
وحید مراد
انسانی فکر حقیقت تک پہنچنے کے لیے ہمیشہ مختلف راستے تلاش کرتی رہی ۔ مغربی دنیا میں سماج، طاقت، سیاست اور سچائی کو سمجھنے کے لیے بنیادی طور پر دو بڑے فریم ورک سامنے آئے۔ ایک وہ جسے عام طور پر روایتی یا کلاسیکی نقطۂ نظر کہا جاتا ہے اور دوسرا کریٹیکل تھیوری۔ یہ دونوں ایک ہی تہذیبی ورثے سے جنم لیتے ہیں لیکن ان کی سمت، مقاصد، منطق، ترجیحات اور نتائج ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ ان کے مقابل اسلامی فکری منہج ایک بالکل مختلف ماخذ اور نقطۂ نظر رکھتا ہے اس لیے ان تینوں کا تقابل اور امتزاج علمی احتیاط، تاریخی وضاحت اور فکری شفافیت کا متقاضی ہے ۔
روایتی یا کلاسیکی نقطۂ نظر کے نزدیک علم کی ابتدا آئیڈیئلز ،اصولوں اور اقدار سے ہوتی ہے۔ پہلے فکری سانچے قائم کیے جاتے ہیں پھر حقیقت کو انہی سانچوں کے مطابق پرکھا جاتا ہے۔ اس روایت میں حقیقت کا جائزہ اس زاویے سے لیا جاتا ہے کہ اسے کس حد تک اصولی قالب میں ڈھالا جا سکتا ہے۔ یہاں علم کی حیثیت نسبتاً غیر جانب دار ہے اور سچائی کا سرچشمہ عقل اور فلسفہ کو مانا جاتا ہے۔ تاریخی طور پر یہ روایت افلاطون و ارسطو اور ان کے فکری وارثین کی اخلاقی حکمت، منطقی گہرائی اور کائناتی اصولوں سے جڑی ہے۔ یہ واضح رہنا ضروری ہے کہ “روایتی تھیوری”ایک مخصوص تکنیکی اصطلاح بھی ہے جس کا ہر علمی شعبے میں مخصوص مفہوم ہے لہٰذا کلاسیکی فلسفے کے تصورات کو سوشل سائنس کی روایتی تھیوری سمجھ لینے سے معنی اور اصل سیاق گڈ مڈ ہوسکتے ہیں ۔
کریٹیکل تھیوری کے نزدیک آغاز اصول سے نہیں بلکہ موجودہ سماجی حقیقت، طاقت اور اداروں کے تجزیے سے ہوتا ہے۔ طاقت کے مراکز، رائج اداروں کے دعوے اور سماجی ڈھانچوں کی تہہ میں چھپے ہوئے جمود اورمفادات کو بے نقاب کرنا اس کا بنیادی کام ہے۔ فرانکفرٹ اسکول سے فوکو تک مفکرین نے دکھایا کہ کس طرح معاشی، ثقافتی اور ادارتی نظام طاقت کے تسلط کو جنم دیتے ہیں اور انسان بظاہر آزاد ہونے کے باوجود نظریاتی جکڑ بندیوں کا قیدی بن جاتا ہے۔ کریٹیکل تھیوری کا مقصد صرف تشریح نہیں بلکہ جبر کی نقاب کشائی، طاقت پر سوال، شعور کی بیداری اور سماجی تبدیلی کی سمت متعین کرنا ہے۔ یہاں نظریہ محض تشریح کا ذریعہ نہیں بلکہ مزاحمت اور تبدیلی کا آلہ بھی ہے۔اس کا “باید” اخلاقی کم اور انقلابی زیادہ ہے۔
کریٹیکل تھیوری بذاتِ خود مذہب دشمن نہیں لیکن یہ مذہب کو الہامی سمجھنے کےبجائے اسے سماجی و تاریخی مظہر کے طور پر دیکھتی ہے۔ مذہب اور اخلاقیات کی تحلیل کرنا اس کے تجزیے کا فطری نتیجہ ضرور ہے لیکن مذہب کی نفی اس کا مقصد نہیں۔ یہ حقیقت واضح رہے کہ اس روایت میں اصول انسانی تاریخ سے بنتے ہیں، آسمانی ہدایت سے نہیں۔ یوں نہ مذہب اس کا رفیق ہے، نہ اس کی اخلاقیات کا منبع۔ اس کا مقصد تقدس کی تشکیل نہیں بلکہ ہر مقدس دعوے کی تاریخی و سماجی تشکیل کا تجزیہ کرنا ہے۔ اس لیے اس کا مقصد مذہبی یا اخلاقی تطہیر نہیں بلکہ سماجی شعور کو طاقت کے جبر سے آزاد کرنا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی بیانیہ، ادارہ یا روایت خواہ وہ مذہب ہی کیوں نہ ہوکریٹیکل تھیوری کے تنقیدی دائرے سے باہر نہیں رہ سکتا۔ ہمارے ہاں بعض اہل فکر بظاہر شریعت یا احیاے دین کی بات کرتے ہیں لیکن پسِ پردہ کریٹیکل تھیوری کے تجزیاتی اوزار استعمال کرتے ہیں۔ وہ یہ کام بے خبری میں نہیں بلکہ ایک حکمت عملی کے تحت کرتے ہیں تاکہ جدید علمی دبستانوں کی زبان میں اپنے مذہبی مقدمات اور” ہست” کے تجزیے کو زیادہ وزنی بنا سکیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ کریٹیکل تھیوری کا مقصد کسی مذہبی پوزیشن کی تائید نہیں بلکہ ہر دعویٰ تقدس کو تاریخی جبر کے تناظر میں کھول کر دیکھنا ہے۔ اس لیے جب اسے دینی تناظر میں استعمال کیا جاتا ہے تو چاہے مقصد اصلاح ہی کیوں نہ ہو، منطق وہی چلتی ہے جو آخرکار تقدس کے ہر دعوے کو سوال کے کٹہرے میں لے آتی ہے۔
اسلامی فکری منہج کا سرچشمہ وحی اور نبوی ہدایت ہے۔ دنیا کیا ہے؟ کا علم تجربے اور مشاہدے سے حاصل ہوتا ہے لیکن دنیا کیسی ہونی چاہیے؟ کا فیصلہ وحی کرتی ہے۔ اس لیے اصولی طور پر اسلامی روایت میں “ہست”اور “باید”کے درمیان نہ کوئی خلا پیدا ہوتا ہے نہ تضاد۔ عقل اور تجربہ اس نظام میں معاون کی حیثیت رکھتے ہیں، متبادل کی نہیں۔ تاہم عملی طور پراسلامی فکر بھی یک رخی اور یک جہتی روایت نہیں۔ اس میں عقل، تجربہ، تاریخ اور نصوص کے باہمی تعامل کا ایک طویل سلسلہ موجود ہے ۔ اس روایت نے یونانی فکر کو جذب کیا، فلسفہ اور منطق کو اسلامی مباحث کا حصہ بنایا اور فقہ، کلام اور تصوف میں متنوع مکاتبِ فکر پیدا کیے۔ نظریاتی و علمیاتی تنوع اسلامی فکری روایت کی تاریخ کا حصہ ہے۔
ان تینوں پیراڈائمز کا بنیادی امتیاز سچائی کے ماخذ کا ہے۔ روایتی تھیوری عقل کو بنیاد بناتی ہے، کریٹیکل تھیوری تاریخ اور طاقت کو جبکہ اسلامی فکر وحی کو۔ بظاہر ان تینوںمیں کچھ مماثلتیں بھی دکھائی دیتی ہیں مگر ان کے راستے، زاویے، اور مقاصد ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ کسی ایک روایت کے “ہست” سے دوسرے کا “باید”ثابت نہیں ہوتا۔ سماجی مزاحمت کا “باید” ایمانی یا اخلاقی “باید” کا متبادل نہیں بن سکتا۔ ہر پیراڈائم اپنی داخلی منطق، اصول اور حدود رکھتا ہے اس لیے انہیں بغیر وضاحت کے آپس میں گڈمڈ کر دینا یا ایک کو دوسرے میں جذب کر دینا فکری دُھند پیدا کرتا ہے نہ کہ رہنمائی ۔ اگر ماخذات پوشیدہ رکھتے ہوئے اصطلاحات اس انداز میں استعمال ہوں کہ وہ اسلامی فکر کا حصہ معلوم ہوں تو یہ خلطِ مبحث اور ذہنی انتشار دونوں کا سبب بنتا ہے۔
کچھ مقامی اہلِ فکر بیک وقت مغرب کے ناقد بھی ہیں اور انہی کے فکری اسالیب، اصطلاحات اور استدلال بھی استعمال کرتے ہیں۔ یہ مقامی مفکرین جب ان تھیوریوں کے اصل ماخذ، حدود اور فکری مقاصد واضح کیے بغیر انہیں اسلامی تناظر میں برتنے کی کوشش کرتے ہیں تونہ روایتی عقل اپنی جگہ قائم رہتی ہے، نہ کریٹیکل تھیوری کا وزن برقرار رہتا ہے اور نہ اسلامی فکر کی اصل شناخت محفوظ رہتی ہے۔ تنقیدی اصطلاحات میں مذہبی اصولوں کو بیان کرنا یا مذہبی سچائیوں کو سماجی طاقت کے تجزیے میں تحلیل کرنا فکری انتشار پیدا کرتا ہے ۔
اسی لیے جب بھی کوئی نظریہ، ماڈل یا تجزیاتی فریم ورک استعمال کیا جائے تو سب سے پہلے یہ بتانا ضروری ہے کہ اس کا علمی ماخذ کیا ہے۔اس کا تاریخی پس منظر، اس کی غایت، اس کی فکری حدود اور اس کا اصل سیاق کیا ہے۔ عصرِ حاضر میں مغربی سائنس، سیاست اور ٹیکنالوجی کا دبستان اپنی طاقت رکھتا ہے، اسے سمجھنا ناگزیر ہے۔ لیکن سمجھنا اور اختیار کرنا دو الگ چیزیں ہیں اور اس فرق کا برقرار رہنا ہی ایمان اور دانش کا تقاضا ہے۔اسلام نہ مکمل ترک اور رد کا داعی ہے نہ اندھی تقلید کا، اس کا اصول انتخاب، تنقید اور توازن ہے۔ مگر انتخاب اور امتزاج اسی وقت ممکن ہوتا ہے جب علمی ماخذ، مقاصد، حدود اور اصول پوری دیانت کے ساتھ کھول کر بیان کیے جائیں اور یہ معلوم ہو کہ ہم اپنی فکری بنیاد کہاں رکھتے ہیں۔بصورتِ دیگر یہ امتزاج نہیں، فکری آمیزش بن جاتی ہے جو نہ سمجھ بڑھاتی ہے اور نہ کسی سمت میں رہنمائی کرتی ہے۔




کمنت کیجے