Home » الحاد، مذہب اور اہلِ مذہب: چند اہم  سوالات کا جائزہ
کلام

الحاد، مذہب اور اہلِ مذہب: چند اہم  سوالات کا جائزہ

 

ڈاکٹر محمد شہباز منج

یونی ورسٹی آف سرگودھا

مذہب اور الحاد کی فکری  پیکار یوں تو  جاری ہی رہتی ہے، لیکن کرونا وائرس کے تناظر میں آج کل اس  پر بحث کچھ زیادہ ہی  ہو رہی ہے ،اور ہونی بھی چاہیے کہ اس نوعیت کے حالات میں مذہب کے حامی اور مخالف کیمپوں کے عمومی نقطہ ہائے نظر کے ساتھ ساتھ ان کے رویوں سے جڑے  چند اہم مباحث پر گفت گو خصوصی اہمیت اختیار کر لیتی ہے۔ ہم کوشش کریں گے کہ اہم نکات و سوالات  کو لے کر ملحدین کے ساتھ ساتھ اہلِ مذہب کے عمومی رویوں کا بھی تجزیہ کیا جائےتا کہ معروضی انداز سے درست نتائج تک پہنچنے میں سہولت ہو۔

ایک سوال  ملحدین  کی طرف یہ کیا جا رہا ہے کہ  دیکھیں کرونا نے کعبے اور عبادت خانوں کو ویران کر دیا ہے۔ اگر مذہب کی کوئی حقیقت ہوتی ، خدا کہیں موجود ہوتا تو   عام مسجدوں کو چھوڑیں کعبے کو تو ویران ہونے سے بچا ہی لیتا؟یہ مذہبی لوگ کہتے ہیں  ہر چیز  خدا کے  اختیار میں ہے تو کرونا کو کعبے سے دور کہیں روکے نا ، ہم بھی تو دیکھیں خدا کی طاقت!

ملحدین کا یہ اعتراض   محض ایک  جذباتیت اور سطحیت  ہے، جس سے ایک تو یہ واضح ہوتا ہے کہ  وہ  انکار ِ خدا کے معاملے میں اس سے زیادہ  تعصب کا شکار ہیں  جس کا الزام وہ اقرارِ خدا کے معاملے میں اہلِ مذہب پر لگاتے رہتے  ہیں۔ دوسرے یہ کہ  عقل و خرد کو معیارِ استدلال ماننے والے یہ حضرات اس نوع کے سوالات کرتے ہوئے عقل و  خرد کوبالکل ایک طرف رکھ کر محض شاعری سے کام چلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور تیسرے یہ کہ اپنے اس دعوے میں وہ  مذہب کی پوزیشن سے یا تو یکسر ناواقفیت کا مظاہرہ کر رہے  ہوتے ہیں یا پھر اس کو جان بوجھ کر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ کیا مذہب نے کہیں یا دعویٰ کیا ہے کہ عبادت خانوں، مسجدوں یا کعبے کو کوئی ویران نہیں کر سکتا! یاکسی میں یہ طاقت نہیں کہ اس کے گھر کو نقصان پہنچا سکے، یااس میں کوئی غلط کام کر سکے،یا  اس میں کوئی وائرس داخل ہو سکے،یا  اس میں داخل ہونے والا کوئی بندہ بیمار ہو سکے۔ اس طرح کا کوئی دعویٰ مذہب میں سرے سے موجود ہی  نہیں ہے۔مذہب تو اس کے برعکس  واضح طور پر تسلیم کرتا ہے کہ یہ سب کچھ ہو سکتا ہے، اس کے گھر کو نقصان پہنچایا جا سکتا ہے ، کعبے کو گندا کیا جا سکتا ہے۔ بھلا اس کے گھر کو نقصان  نہ پہنچایا جا سکتا ہو تو وہ یہ کیوں کہے کہ کہ اس سے بڑا ظالم کون ہے جو لوگوں کو اس کی مسجدوں میں جانے سے روکے ، اور ان کو خراب کرنے کی کوشش کرے۔(البقرہ:114)ظاہر ہے مذمت اسی فعل کی کی جا سکتی ہے، جو یا تو لوگ کرتے ہوں یا کر سکتے ہوں ۔  اور اگر اس کے گھر کو گندا نہ کیا جاسکتا ہو تو وہ یہ کیوں کہے کہ ہم نے ابراہیم و اسماعیل سے وعدہ لیا کہ وہ  ہمارے گھر کو طواف کرنے والوں ، اعتکاف کرنے والوں اور او رکوع و سجود کرنے والوں کے لیے پاک و صاف رکھیں(البقرہ:125)اگر کعبے کو گندہ نہ کیا جا سکتا تو اس میں تین سو ساٹھ بت خدا کیوں رکھنے دیتا۔حضورﷺ پر کعبے کے اندر کفار کی طرف سے ظلم و زیادتی کیوں ہونے دیتا۔سو  بات یہ ہے کہ  یہ سوال اٹھانے والے مذہب کی اس پوزیشن کو بالکل نظر انداز کر جاتے ہیں کہ اس نے یہ کہا ہی نہیں کہ اللہ کے گھر کو نقصان نہیں پہنچایا جا سکتا یا خراب نہیں کیا جا سکتا۔

جہاں تک اس سوال  کا تعلق ہے کہ اللہ ہر چیز ہر قادر ہے تو اپنے گھر کو نقصان پہنچانے ہی کیوں دیتا ہے؟ تو یہ پھر ایک انتہائی سطحی سوال ہے ،جو مذہب ، انسان ، خدا اور اس دنیا میں انسان کے کردار اور تصورِ آزمائش و امتحان کو نظر انداز کر دینے کا نتیجہ ہے۔بات یہ ہے کہ مذہب کے مطابق اللہ نے اس دنیا میں انسان کو آزمایش کے لیے بھیجا ہے اور اسے  نیک و بد ہر کام  کی  اجازت دی ہے۔ وہ کسی بندے کو کسی برے کام سے زبردستی نہیں روکتا، اگر ایسا کرے تو آزمایش کا سارا فلسفہ ہی فضول قرار پائے گا، حالانکہ مذہب کا بنیادی مقدمہ اور مقصد و منشور ہی یہی ہے۔ ہاں یہاں اس بات کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ اللہ کسی برے کی برائی سے خوش نہیں ہوتا۔مثلاً اس کے گھر کو نقصان پہنچایا تو جا سکتا ہے ، لیکن اس عمل سے وہ خوش نہیں ہوتا ،بلکہ ناراض ہوتا ہے۔ اس کے برعکس جو اس کے گھر کی آبادی کی کوشش کرتا ہے ،اس سے وہ خوش ہوتا ہے۔لیکن ان دونوں قسم کے لوگوں کے عمل کا نتیجہ اس کی مشیت کے مطابق وقوع پذیر ہوتا ہے، اور ایسا ہونا آزمایش کے مذکورہ بنیادی مذہبی تصور کے عین مطابق ہے۔

ملحدین  اپنے زعم میں اہلِ مذہب کے خدا کو ایسا سمجھتے ہیں کہ گویا وہ   اپنے نافرمانوں  کے خلاف برسرِ جنگ ہے۔ اس کو ہر وقت ان لوگوں پر کچیچیاں چڑھ  رہی ہیں، جو اس کے کسی حکم کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔جب  کہ حقیقت اس کے بر عکس ہے ،اور وہ یہ  کہ خدا اپنے بندوں پر بڑا مہربان ہے،وہ نافرمانوں کو بھی موقع دیتا ہے کہ واپس آجائیں۔ کسی سے کتنی غلطیاں ہو گئی ہوں، وہ اس کے حضور حاضر ہو کر معافی کو خواستگار ہو تو وہ  نہ صرف معاف فرما دیتا ہے بلکہ انعام و اکرام سے بھی نوازتا ہے۔ زیادہ سرکش لوگ تو بعض اوقات اس  کی مان لینے کے بعد زیادہ مطیع ہو جاتے ہیں، حتی کہ ان لوگوں سے بھی زیادہ جو پہلے سے نیکی کر رہے ہوں ۔ لہذا  وہ فورا کسی برائی کرنے والے کا ہاتھ نہیں  روکتا۔وہ برائی کو مٹانے سے  خوش ہوتا، برے کو مٹانے سے نہیں۔برے کے حوالے سے تو وہ ہمدردی رکھتا ہے اور پیغمبروں تک کو آخری حد تک جا کر ان کے راہ  راست پر آجانے کے لیے کام کرنے  کی ہدایت کرتا ہے، اور پیغمبر بھی ان کے لیے اتنی ہمدردی رکھتے ہیں کہ خود خدا کو  کہنا پڑتا ہے  کہ آپ تو ان کے راہ راست پر نہ آنے کا تنا غم کر رہے کہ اپنی  جان ہی کو ہلاک کر ڈالنے پر اتر آئے ہیں۔

تو پھر یہ کرونا وائرس یا اس طرح کی بیماریوں اور قدرتی آفات کو اللہ کی ناراضی سے کیوں تعبیر کیا جاتا ہے؟ اس سوال کے حوالے سے  واضح رہے کہ  اس نوع کی بیماریوں کے بارے میں مذہبی موقف یہ نہیں ہے کہ وہ ہر صورت میں  کسی پر عذاب یا اس سے اللہ کی ناراضی ہی کی مظہر ہوتی ہیں۔ ان میں سارے عنصر ہو سکتے ہیں۔ مثلاً یہ کسی کی آزمایش کے لیے بھی ہو سکتی ہیں، حالانکہ اللہ اس سے ناراض نہ ہو، مثلاً اللہ کے نبیوں اور بعض بڑے نیک لوگوں کو اس ذریعے سے آزمایا گیا، حالانکہ اللہ  ان سے پہلے ہی راضی تھا۔ یا  پھر کسی بیمار کے حوالے سے دوسروں کے رویے کے امتحان کا پہلو بھی ان میں شامل ہو سکتا ہے، کہ کسی پر کوئی مصیبت اور بیماری آئے تو دوسرے اس سے متعلق کیا طرز عمل اختیار کرتے ہیں! کبھی یہ بطور عذاب بھی آ سکتی ہیں، جیسا کہ تاریخ میں مختلف قوموں پر عذاب آیا، اس صورت میں یہ اللہ کی ناراضی کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ لیکن عذاب کے لیے ہونے کے حوالے بھی ان  کا ایک خاص پس منظر ہوتا ہے ، اللہ نے اپنی بسیط حکمت کے تحت ان پر عذاب لانا ہوتا ہے۔ کبھی وہ ناراض ہو تو بھی عذاب نہیں دیتا ، مہلت دیتا ہے۔ گویا مختلف حالات میں ایسی وباؤں کی نوعیت  سے متعلق  مذہبی نوعیت کے سوال کا جواب مختلف ہو سکتا ہے۔ اصل چیز اس میں بندے کا رویہ ہوتا ہے۔ مذہب کی رو سے بندے کاکام یہ ہے کہ اللہ سے معافی اور مدد کا طلب گار رہے اور اپنی دنیوی تدبیر ، اسباب  اور کوشش میں بھی کوئی کوتاہی نہ کرے(تدبیر و دعا کے حوالے سے ذرا تفصیلی بحث آگے آتی ہے)

اب اس  حوالے سے ذرا  عوامی اور سطحی مذہبی رویے کو دیکھیے۔ وہ بھی ملحدین کے مذکورہ رویے کی طرح فضول اور مذہب کی درست تعبیر سے کوسوں دور ہے۔ مثلاً ان کی طرف سے یہ دلیل دی جاتی ہے کہ اللہ اپنے گھر اور اپنے بندوں کی حفاظت کرتا ہے، لہذا مسجدوں ،خانے کعبے اور مذہبی اجتماعات پر روک لگانایا  کسی بھی ضرورت کے تحت لوگوں کو اس میں عبادت سے روکنا  اللہ کے غضب کو دعوت دینا ہے۔اس مزاج اور رویے کے حامل لوگوں کے مذہبی رہنما بھی اسی ذہنیت کے حامل ہوتے ہیں ، یہ جذباتی باتیں کر کے مذہب کے مقدمے کو اتنا خراب کرتے ہیں کہ ملحدین کو اعتراضات کا موقع مل جاتا ہے ( اس لیے کہ ملحدین اکثرو بیشتر اپنی ترنگ میں مذہب کی صحیح پوزیشن جانے بغیر اس کے ایسے خوش عقیدہ پیروکاروں کی بے بصیرتی کا حوالہ دیتے نظر آتے ہیں )مثلاً ان مذہبی خوش عقیدہ لوگوں اور مذہبی رہنماؤں  میں سے   کوئی کہتا ہے کہ  خانہ کعبہ کو کھولو، وہاں کوئی نقصان کیسے ہو سکتا ہے؟ کوئی کہتا ہے  میرے فلاں مذہبی اجتماع میں کسی کو کرونا نہیں ہو سکتا، ہو جائے تو مجھے  پھانسی دے دینا (ابھی مولانا جلالی صاحب کا بیان آیا تھا کہ ان کی سنی کانفرنس میں کسی کو کرونا ہو جائے ،تو مجھے پھانسی دیے دیں)۔ یہ لوگ لوگوں کے مذہبی جذبات  سے کھیلتے ہیں۔یہ بظاہر مذہب کے سچے داعی اور اس پر کامل یقین رکھنے والے ہونے کے مدعی ہوتے ہیں، لیکن فی الواقع وہی کام کر رہے ہوتے ہیں، جو  ملحدین کرتے ہیں، اور وہ یہ کہ مذہب کے نام پر ایسے دعوے کر رہے ہوتے ہیں ، جو مذہب کے دعوے ہیں ہی  نہیں،بلکہ مذہبی نظام ایسے دعوؤں کی  دو ٹوک تردید کرتا ہے۔ بہ الفاظ دیگر یہ دعوی کرنا کہ فلاں اجتماع میں کسی کو  کچھ نہیں ہو سکتا، مذہب  کی حمایت نہیں اس کی مخالفت ہے۔اس لیے کہ مذہب کے نزدیک یہ دعوی اس کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے، بلکہ یہ خود کو خدا بنانے والی بات ہے۔ یہ ایسی ہی بات ہے جس کی مذمت یہود و نصاریٰ کے حوالے سے قرآن میں کی گئی ہے۔مثلاً کہا گیا کہ ہے  وہ کہتے کہ ہم اللہ کے بیٹے اور محبوب ہیں، ہمیں آگ بھی  چھوئے گی تو چند دن۔ ان کو نبیوں کی اولاد اور بنی اسرائیل میں سے ہونے کا گھمنڈ تھا۔ ان کے اس نوع کے دعووں پر قرآن نے کہا تم فضول باتیں کیے جارہے ہو ،بتاؤ تو سہی  اللہ نے کب اور کن لفاظ میں تم سے یہ وعدہ کیا ہے کہ جنت تمھارے ہی لیے اور تمھیں کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا، اللہ تمھاری خواہشات کے  مطابق ہی کرے گا؟ اللہ نے تو ایسا کوئی وعدہ کیا ہی نہیں ،تم اپنے زعم ِ پارسائی میں یہ دعوے کیے جا رہے ہو۔ یہی حال ان  نام نہاد  مسلم علما اور ان کے پیروکاروں کا ہے کہ  اللہ نے جس چیز کا کوئی وعدہ کیا ہی نہیں اس کو خواہ مخواہ اس کے ذمے لگا رہے ہیں۔

کہا جا سکتا ہے کہ دیکھیں  کیوں وعدہ نہیں کیا؟ اللہ نے ابرہہ سے خانے کعبے کو نہیں بچایا تھا! ابابیل نہیں بھیجے تھے! فلاں موقعے پر اپنے بندوں کی معجزانہ مدد نہیں کی تھی! اس حوالے سے  درج ذیل نکات ذہن نشین  کر لینے چاہییں:

1۔ ان خارق عادت اور معجزانہ تاریخی واقعات کا  مخصوص سیاق و سباق ہے، ان کو اللہ کی عمومی سنت سمجھنا بالکل غلط ہے، اور یہی نافہمی دراصل ان لوگوں کے گمراہانہ نظریات کی اساس ہے۔ اس چیز  میں مبالغے نے ان کو  محنت و کوشش  سے دور کر دیا اور معجزوں کا تمنائی بنا دیاہے۔

2۔ کسی  خاص وقت  میں کسی معجزے کے ظہور کو اس تناظر میں دیکھنا ضروری ہے کہ  وہ کن خاص حالات میں ظہور پذیر ہوا، اور عام مادی اسباب سے ماورا کیوں جانا پڑا؟  اس بارے سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ایسا غیر معمولی حالات میں ہوتا ہے۔ مثلاً ابرہہ اگر کا میاب ہوجاتا تو کعبے کو ملیا میٹ کر دیتا اور یمن میں اپنے بنائے قبلے کی طرف لوگوں کو متوجہ کرنے میں کامیاب ہو جاتا۔ یہ چیز اللہ کے اس گریٹر پلان اور بسیط حکمت و مصلحت کے خلاف تھی، جس کے تحت حق و باطل کی آویزش کا سارا نظام واضح  دکھائی دے رہا ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ اب قیامت تک کوئی کعبے کو ہٹ نہیں کر سکتا، بالکل نان سینس بات ہے ،خود مسلم حکمرانوں کے دور میں حرمین کی حرمتیں پامال ہوئیں، یزید کے دور میں مسجد نبوی کے اصطبل بننے اور کعبے میں آگ لگنے کی روایات عام بیان کی جاتی ہیں۔ تو سوال یہ ہے کہ  یہاں اللہ نے ایسا کیوں ہونے دیا؟ واضح ہے کہ یہاں آزمایش اور طرح کی ہے اور کعبے کے  مکمل انہدام اور مسجد نبوی کے  خاتمے کا کوئی خدشہ نہیں۔ لہذا معجزانہ واقعات کو ان کے صحیح تناظر  میں سمجھنے کی ضوررت ہوتی ہے۔ مثلاً  جنگ بدر میں جس  طرح مسلمانوں کی معجزانہ مدد ہوئی ، احد میں کیوں نہ ہوئی ؟ جو خدا بدر میں فتح دلوا سکتا تھا اس نے احد میں شکست سے کیوں دوچار ہونے دیا ؟  گویا حقیقت یہ ہے کہ خوارق عادت خاص حالات میں اللہ کی مرضی سے ہوتا ہے، نہ  کہ ایسے  لوگوں کے متکبرانہ دعووں کے نتیجے میں۔معجزات کے باب میں خود حضور ﷺ نے واضح فرمایا کہ تم جو فلاں  فلاں معجزات کے مطالبے کر رہے ہو، یہ میرا کام نہیں، اللہ کاکام ہے۔ گویا آپ نے باور کرایا کہ  میرا کام اللہ کی ہدایت کے مطابق تمھیں راہ ہدایت پر لانے کی کوشش ہے ، اس میں کوئی معجزہ اس کی حکمت کے مطابق وقوع پذیر ہو سکتا ہے، میں نہ ایسے دعوے کرتا ہوں اور نہ یہ معجزات دکھانا میرا کام ہے۔اور نہ اللہ کے مطیع ہونے والوں کے شایانِ شان ہے کہ معجزات اور خوارق عادت دیکھ کر ہی ایمان لائیں۔ مختصر یہ کہ اہل ِاسلام کو عام حالات میں دنیوی اسباب کے  مطابق ہی کام کرنے کا حکم ہے ، اس میں اللہ کی کہیں غیر معمولی مدد  اور معجزے کا ہو جانا اس کی عنایت سمجھا جانا چاہیے نہ کہ اپنا کوئی استحقاق۔لیکن بد قسمتی سے مذکورہ نوعیت کے اہلِ مذہب اپنا حق سمجھتے ہیں کہ اللہ ان کی مرضی کے مطابق نتیجے نکالے۔

تو کیا پھر دعا اور عبادت نہ ہو؟  یہ سوال دو نوعیتیں رکھتا ہے: پہلی ملحدین کے اعتراض کی  اور دوسری مذکورہ نوعیت کے خوش عقیدہ اہلِ مذہب کی۔ ملحدین اس پر موقف اختیار کرتے ہیں کہ جب ہر چیز تدبیر اور کوشش ہی سے ہونی ہے، تو پھر دعا اور عبادت چہ معنی دارد۔ اور خوش عقیدہ اہلِ مذہب کہتے ہیں کہ دعا اور عبادت ہی سے سب کچھ ہوگا، حتی کہ وہ اس سلسلے میں ضروری مادی اسباب کو بھی نظر انداز کر دیتے اور ترنگ  میں آ کر دعوے کرتے ہیں کہ ہم گارنٹی دیتے ہیں کہ  فلاں بیماری فلاں موقعے پر نہیں لگ سکتی ،یا یہ کہ مثلاًفلاں دعا پڑھ لو  سب ٹھیک ہو جائے گا۔ اس ضمن میں  یہاں میں وہ  سوال بھی شامل کرنا چاہتا ہوں جو کسی بیمار کے لیے دعا  اور دم وغیرہ کے مذہبی تصور کے بارے میں مجھ سے کئی لوگ کرتے ہیں ،اور وہ یہ کہ بعض لوگوں کے اس نظریے کی کیا حقیقت ہے کہ  کچھ پڑھ کر پھونکنے اور قرآن سے شفا حاصل کرنے کا تصور جہالت کے سوا کچھ نہیں ، آدمی کو میڈیکل ٹریٹمنٹ کروانا چاہیے اور بس۔

میرے نزدیک یہ دونوں سوالات مذکورہ تناظر میں پائی جانے والی حقیقی مذہبی پوزیشن سے ناواقفیت کا نتیجہ ہیں ، جو مذہب کی بعض باتوں کی غلط تعبیر اور ان کو کلیت کی صورت  میں نہ دیکھنے سے پیدا ہوتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ  مذہب علاج ، مادی اسباب اور دعا و عبادت  دونوں کو برابر اہمیت دیتا ہے۔ ایک کی وجہ سے دوسرے کو ترک کرنے کا نہ صرف یہ کہ حامی نہیں بلکہ مخالف ہے۔ سادہ الفاظ میں وہ کہتا ہے کہ  دعا اور عبادت بھی بھرپور کرو اوردوا اور مادی اسباب اختیار کرنے  میں بھی کوئی کسر نہ چھوڑو۔یہ تصور فی الواقع یہ تناظر رکھتا ہے کہ   مذہب کے نقطۂ نظر سے انسان کو اپنے کاموں اور کردار کے لیے اس دینا میں تدبیر بہر حال کرنی ہے ، اور تدبیر کی صورتیں مذہب کے نقطۂ نظر سے دو ہیں : ایک دعا اور ایک دوا۔ یوں سمجھیں کہ کسی مصیبت یا بیماری میں پھنسا انسان ایسے  ہی ہے جیسے دریا میں ڈوبتا کوئی شخص ، وہ ہاتھ پیر مارتا ہے کہ کہیں کوئی سہارا مل جائے اور وہ ڈوبنے سے بچ جائے، حتی کہ وہ ایک تنکے کو بھی سہارا بنا لیتا ہے (ڈوبتے کو تنکے کا سہارا ایسے تو نہیں کہتے)حالانکہ تنکا اس کو بچا نہیں سکتا ، لیکن اپنے حالات کے تناظر میں وہ اس کو بھی اختیار کرتا ہے اور کرنا بھی چاہیے کہ اس کی  پوزیشن ہی ایسی ہے کہ کوئی امکان ہاتھ سے نہ جانے ، جس سے اس کے بچ جانے کی موہوم سی امید بھی  ہو سکتی ہے۔ بالکل اسی طرح ایک بیمار یا مصیبت زدہ شخص  ہر وہ تدبیر کرنے کا اختیار رکھتا ہے اور اسے کرنی بھی چاہیے جس سے اس کے اس مصیبت اور بیماری سے نکلنے کی کوئی موہوم امید بھی لگائی جا سکتی ہے۔اور یہ امید جہاں سے لگائی جا سکتی ہے دعا سے بھی لگائی جا سکتی ہے۔ اور مذہب یہی کہتا ہے کہ دونوں سے امید لگاؤ اور دونوں تدبیریں اختیار کرو۔ حضورﷺ اور صحابہ رضی اللہ عنہم  اور دیگر اہل تقویٰ  مسلم اسلاف کا یہی طریقہ رہا ہے کہ وہ دوا بھی کرتے اور دعا بھی اور اسی کی اپنے ماننے والوں کو ہدایت کرتے۔

ایک سوال یہ کیا جاتا ہے کہ  دعا سے بندہ ٹھیک ہوتا ہے تو فلاں  کیوں نہیں ہوا؟ مجھ سے ایک  جاننے والے ڈاکٹر نے  یہی سوال کیا تو میں نے عرض کیا: آپ یہ بتائیں جب آپ کا کوئی مریض قریب المرگ ہوتا ہے اور اس کے  لواحقین امید بھری نظروں سے آپ کی طرف دیکھتے ہیں تو آپ ان کو کیا جواب دیتے ہو ؟ اس نے کہا : کہتے ہیں دعا کرو! میں نے عرض کیا دعا کیوں کرو، اس سے تو آپ کے بقول فائدہ کوئی نہیں ہوتا ، صرف دوائی سے  ہوتا ہے، تو اب اس مریض کو ٹھیک کرو۔  اگر خود ٹھیک نہیں کر سکتے تو کسی اور ماہر ڈاکر سے ٹھیک کرادو ، اس سے بھی نہیں ہوتا تو امریکہ یورپ بھیج دو۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں  کہ بندہ نہ آپ سے بچ سکتا ہے اور نہ یورپ اور امریکہ جا کر۔ تو  آپ کے نظریے سے دیکھیں تو دوا کی حیثیت بھی دعا والی  ہی ہوگی ، یعنی دوا سے بھی مسئلہ حل نہ ہوا اور بندہ مر گیا۔ کیا یہ بات سمجھانے کو کافی نہیں کہ   شفا دوا میں نہیں ، اس لیے کہ اگر ایسا ہوتا تو بندہ مرتا کیوں؟  اب رہا آپ کا یہ سوال کہ دعا سے کون سا مرنے سے بچ جاتا ہے؟ تو بھائی ہم نے کب دعوی کیا اور مذہب نے کہاں کہا کہ دعا کے نتیجے میں بندے کی ہر وقت ہر بیماری ٹھیک ہوگی اور اس کے ذریعے اس کو مرنے سے بچایا جا سکتا ہے! مذہب تو دور کی بات ہے ایک عام سا ان پڑھ مسلمان بھی یہ سمجھتا ہے کہ دعا ہر چیز کا ہر وقت توڑ فراہم کرنے کا نام نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس معاملے میں مذہب کی پوزیشن یہ ہے کہ شفا نہ دوا میں ہے اور نہ دعا میں، بلکہ شفا اللہ کی مشیت میں ہے۔ اللہ چاہے تو دوا سے شفا مل جائے گی اور اگر اللہ چاہیے تو دعا سے مل جائے گی، اللہ چاہے تو دونوں سے مل جائے گی، اللہ چاہے تو کسی ایک سے مل جائے ، اللہ چاہے تو دونوں ہی سے نہ ملے گی۔ بندے کاکام یہ ہے کہ دونوں تدابیر اختیار کرے ۔ یہی اللہ کی بندگی کا فلسفہ ہے۔ ظاہری اسباب بھی اسی کے بنائے ہوئے ہیں اور روحانی و مابعدالطبیعی اسباب بھی اسی  کے فراہم کردہ ہیں، وہ اپنی حکمت کے مطابق ان کو جہاں چاہتا ہے  بروئے کار لاتا ہے۔ایک کی بنا پر دوسرے کو ترک کرنا مذہب کی مخالفت ہے۔ سو دعا کے  کی ضرورت و اثرات کا کلی انکار کرنے والے ملحد یا مذہبی لبرل ہوں  یا  دنیوی اسباب کو نظر انداز کرنے والا خوش عقیدہ مولوی یا اس کے پیروکار دونوں کے رویے کا نتیجہ ایک ہی ہے  ،اور وہ ہے  اس معاملے میں مذہب کی پوزیشن کو غلط سمجھنا اور اس کے ذمے وہ چیز لگانا جس کا وہ روادار نہیں  یا اس سے وہ امید رکھنا جو امید اس نے  دلائی ہی نہیں۔

خلاصہ یہ کہ مذہب کے نقطۂ نظر سے انسان اس دنیا میں آزمایش میں ہے۔ اسے ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اپنے گردو پیش کی دنیا سے بھی اچھا اور مثبت تعلق رکھے اور اس کائنات کے ان دیکھے خالق سے بھی ۔تدبیر اور مادی اسباب کو بھی اس حد تک  اختیار کرے جتنی اس کی بساط ہے ،اور  اللہ کی عبادت اور اس سے تعلق بھی مقدور بھر رکھے۔ دونوں کوبھر پور کام میں لانے کے بعد آخری نتیجہ اللہ پر چھوڑ دے ۔ اس لیے کہ دنیا کا ہرکام اور ہر چیز آدمی کے اختیار میں نہیں، یہ ایسی حقیقت ہے، جس  کاکوئی ملحد انسان بھی انکار نہیں کر سکتا۔ انسان  کا کہیں نہ کہیں بے بس ہونا واضح کرتا  ہے کہ اس دنیا میں  اصل اختیار  آدمی کا اپنا نہیں کسی اور کا ہے۔ سب اختیار آدمی کا ہوتا تو وہ کبھی کسی ارادے میں ناکام نہ ہوتا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ  کی طرف منسوب یہ قول بہت معنی خیز ہے کہ میں نے خدا کو اپنے ارداوں کی شکست سے پہچانا ہے۔ اور جو لوگ  مذہب کے معجزاتی عناصر اور اپنے خاص بندوں پر اللہ کی نوازشات کی تاریخ کی روشنی میں یہ مفروضہ قائم کرتے  ہیں کہ کسی نیک شخص اور مقدس جگہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا اور ہر وقت معجز نمائی کے خواہاں رہتے ہیں، وہ خوش عقیدگی میں گویا اللہ کو اپنی خواہشات کا پابند کرنا چاہتے ہیں۔ مذہب دنیا اور دین  دونوں کو اکٹھا لے کر چلتا ہے۔ مذکورہ دونوں نوعیت کے حضرات دو انتہاؤں پر ہیں اور مذہب کی پوزیشن دونوں  کے بین بین ہے۔ اللہ  سے دعا ہے کہ ہمیں  دین کے صحیح فہم و شعور اور اپنی بندگی کی توفیق سے نوازے ۔ آمین۔

ڈاکٹر محمد شہباز منج

ڈاکٹر محمد شہباز منج، یونیورسٹی آف سرگودھا کے شعبہ علوم اسلامیہ میں استاذ اور متعدد تحقیقی کتب اور مقالات کے مصنف ہیں۔
drshahbazuos@hotmail.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں