عام طور پر یہ فرض کیا گیا ہے کہ مسلم عائلی قوانین آرڈیننس 1961ء کا اجرا غالباً حکومتِ پاکستان کی جانب سے اگست 1955 میں قائم کردہ ’کمیشن برائے شادی و عائلی قوانین‘ کی سفارشات کی بنیاد پر نافذ کیا گیا تھا۔ اس کمیشن کے پہلے سربراہ ڈاکٹر خلیفہ شجاع الدین تھے جو دل کا دورہ پڑنے کے باعث وفات پا گئے جس کے بعد پاکستان کے سابق چیف جسٹس میاں عبدالرشید کو اس کمیشن کا چیئرمین مقرر کیا گیا۔ اس کمیشن میں صرف ایک مذہبی عالم شامل تھے: مولانا احتشام الحق تھانوی جنہوں نے کم و بیش ہر پہلو اور ہر سفارش پر تفصیلی اختلافی نوٹ تحریر کیا۔ ان کا یہ اختلافی نوٹ انگریزی میں بھی ترجمہ کیا گیا اور اردو اصل کے ساتھ رپورٹ کا حصہ بنایا گیا۔
جب یہ رپورٹ شائع ہوئی تو اسے علما کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ رپورٹ پر تفصیلی تنقید لکھنے والوں میں مولانا امین احسن اصلاحی بھی شامل تھے۔ یہاں یہ بات یاد دلانا ضروری ہے کہ مولانا اصلاحی کو 1956ء کے آئین کے تحت قائم کردہ کمیشن کا رکن مقرر کیا گیا تھا جس کا مقصد پارلیمان کو قوانین کے اسلامی تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے سفارشات دینا تھا۔ یہ کمیشن بعد میں 1962 کے آئین کے تحت قائم ہونے والے اسلامی نظریاتی کونسل کا ابتدائی نمونہ تھا، جو آج بھی 1973 کے آئین کے تحت کام کر رہی ہے۔ تاہم یہ کمیشن صرف چند اجلاس منعقد کر سکا اور جب جنرل ایوب خان نے اکتوبر 1958 میں مارشل لا نافذ کیا، تو اسے تحلیل کر دیا گیا۔
شادی اور عائلی قوانین کے کمیشن کو جو مینڈیٹ دیا گیا تھا وہ محدود تھا اور اس میں صرف یہ سوال شامل تھا: ’کیا موجودہ قوانین، جو مسلمانوں کے مابین شادی، طلاق، نان و نفقہ اور دیگر متعلقہ امور کو منظم کرتے ہیں، میں ایسی ترمیم کی ضرورت ہے جس سے خواتین کو اسلامی اصولوں کے مطابق معاشرے میں ان کا جائز مقام مل سکے؟‘ تاہم کمیشن (بلکہ اس کے اکثریتی اراکین) نے اس سوال سے کہیں وسیع تر امور کو زیر غور لانا مناسب سمجھا، مثلاً اجتہاد کے مفہوم اور دائرہ کار، اسلامی قانون کی ’ترقی پسندانہ‘ تعبیر کی ضرورت وغیرہ۔ اس نے خاص طور پر اصولِ فقہ کے تصورات ’مصلحت‘ اور ’استحسان‘ کے استعمال پر زور دیا اور ’مصلحت‘ کو غلط طور پر ’عوامی مفاد‘ کہا ، جبکہ ’استحسان‘ کو غلط طور پر ’ذاتی ترجیح کا ذریعہ‘ اور انگریزوں کے تصور equity کے مترادف سمجھا، جبکہ حقیقتاً اصولِ فقہ میں ’مصلحت‘ سے مراد ’شریعت کے مقصد کی حفاظت‘ ہے اور استحسان اور equity میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ (تفصیل کےلیے دیکھیے: پروفیسر عمران احسن خان نیازی کی کتاب: Theories of Islamic Law۔)
یہ طرزِ فکر صرف اس کمیشن تک محدود نہیں بلکہ پاکستان میں ’مذہبی اصلاح‘ کے خواہش مند ’متجددین‘ کا عمومی رجحان بن چکا ہے۔ مثلاً 2006ء میں جب حکومت نے حدود قوانین میں ترمیم کا ارادہ کیا اور اسلامی نظریاتی کونسل کو ان کا تنقیدی جائزہ لینے کی ذمہ داری سونپی، تو اس وقت کے چیئرمین پروفیسر خالد مسعود نے بھی یہی طرز اپنایا۔ میں نے اپنی کتاب میں اس پر تفصیلی تنقید لکھی؛ دیکھیے: ’حدود قوانین: اسلامی نظریاتی کونسل کی عبوری رپورٹ کا تنقیدی جائزہ‘ (مردان: مدرار العلوم، 2006ء)۔
بہر حال، اس کمیشن کی سفارشات کو سرد خانے میں ڈال دیا گیا۔ ان پر عمل درآمد مارشل لا کے نفاذ کے بعد ہی ممکن ہوا، اور یوں مسلم عائلی قوانین آرڈی نینس نافذ کیا گیا۔ یہ بھی قابلِ ذکر ہے کہ اس آرڈی نینس نے کمیشن کی کچھ سفارشات سے بھی انحراف کیا۔
مسلم عائلی قوانین آرڈی نینس کی دفعہ 7
اس آرڈی نینس کی دفعہ 7 طلاق سے متعلق ہے، اور اس نے نہ صرف بیک وقت دی جانے والی ’تین طلاقوں‘ کو کالعدم قرار دیا، بلکہ ہر قسم کی ایسی طلاق کو بھی کالعدم کردیا جو شریعت کی رو سے قابلِ رجوع نہیں ہوتی اور جسے شریعت کے ماہرین ’طلاقِ بائن‘ کہتے ہیں، خواہ ایسی طلاق ایک ہی بار دی گئی ہو۔
اس قانون کے مطابق کوئی بھی طلاق اس وقت تک مؤثر نہیں سمجھی جاتی جب تک:
یونین کونسل کے چیئرمین کو تحریری نوٹس نہ دے دیا جائے؛
اس کی ایک نقل بیوی کو نہ بھیجی جائے؛ اور
چیئرمین کو نوٹس ملنے کے 90 دن نہ گزر جائیں۔
بعض اہلِ علم کی رائے ہے کہ یہ قانون فقہ جعفریہ پر مبنی ہے جو طلاق کے لیے ’صیغۂ طلاق‘ اور دو گواہوں کی موجودگی کو ضروری سمجھتی ہے۔ (ملاحظہ ہو: پروفیسر عمران احسن خان نیازی کی کتاب Outlines of Muslim Personal Law)۔ تاہم، میری رائے میں یہ قانون اس سے بھی کہیں آگے چلا گیا ہے کیونکہ بعض صورتوں میں فقہ جعفریہ کے مطابق طلاق ہوچکی ہوتی ہے، لیکن اس قانون کے تحت وہ طلاق مؤثر نہیں مانی جاتی اور کبھی اس کے برعکس بھی ہوتا ہے کہ اس قانون کے تحت طلاق مؤثر ہوتی ہے لیکن فقہ جعفریہ کے تحت وہ مؤثر نہیں ہوتی۔ اس دوسرے پہلو کے تدارک کےلیے ابھی ماضیِ قریب میں فقہ جعفریہ کے ماننے والوں کےلیے اس قانون میں جزوی ترمیم کی گئی ہے، لیکن پہلا پہلو ان کے لیے بدستور مسائل کا باعث بنا ہے، جبکہ سنی مسلمانوں کے فہمِ شریعت کی رو سے رو یہ قانون یکسر غیر اسلامی ہے۔یہ معاملہ مزید اس وقت الجھ گیا جب1963ء میں سپریم کورٹ نے اس قانون کی ایک عجیب تعبیر پیش کی۔ عدالت نے کہا کہ چونکہ یہ قانون جلد بازی میں نکاح کے خاتمے کی حوصلہ شکنی کرتا ہے، اس لیے اگر کوئی مرد طلاق دینے کے بعد دفعہ 7 کے مطابق نوٹس نہ دے، تو قانون یہ فرض کرے گا کہ اس نے طلاق واپس لے لی ہے، اور قانونی لحاظ سے یہ مرد و عورت بدستور ’میاں بیوی‘ ہی تصور کیے جائیں گے۔(’علی نواز گردیزی بنام لیفٹننٹ کرنل محمد یوسف‘)
جب 1979ء میں جرمِ زنا آرڈی نینس نافذ کیا گیا، تو اس کے بعد ’علی نواز گردیزی مقدمے‘ میں طے کیے گئے اصول کی بنیاد پر ہی ان خواتین کے خلاف مقدمات قائم کیے گئے جنہوں نے اپنے سابقہ شوہروں سے طلاق کے بعد دوسرا نکاح کیا تھا اور ان کے سابقہ شوہروں نے طلاق کے بعد مسلم عائلی قوانین آرڈی نینس کی دفعہ 7 کے تحت نوٹس نہیں بھیجا تھا اور باقی کارروائی پوری نہیں کی تھی۔ (مثال کے طور پر دیکھیے: ’شیرا بنام ریاست‘۔) اس سلسلے کو 1988ء میں سپریم کورٹ کے شریعت اپیلیٹ بینچ نے روکا جب اس نے قرار دیا کہ جرمِ زنا آرڈی نینس کے تحت ’جائز شادی‘ سے مراد ‘فریقین کے شخصی قانون‘، یعنی شریعت، کے تحت جائز شادی ہے، خواہ وہ مسلم عائلی قوانین آرڈی نینس کے تحت جائز ہو یا نہ ہو (’بشیراں بنام محمد حسین‘)۔ تاہم شریعت اپیلیٹ بنچ اس فیصلے میں ’علی نواز گردیزی مقدمے‘ کا فیصلہ کالعدم نہیں کرسکی۔
’کنیز فاطمہ بنام ولی محمد مقدمہ‘
1993ء میں، یعنی ’علی نواز گردیزی مقدمے‘ کے 30 سال بعد، بالآخر سپریم کورٹ نے اپنی غلطی کی کسی حد تک تصحیح کرلی جب اس نے ’کنیز فاطمہ بنام ولی محمد مقدمے‘ میں قرار دیا کہ اگر شوہر نے طلاق دے چکنے کے بعد دفعہ 7 کے تحت نوٹس نہیں دیا، تو یہ کہنا غلط ہے کہ شوہر نے طلاق واپس لے لی ہے لیکن طلاق مؤثر نہیں ہوگی اور یہ صرف اسی صورت میں ہی مؤثر ہوگی جب شوہر طلاق دے اور پھر دفعہ 7 میں مذکور 90 دن کی مدت پوری ہو۔
اس فیصلے سے قبل 1987ء میں سندھ ہائی کورٹ نے ’مرزا قمر رضا بنام طاہرہ بیگم مقدمے‘ میں قرار دیا تھا کہ دفعہ 7 میں مذکور قانون شریعت سے متصادم ہونے کی بنا پر آئین سے بھی متصادم ہے اور ہائی کورٹ اس قانون پر عمل درآمد روک سکتی ہے کیونکہ 1985ء میں آئین میں دفعہ 2-اے کا اضافہ کیا گیا ہے جس کی رو سے یہ تسلیم کی گیا ہے کہ پاکستان میں اصل حاکمیت اللہ تعالیٰ کی ہے اور اسی کے قانون کو سب سے بالاتر قانون کی حیثیت حاصل ہے۔
تاہم ’کنیز فاطمہ مقدمے‘ میں سپریم کورٹ نے کہا کہ سندھ ہائی کورٹ کو ایک عام عائلی مقدمے کے فیصلے میں آئینی سوالات میں نہیں الجھنا چاہیے تھا۔ اس نے مزید کہا کہ اس قانون کو غیر اسلامی سمجھا جاتا ہے لیکن اس ضمن میں حتمی فیصلے کا اختیار وفاقی شرعی عدالت کو حاصل ہے۔ تاہم اگلی ہی سانس میں عدالت نے قرار دیا کہ ابھی وفاقی شرعی عدالت بھی اس قانون کا جائزہ نہیں لے سکتی۔
’مسلم شخصی قانون‘ کی تعریف
اس کے پیچھے بھی ایک دلچسپ بلکہ افسوسناک کہانی ہے۔ پشاور ہائی کورٹ کے ’شریعت بینچ‘ نے 1980ء میں ’مسماۃ فرشتہ بنام وفاقِ پاکستان مقدمے‘ میں مسلم عائلی قوانین آرڈی نینس کی دفعہ 4 کو اسلامی احکام سے تصادم کی بنیاد پر کالعدم قرار دیا تھا ۔ تاہم اپیل میں سپریم کورٹ نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ چونکہ یہ قانون ’مسلم شخصی قانون‘ کے مفہوم پر پورا اترتا ہے اور مسلم شخصی قانون کو آئین نے شریعت بنچ کے اختیارِ سماعت سے باہر کیا ہوا ہے، اس لیے شریعت بینچ کو اس پر فیصلہ دینا ہی نہیں چاہیے تھا۔
اس فیصلے کے 14 سال بعد 1994ء میں سپریم کورٹ نے ’ڈاکٹر محمود الرحمان فیصل بنام وفاقِ پاکستان مقدمے‘ میں اس معاملے پر دوبارہ غور کیا اور ’مسلم شخصی قانون ‘ کی نئی تعبیر پیش کی، جس کی رو سے مسلم عائلی قوانین آرڈی نینس اور دیگر ریاستی قانون سازی کو اس تصور سے خارج قرار دے دیا گیا۔اس کے بعد، وفاقی شرعی عدالت کو اس قانون کی مختلف دفعات کی اسلامیت جانچنے کا اختیار حاصل ہو گیا۔
’اللہ رکھا بنام وفاقِ پاکستان‘
چنانچہ 2000ء میں وفاقی شرعی عدالت نے ’اللہ رکھا بنام وفاقِ پاکستان مقدمے‘ میں بالآخر فیصلہ سنا دیا کہ طلاق سے متعلق اس قانون کی دفعہ 7 اسلامی احکام سے متصادم ہے۔ تاہم اس فیصلے کے خلاف اپیل سپریم کورٹ میں دائر کی گئی اور یہ فیصلہ معطل ہوگیا کیونکہ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف جیسے ہی اپیل دائر کی جائے، وہ فیصلہ معطل ہوجاتا ہے اور اس کےلیے سپریم کورٹ سے اسٹے آرڈر کی بھی ضرورت نہیں ہوتی!
ربع صدی بعد
انتہائی افسوسناک امر یہ ہے کہ 25 سال، یعنی ربع صدی، گزرنے کے بعد بھی سپریم کورٹ کے شریعت اپیلیٹ بنچ نے آج تک ان اپیلوں کا فیصلہ نہیں کیا اور یوں وہ قانون جسے علمائے کرام کے علاوہ اسلامی نظریاتی کونسل اور وفاقی شرعی عدالت نے بھی برسہا برس قبل غیر اسلامی قرار دیا ہے، آج تک اسلامی جمہوریۂ پاکستان میں محض اس وجہ سے نافذ ہے کہ سپریم کورٹ کا شریعت اپیلیٹ بنچ اس کے خلاف اپیلوں کی سماعت نہیں کررہا!
کمنت کیجے