Home » خدا کے تصور کی فلسفیانہ تحلیل
انگریزی کتب فلسفہ کلام

خدا کے تصور کی فلسفیانہ تحلیل

 

(میخائیل جے مرے  کی کتاب An  Introduction to the Philosophy of  Religionکے پہلے باب کی تلخیص)

ترجمہ وتلخیص :ڈاکٹر سمیرا ربیعہ

اس باب میں ایک خدا پر یقین رکھنے  والے مذاہب کے ہاں پائے جانے والے خدا کے تصور اوراس سے جڑی چند بنیادی اور اہم صفات  کو موضوع بحث بنایا  گیا ہے جو ہمیشہ سے  فلسفیانہ مباحث کا موضوع رہی ہیں۔

خدا کا تصور :

مغربی روایت میں خدا کا تصور مختلف حالتوں  میں پایا جاتا ہے۔ بعض  اسے مطلق سچائی سمجھتے   ہیں  اور بعض  اسے تمام اشیاء  کائنات  کا ماخذ جانتے ہیں۔ کچھ کے نزدیک یہ عیب سے بالاتر ذات ہے جو کہ عبادت کے لائق ہے ۔ کچھ  کے نزدیک خدا کی ذات اور صفات کا تصور صرف اور صرف   اس تصور سے ماخوذ ہے جو  الہامی کتب میں موجود ہے ۔

لفظ خدا کو دو طریقوں  سے استعمال  کیا جاتا ہے۔ اسم معرفہ / اسم ذات اور لقب / خطاب  ۔ جب کوئی اسم ذات   کے طور پر استعمال ہوتا ہے   تو اس سے  صرف یہ پتہ چلتا ہے کہ  یہ ایک فرد ہے جس کی جگہ اور کوئی نہیں لے سکتا ۔یہ جن صفات کا مالک ہے وہ اسی کے ساتھ مخصوص ہیں۔ اس کی وہ منفرد اور مخصوص خصوصیات کیا ہوں گی وہ ہم اس اسم کی مدد سے نہیں جان سکتے۔لیکن جب   وہ لفظ ایک لقب یا خطاب کے طور پر استعمال ہو گا تو ہم محض اس لفظ سے ہی ان تمام خصوصیات کو جان لیں گے جو اس شخص سے جڑی ہوں گی جس کو یہ لقب عطا کیا جائے گا۔ کیونکہ ہر خطاب اپنے اندر  کچھ بنیادی خصوصیات کو سموئے ہوئے  ہوتا ہے۔ یہی حقیقت  لفظ “خدا ” کے استعمال کے ساتھ بھی جڑی ہوئی ہے۔    جب یہ ایک اسم کے طور پر استعمال ہوتا ہے تو ہمیں اس سے وابستہ صفات کا اندازہ نہیں ہوتا ۔لیکن جب یہ ایک خطاب کے  طور پر استعمال  ہوتا ہے تو ہم  کافی حد تک  ان صفات  کو اخذ کرسکتے ہیں جو اس لقب کے ساتھ  جڑی ہوتی ہیں۔

خدا کے لفظ کے استعمال کے مختلف طریقہ کار کی وجہ سے خدا کے تصور کے قیام کے طریقہ کار میں بھی فرق پیدا ہو گیا ہے۔  توحید ی مذاہب  میں عام طورپر خدا  کی ذات و صفات کا تصور قائم کرنے کے لیے دو  طریقہ کار استعمال ہوتے ہیں۔ ایک طریقہ تو یہ  ہے کہ   ان معلومات کے ذریعہ تصور  خدا قائم کیا جائے  جو مقدس الہامی کتب میں موجود ہیں یا جو  پیغمبروں اورانبیاء کرام ؑ کے ذریعے  ہم تک پہنچی ہیں۔ جب کہ دوسرے طریقے کے مطابق مقدس کتب کا سہارا لیے بغیر   ، چند صفات کو    خدا کے لیے لازم قرار دے دیا جاتا ہے۔ پھر   جس کو بھی  اس لقب سے نوازا جاتا ہے اس کو انہی صفات کا حامل تصور کیا جاتا ہے۔ طریقہ کار میں اختلاف کی وجہ سے  خدا کے بارے میں قائم ہونے تصورات میں بھی فرق واقع ہو جاتا ہے۔

مغربی مذہبی روایات میں خدا کی ذات اور صفات سے متعلق تصور کے قیام کے لیے ان دونوں طریقوں کو استعمال کیا جاتا ہے۔خدا کے لفظ سے جڑی بنیادی صفات کے ساتھ ساتھ مقدس الہامی کتب میں موجود معلومات کو بھی  خدا کی ذات    کی شناخت اور پہچان کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کو ن سے طریقہ کو بروئے کار لاتے ہوئے خدا کی ذات کے بارے میں تصور  قائم کیا جارہاہے ۔کیونکہ دونوں طریقوں کا لازمی حاصل وہ ہی   صفات ہوں گی جو اس ذات  کا  جزو ہوں گی۔

ان دونوں طریقوں  کی مدد سے جو تصور خدا قائم کیا جاتا ہے وہ مندرجہ ذیل    مشترکہ نکات پر مشتمل ہوتا ہے:

1۔خدا  کو کسی نے تخلیق نہیں کیا   البتہ تمام  دیگر اشیاء کا خالق وہ  ہی ہے۔

2۔خدا کو ان تمام اشیاء پر قدرت اور اختیار حاصل ہے جو  اس  کے علاوہ ہیں ۔

3۔ خدا مکمل طور پر بے عیب ذات ہے۔

خدا سے جڑی ان بنیادی  صفات کی مدد سے دیگر  صفات کو   اخذ کیا جاسکتاہے ۔

خد ا کے بے عیب ہونے کا  مذہبی تصور

خدا کی ذات سے جڑی  یہ صفت  مغرب میں پائی جانے والی  تینوں مذہبی روایتوں  ، یہودیت ، عیسائیت  اور اسلام  میں  خدا کے حوالے سے موجود تصور کے  قیام میں بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔اور کئی مصنفین  کی کتب میں  اس پر بحث موجود ہے۔

خدا  کے بے عیب ہونے کی صفت   سے اگرچہ ہمیں خدا کے ذات میں موجود دیگر صفات کے  بارے میں کچھ خاص رہنمائی نہیں ملتی  تاہم اس سے ہمیں ایک قاعدہ مل جاتا ہے  جس کی مدد سے خدا کا مزید تفصیلی اور  مخصوص تصور قائم کرنے میں مدد ملتی ہے۔ اس سے ایک بات یہ بھی سامنے آتی ہے کہ خدا صرف  وہی ہو سکتا ہے جو  عظیم صفات کا  حامل ہو۔

اس سے ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سی صفات ہیں جو کسی کو عظیم بنا دیتی ہیں ؟ اور کس طرح ان کو مرتب کیا جا سکتا ہے؟

جہاں تک پہلے سوا ل کے جواب کا تعلق ہے تو  اس کا ایک ممکنہ جواب یہ ہو سکتاہے کہ  ایسی صفات وہ ہوتی ہیں جن کی مدد سے کسی کے اندر عظمت پیدا ہو جائے۔ لیکن اس لحاظ سے دیکھا جائے   تو  کچھ صفات ایسی ہوتی ہیں جو    بعض حالات میں تو عظمت کو بڑھاتی ہیں اور  بعض حالات میں ان کی موجودگی اس کے الٹ ثابت ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر  لمبا ہونا  باسکٹ بال کے کھلاڑی کے لیے تو ایک اچھی صفت ثابت ہو سکتی ہے مگر ہاکی کے کھلاڑی کے لیے نہیں۔ اس سے یہ  پتہ چلتا ہے کہ  عظیم بنانے والی صفات  بھی   اپنے مخصوص حالات اور پس منظر کے ساتھ وابستہ ہوتی ہیں۔

ایک دوسری رائے یہ ہے کہ  اچھائی کی صفات بھی دو طرح کی ہوتی ہیں ۔ ان کی ایک قسم وہ صفات ہیں جو باطنی اور حقیقی  لحاظ سے اچھی ہوتی ہیں۔دوسری وہ جو ظاہری یا خارجی لحاظ سے اچھی ہوتی ہیں۔

وہ صفات  جو ظاہری  یا خارجی لحاظ سے  اچھی ہوں گی  وہ وہ ہوں گی  جو   اپنی ذات میں  نہ تو اچھی ہوں گے نہ بری لیکن ان  کی کسی میں موجودگی اس ذات کو اچھائی کی صفت  سے جوڑ دے گی۔ مثلا قد کا لمبا ہونا بذات خود تو اچھا نہیں ہے مگر  جب یہ باسکٹ بال کےکھلاڑی میں موجود  ہو گی تو   ایک اچھی صفت  گردانی جائے گی۔

جبکہ کچھ صفات وہ ہوتی ہیں جو  اپنی ذات اور  فطرت میں اچھی ہوتی ہیں ۔ یہ جہاں بھی ہوں گی اچھی ہی کہلائیں گی۔ جیسا کہ خوشی  ،رحم دلی، دیانتداری وغیرہ ۔ یہ ایسی  صفات ہیں  جو اپنی اچھائی کے ظہور کے لیے  حالات کی  محتاج نہیں ہیں ۔ یہ ہر حال میں اچھی ہوتی ہیں۔

مغربی مفکر تھامس  مورس کا یہ ماننا ہے کہ خدا کو  عظیم بنانے والی صفات صرف وہ ہوں گی جو   اپنی ذات میں اچھی ہوں گی جیسا کہ حکمت ،  علم   اور طاقت وغیرہ۔ایسی صفات پر غور کرنے سے   یہ مسئلہ سامنے آتا ہے کہ   ان صفات کے  تعین کا انحصار بڑی حد تک  انسان کے ماحول اور داخلی کیفیات پر ہوتا ہے۔  کوئی بھی طریقہ ایسا نہیں ہے جس کی مدد سے  خارجی طور پر ان صفات کا تعین کیا جاسکے۔

خدا کے بے عیب ہونے کے  نظریہ کے قائلین  اس کا جواب یوں دیتے ہیں  کہ ان صفات کے تعین کا  کوئی بھی خارجی ذریعہ نہیں ہے ۔بلکہ ان کا تعین صرف اور صرف داخلی رجحان کی مدد سے ہی ممکن ہے۔ یہ ہمارے وجدان یا الہام ہوتے ہیں جو   ان صفات کے تعین میں ہماری مدد کرتے ہیں ۔جو ہمارے وجدان کو ٹھیک لگتا ہے ہم وہی  مان لیتے ہیں۔ ہمارے وجدان یا الہام کی بنیاد  دراصل کچھ بنیادی عقائد ہوتے ہیں ۔ان ہی کی مدد سے ہم باقی عقائد کو اختیار کرتے ہیں یا پھر ان کورد کر دیتے ہیں ۔ہمارے انہی الہام یا وجدان پر قائم شدہ بنیادی تصورات کی مدد سے ہم خدا  کے حوالے سے بنیادی تصورات کو قائم کرتے ہیں اوران کا تجزیہ کرتے ہیں۔

یہ الہام یاوجدان لسانی بنیادوں پر مشتمل نہیں ہوتے اور نہ ہی  کسی دلیل یا  ثبوت پر یہ منحصر ہوتے ہیں بلکہ جو ہمیں ٹھیک لگتا ہے اس کو اپنا لیا جاتا ہے۔ ایسے عقائد   کی  ایک مثال  یہ عقیدہ ہے کہ دو مختلف اشیاء ایک وقت میں ایک ہی جگہ پرموجود نہیں ہو سکتیں۔

اس حوالے سے دو باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے  کہ جس عقیدہ کو  خدا کی صفت بنایا جائے وہ الہام یا وجدان سے مطابقت رکھتا ہو اور دوسرا یہ کہ اس میں تبدیلی یا اصلاح کی گنجائش بھی موجود ہو۔

الہام یا ادراک کی بنیاد پر خدا کی ذات کے حوالے سے جو تصورات قائم ہو ں وہ باہمی اختلاف کا شکار بھی ہو سکتے ہیں اور  خرافات پر مشتمل بھی ہوسکتے ہیں ۔ان اختلافات کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ لفظ خدا کا استعمال کس طرح ہو رہا ہے۔ بحیثیت ایک فرد کے یا پھر ایک ذات /لقب کے ۔مثال کے طور پر اسلا  م کا ایک طبقہ معتزلہ    خدا کی صفات  کے تعین کے لیے  لفظ خدا کو ایک ذات کے طور پر  لیتا ہے اورپھر اس کی بنیاد پر خدا کا تصور قائم کرتا ہے۔ جبکہ ان کے مخالف نقطہ نظر کے حامل  افراد خدا  کے تصور کے قیام کے لیے ان معلومات پر انحصار کرتے ہیں جو الہامی کتب میں موجود ہوتی ہیں یا پھر انبیاء کے ذریعے ہم تک پہنچتی ہیں۔

خدا کے بے عیب ہونے کے تصور کے حامی افراد کے نقطہ نظر کی وضاحت کے لیے  یہ سمجھنا ضروری ہے کہ  وہ خدا کو ایک ایسی ذات سمجھتے ہیں جو   بہترین صفات کا مجموعہ ہے۔ اس سے ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ  یہ کیوں نہیں مانتے کہ خدا عظیم بنانے والی تمام صفات کا مجموعہ ہے۔ اس کا جواب وہ کچھ یوں دیتے ہیں کہ کئی ایسی صفات ہوتی ہیں جو اگرچہ انفرادی لحاظ سے تو عظمت کی حامل ہوتی ہیں مگر  ان کا ایک ذات میں بیک وقت اشتراک ممکن نہیں ہو تا ۔ مثال کے طور پر خدا  کے بارے میں یہ ماننا کہ وہ ایک با اختیار ذات ہے  اس بات کا متقاضی ہے کہ اس کے لیے اچھائی کی صفت کو لازم سمجھا جائے ۔ کیونکہ  قادر ہونے کی حیثیت سے  وہ اچھے یا برے دونوں  طرح کے اعمال کو سر انجام دے سکتا ہے ۔لیکن اس صورت میں پھر وہ  اس قابل نہیں ہو سکتا ہے کہ ہر حال میں صرف اچھائی ہی کو اختیار کرے ۔ لہذا یہ دونوں صفات بیک وقت یکجانہیں ہو سکتیں۔ لہذا یہ ممکن نہیں کہ خدا  ان تمام صفات کا  مرکب  ہو  جو عظیم کہلائی جا تی ہیں۔ اس لیے یہ مانا جاتا ہے کہ خدا ان عظمت بھری صفات کے بہترین مجموعہ کی حامل ذات ہوتی ہے۔

لیکن ایک مسئلہ یہ ہے کہ عظیم صفات کا بہترین مجموعہ کوئی ایک نہیں بلکہ بیک وقت کئی ہو سکتے ہیں۔ لہذا ان میں سے کسے ترجیح دی جائے اور کس کو نہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ان مجموعوں  میں سے  دو مجموعہ یکساں مفید ہوں۔

یہ سمجھا جاتا ہے کہ کائنات میں پائی جانے والی تمام اشیاء  مندرجہ ذیل تین اقسام میں  سے کسی ایک قسم سے تعلق رکھتی ہیں۔

1: وہ اشیاء  جو اپنی وضاحت  آپ کرتی ہیں۔

2۔ وہ اشیاء  جن کی وضاحت دیگر اشیاء سے ہوتی ہے ۔

3۔ وہ اشیاء جن کی وضاحت ممکن ہی نہیں ۔

جہاں تک تیسری قسم کی اشیاء کا تعلق ہے تو ان کے بارے میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ ایسی اشیاء کا پایا جانا ناممکن ہے۔ لہذا خدا کا تعلق پہلی دو اقسام   میں سے  کسی ایک سے ہو گا۔ جہاں تک قدیم زمانے کے مذہبی علماءکا تعلق  ہے ان کے نزدیک خد ا کا تعلق  پہلی قسم کی اشیاء سے ہے جو اپنی وضاحت آپ کرتی ہیں۔ ان کی وضاحت کےلیے کسی اور شے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ کیونکہ اگر اس کا تعلق دوسری قسم سے ہوتا تو پھر اس سے اس کی شان میں کمی واقع ہو جاتی ۔کیونکہ اپنی وضاحت کے لیےدوسروں پر انحصار کرنے سے  مراد یہ ہے کہ آپ  اپنے وجود کے لیے ان پر منحصر ہیں اورایک خدا کی یہ شان نہیں ہو سکتی۔

لیکن یہ ماننا کہ خدا  اپنی وضاحت آپ کرتا ہے  بھی مسائل پیدا کرتا ہے۔ کیونکہ اس یہ ثابت نہیں ہو پاتا کہ آپ کی پیدائش کیسے ہوئی ہو گی۔ کچھ کے نزدیک یہ ماننا کہ خدا  کا تعلق دوسری قسم والی   اشیاء سے   کوئی  عیب نہیں رکھتا ۔ کیونکہ ان کے خیال میں کئی ایسی اشیاء ہوتی ہیں جو کسی اور شے کی وضاحت کرتی ہیں مگر ان میں یہ تعلق نہیں پایا جاتا کہ  وہ ایک دوسرے پر منحصر ہوں۔ وہ ایک دوسرے کے وجود کا باعث  نہیں ہوتیں۔

مذہبی  علماء کرام جو اس نقطہ نظر کے حامل ہیں  کہ  خدا  کی ذات اپنی وضاحت آپ  کرتی  ہے ۔اپنے نقطہ نظر کی تائید میں دو طرح کے دلائل پیش کرتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ  خدا   کی یہ فطرت ہے کہ وہ اپنی وضاحت خود ہوتا ہے۔اس کی فطرت کا ایک لازمی جزو ہے کہ وہ ظاہر ہو۔ خدائی فطرت  پائی جاتی ہے ۔اس کی فطرت  کی موجودگی اس کی ذات کے لازم ہونے کی دلیل ہے۔

دوسری دلیل یہ ہے کہ فرض کیا جائے کہ ایک ایسی مشین تیار کر لی جاتی ہے جس کی مدد سے تمام مادی اشیاء کو تیار کیا جا سکتا ہے۔ ایک وقت ایسا آتا ہے کہ وہ مشین  ایسی صلاحیت حاصل کر لیتی ہے کہ وہ اپنے خراب ہو جانے والے پرزوں کو خود ہی دوبارہ نئے سرے  سے تیار کر لے ۔ یہاں تک  کہ ایک وقت آجائے کہ  وہ مشین  خودکار طریقے سے اپنے پرانے  پرزوں کی جگہ نئے پرزے تیارکر لے اورپھر یہ چکر شروع ہو جائے۔  اب یہ نئی مشین  کس طرح  اپنے وجود کی وضاحت کرے گی۔ یقینا اس کی وضاحت کوئی اور شے نہیں کر پائے گی وہ اپنی وضاحت آپ ہو گی۔ یہی  حال خدا کی ذات کا بھی ہے۔

خدا کے بارے میں پائے جانے مذہبی تصورات کا  ایک جزو یہ تصور ہے کہ خدا اس کائنات کی تمام اشیاء کا خالق ہے اور اس  نے ان کو اختیار سے نوازا ہے۔اور ان کا وجود  خدا کے مقابلے میں محدود ہے۔ اصل اختیار خدا ہی کی ذات کو حاصل ہے۔ لیکن کچھ لوگ خدا کے اس مطلق اختیار کے تصور کو درست نہیں سمجھتے۔ اس کی ایک مثال وہ یہ دیتے ہیں کہ اگر خدا کو یہ کہا جائے کہ وہ ایک ایسی چٹان  بنائے جو سب سے زیادہ وزنی ہو اتنی وزنی کہ وہ اس کو اٹھا نہ پائے ۔ تو ایسا ہونا ممکن نہیں ۔ کیونکہ اگر وہ  ایسی چٹان  تیار کر لیتا ہے تو بھی اس کی قدرت پر سوال کھڑا ہو جاتا ہے کہ وہ اس چٹان کواٹھا نہیں پارہا ۔ اور اگر وہ ایسی چٹان تیار نہیں کر پاتا تو بھی  وہ ایسی قدرت اور اختیار کا مالک نہیں ٹھہرایا جا سکتا جو مطلق ہو ۔

کچھ فلاسفروں اور مذہبی علماء کا ماننا ہے کہ خدا کے اختیار کی صفت سے وہ تمام افعال مبرا ہیں جو عقل کے دائرے میں نہ آتے ہوں۔ جبکہ جدید مذہبی علماء  یہ مانتے ہیں کہ ایسے  کوئی  افعال نہیں ہیں جو خدا کی قدرت سے باہر ہوں۔ مگر کچھ کام ایسے ہیں جو خدا کا شایان شان نہیں ہیں۔ لہذا وہ ان کو انجام نہیں دیتا ۔

اس لیے و ہ  اختیار  کی تعریف یہ بیا ن کرتے ہیں کہ ایسے کام  کرنے کی صلاحیت رکھنا جو عقلی لحاظ سے ممکن ہوں۔ مثلا ٹائی ٹینک جہاز کا ڈوب جانا    عقلی لحاظ سے درست ہے۔ لیکن یہ  کہنا کہ اب وہاں سے چٹان کو ہٹا کر  اس ڈوبے ہوئے جہاز کو  درست کر دیا جائے تو یہ کام عقلی لحاظ سے درست نہیں لہذا خدا کی شان نہیں کہ وہ ایسے کام کرے ۔

مثال کے طور پر اگر کسی کو  یہ آزادی حاصل ہو کہ وہ اپنی مرضی سے کچھ کر سکے تو اس وقت وہ جس کام کو بھی اختیار کرے گا خدا  اس کے برعکس نہیں کر پائے گا۔ امنپ(Omnip) کے خیال میں  کچھ ایسے فعل بھی ہوتے ہیں جو اگرچہ عقلی لحاظ سے ممکن ہوتے ہیں مگر پھر بھی  ایک مطلق الاختیار بھی ان کو انجا م نہیں دے پاتا۔

زیادہ سے زیاد ہ طاقت  کا حصول اور خدائی اچھائی

مطلق الاختیار ہستی  کو  اس طرح بیان کرنا کہ  وہ کون سے امور سرانجام دے سکتی ہے اور کون سے نہیں  ، ٹھیک نہیں ہے۔ اس  سے بہتر یہ ہے کہ اس ہستی کو   اس زیادہ سے زیادہ طاقت و اختیار  کی مدد سے بیان کیا جائے جس کی کوئی بھی ہستی مالک ہو سکتی ہے۔لہذا خدا ایک ایسی ہستی ہے جس کے پاس سب سے زیادہ طاقت و اختیار ہو گا اور اس کے علاوہ کسی اور کے پاس اس سے زیادہ طاقت نہیں ہو سکتی۔

اگرچہ  خدا کو اس صفت سے جوڑنا  مطلق اختیار کے مقابلے میں بہتر ہے مگر  اس سے اور کئی خدائی صفات پر سوال کھڑے ہو جاتے ہیں۔ مثلا یہ سمجھا جاتا تھا کہ خدا   اخلاقی لحاظ سے ہرعیب سے پاک ہے۔ وہ  کوئی بھی ایسا کا م نہیں کر سکتا جو اخلاقی لحاظ سے درست نہ ہو۔ لہذا وہ پاک ہے بے گناہ ہے۔ اور اگر اس صفت سے انکار کر دیا جائے تو پھر اس کا امکان پیدا ہو تا ہے کہ خدا غلط کر سکتا ہے۔

اگر ہم اس کو مان لیں تو پھر اس سے لازم آتا ہے کہ خدا  نہ تو کسی کو قتل کر سکتا ہے ، نہ جھوٹ بول سکتا ہے اور نہ ہی وعدہ خلافی کر سکتا ہے۔لیکن وہ ذات جو سب سے زیادہ بااختیار ہو   اور وہ  ان افعال کو نہ کر سکتی ہو تو اس کا مطلب ہے کہ اس کے  جو لوگ یہ کام کر سکتے ہیں ان کی طاقت اور اختیار خدا سےبھی زیادہ ہے۔

اس الجھن کے حل کے دو طریقے ہیں  ایک یہ اس بات سے انکار کر دیا جائے کہ  کامل ترین اچھائی کے لیے خدا کا  بے عیب ، بے گناہ  اور پاک ہونا ضروری نہیں ہے۔ کیونکہ بعض اوقات اس کے لیے ضروری ہو جاتا ہے کہ وہ ایسے کام کرے جو اخلاقی لحاظ سے درست نہیں ہوتے۔

دوسری رائے یہ ہے کہ   برائی کرنے کی طاقت بذات خود کوئی طاقت  نہیں ہے۔ جس کا نہ ہونا   اس ہستی کے اختیار میں کمی کا باعث نہیں بنتا ۔ مثلا    ہاتھ یا انگلی کو ہلانا اصل اختیار ہے۔ آپ انگلی یا ہاتھ کو کئی طریقوں سے حرکت دے سکتے ہیں  یہ تمام حرکات بذات خود کوئی اختیار نہیں ہیں بلکہ  یہ اس اختیار سے ماخوذ ہیں جو انسان  کے پاس ہاتھ یا انگلی کے ہلانے کا ہے۔ اگر کوئی شخص اپنے ہاتھ کو اس طرح استعمال نہیں کرتا کہ اس سے کچھ غلط ہو تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کے پاس ایسا کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ اسی طرح  گناہ یا عیب بذات خود کوئی  اختیار نہیں ہیں بلکہ یہ کسی اور  اختیار سے ماخوذ ہیں۔  جو اگرچہ خدا کے پاس موجود ہے مگر وہ اس پر قادر ہے کہ وہ اس کو کس طرح استعمال کرتا ہے۔

 تخلیق ، نگرانی اور کارسازی

خدا کی صفات کا لازمی جزو اس کا خالق  اورکارساز ہونا ہے۔کچھ توحید پسند علماء کا یہ ماننا ہے کہ خدا  کی تخلیق کی صلاحیت    محض  پہلے سے موجود اکائیوں کو ترتیب دے کر کچھ  تخلیق کرنے کی ہے۔جبکہ زیادہ تر  کا خیال ہے کہ خدا نے یہ سب کچھ  عد م سے وجود میں لایاہے۔ اور یہ  عقیدہ موجودہ سائنسی عقیدہ سے کافی حد تک مطابقت رکھتا ہے  جو یہ مانتے ہیں کہ یہ کائنات   قدیم نہیں بلکہ ماضی قدیم میں وجود میں آئی۔ لیکن سائنس اور فلسفہ کی تاریخ میں ہمیں زیادہ  موقف یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ  یہ کائنات ہمیشہ سے موجود ہے۔ کیا   یہ عقیدہ کہ کائنات قدیم ہے  خدا کے اس کائنات کے خالق  نہ ہونے  کی نشاندہی کرتا ہے؟

اس کے ساتھ ساتھ  توحید پسند علماء کا یہ بھی ماننا ہے کہ خدا نہ صرف اس کائنات کا خالق ہے بلکہ  لمحہ بہ لمحہ اس کائنات کے نظام کو چلا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ  اگرچہ خدا نے اس کائنات کو نہیں بنایا مگر  وہ  پھر بھی اس لحاظ سے اس کا خالق ہے کہ وہ اس کے نظام کو چلا رہا ہے۔اس لیے اس کو اس کائنات پر برتری حاصل ہے۔

اسی طرح یہ بھی مانا جاتا ہے کہ خدا   اس کائنات  میں رونما ہونے والے تمام واقعات      کا ماخذ  ہےاور اس کائنات میں پائے جانے تمام مخلوقات  کے  پاس جو بھی طاقت اور اختیار ہے   وہ خدا ہی کا عطا کر دہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ الہامی کتب میں اس بات کااشارہ ملتا ہے۔ اس کی تین اہم توجہیات بیا ن کی جاتی ہیں ۔ایک یہ کہ خدا اس کے ذریعے یہ جان لیتا ہے کہ اس کی مخلوق  جب کوئی عمل کرے گی تو وہ کیا ہو گا۔دوسرا یہ کہ یہ بہت زیادہ ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر پھر خدا کی  تخلیق کردہ مخلو ق   اپنے اعمال و افعال میں خود مختار ہو جاتی ۔تیسرا یہ کہ چونکہ ہر فعل / عمل کی ایک وجہ /ماخذ ہوتا ہے ۔ خدا ہر شے کاماخذ ہے اسی سے تمام اشیاء کا ظہور ہے لہذا اس سے لازم ہوتا ہے کہ خدا    کے پاس یہ صلاحیت ہو ۔

مگر ان توجیہات سے کچھ مسائل جنم لیتے ہیں جیساکہ پہلی توجیہہ سے یہ مسئلہ پیدا ہوتا کہ اس طرح تو  مخلوق اپنے اعمال کے لئے خدا کی تابع ہوئی وہ  آزاد تو نہ ہوئی۔دوسری توجیہہ سے یہ  بات  سامنے آتی ہے کہ اگر خدا   کی مخلوق افعال کی سرزدگی کے لیے قوت نہیں رکھتی   تو پھر ان کو اس امر کی وضاحت کرنا ہوگی کہ   کس طرح خدا اور اس کی مخلوق  مل کر کسی امر کی علت یا سبب بنتے ہیں۔تیسرا یہ کہ  اگر ہر فعل کی علت خدا ہے تو پھر افعال کی ذمہ دار مخلوق نہیں ٹھہرائی جا سکتی۔

ان مسائل کی وجہ سے خدائی افعال کی    ایک   نسبتا زیادہ عقلی  توجیہہ جو پیش کی جاتی ہے   وہ یہ ہے کہ  قدرت کے قوانین جو کہ اس کائنات  میں کارفرما ہیں وہ  خدا کی تخلیق کردہ    اشیاء کی قوت  اور اختیار کی وجہ سے نہیں ہیں بلکہ  یہ وہ  طریقہ کار ہیں جن کے ذریعے خدا اس کائنات   کے مختلف عوامل میں  کردا ر ادا کرتا ہے۔لہذا اسباب و علل کے ظاہری  تعلق کی بنیاد بھی دراصل  مشیت الہٰی ہی ہے۔

اگر اس وضاحت کو درست مان لیا جائے تو پھر اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ افعال کی ذمہ دار مخلوق نہیں کیوں کہ وہ مشیت میں آزاد نہیں۔دوسرا یہ کہ اگر تمام امور خدا ہی کی طرف سے انجام دئیے جا رہے تو پھر  یہ لازم آتا ہے کہ کوئی  برائی رونما نہ ہو۔اگر تمام اعمال خدا ہی کی جانب سے ہیں تو پھر برائی بھی لازما اسی ہی کی جانب سے ہو گی ۔جب کہ خدا  کو برائی  کے ماخذ قرار نہیں دیا جا سکتا۔

اس کا حل یہ نکا لا جاتا ہے کہ خدا کو  اس کائنات کے  خالق اور کارساز ہونے تک محدود کر دیا جائے اور  یہاں رونما ہونے والے ہر امر کی اس کی مشیت نہ قرار دیا جائے بلکہ اس کا کردا ر صرف اس کائنات کی تخلیق اور بقا تک محدود رہنے دیا جائے۔

جو لو گ ہر امر کے وجہ مشیت الہٰی   قرار دیتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ  خدا کے لیے یہ لازم سمجھتے ہیں  کیونکہ اسی طرح وہ مخلوق  کے افعال و اعمال کے بارے میں آگاہ رہ سکے گا اور یہ جان  سکے گا کہ وہ کیسے عمل کریں گے اور ان کےنتائج کیا ہوں گے۔

دوسرا یہ کہ اگر اس چیز کا انکار کر دیا جائے تو پھر اس سے یہ لازم آئے گا کہ مخلوق خدا اپنے اعما ل و افعال میں  آزاد و خود مختار ہیں  جو کہ نہیں ہو نا چاہیے۔

خدا کی ذات کے حوالے سے اچھائی کا تصور یہ ہے کہ خدا   میں ہر قسم کی اچھائی اکمل ترین حالت میں  پائی جاتی ہے  اور اس میں کسی قسم کی کوئی برائی یا عیب موجود نہیں ہے۔ اور وہ عبادت کے لائق ہے  ۔ اس کی عبادت صرف اس کے خوف و ڈر   کی وجہ سے یا اس وجہ سے کہ اس نے ایسا کرنے کا حکم دیا ہے ، نہیں کی جاتی بلکہ اس لیے کی جاتی ہے کہ اس کی ذات اچھائیوں کا مجموعہ ہے اور وہ اچھائیاں ایسی ہیں کہ اور کسی میں موجود نہیں ہیں۔لیکن خدا کی اس صفت پر بھی کچھ  اعتراضات  موجود ہیں۔

ٹیگز

ڈاکٹر سمیرا ربیعہ

ڈاکٹر سمیرا ربیعہ نے گفٹ یونیورسٹی گوجرانوالہ سے علوم اسلامیہ میں پی ایچ ڈی مکمل کی ہےاور اس وقت گوجرانوالہ اور اسی یونیورسٹی میں تدریسی خدمات سر انجام دے رہی ہیں۔
sumrab2707@gmail.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں