگر اس ناول کے لسانی جائزہ کو سامنے رکھا جائے تو میرا خیال ہے کہ بہت سی تنقیدی آراء قابل توجہ نہیں ہیں۔

یہ ناول آسان ناول نہیں ہے اور اس پر گفتگو کرنا بھی میرے لیے آسان نہیں تھا۔ میرا ارادہ ہے کہ اس ناول کا ایک دفعہ پھر مطالعہ کیا جائے اور اس کے بعد اس پر الگ سے گفتگو کی جائے۔ اب بھی ناول کی متعدد خصوصیات پر گفتگو میری تحریر میں شامل نہیں۔ مدد علی ، مختار بیگم ، عاشق ، چٹا سائیں سمیت بہت سے اور کردار بھی ہیں جن پر گفتگو کی جا سکتی ہے جن کا کہانی پر اثر کم سہی مگر اس کی اہمیت پھر بھی ہے۔ ابھی اس کے بہت سے گوشوں پر مزید بات ممکن ہے۔ اپنی تحریر کا اختتام اس ناول کے مشہور اقتباس پر جس کا پہلا جملہ ناول کی آخری سطر میں بھی ہے۔

‘فکشن کے خالق کو خدا بننے کا اختیار کس نے دیا۔اس کی ہر افسانوی حرکت میں خدا بننے کا دعویٰ چھپا ہوا ہے۔ اسے ایسا عالم کُل اور قادر مطلق بننے کا حق کس نے دیا۔ وہ کسی بھی متنفس کے شعور حتی کہ لاشعور کی گہرائیوں میں اتر کر اس کے بطون ذات کے جملہ اسرار کی خبر لاتا ہے، اور پھر زمان و مکان کی قید سے بھی ماورا ہو کر کائنات کے کسی بھی گوشے کسی بھی ایک واقعے کی جزیات بیان کرتا ہے اگر وہ کسی واحد متکلم کی ذات کو اختیار کرتا ہے تو پھر میں کی اس کھڑکی کی راہ سے سب کچھ دیکھ لینے کا دعویٰ کرتا ہے۔
میری تخلیق کی ہوئی دنیا میں آؤ یہاں تمہیں تین کردار نمبر ایک،نمبر دو، نمبر تین بننے کا اختیار ہے مگر یہاں کردار نمبر چار نمبر پانچ نمبر چھ تمہیں مٹانے پر تلے ہی۔ں اگر تم مٹنا نہیں چاہتے تو میں اس کا اہتمام کرنے کی کوشش کروں گا کہ تم مٹنے سے بچ جاؤ پھر بھی اگر تم مٹ جاتے ہو تو تمہیں اتنا ضرور کرنا ہوگا محسوس کرنا ہوگا کہ تم کیسے مٹ گئے وہ کیسی دنیا ہے جو تمہیں نیست و نابود کرنا چاہتی ہے’

 

راجہ قاسم محمود

راجہ قاسم محمود پیشے کے اعتبار سے اکاونٹنٹ ہیں اور مختلف علمی وفکری موضوعات پر اظہار خیال کرتے ہیں۔
rajaqasimmehmood@gmail.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں