عمران شاہد بھنڈر
بیگانگی سمیت کسی بھی تصور، خیال یا سماجی مظہر کی تفہیم کے لیے ضروری ہے کہ ان کے الٹ جو تصورات ہیں انہیں پیش کیا جائے۔ مثال کے طور پر بیگانگی پر بات کرنی ہے تو عدم بیگانگی کو ڈیفائن کر کے اسے بیگانگی سے الگ کرنا پڑے گا۔ اگر کوئی اصرار کرے کہ بیگانگی موجود نہیں ہے تو اسے بیگانگی کی تعریف کرنی ہو گی۔ جب تک بیگانگی اور عدم بیگانگی میں فرق قائم نہ کر لیا جائے اس وقت تک بیگانگی پر بھی تبصرہ نہیں کیا جا سکتا۔ اگر کوئی کہتا ہے کہ سرمایہ داری میں پیداواری فعلیت میں بیگانگی موجود ہے تو اسے یہ بھی بتانا ہو گا کہ عدم بیگانگی کی تشکیل کیسے ہوگی۔
سرمایہ داری میں انسان کا اساسی وجود اس کے اندر نہیں، اس کے باہر ہوتا ہے۔ یعنی انسان اپنے وجود میں موجود جوہر کا اثبات نہیں بلکہ اس کا انکار کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان دوران محنت بیزار ہوتا ہے جیسے اس کے اندر ہی اس کا جوہر دفن ہو چکا ہو۔ وہ اپنی خوشی سے کام نہیں کرتا، بلکہ ایک خاص قسم کے دباو کے تحت کام کرتا ہے۔ لہذا سرمایہ داری نظام میں پیداواری عمل میں ہی بیگانگی کا تصور موجود رہتا ہے۔
دوسرا مرحلہ وہ ہے جب انسان کو اس کی پیداوار سے الگ کر دیا جاتا ہے۔ یہاں اس کی اپنی پیداوار اس کے لیے بیگانہ شکل اختیار کر لیتی ہے۔ یعنی اس کی اپنی پیداوار اس کے مد مقابل ہوتی ہے۔ یہ دوسرا پہلو بھی پہلے ہی کی توسیع ہے کہ سرمایہ داری میں پیداواری فعلیت میں ہی بیگانگی کا تصور موجود رہتا ہے۔
تیسرا پہلو وہ ہے جس میں انسان کا دوسرے انسانوں کے ساتھ رشتہ قائم ہوتا ہے۔ انسان کی اپنی محنت کی پیداوار اس کے سامنے ایک بیگانہ پیداوار کے طور پر ظاہر ہوتی ہے، کیونکہ وہ کسی اور کی ملکیت ہوتی ہے۔ جنس (کموڈیٹی) کیا ہے؟ انسان کی اپنی فعلیت کی اوبجیکٹی فیکیشن ہے، جو ایک بیگانہ پیداوار کے طور پر اس کے مد مقابل کھڑی ہو جاتی ہے۔
آخر میں فرد کا دیگر انسانوں کے ساتھ تعلق بھی بیگانہ وجود کے طور پر سامنے آتا ہے۔ مارکس کا کہنا ہے کہ اشتراکی معاشرے میں فرد اور اجتماعیت متماثل ہیں۔ جبکہ سرمایہ داری میں اس کے الٹ ہے۔ محنت کش فرد اور سرمایہ دار فرد کے مفادات یکسر مختلف ہیں۔
لہذا فلسفہ بیگانگی میں ان سارے مراحل سے بحث کرتے ہوئے انہیں غلط ثابت کرنا ضروری ہے۔ پیداواری عمل، پیداوار اور دوسرے انسانوں سے رشتہ اہم پہلو ہیں جن پر مارکس نے اٹھارہ سو چوالیس کے مسودات میں بحث کی ہے۔
واضح رہے کہ مارکس سے قبل روسو، ہیگل اور فیورباخ بیگانگی کا اعلی تجزیہ پیش کر چکے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمران شاہد بھنڈر صاحب یو۔کے میں مقیم فلسفے کے استاد اور کئی گرانقدر کتب کے مصنف ہیں ۔
کمنت کیجے