Home » مدرسہ ڈسکورسز اور گمراہی کا خدشہ
مدرسہ ڈسکورسز

مدرسہ ڈسکورسز اور گمراہی کا خدشہ

 

مولانا سمیع اللہ سعدی

مدرسہ ڈسکورسز کی ابتدا ہوتے ہی اسے جوائن کرنے کا ارادہ کیا تھا ، لیکن بعض وجوہ سے اس میں تاخیر ہوگئی ،آخر کار تیسرے بیچ کے لئے اپلائی کیا ،تحریری و تقریری امتحان کے مراحل سے گزرنے کے بعد بحیثیت طالب علم مدرسہ ڈسکورسز کا حصہ بن گیا ۔ ٹھیٹھ روایتی طبقے کی مخالفت اور اپنی افتاد طبع کے سبب ذہن میں اندیشوں و وسواس کا جال بھی بن چکا تھا ،لیکن کچھ وجوہ سے اس چوٹی کو سر کرنے کا اٹل فیصلہ کر لیا تھا ،مدرسہ ڈسکورسز کے تین مہینے کے اسباق ہوچکے ہیں اور قطر میں ایک ہفتہ کی ورکشاپ ،اس لیے ایک سہ ماہی کے اسباق پڑھنے ،ایک ہفتہ قطر میں کورس کے شرکاء اور اساتذہ و منتظمین کو خوب تنقیدی طور پر پرکھنے کے بعد جو تاثرات بنے ہیں ،اس میں اپنے قارئین و احباب کو شریک کرنا چاہوں گا :

1۔ کورس کے شرکاء مضبوط استعداد کے ذہین فضلاء ہیں ،ہر شریک کورس علمی میدان میں (نوجوان فضلاء کے اعتبار سے ) کسی نہ کسی حوالے سے ممتاز ہے ،(سوائے میرے )اس سے کورس کے منتظمین کی نظر انتخاب کی داد دینی پڑے گی ۔ان میں سے بعض شرکا مدارس کے جید اساتذہ کرام اور مفتیانِ کرام ہیں ،خصوصا ازہر الہند دار العلوم دیوبند کے بعض جید مفتیان کرام بھی قافلہ ڈسکورسز کے شرکاء میں سےہیں ۔

2۔مدرسہ ڈسکورسزکے بانی و روح رواں ڈاکٹر ابراہیم موسی صاحب کے بارے میں یہ محسوس کیا کہ ڈاکٹر صاحب علم و فکر کے آدمی ہیں ،گپ شپ ،فضول گفتگو اور ادھر ادھر کی باتوں سے کوسوں دور ہر وقت ،ہر موقع پر وہ سیکھنے سکھانے کی باتوں میں مصروف ہوتے ہیں ۔ان کی فکری باتوں کا مرکزی محور مدارس ،مدارس کو درپیش چلینجز اور مدارس کے فضلا کو اپنی چودہ سو سالہ روایت سے جوڑنے کی فکر تھی ۔مدرسہ کا ذکر کرتے ہوئے آخری مجلس میں ان کے زار و قطار آنسووں نے ساری مجلس کو عجیب کیفیت سے سرشار کیا ۔ ان کے طریقہ کار سے اختلاف کا حق ہر ایک کو ہے ، اور شاید مجھے بھی بعض باتوں میں اختلاف ہو ،لیکن مدرسہ سے ان کی محبت اور مدرسہ کو مدرسہ رہنے کی ان کی خواہش و لگن اور اپنے کاز سے بے پناہ دلچسپی و اخلاص ہر شک وہ شبہ سے بالاتر نظر آتی ہے ۔یہ تاثر صرف میرا نہیں ، پاک وہند کے پچاس کے قریب فضلا کی بالکل نجی مجالس و گفتگووں کے تاثرات بھی تقریبا یہی تھے ۔

3۔مدرسہ ڈسکورسز کے پاکستان میں لیڈ فیکلٹی مولانا عمار خان ناصر صاحب ہیں ۔استاد عمار صاحب پر موافق و مخالف اتنا کچھ لکھا گیا کہ مزید لکھنا ضیاع ِ وقت محسوس ہوتا ہے ۔ آپ کے افکار سے اختلاف اور بعض سے باوجود اب استاد ہونے کے شدید اختلاف کے یہ کہنے میں کوئی مبالغہ نہیں ہے کہ مولانا عمار صاحب کو اسلاف کی علمی روایت سے حد درجہ اعتنا اور محبت ہے ۔آپ شاید اس کا یقین نہیں کریں گے لیکن اس بات کے گواہ کورس کے پچاس کے قریب شرکاء ہیں کہ آخری مجلس میں جب مولانا عمار صاحب نے مدارس کی اہمیت بیان کرتے ہوئے یہ کہا کہ مدارس ہماری تہذیب کی واحد آخری نشانی ہیں تو ان پر کچھ ایسی رقت طاری ہوئی اور آنسووں کی لڑی ایسی جاری ہوئی کہ ان سے پھر مزید نہیں بولا گیا اور قطع کلامی کر کے اپنے الوداعی کلمات درمیان میں چھوڑنے پڑے ۔اس کورس کا علمی وقار بلا شبہ استاد عمار صاحب کے دم سے قائم ہے ۔

4۔ مدرسہ ڈسکورسز کے ہندوستان کے لیڈ فیکلٹی جناب ڈاکٹر وارث مظہری صاحب ہیں ۔ڈاکٹر وارث صاحب انگریزی و عربی  کی اعلی استعداد،جدید و قدیم تراث اور تحریری و تقریری میدان میں یکساں مہارت کے باوجود ایک درویش صفت انسان ہیں ۔انہیں بلا شبہ مدرسہ ڈسکورسز کا صوفی کہا جاسکتا ہے ،ایک متدین و صاحب تقوی عالم دین ہیں۔

5۔مدرسہ ڈسکورسز کے امریکہ سے لیے گئے استاد بلوچستان، چمن کے ایک ہونہار نوجوان ڈاکٹر شیر علی ترین ہیں۔عربی ،اردو اور انگریزی (پشتو بھی ) کے ماہر اور خاص طور پر پاک وہند کے مکاتب اور پاک وہند کی علمی و فکری روایت کا تقابلی مطالعہ ان کا اختصاصی میدان ہے ۔ ڈاکٹر ترین صاحب مدرسہ ڈسکورسز کے مستقل استاد ہیں ،ان سے تین مہینے پڑھنے کے بعد شرکائے کورس کی ان سے والہانہ تعلق ان کے اپنے فن میں مہارت اور طلبہ کے دلوں میں گھر کرنے والی معلمانہ صفات کا اظہار ہوتا ہے ۔

6۔مدرسہ ڈسکورسز کو شرورع کرتے وقت ہمارے میں ذہن میں سب سے بڑا سوال کورس کے نصاب کا تھا اور شاید مدرسہ ڈسکورسز کے بارے میں تجسس رکھنے والوں کے اذہان میں بھی یہی سوال کھلبلا رہا ہے ۔کورس کے نصاب کی ترتیب کچھ یوں رکھی گئی ہے کہ کورس کو بنیادی طور پر دو حصوں میں بانٹا گیا ہے ،جس کو حصہ محاضرات اور حصہ مطالعاتی مواد  کہا جاسکتا ہے ۔

7۔حصہ محاضرات میں ہر ہفتے سائنس اور  فلسفے کی ایک کلاس ہوتی ہے ۔سائنس کی کلاس انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر ادریس آزاد صاحب لیتے ہیں ۔سر ادریس آزاد اپنی ذات میں ایک انجمن ہیں ۔جتنا انچا ان کا علمی قد ہے ،اتنی ہی اونچی صفات کے حامل ہیں۔سائنس کا ٹیچر ہوکر اتنا تدین اور مضبوط عقیدے کا حامل ہونا باعث تعجب ہے ۔مبتدیوں کو نیوٹن و آئن سٹائن کے دقیق سائنسی نظریات کو ادبی چاشنی کے ساتھ آسان اسلوب اور پاور پوائنٹ پر بہترین پریزنٹیشن کی صورت میں سمجھانا سر ادریس آزاد صاحب کا امتیاز ہے ۔کورس میں ایک دن جب انہوں نے نظریہ ارتقاء پر اپنی پریزٹیشن پیش کی تو سماں بندھ گیا ،جبکہ فلسفے کی کلاس فلسفے میں ایم فل  کرنے والے نوجوان استاد عثمان رمزی صاحب پڑھاتے ہیں ۔ رمزی صاحب بھی فلسفے جیسے خشک موضوع کو ہم جیسے مبتدیوں کے لیے آسان سے آسان کرنے کی سر توڑ کوشش کرتے ہیں ،فجزاہم اللہ ۔

8۔ حصہ مطالعاتی مواد  میں ترتیب یوں ہے کہ کچھ بڑے موضوعات طے کئے گئے ہیں ،جیسے اسلام اور سائنس،اسلامی تہذیب اور اس کا ارتقاوغیرہ ۔ان موضوعات سے متعلق ہر ہفتہ کا مطالعاتی مواد دیا جاتا ہے۔ مواد کا ایک حصہ عربی میں  ہوتا ہے ،جس میں متعلقہ موضوع پر ایک ٹھیٹھ روایتی کتاب ہوتی ہے ،جیسے امام غزالی ،امام ابن تیمیہ ، امام شاہ ولی اللہ ،مولانا قاسم نانوتوی وغیرہ کی کتب اور ایک حصہ انگریزی مواد کا ہوتا ہے،جس میں کسی مغربی مفکر کی تحریر ہوتی ہے ۔اس مواد کو خود پڑھنے اور سمجھنے کے بعد ایک دن تیاری کلاس کے عنوان سے اس مواد کو سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔دوسرے دن مرکزی کلاس میں کورس کے اساتذہ مواد سے متعلق مناقشہ کرواتے ہیں۔ مناقشہ کا انداز یہ ہوتا ہے کہ اساتذہ پہلے ریڈنگ کے بنیادی نکات سمجھانے کے بعد شرکائے کورس کے اس بارے میں سوالات رکھتے ہیں اور شرکاء کو اپنی آرا ء پیش کرنے کا کہتے ہیں ۔یوں ہر شریک کورس اس مواد سے متعلق اپنے ملاحظات و سوالات پیش کرتا ہے ،پھر دوسرے شرکاء ان سے اتفاق یا اختلاف کرتے ہیں ۔یہ حصہ اتنا دلچسپ ہوتا ہے کہ وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوتا ۔اس کورس کا مغز یہی مناقشہ و مباحثہ ہے ،یوں ایک ٹیکسٹ اور ایک موضوع کے متنوع ابعاد سے واقفیت ہوتی ہے ۔

9۔کورس کو تین مہینے پڑھنے کے بعد ایک واضح تاثر یہ ابھرا کہ اس کورس میں کسی بھی موضوع سے متعلق پہلے سے کچھ نتائج فکس نہیں کیے گئے ،بلکہ مواد دے کر اس پر مناقشہ کروایا جاتا ہے ۔آپ اس مناقشہ میں جو موقف پیش کریں ،جو سوالات کریں ، اتفاق کریں ،اختلاف کریں ،آپ کا حق ہے ۔پھر مناقشہ کرنے کے بعد بھی نتائج کو حتمی شکل نہیں دی جاتی ۔یوں یہ کورس ایک ڈسکشن فورم ہے ،جس سے کسی بھی موضوع سے متعلق مکالمہ و مباحثہ ہوتا ہے۔تین مہینے اور قطر میں پوراا  یک ہفتہ صبح شام مسلسل پڑھنے کے بعد کم از کم یہ تاثر ہر ایک کا بن گیا  کہ یہاں کوئی متعین موقف پیش کر کے اس کے حق میں دلائل نہیں دیے جاتے ،جیسا کہ عمومی طور پر اس طرح کے کورسز میں ہوتا ہے ،بلکہ مناقشہ کروایا جاتا ہے اور خود شرکائے کور س کی آرا و ملاحظات سننے کا اہتمام ہوتا ہے ۔کم از کم میں جس گمراہی کی تلاش میں نکلا تھا ،یہاں سے مایوسی ہوئی ،اور استاد عمار صاحب سے از راہ تفنن عرض کیا کہ آپ لوگوں کے گمراہی والے در کب کھلیں گے؟ہمیں تو گمراہی کی تلاش ہے (اس سوال سے کورس کے شرکاء و اساتذہ کی بے تکلفی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے )۔ استاد عمار صاحب نے ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئے کہا کہ گمراہی نظر نہ آنے کا مطلب ہے کہ آپ گمراہ ہوچکے ہیں، کیونکہ گمراہ کو گمراہی نظر نہیں آتی ۔اس سے محفل کشت زعفران بن گئی ۔

10۔مدرسہ ڈسکورسز کے بارے میں دو بڑے سوال ہر ذہن میں اٹھتے ہیں اور حق ہے کہ یہ سوال پیدا ہوں۔

پہلا سوال یہ کہ کورس کی اس ساری ایکٹویٹی کا ہدف و مقصد کیا ہے؟اس کے بانی ارکان و اساتذہ کے ذہن میں وہ کون سا  ہدف ہے جس کی وجہ سے نصاب ،موضوعات اور طریقہ کار طے ہوا ہے؟ اس سوال کا جواب جہاں تک میں سمجھا ہوں ، اور مدرسہ ڈسکورسز کے بانی ارکان و اساتذہ کی اس موضوع پر مختلف تحاریر پڑھی ہیں ،تو ان سے اس کورس کے دو بڑے ہدف نکلتے ہیں :

  • اسلامی روایت کے تنوع کو جاننے کی کوشش اور موجودہ حالات میں اس سے استفادہ
  • ماڈرن و پوسٹ ماڈرن ایج میں مذہب خصوصا اسلام اور اسلامی مواقف کی پوزیشن کے تعین کی طرف پیش رفت

جہاں تک پہلا نکتہ ہے تو اس کے لیے ٹھیٹھ روایتی علماء کی نصوص کا مطالعہ کروایا جاتا ہے ،پھر ان نصوص کی مدد سے کسی بھی موضوع میں متعلقہ تنوع کو تلاشنے کی کوشش ڈسکشن کی صورت میں کی جاتی ہے ۔ اسلامی روایت میں تنوع ایک امر واقعہ ہے ۔فقہی اعتبار سے مذاہب اربعہ ،کلامی اعتبار سے اشعری ،ماتریدی ،حنابلہ ،محدثین ، میدانِ تصوف میں چشتی ،قادری وغیرہ ،دورِ جدید کے روایتی حلقوں میں دیوبندی ،بریلوی ،اہل حدیث ،عرب دنیا میں وہابی، سلفی الغرض مکاتب کے اعتبار سے تنوع کا ایک جہاں آباد ہے ۔پھر ہر مکتب میں مختلف مسائل میں تنوع ہے ،مثلا حسن و قبح کے مسئلے میں اہل سنت کے اندر اشعری موقف ،پھر اس موقف پر امام غزالی و رازی کے اضافہ جات ،پھر اس پر قرافی وغیرہ کی تعلیقات ۔الغرض ہماری اسلامی روایت ایک گلدستہ ہے ،جہاں ہر گل ِ را  رنگ و بوئے دیگر کا نظارہ ہوتا ہے ۔ اس تنوع کو جاننا ہر روایت پرست عالم کے لیے ضروری ہے ۔مدرسہ ڈسکورسز ہو یا نہ ہو ،اس کی ضرورت مسلم ہے اور خود درسِ نظامی کے نصاب میں اس تنوع کی کچھ نہ کچھ جھلک رکھی گئی ہے ۔اس نکتے کے تحت کورس کے نصاب میں یہ بھی شامل ہے کہ جب اسلامی روایت و تہذیب کا بیرونی افکار اور ثقافتوں  سے سامنا ہوا تو کس قسم کی صورتحال بنی؟ قبول کیا گیا ہے؟رد کا رویہ اپنایا گیا ؟یا بعض افکار مستعار لیے گئے؟ وغیرہ۔

دوسرے نکتے یعنی ماڈرن و پوسٹ ماڈرن ایج میں مذہب کی پوزیشن کے تعین کے ضمن میں جدید علوم وافکار کی تفہیم کے لیے  مغربی مفکرین کے متون کا مطالعہ کروایا جاتا ہے ،اگرچہ مغربی متون کا مطالعہ بسا اوقات اسلامی روایتی متون کے ساتھ مثبت یا منفی تقابل کے طور پر بھی کروایا جاتا ہے ۔

یہ نکتہ عالم ِاسلام کے دورِ زوال سے لے کر آج تک مسلسل علمی حلقوں میں زیر ِبحث آرہا ہے ،اسی سے دورِ جدید کے کلامی گروہ بنے ہیں ۔مدرسہ ڈسکورسز نے یہ نکتہ اٹھا کر دراصل اسی سوال کا جواب دینے کی کوشش کی ہے ،جو روایت و جدیدیت دونوں حلقوں میں زیرِ بحث آیا ہے اور ابھی بھی زیرِ بحث ہے ،اس لیے ہر دو نکات کے لحاظ سے مدرسہ ڈسکورسز کوئی نئی بحث نہیں اٹھا رہا ،بلکہ انہی پامال موضوعات پر غور و فکر کرنے کی دعوت دے رہے ہیں جس میں دورِ زوال کے مایہ ناز مسلم مفکرین کی زندگیاں صرف ہوئی ہیں ۔ اسلامی بینکاری ماڈرن ایج کی اقتصادیات کے میدان میں اسلامی موقف کا اظہار ہے ،جس سے خود مسلم مفکرین کا ایک بڑا گروہ اختلاف کر رہا ہے۔اسلامی جمہوریت ماڈرن ایج کے تصورِ ریاست و سیاست میں اسلامی موقف کا بیانیہ ہے جو آج تک مختلف فیہ ہے ۔اسی طرح ماڈرن کلچر،علمیات ،سائنس و فلسفہ ،ٹیکنالوجی اور اب پوسٹ ماڈرن ایج میں مذہب خصوصا اسلام کا کیا موقف ہونا چاہئے؟یہ عصر حاضر کا سب سے بڑا سوال ہے ۔مدرسہ ڈسکورسز اسے اٹھائے یا نہ  اٹھائے،مسلم امت کے مفکرین اس پر بحث کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔

دوسرا بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس پروجیکٹ کو امریکہ کی جو یونیورسٹی اور امریکی ادارہ فنڈنگ دے رہا ہے، انہیں اس ہدف میں کیا دلچسپی ہوسکتی ہے؟اور شاید اس پروگرام سے مذہبی طبقے کی دوری ،اس کی مخالفت یا احتیاط کی وجہ بھی یہی فنڈنگ ہے کہ مغرب کی اسلام و مشرق دشمنی اظہر من الشمس ہے ،تو ایک خالص مسلم امت کو درپیش کسی مسئلے میں مغربی اداروں کی کیا دلچسپی ہوسکتی ہے ؟اس سوال کا جواب جاننے کے لیے یہاں دو باتوں کو الگ الگ کرنا ہوگا۔پہلی بات ہے کہ اس پراجیکٹ کے لیے فنڈنگ کیسے اور کس عنوان کی بنیاد پر کی گئی ہے؟ دوسر ی بات کہ فنڈنگ کرنے والے ادارے کا اس کورس کے نصاب، پروگرامز،موضوعات میں کس قسم کا عمل دخل ہے؟جہاں تک دوسری بات ہے تو اس کورس کے نصاب،پروگرامز ،ورکشاپس ،داخلے ،ٹیچرز اول تا آخر بانی رکن ڈاکٹر ابراہیم موسی صاحب اپنے اساتذہ کے ساتھ مل کر طے کرتے ہیں ،نیز آج تک اس کورس کے کسی بھی پروگرام میں فنڈنگ کرنے والے ادارے کے نمائندے نہیں آئے ہیں ، نہ ہی انہوں نے نے کسی قسم کا حصہ لیا ہے ۔

جہاں تک مسیحی یونیورسٹی کی دلچسپی  والی بات کا تعلق ہے تو اس حوالے سے استاد عمار صاحب کی زبانی ڈاکٹر موسی صاحب کا موقف نقل کیا جاتا ہے۔ مولانا عمار صاحب لکھتے ہیں:

“ڈاکٹر ابراہیم موسی کا version یہ ہے کہ یہ مسیحی یونیورسٹی کا نہیں، بلکہ ابراہیم موسی کا پراجیکٹ ہے جو ایک مسیحی یونیورسٹی میں کام کر رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کے لیے مغربی جامعات میں کام کے انداز کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ جو بھی اسکالر پروفیسر کے مرتبے تک پہنچ جاتا ہے، مغربی تعلیمی اداروں میں اس کو اپنے ذاتی تجربات اور ذوق کے حوالے سے مختلف منصوبے بنانے کی پوری آزادی حاصل ہوتی ہے اور ادارے پروفیسر حضرات کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ وہ پراجیکٹس بنا کر فنڈ فراہم کرنے والے مختلف اداروں سے فنڈز لے کر آئیں۔ اس فنڈ میں سے یونیورسٹی، انتظامی اخراجات کے لیے ایک خاص تناسب سے کچھ رقم منہا کر لیتی ہے اور علمی طور پر ایسے پراجیکٹس یونیورسٹی کا امیج اور ریپوٹیشن بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ پروفیسر حضرات پراجیکٹ کے طور پر کوئی انفرادی منصوبہ بھی بنا سکتے ہیں، ایک گروپ بنا کر بھی کام کر سکتے ہیں اور مختلف دوسرے طریقے بھی اختیار کر سکتے ہیں۔ سسٹم کی سطح پر انڈرسٹینڈنگ یہ ہے کہ اس سارے عمل سے بحیثیت مجموعی علم کی روایت کو فائدہ پہنچے گا اور اس میں نئی جہات سامنے آئیں گی۔

اس تناظر میں پروفیسر ابراہیم موسی نے (جنھیں کئی سال سے انڈیا کے بعض ذمہ دار حضرات کی طرف سے یہ دعوت موصول ہو رہی تھی کہ انھیں مدارس کے فضلاء کے لیے کچھ کرنا چاہیے) یہ منصوبہ جان ٹمپلٹن فاونڈیشن کو پیش کیا کہ انھوں نے مدرسے سے فراغت کے بعد اب تک کے علمی سفر میں جو کچھ سیکھا ہے، اس میں وہ مدرسہ کمیونٹی کو شریک کرنا چاہتے ہیں اور اسلامی الہیات کے تعلق سے جدید فلسفہ اور جدید سائنس کے پیدا کردہ سوالات کی تفہیم پر مبنی ایک تربیتی کورس ان کے لیے شروع کرنا چاہتے ہیں۔ جان ٹمپلٹن فاونڈیشن نے اور اسی طرح نوٹرے ڈیم یونیورسٹی میں کراک انسٹی ٹیوٹ نے (جس میں ابراہیم موسی کام کر رہے ہیں) اس منصوبے میں دلچسپی محسوس کی اور یوں مدرسہ ڈسکورسز کی بنیاد پڑ گئی۔ ابراہیم موسی کا کہنا ہے کہ مغربی تعلیمی نظام کے norms کے لحاظ سے یہ ایک بالکل معمول کا تعلیمی منصوبہ ہے جس میں کوئی چیز نہ مخفی ہے اور نہ معروف طریقے سے ہٹی ہوئی ہے۔”

لہذا یہ پراجیکٹ مدرسہ سے پڑھے ہوئے ایک پروفیسر ڈاکٹر ابراہیم موسی صاحب کا ہے ،ایسے علمی پراجیکٹ کے لیے وہاں کے اداروں کی فنڈنگ ایک عام سی بات ہے ۔خود پاکستانی یونیورسٹیز میں ایسے کئی پراجیکٹ چلتے رہتے ہیں جنہیں فنڈ بیرونی جامعات و ادارے مہیا کرتے ہیں ،بلکہ آج سے کچھ سال پہلے جرمنی کی ایک این جی او نے دینی مدارس کے طلبہ کے لیے ایک ہفتہ کی ورکشاپ رکھی تو پانچوں وفاقوں سے وابستہ اہل علم کے صاحبزادگان اور کچھ دوسرے طلبہ ایک ہفتہ کے لیے جرمنی گئے  تھے اور وہاں مختلف ایکٹویٹیز میں حصہ لیا ۔اس میں بعض مواقع کی تصاویر سے معلوم ہوا کہ لیکچر بھی وہاں کے جرمن مسیحی حضرات نے دیے،جبکہ یہاں تو اول تا آخر سارا نصابی مواد ،لیکچرز وغیرہ ڈاکٹر ابراہیم موسی صاحب اور مدرسہ ڈسکورسز سے وابستہ اساتذہ و منتظمین کے ہاتھ میں ہے ۔

11۔ آخر میں یہ بھی عرض کرنا چاہوں گا کہ مدرسہ ڈسکورسز کے اساتذہ و بانین یقینا کسی نہ کسی فکر سے جڑے ہیں ،ان کی فکری آراء قابل تنقید اور قابل ِ اختلاف ہوں گے یا شاید ہوں،لیکن کم از کم مدرسہ ڈسکورسز میں ان حضرات نے شرکا ء پر اپنے نظریات یا اپنے فکری نتائج تھوپنے یا اس کے حق میں دلائل دینے کی کوشش بالکل نہیں کی،  بلکہ آج تک کسی بھی استاد نے درسگاہ میں اپنی خاص فکری آرا کا اظہار تک نہیں کیا ۔اساتذہ کا بس اتنا کام ہے کہ مواد دے کر اس پر مناقشہ کرواتے ہیں ،اس لیے مدرسہ ڈسکورسز کو اساتذہ و بانیین کے فکری فریم ورک سے ہٹ کر دیکھا جائے تو شاید اس کے بارے میں پھیلے شکوک و شبہات مزید کم ہوں ۔نیز یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ اس کورس میں شریک طلبہ چھوٹے اور ناپختہ ذہن کے بچے نہیں ،بلکہ درس ِنظامی کی تکمیل کر کے عملی زندگیوں میں سالہا سال سے کام کر رہے ہیں ،اس لیے یہ سمجھنا کہ مدرسہ ڈسکورسز کے اساتذہ انہیں دو سالہ کورس میں گمراہ کر دیں گے ، خود مدارس کے نظام ِ تربیت پر سوالات اٹھانے کے مترادف ہے۔ (یعنی  اگر اس کورس کا مطمح نظر فضلاء کی گمراہی ہو،لیکن یہ محض مفروضہ ہے ،اس کورس کو جوائن کرنے والوں میں سے اب تک کسی نے گمراہی کی کسی قسم کی کوئی کوشش یا ترغیب نہیں دیکھی ،کورس کا نظام و نصاب آپ اس مضمون میں بالتفصیل پڑھ چکے ہیں، جس سے اس بات کی بخوبی تصدیق ہوتی ہے )۔ انڈیا کے ایک شریک کورس کے الفاظ میں ،جو انہوں نے الوداعی تاثرات میں برملا سب اساتذہ و منتظمین کے سامنے کہا کہ اگر کورس کے اساتذہ ہمیں کسی بھی فکری کجی یا واضح گمراہی کی بات کریں گے تو ہم علی الاعلان مخالفت کریں گے ،کیونکہ ہم عاقل بالغ ہیں ،کوئی بچے نہیں کہ جو جس طرف لے جائے ،چل پڑیں گے ۔نیز شرکائے کورس نے یہ بھی کہا کہ اگر ہم آٹھ سال مدارس میں پڑھ کر کئی سال تدریس سے وابستہ ہو کر دو سالہ کورس ( جس میں ہفتہ میں صرف دو روز اسباق ہوتے ہیں) سے گمراہ ہوسکتے ہیں تو یہ کمزوری ہماری نہیں،مدارس کے سسٹم کی ہوگی کہ آٹھ سال ایک بچے پر محنت کر کے اسے عالم ِ دین کی سند تھما کر اسے مسند تدریس کی اجازت دے کر بھی وہ فکری میدان میں اتنا کچا ہے کہ کوئی بھی چند ہفتوں کے اسباق سے اس کے پورے فکری فریم ورک کو تبدیل کر سکتا ہے ۔ شرکاء کی اس حوالے سے حساسیت حد درجہ باعثِ اطمینان ہے۔

خلاصہ یہ کہ یہ کورس اب تک ایک اچھا تجربہ ثابت ہوا ۔فکری تبدیلی (یعنی مدارس ،روایت سے بدگمانی ، مولوی، داڑھی پگڑی کی تحقیر ،جو عمومی طور پر مدرسہ ڈسکورسز کے اثرات و نتائج کے کھاتے میں ڈالے جاتے ہیں ) کی تو مجھے(اور یقین کی حد تک کہہ سکتا ہوں کہ کسی بھی شریک کورس کو ) ہوا بھی نہیں لگی ،البتہ مناقشہ کے نتیجے میں اپنی بعض فکری آراء پر مضبوطی ہوگئی ،اس لیے میری ہر صاحب استعداد فاضل سے گزارش ہے کہ اسے جوائن کریں ، تاکہ جدید دنیا میں مذہب کی پوزیشن کو سمجھنے میں مدد ملے ،جدید سوالات کا فہم حاصل کریں ،اور جدید تعبیر و اسلوب کے ساتھ جدید ذہن کے مطابق اسلاف کی علمی روایت کے تنوع سے مستفید ہوتے ہوئے اسلام کو دورِ جدید کے تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ دکھائیں تاکہ موجودہ مسلم نسلوں میں الحاد اور مذہب سے بے اطمینانی کے سیلاب کے سامنے اپنی حد تک بند باندھ سکیں ۔

مذہبی طبقے سے درخواست ہے کہ یہ آپ کے اپنے لوگ ہیں ،انہیں اچھوت بنانے کی بجائے اسے لیڈ کریں ،اپنی سرپرستی دیں ،جو فضلاء اس میں شریک ہورہے ہیں ،ان کی حوصلہ افزائی کریں ،اپنے تیا رکردہ فاضلین پر بدگمانی مت کریں ،اپنے باغ کے پھل سے انکار مت کریں ۔دین بھی قائم رہے گا ،دینی فکر بھی چلتی رہے گی،اتنی زیادہ احتیاط کہیں ہماری فکری کمزوری اور دین کی حقانیت کے بارے میں احساس کمتری کی علامت نہ ہو۔دینی مدارس کی چار دیواری سے جو نکلا ،اسے گمراہی کے مترادف سمجھنے کا رویہ چھوڑ دیں ،وما علینا الا البلاغ۔

مولانا سمیع اللہ سعدی

مولانا سمیع اللہ سعدی نے جامعہ دار القرآن فیصل آباد سے درس نظامی اور جامعہ الرشید کراچی سے تخصص فی الافتاء کیا ہے۔علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے ایم فل علوم اسلامیہ کی ڈگری حاصل کی ہے ۔
sadyjan100@gmail.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں