Home » تجربیت: سرمایہ داری کی آئیڈیالوجی
تہذیبی مطالعات فلسفہ

تجربیت: سرمایہ داری کی آئیڈیالوجی

عمران شاہد بھنڈر

میں ہمیشہ سے یہ کہتا آیا ہوں کہ کسی بھی فکر، فلسفے یا نظریے کا حقیقی فہم حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ان حالات اور نظام کو سمجھا جائے جن میں وہ فلسفے اور نظریات پیدا ہوتے ہیں۔ میرا یہ کہنا ہے کہ انسان کی فکری تاریخ میں ”تجربیت“ سے بڑی فکری تاریخ آج تک پیدا نہیں ہو سکی۔ تجربیت، سرمایہ داری نظام کی آئیڈیالوجی کے طور پر جاگیرداری کی آئیڈیالوجی (مذہبیت) کے خلاف پیدا ہوئی۔ جہاں سرمایہ داری نظام نے جاگیرداری کے خلاف ہر محاذ پر جنگ کی تو وہاں تجربیت فکر کی ہر جہت میں مذہبیت سے برسرِ پیکار رہی۔ ایک طرف جاگیر داری نظام اور مذہبی اشرافیہ کے حمایتی ماہرِین الٰہیات اور ”فلسفی“ موجود تھے تو دوسری طرف ابھرتی ہوئی سرمایہ داری اور اس کی آئیڈیالوجی کے حمایتی فلسفی بھی موجود تھے۔ بابائے لبرل ازم جان لاک نے اس وقت اپنا تجربیت کا فلسفہ پیش کیا جب سترھویں صدی میں برطانیہ میں جان سمتھ جیسے ماہرِین الٰہیات مسیحیت کے دفاع میں افلاطون کے اعیان کے زیر اثر مسیحیت کا دفاع کر رہے تھے۔ جان سمتھ اپنے ایک “ڈسکورس” بعنوان ”روح کی لافانیت“ میں لکھتا ہے کہ ”انصاف، بصیرت، اچھائی، سچ، ابدیت سمیت تمام اخلاقیات“ انسان کے اندر وہبی (Innate) طور پر موجود ہیں۔ اس سے الٰہیاتی مفکرین مذہب اور خدا کے لیے گنجائش نکالتے تھے۔ اگر انصاف، سچ اور نیکی جیسے تصورات ابدی طور پر انسان کے اندر موجود ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ کوئی ’ہستی‘ بھی موجود ہے جس نے یہ تصورات انسان کے اندر رکھے ہیں۔ جان مزید سمتھ لکھتا ہے کہ حالات خواہ کچھ بھی ہو جائیں، اس کے باوجود ان تمام اقدار کا احساس انسان کے اندر موجود رہتا ہے۔ یعنی یہ اقدار انسان کے اندر سے محو نہیں ہوتیں۔ جان سمتھ خے فکری مغالطے تو بے شمار ہیں جن میں بنیادی یہ ہے کہ اس نے انسان کو بنی بنائی شے سمجھ لیا ہے، تاہم یہاں مجھے صرف سمتھ پر تجربی تنقید کو پیش کرنا مقصود ہے۔

بابائے لبرل ازم جان لاک نے جان سمتھ کے ان نکات کا جواب انتہائی مدلل انداز میں دیا۔ لاک کا بنیادی مقدمہ تو یہ ہے کہ ”وہبی“ خیالات کا کوئی وجود ہی نہیں ہے، بلکہ پیدائش کے وقت انسان کا ذہن خالی ہوتا ہے۔ یعنی ایک ایسے صفحے کی مانند جس پر کچھ بھی لکھا ہوا نہ ہو۔ تجربہ وہ بنیادی شے ہے جس کے آغاز کے ساتھ انسان کے ذہن میں نقوش بننا شروع ہوتے ہیں۔ جان لاک نے جان سمتھ کی ”ابدی اقدار“ والی دلیل کا ابطال کیا۔ لاک نے یہ نکتہ پیش کیا کہ اگر تمام اقدار ابدی طور پر انسان کے اندر موجود ہیں تو پھر یہ اقدار عہد وحوش کے انسان اور معذور لوگوں میں بھی موجود ہونی چاہییں، مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ان تمام اقدار کا ارتقا ہوتا ہے اور ہر انسان میں ان اقدار کے بارے میں مختلف خیالات پائے جاتے ہیں۔ یہ طویل بحث ہے جس کی گہرائی میں جانے کا یہ مناسب موقع نہیں ہے۔ یہاں پر صرف یہ کہنا مقصود ہے کہ تجربیت جو کہ سرمایہ داری نظام کی آئیڈیالوجی ہے اس نے جاگیر داری کی آئیڈیالوجی (مذہب) کے خلاف ایک فیصلہ کُن جنگ لڑی اور جہاں سرمایہ داری نظام نے جاگیرداری کو شکست دی تو وہاں تجربیت صنعتی سماج کا غالب ”نظریہ علم“ بن کر ابھرا اور مذہبی “نظریہ علم اور اخلاق” کو منہدم کر دیا۔ لاک کے فطری آزادی کے فلسفے سے بھی یہی مراد تھی کہ انسان کے اندر خیالات و اقدار وہبی طور پر نہیں پائے جاتے، بلکہ بنیادی حیثیت ہماری حسیات کو حاصل ہے۔ کیونکہ اگر یہ اقدار وہبی ہیں تو آزادی اور انفرادیت کا سوال ہی نہیں اٹھتا۔ لہذا جہاں سرمایہ داری نظام، جو کہ ایک انقلابی نظام کے طور پر وجود میں آیا تھا، نے جاگیرداری نظام کو منہدم کیا تو وہاں تجربیت بھی ایک بے پناہ انقلابی فلسفے کو طور پر سامنے آیا، جس نے مذہبی “نظریہ علم و اخلاق” کو ملیا میٹ کر دیا۔ جاگیرداری اور مذہبی اقدار کو منہدم کرنا ایک عظیم کارنامہ تھا۔ جہاں سماجی و سیاسی سطح پر ارتقا ہوتا ہے تو وہاں فلسفیانہ خیال بھی نشو و نما کے مختلف مراحل سے گزرتا ہے۔ تجربیت کے بطور نظریہ علم وجود میں آنے کے بعد اس میں تنقید، ترمیم اور اضافے کا ایک سلسلہ شروع ہوا اور سرمایہ داری کے ترقی پسندانہ کردار کے ساتھ تجربیت بھی مختلف شکلیں اختیار کرتی چلی گئی۔ تجربیت آج بھی سرمایہ داری کی آئیڈیالوجی ہے جو نظریہ علم کے طور پر شروع ہوئی اور بعد ازاں اخلاقی اقدار میں ڈھل گئی۔ انفرادیت، آزادی، انصاف، رواداری اور عقل کی بالادستی لبرل ازم کے امتیازی وصف کہلائے۔ انفرادیت کیا ہے؟ انصاف کسے کہتے ہیں؟ مثبت اور منفی آزادی میں کیا فرق ہے؟ اور عقل کی خود مختارانہ فعلیت سے متعلق سوالات کا فلسفیانہ جواب فراہم کرنا روشن خیالی پروجیکٹ کا بنیادی منشور ہے۔ روشن خیالی اور لبرل ازم ایک دوسرے میں اس طرح سرایت کیے ہوئے ہیں کہ انہیں الگ کرنا ناممکن ہے۔ روشن خیالی کیا ہے؟ اس سوال کا جواب کانٹ نے یوں دیا ہے:

”روشن خیالی، انسان کا خود اپنے آپ پر مسلط کردہ طفولیت سے جان چھڑوانہ ہے۔ کسی دوسرے کی رہنمائی کے بغیر اپنی تفہیم کو بروئے کار نہ لانا ہی طفولیت ہے۔۔۔۔ سوچنے کی ہمت پیدا کرو، اپنے ذاتی فہم کو استعمال کرنے کی جرأت کرو، بس یہی روشن خیالی کا دستور العمل ہے۔“

تجربیت سے عقلیت تک کا فکری سفر انتہائی پیچیدہ، بعض اوقات مبہم اور مشکل ہے۔ تاہم یہ حقیقت ہے کہ جو انسان روشن خیالی کی کانٹین تعریف پر پورا نہیں اترتا وہ روشن خیال نہیں ہے، اور جو شخص انفرادیت، آزادی، انصاف، رواداری اور عقل کی سربلندی کا قائل نہیں ہے اسے لبرل نہیں کہا جا سکتا۔ ان معنوں میں ہر عقیدہ پرست ایک رجعت پسند انسان ہوتا ہے۔ کیونکہ روشن خیالی، عقل کے استعمال کے حوالے سے، مذہبی عقائد کی موت پر استوار ہے۔ جو احباب دوسروں سے روشن خیال اور لبرل ہونے کا تقاضا کرتے ہیں، وہ خود ردِ روشن خیالی اور ردِ لبرل ازم کے داعی ہیں، کیونکہ ان کا ہر عمل روشن خیالی اور لبرل آئیڈیالوجی کے خلاف ہے۔

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں