سوالات:
1. عورتوں کے لیے مسجدوں میں جاکر نماز پڑھنا افضل ہے یا اپنے گھروں میں؟ اگر عورتوں کا اپنے گھروں میں نماز پڑھنا افضل ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں عورتیں مسجد کی نماز میں کیوں شریک ہوتی تھیں؟
2. جن احادیث میں یہ بیان فرمایا گیا ہے کہ عورتوں کے لیے افضل یہی ہے کہ اپنے گھروں میں نماز پڑھیں، ان سے یہ استدلال کرنا کہ شریعت اس بات کو پسند کرتی ہے کہ عورتیں اپنے گھروں میں ہی ٹک کر رہیں اور باہر نکلنے سے پرہیز کریں کس حد تک درست ہے؟
3. رسول اللہ کے زمانے میں بھی اور آج بھی جو عورت با جماعت نماز کے لیے مسجد جاتی ہے کیا اس کے مقابلہ میں گھر میں رہ کر نماز پڑھنے والی خاتون زیادہ افضل کام کرتی ہے اور زیادہ اجر کی مستحق ہوتی ہے؟
جواب:
تمام احادیث کو سامنے رکھا جائے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایک طرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اصولاً خواتین کے لیے، احتیاطی آداب کی پابندی کے ساتھ مسجد میں باجماعت نماز میں شرکت کی گنجائش واضح فرمائی اور صحابہ کو انھیں اس سے روکنے سے منع فرمایا، اور دوسری طرف شخصی سطح پر خواتین کو ترغیب دی کہ وہ اگر گھر میں ہی نماز ادا کریں تو یہ زیادہ باعث اجر ہے۔ اس کی حکمت یہ معلوم ہوتی ہے کہ بنی اسرائیل کی شریعت سے امتیاز قائم ہو جائے جس میں خواتین کا عبادت گاہ کے مرکزی حصے میں جانا ممنوع ٹھہرایا گیا تھا۔ یعنی قانون یہ نہ سمجھا جائے کہ خواتین مسجد میں نہیں آ سکتیں، البتہ انفرادی طور پر گھر میں نماز ادا کرنے کی فضیلت واضح کی گئی تاکہ ایک تو سبھی خواتین باجماعت نماز کا التزام نہ شروع کر دیں اور دوسرا جو گھر میں پڑھنا چاہیں، انھیں یہ احساس نہ ہو کہ وہ زیادہ اجر سے محروم ہو رہی ہیں۔
مذکورہ وضاحت سے یہ سمجھنے میں بھی مدد ملتی ہے کہ شریعت کی نظر میں خواتین کی صنفی نزاکتوں اور گھریلو ذمہ داریوں کے پیش نظر گھر میں عبادت افضل ہونے کے باوجود اگر ان کے لیے مسجد میں آنے جانے کی اجازت کو اصولاً قائم رکھا گیا ہے اور کئی ظاہری موانع کے باوجود اس کو ختم نہیں کیا گیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ خواتین کو گھر تک محدود رکھنا بنیادی مقصد نہیں ہے۔ تمدن کے لحاظ سے جو بھی عمومی سماجی ضرورتیں اور تقاضے ہوں، ان کے لیے بیرون خانہ سرگرمیاں بھی وہی حیثیت بلکہ ان سے زیادہ عملی ناگزیریت رکھتی ہیں جو مسجد میں باجماعت نماز ادا کرنے کی ہے۔
جہاں تک گھر میں یا مسجد میں نماز کے افضل ہونے کا تعلق ہے تو کسی عمل کی افضلیت کوئی مطلق چیز نہیں ہوتی، بلکہ مختلف حالات میں مختلف امور کے لحاظ سے اضافی ہوتی ہے۔ مثلاً جہاد ایک بہت افضل عمل ہے، لیکن اگر والدین خدمت کے طلبگار ہوں تو ان کی خدمت زیادہ افضل ہے۔ خواتین کی نماز کو گھر میں افضل قرار دینے میں بھی کئی امور کا لحاظ ہے، مثلاً راستے میں یا مسجد میں مردوں کے لیے مرکز نگاہ بننے کا امکان اور گھر کی ذمہ داریوں میں خلل واقع ہونے کا اندیشہ وغیرہ۔ ان پہلووں سے عورت کا گھر میں نماز ادا کرنا افضل ہے۔ لیکن اگر عبادت گاہ کے تقدس، باجماعت نماز کے اجر اور مسجد میں درس اور وعظ وغیرہ سننے کے پہلووں کو مدنظر رکھا جائے تو مسجد میں عبادت کرنا زیادہ موجب فضیلت ہے۔
ان دونوں پہلووں میں ترجیح خواتین کی صورت حال کے لحاظ سے قائم ہو سکتی ہے۔ اگر خواتین کی گھریلو ذمہ داریاں متاثر نہ ہوں، مسجد آنے جانے میں کوئی عملی مشکل حائل نہ ہو اور مسجدوں میں بھی ان کے لیے کوئی الگ جگہ مخصوص کر دی گئی ہو تو ان کے لیے مسجد میں باجماعت نماز کا اجر حاصل کرنا زیادہ افضل ہوگا۔ اگر مذکورہ موانع میں سے کوئی مانع پایا جاتا ہو تو پھر خود کو یا اہل خانہ کو کسی مشکل میں ڈالنے کے بجائے گھر میں ہی نماز ادا کرنا زیادہ باعث فضیلت ہوگا۔ حدیث میں دراصل انھی پہلووں کو مدنظر رکھتے ہوئے خواتین کو ترغیب دی گئی ہے کہ وہ عام حالات میں گھروں میں ہی نماز ادا کر لیا کریں تو اس کا انھیں زیادہ اجر ملے گا۔
کمنت کیجے