Home » مسلم یہود تعلقات کا ماضی، حال اور مستقبل
تہذیبی مطالعات

مسلم یہود تعلقات کا ماضی، حال اور مستقبل

ابو الحسین آزاد

یہودیوں اور مسلمانوں کے تعلقات کی کہانی بھی عجیب ہی ہے۔ عہدِ رسالت کے خدائی تازیانوں کے بعد یہودیوں کی بڑی تعداد مسلم دنیا ہی میں مقیم رہی۔ ان میں سے بعض لوگوں کا کردار تعمیری نہیں تھا، لیکن یہ ایک محدود تعداد تھی۔ مجموعی طور پر اموی اور عباسی عہد میں اقلیتوں کو درباروں تک رسائی ملی تو یونانی علوم کے تراجم اور توسیع میں یہودیوں کا نمایاں کردار رہا۔ ان میں بہت سے ایسے لوگ تھے جو ماہر طبیب، فلسفی اور سائنس دان تھے۔ ایک طویل عرصے کی ہجرتوں کے تسلسل اور اذیتوں کے بعد انھوں نے اسلامی تہذیب میں امن اور قرار کا زمانہ دیکھا۔ غالبا 70ء کے بعد بڑی تعداد کو یروشلم کی زیارت کی توفیق بھی تب ملی جب حضرت عمر بن خطاب نے اسے فتح کیا۔
قرون وسطی میں ان کے مسلمانوں اور مسیحیوں کے ساتھ تعلقات کے فرق کو بیان کرتے ہوئے برٹرینڈ رسل لکھتے ہیں:
“مسیحیت نے بڑی شدت سے یہودیت کی مخالفت کی۔۔۔۔ یہودیوں کو اتنی شدید اذیتیں دی گئیں کہ وہ تہذیب میں اضافہ کرنے کے قابل ہی نہ رہے۔۔۔۔ اس زمانے میں، یہ صرف مسلمان ہی تھے جنھوں نے یہودیوں کے ساتھ رحم دلی کا سلوک کیا۔ اس کے باعث وہ اس قابل ہوئے کہ فلسفہ اور روشن فکر حاصل کر سکیں۔ قرون وسطی کے پورے عہد میں مسیحیوں کی بہ نسبت مسلمان زیادہ مہذب اور زیادہ رحم دل تھے۔ مسیحی، یہودیوں کو خصوصاً مذہبی جوش کے مواقع پر اذیتیں دیتے تھے۔۔۔۔۔اس کے برعکس مسلم ممالک میں یہودیوں کے ساتھ اکثر اوقات کبھی بھی کسی طرح کی بدسلوکی نہیں کی گئی۔” (A        History        of          Western             Philosophy )
مسلم ممالک میں یہودیوں کے ساتھ رواداری کی نوبت یہاں تک آ پہنچی تھی کہ بعض دفعہ کسی علاقے میں دولت، شاہی دربار اور تجارت کے تمام امور پہ اصلا انھی کا کنٹرول ہوتا تھا۔ فاطمی عہد کا ایک شاعر کہتا ہے:
يا أهل مصر إني نصحت لكم
تهودوا فقد تهود الملك
“اے اہل مصر! میری نصیحت تو یہ ہے کہ یہودی بن جاؤ کیوں کہ یہ ملک تو یہودی بن چکا ہے۔”
عباسی سلطنت کے زوال کے بعد یہودیوں کی بڑی تعداد مسیحی یورپ ہجرت کر گئی تاہم “موروں” کے اندلس میں وہ اس وقت تک باقی رہے جب کہ فرڈیننڈ کے ہاتھ پہ غرناطہ کا سقوط نہیں ہو گیا۔ یہودی آج بھی اس عہد کو اپنی تاریخ کے سعید ترین ایام میں شمار کرتے ہیں۔ نیز سلطنتِ عثمانیہ میں بھی انھوں نے مسیحی یورپ کی بہ نسبت خود کو عزت و احترام اور رواداری کی فضا میں پایا۔ اس دورانیے میں انھوں نے عربی علوم، اسلامی علمِ کلام اور تہذیب سے جتنا شدید تاثر قبول کیا اس کی روداد ایک الگ مضمون کی متقاضی ہے۔
جو گروپ مسیحی یورپ میں رہے انھوں نے شاید ہی ایمسٹرڈیم کے علاوہ کہیں رواداری کا ماحول پایا ہو۔ تاہم ایمسٹرڈیم کے حالات کا تقابل اگر اندلس سے کیا جائے تو بہت فرق نظر آتا ہے۔ مالک بن نبی لکھتے ہیں کہ اندلس میں ابن نارجیلہ نام کے ایک یہودی نے قرآن اور اسلام پر شدید اعتراضات پہ مشتمل ایک کتاب لکھی لیکن کسی نے اسے قتل کیا نہ ہی محاسبے کے لیے بلایا۔ تاہم ابن حزم نے علمی اور شدید تنقیدی جواب ضرور دیا۔ اس کے برعکس ول ڈیورانٹ کے بقول ایمسٹر ڈیم میں جب اسپینوزا نے یہودی الہیات کی جدید وحدۃ الوجودی تشریح کی، جس سے مسیحی الہیات میں بھی “بدعت” کا راستا کھلتا تھا تو یہودی اسے دین اور قوم بدر کرنے پر مجبور ہو گئے کیوں کہ انھیں اپنے مسیحی میزبانوں کی “قوتِ برداشت” کا بخوبی اندازہ تھا۔
یہ صورت حال بیسویں صدی کے آغاز تک قائم رہی، وہی بیسیویں صدی جس میں ہٹلر اور مسولینی جیسے طالع آزما پیدا ہوئے۔ گولڈ زیہر جسے بہت سے لوگ اس کی “اسلام دشمنی” کی وجہ سے جانتے ہیں، کا موازنہ اگر اس سے ما قبل کے مسیحی مستشرقین سے کیا جائے تو وہ اچھا خاصا اسلام کا وکیل معلوم پڑتا ہے۔ گولڈ زیہر یورپ بھر میں اپنی قوم کے ساتھ ہونے والی نا انصافی اور امتیازی سلوک کو دیکھ رہا تھا، اس نے اسلامی دنیا میں اپنے لیے رواداری اور وسعت ظرفی کا مثالی مظاہرہ دیکھا، یہی چیز اس بات کا محرک ہوئی کہ وہ (علمی غلطیوں کے باجود) پیش رو مستشرقین کے برعکس دانتے کے اثر تلے دبے مسیحی مغرب کے سامنے اسلام کی مثبت اور باوقار تشریح پیش کرے۔
یہ تو برطانیہ کی کرم فرمائی ہے کہ اس کے سبز قدم جہاں پڑے ہیں وہاں خون کی لکیریں کھنچتی چلی گئیں۔ یہودیوں کے وطن کے مسئلے کو یورپ نے اس بھیانک انداز میں حل کیا کہ ہمیشہ کے لیے مشرقِ وسطی کے سینے میں ناسور چھوڑ دیا۔ انھیں نگرانی کے لیے کتا چاہیے تھا سو یہ خدمت ایک نام نہاد ریاست قائم کر کے حاصل کر لی۔ طویل صدیوں کے بعد مسلمانوں میں قومی سطح پر یہودیوں سے تعلقات پچھلی صدی کے وسط میں آکر خراب ہوئے ہیں اور تا حال یہ سلسلہ چل رہا ہے۔ اگرچہ اس دشمنی کی بہت سی مابعد الطبیعیاتی تفسیریں بھی موجود ہیں لیکن اس واضح منظر نامے سے انکار کرنے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے۔ بارہ صدیوں کی رواداری کا اتنا گھٹیا صلہ شاید ہی کسی قوم نے دیا ہو جتنا انھوں نے مسلمانوں کو دیا۔ مستقبل میں یہ تعلقات کیا رخ اختیار کرتے ہیں اس کا فیصلہ ما بعد الطبیعات کے ساتھ ساتھ فلسطینی ریاست کے قیام پر بھی منحصر ہے۔ تاریخ، سے کسی بھی اچھنبے کی توقع کی جا سکتی ہے۔
ایک زمانہ تھا جب سکھوں نے اپنے گرو گرنتھ میں قرآن کی آیتیں اور بابا فرید کی کافیاں شامل کیں۔ ایک بڑے گرو جی کے پیچھے دشمن لگے تو انھوں نے مسلمان صوفی کے ہاں آ کر پناہ لی۔ خانقاہ میں نیل کے مٹکے پڑے تھے، گرو جی اور ان کے شاگردوں کو اس میں چھپا دیا گیا، گرو جی کی جان بچ گئی، وہ بعد میں باہر نکلے تو کپڑے نیل سے رنگے جا چکے تھے۔ انھوں نے مسلمان صوفی کے شکریے کے طور پر نیل والے رنگ کے کپڑے پہننے کو مذہبی رسم کی حیثیت دے دی۔
حالات کے پلٹا کھایا اور مسلمانوں اور سکھوں کے تعلقات کشیدہ ہو گئے، پنجاب میں سکھ سلطنت کا قیام اس کا نقطۂ آغاز تھا، سید احمد کے جہاد سے ہوتی ہوئی بات تقسم تک آئی تو سکھوں نے مسلمان مہاجرین کے ساتھ وہ کچھ کیا جس کے واقعاتی بیانات پنجاب کی تقسیم کی کسی بھی تاریخ میں اور تصویری بیانات منٹو وغیرہ کے افسانوں میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ تقسیم کے بعد ایک تیسرا مرحلہ شروع ہو جاتا ہے جس میں ہندو اکثریت سکھوں کی علیحدہ شناخت سے منکر ہو جاتی ہے، سکھوں کے مقدس مقامات پاکستانی پنجاب میں آ جاتے ہیں، تقسیم کی لکیر کھنچ جانے کے بعد پنجابی زبان اور قومیت کا رومان تھوڑا مزید بڑھ جاتا ہے اور خالصتان کی سپورٹ پاکستان کی سیاسی پالیسی کا اٹوٹ انگ بن جاتی ہے، اس سب کے نتیجے میں سکھوں اور مسلمانوں کے مابین تعلقات کے ایک نئے دور کا آغاز ہو جاتا ہے جسے 2025ء کی جنگ بھی اپنی جگہ سے سرِ مو جنبش نہیں دے سکی۔
کیا مشرق وسطی میں بھی ایسا ہی ہوگا؟ دیکھیں تاریخ، سیاست اور مابعد الطبیعیات کی یہ جدلیات کای نتیجہ پیش کرتی ہیں؟ طیب اردوان نے اپنی ایک تقریر میں کہا تھا: “جب یورپ تم سے دست بردار ہو جائے گا تب تمھیں پناہ کے لیے پھر ہماری ضرورت پڑے گی۔

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں