الرسالہ کے اس اقتباس میں امام شافعی واضح کر رہے ہیں کہ دین میں جب ہم کسی بات کے ’’حجت’’ ہونے کی تعبیر اختیار کرتے ہیں تو اس کے مفہوم مختلف ہوتے ہیں۔ وہ دینی احکام جو کتاب اللہ کی واضح نص سے اور مجمع علیہ سنت سے ثابت ہوں، ان کا حجت ہونا قطعی ہے اور کسی مسلمان کے لیے ان میں شک کرنے کی کوئی گنجائش نہیں اور جو ان کو قبول کرنے سے انکار کرے، اس کو توبہ کے لیے کہا جائے گا، یعنی اس کی تکفیر یا تضلیل جائز ہوگی۔ لیکن اگر اخبار آحاد سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی ارشاد یا عمل نقل ہوا ہے تو اس میں چونکہ روایات مختلف بھی ہوتی ہیں، تاویل کا بھی احتمال ہوتا ہے اور ثبوت بھی انفرادی نقل وروایت سے ہوتا ہے، اس لیے اس کے ’’حجت’’ ہونے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اہل علم کو انھیں لازماً قبول کرنا چاہیے، جیسا کہ دو عادل گواہوں کی گواہی کو قبول کرنا لازم ہوتا ہے، لیکن ان سے کتاب اللہ اور متواتر سنت جیسا یقینی علم حاصل نہیں ہوتا۔ اسی لیے اگر کوئی اخبار آحاد کے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثبوت میں شک ظاہر کرے تو ہم اس کو توبہ کرنے کے لیے نہیں کہیں گے۔ بس یہ کہیں گے کہ اگر تم صاحب علم ہو تو تمھارے لیے شک کرنا روا نہیں۔ تمھیں ان کو ایسے ہی قبول کرنا چاہیے جیسے عادل گواہوں کی ظاہری سچائی کی بنیاد پر ان کی گواہی قبول کرتے ہو، اگرچہ اس میں غلطی کا امکان ہوتا ہے۔
تاہم امام صاحب جو واقعاتی صورت حال بیان کر رہے ہیں، وہ تدوین حدیث سے پہلے کے دور کی ہے۔ تدوین حدیث کا عمل مکمل ہو جانے کے بعد دو حوالوں سے صورت حال پیچیدہ ہو گئی ہے اور اخبار آحاد کی حجیت کے حوالے سے محدثین کا نقطہ نظر تدریجاً امام شافعی کے اس بیان سے مختلف ہوتا چلا گیا ہے۔ ایک تو یہ کہ تدوین حدیث کے نتیجے میں اخبار آحاد کی ایک بڑی تعداد کے بہت سے طرق اور اسانید جمع ہو گئے ہیں جن سے کسی روایت کے ثبوت میں شک یا اطمینان کی کیفیت وہ نہیں رہتی جو دوسری صدی میں تھی۔ دوسرا یہ کہ کچھ مستند مجموعوں کی عمومی قبولیت پر محدثین اور فقہاء کا ایک عمومی اتفاق پیدا ہو گیا ہے اور کئی پہلووں سے یہ مجموعے متواتر سنت کی تحقیق میں بھی بنیادی اہمیت اختیار کر گئے ہیں۔
ان دونوں پہلووں کے پیش نظر ہماری دینی روایت کا موقف احادیث کی صحت پر سوال اٹھانے یا ان کے ثبوت میں شک وشبہ ظاہر کرنے سے متعلق زیادہ سخت ہوتا چلا گیا ہے۔
کمنت کیجے